بوکو حرام نے مزید 20 لڑکیاں اغوا کر لیں : بی بی سی اردو

سید زبیر

محفلین
بوکو حرام نے مزید 20 لڑکیاں اغوا کر لیں : بی بی سی اردو

آخری وقت اشاعت: منگل 10 جون 2014 , 06:20 GMT 11:20 PST

نائجیریا میں عینی شاہدین کے مطابق بوکو حرام کے مشتبہ شدت پسندوں نے مزید 20 لڑکیوں کو اس علاقے سے اغوا کیا ہے جہاں سے وہ پہلے تقربیاً 200 لڑکیوں کو مغوی بنا چکے ہیں۔عینی شاہدین کے مطابق بورنو ریاست میں مشتبہ شدت پسند لڑکیوں کو بندوق کی نوک پرگاڑیوں میں لاد کر کسی نامعلوم مقام کی جانب لے گئے۔

یہ واقعہ بورنو ریاست میں جمعرات کو گارکینی فیولانی کے علاقے میں پیش آیا۔ فوج نے ابھی تک اغوا کے اس تازہ واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔نائجیریا کی فوج کو ملک کے شمال میں شدت پسندوں کے حملوں کو روکنے میں ناکامی پر بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے۔شدت پسند کارروائیوں کی روک تھام کے لیے بنائے گئے مقامی گروپ کے ایک رکن نے بتایا کہ لڑکیوں کو اغوا کرنے کے ساتھ شدت پسند ان تین مردوں کو بھی اغوا کر کے ساتھ لے گئے جنھوں نے انھیں روکنے کی کوشش کی تھی۔"جب ہمیں اس واقعے کے تین گھنٹے بعد خبر ملی تو ہم ان کے پیچھے جانے کی کوشش کی لیکن ہماری گاڑیاں زیادہ دور نہیں جا سکیں اور ہمیں خبر بھی دیر سےملی تھی۔"مقامی شخص الحاجی تار نے کہا کہ ’جب ہمیں اس واقعے کے تین گھنٹے بعد خبر ملی تو ہم نے ان کے پیچھے جانے کی کوشش کی لیکن ہماری گاڑیاں زیادہ دور نہیں جا سکیں اور ہمیں خبر بھی دیر سےملی تھی۔‘حالیہ واقعے سے پہلے اپریل میں بوکو حرام کے مسلح ارکان نے نائجیریا کے علاقے چیبوک کے ایک سکول سے 200 سے زائد لڑکیوں کو اغوا کیا تھا جو تاحال ان کے پاس قید ہیں۔

بوکو حرام ان لڑکیوں کی رہائی کے بدلے اپنی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ان لڑکیوں کی بازیابی کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔لڑکیوں کے اغوا کے بعد حکومت پر بوکو حرام سے نمٹنے کے لیے اندرونی و بیرونی دباؤ بڑھ رہا ہے۔پیر کو فوج نے حالیہ دنوں میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن میں 50 شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔خیال رہے کہ بوکو حرام نے نائجیریا میں اسلامی ریاست قائم کرنے کے لیے سنہ 2009 سے پرتشدد کارروائیاں شروع کی ہیں جن میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔


http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/06/140610_nigeria_girls_kidnapped_rk.shtml
 

سید زبیر

محفلین
بوکوحرام۔قیام

2002ء میں شمال مشرقی صوبہ بورنو کے دارالحکومت میڈوگری میں جماعة اهل السنة للدعوة والجهاد کا قیام عمل میں آیا جس کے بانی محمد یوسف نامی ایک نوجوان سلفی عالم تھے۔ان کی دعوت کا مرکزی نکتہ تمام نائجیریا میں شریعت کا نفاذ تھا انہوں نے سرِ عام نائجیریا کے سیکولر طرزِ حکومت کو غیر اسلامی کہا اور مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ رائج نظام کو اکھاڑ دیں اور نائجیریا میں اسلامی حکومت قائم کریں۔زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کی۔اس جماعت میں ہمسایہ مسلم ملک چاڈ کے بھی کئی لوگ شامل ہوئے۔شیخ یوسف مغرب اور عیسائیوں پر کھلم کھلا تنقید کرتے تھے البتہ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو کبھی بھی عیسائیوں پر حملوں پر نہیں اکسایا۔اس جماعت کے لوگ صرف عربی بولتے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ انگلش وہ زبان ہے جس کے بل بوتے پر مغربی دنیا نے کرپشن اور بے راہ روی پھیلائی ھے۔ اس جماعت میں ہر اُس چیز کیلئے نفرت کا پہلو پایا جاتا تھا جس کا تعلق مغربی عیسائی دنیا سے ہے چاہے وہ لباس ہو ، مغربی تعلیم ہو یا روز مرہ کے معاملات ہوں۔

