حسان خان
لائبریرین
بوسنیا میں ہر سال جون کے آخری ایام میں 'یومِ آیواز ددہ' کے نام سے ایک دینی-ثقافتی تہوار منایا جاتا ہے جس کی جڑیں پانچ سو سال پرانی ہیں۔ مقامی روایات کے مطابق ۱۴۸۳ء کے آس پاس 'آیواز ددہ' نامی ایک مسلمان درویش عثمانی بوسنیا میں آئے تھے۔ بوسنیا میں پروساتس گاؤں کے نزدیک ایک پانی کا چشمہ تھا جو ایک بڑے پتھر کی وجہ سے بند ہو گیا تھا، اور اس کی وجہ سے پروساتس میں پانی کا مسئلہ موجود تھا۔ آیواز ددہ چالیس دن تک اللہ سے دعا کرتے رہے کہ یہ پتھر دو ٹکروں میں تقسیم ہو جائے۔ خیر، تو کہتے ہیں کہ چالیسویں روز ان کی یہ دعا قبول ہو گئی اور پتھر کی رکاوٹ دور ہو گئی۔ پروساتس کے مقامی لوگ اس واقعے کو کرامت اور برکت جان کر اس کی زیارت کرنے لگے اور یہی واقعہ بوسنیائی عوام کی مسلم سازی کی شروعات بنا۔ بعدازاں یہ مقام مقامی زیارت گاہ بن گیا جہاں پچھلی پانچ صدیوں سے ہر سال لوگ زیارت کے لیے اور آیواز ددہ کو تعظیم پیش کرنے آ رہے ہیں اور امتدادِ زمانہ کے ساتھ یہ ایک وسیع اور قوم گیر تہوار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس مقام کو مشرقی یورپ کی سب سے بڑی مسلم زیارت گاہ سمجھا جاتا ہے۔ رواں سال اس تہوار کو ۵۰۴ سال ہو چکے ہیں اور اس بار قریباً پچاس ہزار لوگ اس زیارت گاہ کی جانب آئے تھے۔
بوسنیائی قوم میں اس تہوار کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے کچھ بنیادی باتوں کا علم ہونا ضروری ہے۔ بلقان میں لوگوں کی قومیت اور دین کے درمیان شکست ناپذیر (اٹوٹ) تعلق موجود ہے۔ مثلاً اس خطے میں سرب/آرتھوڈکس، خروات/کیتھولک اور بوسنیائی/مسلمان ہم معنی الفاظ ہیں اور کم و بیش ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یوگوسلاوی اشتراکی عہد میں بھی بوسنیائی قوم کا مردم شماری میں اندراج بطور 'مسلمان' کے ہوتا تھا۔ ایک بوسنیائی شخص جو کہ اپنی دینی تعلیمات پر اعتقاد نہیں رکھتا، اسے 'غیر مذہبی بوسنیائی مسلمان' تو کہا جا سکتا ہے لیکن اس خطے کے سیاق و سباق میں ایسے شخص کے لیے 'غیر مسلمان بوسنیائی' کی اصطلاح بالکل بے معنی بات ہے۔ یہاں قومیں اپنا جداگانہ تشخص اور اپنی قومی ثقافت بنیادی طور پر اپنی قومی مذہبی شناخت سے اخذ کرتی ہیں۔ اس لیے اس تہوار کو بوسنیائی معاشرے میں محض دینی تہوار سمجھنا ٹھیک نہیں ہے۔ بوسنیائی قوم پرستانہ بیانیے میں اس دن کو بہت اہمیت حاصل ہے اور قومی نظریہ ساز اس روز کو اپنی جداگانہ شناخت کی سالگرہ کے طور پر تعبیر کرتے ہیں۔ تمام بوسنیائی افراد اسلامی پس منظر کے اس تہوار کو بھرپور قومی جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔
زیارت گاہ کی زیارت کے علاوہ اس روز بوسنیا کے شہروں اور قصبوں میں لوگ اپنا روایتی لباس پہن کر اور گھوڑوں پر سوار ہو کر جلوس بھی نکالتے ہیں جس سے بوسنیا کے شہر اور قصبے چھ سو سالہ غنی عثمانی ماضی کا نقشہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔
چند تصاویر تبرکاً پیش ہیں:
سرائیوو
وسطی بوسنیا کا قصبہ دونیی واکُف
بوسنیائی قوم کے رسمی طور پر دو پرچم ہیں۔ ایک پرچم بوسنیائی قوم کے دنیوی امور کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ دوسرا ترکی کی طرز کا سبز رنگ کا پرچم دینی امور کے لیے۔ عثمانی سلطنت کی علامت کے طور پر بھی سرخ اور سبز پرچم دونوں ہی استعمال ہوا کرتے تھے۔
دونیی واکُف میں عثمانی طرز کی موسیقی دار پریڈ۔۔۔
زیارت گاہ کی جانب سفر
جاری ہے۔۔۔
بوسنیائی قوم میں اس تہوار کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے کچھ بنیادی باتوں کا علم ہونا ضروری ہے۔ بلقان میں لوگوں کی قومیت اور دین کے درمیان شکست ناپذیر (اٹوٹ) تعلق موجود ہے۔ مثلاً اس خطے میں سرب/آرتھوڈکس، خروات/کیتھولک اور بوسنیائی/مسلمان ہم معنی الفاظ ہیں اور کم و بیش ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یوگوسلاوی اشتراکی عہد میں بھی بوسنیائی قوم کا مردم شماری میں اندراج بطور 'مسلمان' کے ہوتا تھا۔ ایک بوسنیائی شخص جو کہ اپنی دینی تعلیمات پر اعتقاد نہیں رکھتا، اسے 'غیر مذہبی بوسنیائی مسلمان' تو کہا جا سکتا ہے لیکن اس خطے کے سیاق و سباق میں ایسے شخص کے لیے 'غیر مسلمان بوسنیائی' کی اصطلاح بالکل بے معنی بات ہے۔ یہاں قومیں اپنا جداگانہ تشخص اور اپنی قومی ثقافت بنیادی طور پر اپنی قومی مذہبی شناخت سے اخذ کرتی ہیں۔ اس لیے اس تہوار کو بوسنیائی معاشرے میں محض دینی تہوار سمجھنا ٹھیک نہیں ہے۔ بوسنیائی قوم پرستانہ بیانیے میں اس دن کو بہت اہمیت حاصل ہے اور قومی نظریہ ساز اس روز کو اپنی جداگانہ شناخت کی سالگرہ کے طور پر تعبیر کرتے ہیں۔ تمام بوسنیائی افراد اسلامی پس منظر کے اس تہوار کو بھرپور قومی جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔
زیارت گاہ کی زیارت کے علاوہ اس روز بوسنیا کے شہروں اور قصبوں میں لوگ اپنا روایتی لباس پہن کر اور گھوڑوں پر سوار ہو کر جلوس بھی نکالتے ہیں جس سے بوسنیا کے شہر اور قصبے چھ سو سالہ غنی عثمانی ماضی کا نقشہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔
چند تصاویر تبرکاً پیش ہیں:
سرائیوو
وسطی بوسنیا کا قصبہ دونیی واکُف
بوسنیائی قوم کے رسمی طور پر دو پرچم ہیں۔ ایک پرچم بوسنیائی قوم کے دنیوی امور کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ دوسرا ترکی کی طرز کا سبز رنگ کا پرچم دینی امور کے لیے۔ عثمانی سلطنت کی علامت کے طور پر بھی سرخ اور سبز پرچم دونوں ہی استعمال ہوا کرتے تھے۔
دونیی واکُف میں عثمانی طرز کی موسیقی دار پریڈ۔۔۔
زیارت گاہ کی جانب سفر
جاری ہے۔۔۔