محسن وقار علی
محفلین
گزشتہ کالم میں راقم نے ایک بھارتی صنعت کار کی شادی میں شرکت کا واقعہ لکھا تھا جس پر ایک ارب پاکستانی روپے خرچ کئے گئے تھے۔ اس کالم کو پڑھنے والوں کی بڑی تعداد میں ای میلز ملیں اور بہت سے دوستوں نے فون کر کے اس امر پر حیرت اور تعجب کا اظہار کیا کہ بھارت کے ایک ہی شہر میں بسنے والوں کی زندگیوں میں کتنے نشیب و فراز ہیں ۔ میں نے تو بہت مختصراً دلّی شہر کا تجزیہ کیا تھا۔ راقم نے اس دورے میں مغل بادشاہ شاہ جہاں کا آگرہ کا تاج محل اور آگرہ کا قلعہ بھی دیکھا ۔ تاج محل کو پوری دنیا میں ساتویں عجوبے کا درجہ حاصل ہے جس کو دیکھنے کیلئے پوری دنیا سے لاکھوں سیاح ہر سال بھارت آتے ہیں ۔ یہاں پاکستانیوں سے 510روپے فی کس ٹکٹ وصول کیا جاتا ہے جبکہ بھارتی باشندوں کیلئے صرف 20روپے کا ٹکٹ تھا اور یورپ اور امریکہ کیلئے 750روپے فی کس ٹکٹ وصول کیا جاتا ہے ۔ تاج محل لاہور کے معمار استاد احمد لاہور والے انجینئر نے تعمیر کرایا تھا ۔ 1632ء میں اس وقت کے 18کروڑ روپے کی لاگت آئی تھی اور یہ 21سال کی مدت میں 1653ء میں مکمل ہوا ۔ اس عمارت کی خوبی ایرانی ، ترکی ، اسلامی اور بھارتی فن کاری کا شاہکار ہے ۔ اندر مقبرے میں بڑی قبر شاہ جہاں کی ہے اور چھوٹی قبر ممتاز محل کی ہے۔
سیاحوں کو باہر سے فوٹو گرافی کی اجازت ہے مگر مقبرہ کے اندر کیمرہ لے جانا منع ہے ۔ تمام جوتیاں مقبرہ کی عمارت کے باہر ہی اتار کر جمع کرانا پڑتی ہیں پھر تمام عمارت میں ننگے پاؤں ہی سیر کی جاتی ہے ۔ اس سے ملحق ایک مسجد بھی ہے جہاں صرف جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہے ۔ خصوصاً چودہویں کی رات جب چاند گنبد کے اوپر ہوتا ہے تو تاج محل کی چمک اور خوبصورتی دوبالا ہو جاتی ہے۔ اس رات خصوصی طور پر سیاحوں کا جمگھٹا ہوتا ہے اور آگرہ میں بہت چہل پہل ہوتی ہے اور تمام ہوٹل بُک ہوتے ہیں ۔ تمام رات سیاحوں کی آمد و رفت ہوتی ہے ۔ ویسے صبح 7بجے سے رات 7بجے تک اجازت ہوتی ہے ۔ آگرہ کی بیشتر آبادی مسلمانوں کی ہے جو ابھی تک غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اور وہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہیں۔ اس کے بر عکس ہندو برادری مالدار اور پڑھی لکھی ہے۔ ہاتھ کے رکشہ زیادہ تر مسلمان ہی چلاتے ہیں ۔ ایک میل دور ایک اسٹینڈ بنا دیا گیا ہے جہاں تمام گاڑیاں پارک کی جاتی ہے یہاں سے الیکٹرک گاڑیاں چلائی جاتی ہیں جو 10روپے فی کس وصول کرتی ہیں ۔ اس کی وجہ تاج محل کو گرد و آلود فضا سے بچانا مقصود ہے۔ اگرچہ یہاں سے کچھ فاصلے پر آئل ریفائنری تھی جس کی وجہ سے تاج محل کے سفید ماربل کی چمک کو بہت نقصان پہنچتا تھا۔ اب اس آئل ریفائنری کو بند کر دیا گیا ہے ۔
تاج محل سے ملحق جمنا ندی کافی سوکھ چکی ہے جس سے تاج محل کے اطراف گندہ پانی بھی جمع رہتا ہے ۔ اتفاق سے اتوار ہی کو جس دن میرا کالم چھپا تھا میں ایک دوست جن کا تعلق داؤد بوہرہ برادری سے ہے ان کی بیٹی کی شادی میں شرکت کی تو وہاں ایک واقف کار نے بھی بھارتی شادی پر تبصرہ پڑھا تھا۔ مجھے کہا کہ آپ ہماری برادری کی شادی پر بھی اپنا تبصرہ لکھیں تاکہ پاکستان میں بسنے والی دوسری برادریاں بھی ہماری طرح اجتماعی شادیاں کر کے روپے پیسے کا ضیاع روک سکیں پھر اس شادی میں بتایا گیا99فیصد بوہری برادری جماعت خانوں میں شادیاں منعقد کرتی ہیں اگر پانچ سات شادیاں بھی ہوں تو سب مل کر اس تقریب کو سجاتی ہیں اور جتنا بھی خرچ آئے آپس میں تقسیم کر لیتی ہیں۔ شادی بہت سادگی سے ہوتی ہے کوئی ڈھول دھماکہ ، چراغاں یا آتش بازی نہیں ہوتی ۔ مہمانوں کو زمین پر بٹھایا جاتا ہے ایک تسلے سے پانی سے ہاتھ دھلوائے جاتے ہیں پھر ایک گول تھال میں پانچ پانچ کی ٹولیوں میں کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ صرف چمچے الگ ہوتے ہیں سب ایک ہی پلیٹ میں الگ الگ آئٹم رکھے ہوتے ہیں اور نکال نکال کر کھاتے ہیں ۔ سب سے پہلے نمک چٹایا جاتا ہے پھر ایک چھوٹی سی تشتری میں چینی اور ابلے چاول رکھے ہوتے ہیں جن کے چند دانے کھائے جاتے ہیں ۔ جس کو گجراتی زبان میں ”سدانو “کہتے ہیں پھر گڑ بھری روٹی کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد میزبان کے مطابق کھانوں کی ڈشیں ہوتی ہیں جو زیادہ سے زیادہ 3 گوشت کی ہوتی ہیں جن میں ایک چاول کی ڈش ہوتی ہے جو پانچ افراد کیلئے کافی ہوتی ہیں ۔ ساتھ 10چپاتیاں رکھی جاتی ہیں ۔ گوشت کی ڈشیں صرف ایک بار سرو کی جاتی ہیں البتہ چاول اور بریانی دوبارہ بھی منگوائی جا سکتی ہیں ۔ کھانے میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ نہ کھانا بچے اور نہ ہی ضائع ہو ۔ اس تھال میں ایک طرف سلاد اور میٹھے کی ایک پلیٹ بھی ہوتی ہے ۔
آخر میں ہاضمے کے لئے زیرہ پانی بھی دیا جاتا ہے اور کھانے کے بعد گرم پانی سے ہاتھ دھلوائے جاتے ہیں۔ اتنی سادگی شاید ہی کسی برادری میں پائی جاتی ہو ۔ ایک تھال جس میں پانچ آدمیوں کا کھانا ہوتا ہے تقریباً 850روپے کی لاگت سے جماعت خانے کے رضا کاروں کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے ۔ بہت سادہ ہوتا ہے ہرگز مرغن نہیں ہوتا، زود ہضم ہوتا ہے ۔ کھانے کے بعد میں نے مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے جماعت خانے کے اعزازی سیکریٹری جن کی نگرانی میں کھانا تیار ہوتا ہے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ گزشتہ کئی سالوں سے ان کے روحانی پیشوا کے حکم پر ان شادیوں کے علاوہ تمام بوہری برادری کیلئے جماعت خانے میں دو وقت کا کھانا بھی بہت کم لاگت پر تیار کرنا شروع کر دیا ہے جسے وہ ٹفنوں میں بھر کر ہر دوپہر2وقت کیلئے سب کے گھروں میں سپلائی کا بندو بست بھی کیا گیا ہے تاکہ گھر کی خواتین کھانوں میں اپنا وقت ضائع نہ کریں اور صرف جماعت خانے کے کھانے کھا کر اپنے اس وقت میں دیگر اچھے اچھے فلاحی کام کریں مثلاً تعلیم و تربیت ، جسمانی ایکسرسائز اور اپنے محلے میں اچھے اچھے کام کر کے اپنے آپ کو فالتو کاموں سے دور رکھیں ۔ ان کی برادری میں پان ، سگریٹ ، منشیات ، گٹکا سب منع ہے ۔ حتیٰ کہ شیشہ بھی بند کر دیا گیا ہے ۔ بوہری برادری کا ہر فرد سر پر ٹوپی اور خواتین برقعہ جو ان کے لئے خصوصی ڈیزائن کیا گیا ہے، اس کا پہننا لازمی ہے ۔ شادیاں بھی صرف دن میں منعقد ہوتی ہیں تاکہ راتوں کو گھر سے باہر نہ رہیں اور تمام پروگرام شام تک ختم کر کے جلدی سے سویا جا سکے ۔ اس برادری کا ڈسپلن قابل ِ دید ہے ۔ اگر دیگر برادریاں بھی ایسا کریں تو فضول رسموں سے بچ سکیں گی اور دیر گئے راتوں کی شادیوں سے اجتناب کیا جا سکے گا۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