شمالی نائجیریا کی مقامی زبان ہوسہ میں جدید نظامِ تعلیم کو بوکو کہا جاتا ہے جس کی بنیاد انگریزوں نے ڈالیں۔دورِ غلامی کے اوائل میں مسلمانوں نے بوکو سے فاصلہ رکھا کیونکہ اسے عیسائیت کی تبلیغ کا ذریعہ مانا جاتا تھا۔البتہ کچھ ہی عرصے بعد جدید سکولوں سے پرھنے والے طلبہ اہم ریاستی عہدوں پر فائز ھو گئے۔ چناچہ اگلی نسل نے اپنے بچوں کو ان سکولوں میں بھیجنا شروع کر دیا۔تاہم بعض قدامت پرست مسلمان بوکو کو آج بھی غیر اسلامی سمجھتے ہیں اور اسکی جگہ دینی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں۔یہی پیغام شیخ یوسف کی تعلیمات کا بھی حصہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگوں نے اس جماعت کا نام بوکو حرام رکھدیا۔جسکا مطلب ہے “مغربی تعلیم حرام ہے” بعد میں یہی نام مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے اختیار کر لیا۔ شیخ یوسف نے مسلمانوں پر زور دیا کے وہ اس کرپٹ اور مغربی نظام سے کنارہ کشی اختیار کریں جس میں سیکولرازم اور جمہوریت جیسے غیر اسلامی نظریات شامل ہیں اور اسکی بجائے اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔ اگرچہ شیخ یوسف نائجیرین حکومت کے خلاف تھے اور سرکاری نوکری کو حرام کہتے تھے، جبکہ انکی جماعت پر یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا کہ وہ اسلحہ جمع کر رہے ہیں، ان پر یا انکی جماعت کے کسی فرد کے خلاف کچھ بھی ثابت نہ کیا جا سکا-کئی لوگوں کا خیال تھا کہ بوکو حرام مذہب کے نام پر سیاسی طاقت اور فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے۔یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ بوکو حرام اور نائجیرین فوج کے درمیان 2009ء تک کوئی مسلح تنازعہ نہں ہوا تھا،اسکے باوجود چند لوگوں نے بوکوحرام کو نائجیرین طالبان کہنا شروع کردیا۔آج تک نائجیرین حکومت اور اسکے مغربی آقا بوکو حرام کا تعلق طالبان یا القاعدہ سے ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں انہیں شدید ناکامی کا سامنا ہے۔

ستمبر 2010ء میں بوکوحرام نے باؤچی کے علاقے میں ایک جیل پر حملہ کرکے اپنے کئی ساتھیوں کو رہا کرا لیا۔ کچھ ہی عرصے بعد 2010ء کے اختتام پر نائجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں کرسمس کے دن آرمی بیرکوں اور مقامی گرجا گھر میں بم دھماکوں میں 80 سے زائد افراد ہلاک ہو گَئے جس کی ذمہ داری بوکو حرام نے قبول کی-

جون 2011ء میں ابوجا میں نیشنل پولیس ہیڈکواٹر میں بم دھماکہ ہوا اسکے دو ماہ بعد ابوجا میں ہی اقوامِ متحدہ کے آفس میں سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود خودکش کار بم حملہ ہوا جس میں 24 افراد ہلاک اور 80 زخمی ہوئے۔اسی سال دسمبر میں کرسمس کے موقعہ پر کئی گرجا گھروں اور سرکاری عمارتوں پر بم حملے ہوئے جنکا الزا م بوکو حرام پر لگایا گیا ۔ انہوں نے 2009ء کی حلاکتوں کا بدلا لینے کی دھمکی دی اور اسکے ساتھ ساتھ مسلح افواج ، حکومتی دفاتر اور عیسائیوں پے ہونے والے حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔


اس سے پہلے ستمبر 2011ء میں نائجیریا کے سابق صدر اوباسانجو کے ساتھ بوکوحرام کے نمائندوں کی ایک خفیہ ملاقات ہوئی جس میں بوکوحرام نے اپنے چند مطالبات پیش کئے ان میں سب سے اہم مطالبات میڈوگری سے فوج کی واپسی، مسمار شدہ مساجد کی دوبارہ تعمیر اور 2009ء کے آپریشن میں شہید ہونے والوں کے خاندانوں کو فدیہ کی ادائیگی تھے۔ان مطالبات سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ اپنی نئی شکل میں بوکوحرام کے حالیہ مقاصد میں وہ سب شامل نہیں ہے جو شیخ یوسف کی زندگی میں تھا یا وہ سب جسکا الزام اب بوکوحرام پر عائد ہے۔

جنوری 2012ء میں نائجیریا کے سب سے بڑے مسلم شہر کانو میں سرکاری عمارات پر حملوں کی لہر میں ایک ہی دن میں 150 سے زائد افراد حالاک ہو گئے یہ بوکوحرام کے اب تک کے مبینہ حملوں میں سب سے بڑا حملہ تھا ۔

سوکوٹو کے سلطان الحاجی ابوبکر محمد سعد جو کہ نائجیریا سپریم کونسل آف اسلامک افئیرز کے سربراہ ہیں ، کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ بوکوحرام ایک راز ہے اور حکومت کو اس مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے جامع تحقیق کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا ” جب تک تحقیق نہیں ہوگی کوئی بھی کسی بھی دن کسی صوبے کو آگ لگا کر بچ جائے گا کیونکہ اس سے صحیح طور پر معلوم ہے کہ سارا شک بوکوحرام پر جائے گا۔موجودہ حالات میں اس مسئلے کا حل نہیں نکالا جا سکتا

ماخوذ :
http://eeqaz.co/بوکو-حرام-حقیقت-یا-افسانہ؟/
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ کون سی شریعت ہے جس کے نفاذ کرنے کا طریقہ ان کے پاس یہ ہے کہ یہ لڑکیوں کو اغوا کریں؟

اور یہ یقینا خود کو مسلمان بھی کہتے ہوں گے!!!!!!!!
 
یہ کون سی شریعت ہے جس کے نفاذ کرنے کا طریقہ ان کے پاس یہ ہے کہ یہ لڑکیوں کو اغوا کریں؟

اور یہ یقینا خود کو مسلمان بھی کہتے ہوں گے!!!!!!!!
جو کچھ ایک مخصوص مکتبہ فکر کے مدرسوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہ اسکا منطقی نتیجہ ہے۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بوکوحرام۔قیام

2002ء میں شمال مشرقی صوبہ بورنو کے دارالحکومت میڈوگری میں جماعة اهل السنة للدعوة والجهاد کا قیام عمل میں آیا جس کے بانی محمد یوسف نامی ایک نوجوان سلفی عالم تھے۔ان کی دعوت کا مرکزی نکتہ تمام نائجیریا میں شریعت کا نفاذ تھا انہوں نے سرِ عام نائجیریا کے سیکولر طرزِ حکومت کو غیر اسلامی کہا اور مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ رائج نظام کو اکھاڑ دیں اور نائجیریا میں اسلامی حکومت قائم کریں۔زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کی۔اس جماعت میں ہمسایہ مسلم ملک چاڈ کے بھی کئی لوگ شامل ہوئے۔شیخ یوسف مغرب اور عیسائیوں پر کھلم کھلا تنقید کرتے تھے البتہ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو کبھی بھی عیسائیوں پر حملوں پر نہیں اکسایا۔اس جماعت کے لوگ صرف عربی بولتے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ انگلش وہ زبان ہے جس کے بل بوتے پر مغربی دنیا نے کرپشن اور بے راہ روی پھیلائی ھے۔ اس جماعت میں ہر اُس چیز کیلئے نفرت کا پہلو پایا جاتا تھا جس کا تعلق مغربی عیسائی دنیا سے ہے چاہے وہ لباس ہو ، مغربی تعلیم ہو یا روز مرہ کے معاملات ہوں۔

شمالی نائجیریا کی مقامی زبان ہوسہ میں جدید نظامِ تعلیم کو بوکو کہا جاتا ہے جس کی بنیاد انگریزوں نے ڈالیں۔دورِ غلامی کے اوائل میں مسلمانوں نے بوکو سے فاصلہ رکھا کیونکہ اسے عیسائیت کی تبلیغ کا ذریعہ مانا جاتا تھا۔البتہ کچھ ہی عرصے بعد جدید سکولوں سے پرھنے والے طلبہ اہم ریاستی عہدوں پر فائز ھو گئے۔ چناچہ اگلی نسل نے اپنے بچوں کو ان سکولوں میں بھیجنا شروع کر دیا۔تاہم بعض قدامت پرست مسلمان بوکو کو آج بھی غیر اسلامی سمجھتے ہیں اور اسکی جگہ دینی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں۔یہی پیغام شیخ یوسف کی تعلیمات کا بھی حصہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگوں نے اس جماعت کا نام بوکو حرام رکھدیا۔جسکا مطلب ہے “مغربی تعلیم حرام ہے” بعد میں یہی نام مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے اختیار کر لیا۔ شیخ یوسف نے مسلمانوں پر زور دیا کے وہ اس کرپٹ اور مغربی نظام سے کنارہ کشی اختیار کریں جس میں سیکولرازم اور جمہوریت جیسے غیر اسلامی نظریات شامل ہیں اور اسکی بجائے اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔ اگرچہ شیخ یوسف نائجیرین حکومت کے خلاف تھے اور سرکاری نوکری کو حرام کہتے تھے، جبکہ انکی جماعت پر یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا کہ وہ اسلحہ جمع کر رہے ہیں، ان پر یا انکی جماعت کے کسی فرد کے خلاف کچھ بھی ثابت نہ کیا جا سکا-کئی لوگوں کا خیال تھا کہ بوکو حرام مذہب کے نام پر سیاسی طاقت اور فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے۔یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ بوکو حرام اور نائجیرین فوج کے درمیان 2009ء تک کوئی مسلح تنازعہ نہں ہوا تھا،اسکے باوجود چند لوگوں نے بوکوحرام کو نائجیرین طالبان کہنا شروع کردیا۔آج تک نائجیرین حکومت اور اسکے مغربی آقا بوکو حرام کا تعلق طالبان یا القاعدہ سے ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں انہیں شدید ناکامی کا سامنا ہے۔

ستمبر 2010ء میں بوکوحرام نے باؤچی کے علاقے میں ایک جیل پر حملہ کرکے اپنے کئی ساتھیوں کو رہا کرا لیا۔ کچھ ہی عرصے بعد 2010ء کے اختتام پر نائجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں کرسمس کے دن آرمی بیرکوں اور مقامی گرجا گھر میں بم دھماکوں میں 80 سے زائد افراد ہلاک ہو گَئے جس کی ذمہ داری بوکو حرام نے قبول کی-

جون 2011ء میں ابوجا میں نیشنل پولیس ہیڈکواٹر میں بم دھماکہ ہوا اسکے دو ماہ بعد ابوجا میں ہی اقوامِ متحدہ کے آفس میں سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود خودکش کار بم حملہ ہوا جس میں 24 افراد ہلاک اور 80 زخمی ہوئے۔اسی سال دسمبر میں کرسمس کے موقعہ پر کئی گرجا گھروں اور سرکاری عمارتوں پر بم حملے ہوئے جنکا الزا م بوکو حرام پر لگایا گیا ۔ انہوں نے 2009ء کی حلاکتوں کا بدلا لینے کی دھمکی دی اور اسکے ساتھ ساتھ مسلح افواج ، حکومتی دفاتر اور عیسائیوں پے ہونے والے حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔


اس سے پہلے ستمبر 2011ء میں نائجیریا کے سابق صدر اوباسانجو کے ساتھ بوکوحرام کے نمائندوں کی ایک خفیہ ملاقات ہوئی جس میں بوکوحرام نے اپنے چند مطالبات پیش کئے ان میں سب سے اہم مطالبات میڈوگری سے فوج کی واپسی، مسمار شدہ مساجد کی دوبارہ تعمیر اور 2009ء کے آپریشن میں شہید ہونے والوں کے خاندانوں کو فدیہ کی ادائیگی تھے۔ان مطالبات سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ اپنی نئی شکل میں بوکوحرام کے حالیہ مقاصد میں وہ سب شامل نہیں ہے جو شیخ یوسف کی زندگی میں تھا یا وہ سب جسکا الزام اب بوکوحرام پر عائد ہے۔

جنوری 2012ء میں نائجیریا کے سب سے بڑے مسلم شہر کانو میں سرکاری عمارات پر حملوں کی لہر میں ایک ہی دن میں 150 سے زائد افراد حالاک ہو گئے یہ بوکوحرام کے اب تک کے مبینہ حملوں میں سب سے بڑا حملہ تھا ۔

سوکوٹو کے سلطان الحاجی ابوبکر محمد سعد جو کہ نائجیریا سپریم کونسل آف اسلامک افئیرز کے سربراہ ہیں ، کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ بوکوحرام ایک راز ہے اور حکومت کو اس مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے جامع تحقیق کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا ” جب تک تحقیق نہیں ہوگی کوئی بھی کسی بھی دن کسی صوبے کو آگ لگا کر بچ جائے گا کیونکہ اس سے صحیح طور پر معلوم ہے کہ سارا شک بوکوحرام پر جائے گا۔موجودہ حالات میں اس مسئلے کا حل نہیں نکالا جا سکتا

ماخوذ :
http://eeqaz.co/بوکو-حرام-حقیقت-یا-افسانہ؟/
یہ کون سی شریعت ہے جس کے نفاذ کرنے کا طریقہ ان کے پاس یہ ہے کہ یہ لڑکیوں کو اغوا کریں؟

اور یہ یقینا خود کو مسلمان بھی کہتے ہوں گے!!!!!!!!
جہاں بھی تشدد کے ساتھ مذہب اسلام کو مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، وہاں ہمیشہ ہی سلفی مسلک سامنے آتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا ہی فضول ہے
 

سید ذیشان

محفلین
جہاں بھی تشدد کے ساتھ مذہب اسلام کو مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، وہاں ہمیشہ ہی سلفی مسلک سامنے آتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا ہی فضول ہے

پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں اکثر جہادی تنظیموں کا دیوبندی مسلک سے تعلق ہے۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں اکثر جہادی تنظیموں کا دیوبندی مسلک سے تعلق ہے۔
وہ تو معلوم نہیں ذیشان بھائی مگر جو بھی ہے ہمارے پاکستان میں بھی شدت پسند حیوانوں میں اضافہ ہی ہوا جا رہا ہے ،،، اختلاف رکھنا اور ہے مگر یہ سب ،،، اتنا ظلم !!!
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
تاریخ اسلام اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ غلامی کی خباثت پھر سر اٹھا رہی ہے
ویسے زیک بھائی یہ تاریخی دہرائی بہت دہائیوں سے شروع ہو چکی ہے !! ،،،، اور ہاں ہمارے اپنے بر صغیر والے خطے میں ہم آزاد ہوئے ہی کب ہیں ؟؟؟؟
 

سید ذیشان

محفلین
جی، پاکستان کی حد تک آپ کی بات بجا ہے، میں بین الاقوامی نکتہ نظر سے بتا رہا تھا :)

بجا فرمایا۔

سلفی جہادی دنیا میں تقریباً ہر اسلامی ملک میں موجود ہیں سوائے اپنی جائے پیدائش سعودی عرب کے۔ اور اگر سعودی عرب کا یہ خیال ہے کہ وہ آگ سے کھیلیں گے اور خود محفوظ رہیں گے تو ان کی خام خیالی ہے اور ان کو پاکستان سے سبق سیکھنا چاہیے۔

؏
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
بجا فرمایا۔

سلفی جہادی دنیا میں تقریباً ہر اسلامی ملک میں موجود ہیں سوائے اپنی جائے پیدائش سعودی عرب کے۔ اور اگر سعودی عرب کا یہ خیال ہے کہ وہ آگ سے کھیلیں گے اور خود محفوظ رہیں گے تو ان کی خام خیالی ہے اور ان کو پاکستان سے سبق سیکھنا چاہیے۔

؏
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

کیا ہی گہری بات کہی ،،، یہاں آنے سے پہلے یہی خیال تھا ( فی الوقت ریاض میں سکونت اختیار کیئے ہوں ) ،،، مگر اب سمجھتا ہوں کہ براہ راست چاہے سرپرستی نہ ہو مگر سعودی حکومت اور سیاست کا جو چلن ہے سرپرستی سے کم بھی نہیں ،،، کان انہوں نے پکڑ رکھا ہے چاہے الٹے راستے ہی سہی !!
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
میں فرقہ وارانہ بات نہیں کرنا چاہتا مگر حقائق یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کام دکھانے والے ان کے ہم عقیدہ اور ہمدرد ہیں۔
بالکل لئیق بھائی سب ایک سے نہیں ، انگلیوں کی مانند ،،، لیکن ان چند اچھوں کی آڑ لے کر بہت سے برے بہت تباہی کر رہے ہیں ،،، آخر بدنام کون ہوا ؟؟ ،،، مصیبت یہ ہے کہ کوئی روک ٹوک بھی نہیں اس کی بابت !!
 
پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں اکثر جہادی تنظیموں کا دیوبندی مسلک سے تعلق ہے۔
دیوبندی مسلک (متاخرین) اور سلفی وہابی مسلک میں معنوی اتحاد ہے، فقہی اختلاف ضرور ہے لیکن اعتقادی طور پر یہ دونوں ہم آہنگ ہیں۔۔۔نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
دیوبندی مسلک (متاخرین) اور سلفی وہابی مسلک میں معنوی اتحاد ہے، فقہی اختلاف ضرور ہے لیکن اعتقادی طور پر یہ دونوں ہم آہنگ ہیں۔۔۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
بھائی جان ایک بات کہوں ،،، برا مت مانیئے گا ،،، یہ بات نہیں کہ میں یا آپ کم علم ہیں ،،، بات یہ ہے کہ سیاست کی طرح پاکستان میں اسلامی گروہ بھی انتہائی تاریک ابواب اور کونے کھدرے رکھتے ہیں جن کا ہمیں ذرہ بھر علم نہیں !!،، اس لیئے مسلک کی بات جانے دی جیئے ،،، تمام دوستوں سے یہی گزارش ہے ،،، مسلک کا اول تو مذہب میں وجود ہی کیا ہے ؟؟ ،، ابھی کا حرف مدعا یہ ہے کہ کوئی بھی جو ایسی گھناونی اور غیر انسانی حرکات میں ملوس ہے ،،، جانور کے سوا کوئی نہیں ،،، اس کا کوئی مذہب نہیں ،،، اس کا کوئی مسلک نہیں ،،، ( مسلک صرف اس صورت گردانا جا سکتا ہے جب تک کوئی حیوانیت کو مذہب نہ قرار دے ڈالے )
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
اور تمام احباب سے معذرت کہ اوپری مراسلہ میں ترکیب اسلامی گروہ استعمال کی ،،، جلدی میں احساس نہیں رہا کیوں کہ یہ ترکیب زبان زد عام ہے !!
 
Top