بَلا کی بھیڑ مِیں تُجھ کو پُکارَتے سَائیں - (غزل)

عؔلی خان

محفلین
*~* غزل *~*

بَلا کی بھیڑ مِیں تُجھ کو پُکارَتے سَائیں
مَیں تھک چُکا، اَبھی خُود کو سَنبھالَتے سَائیں

ہَمارے پَاس کوئی سَمت ہی نہیں وَرنہ
چَمکتا آئینہ ہم بھی نِکَالَتے سَائیں

کِسی طرف سے بھی اَچھّی خَبَر نہیں آتی
تو کیوں نہ لوگ تُجھے پھر پُکارَتے سَائیں

بَجا کہ چاہا تھا مُجھ کو کِسی نے پَر اَب کے
اُجڑ چُکا ہوں، مَیں خُود کو سَنوارَتے سَائیں

تَمام عُمر یہ خَواہِش لیے پھری ہم کو
کہیں تو چَین سے دو دِن گُذارَتے سَائیں

ہَمارے پَاس کوئی رَنگ ہے نہ خُوشبُو ہے
وَگرنہ ہم بھی چَمن کو نِکھارَتے سَائیں

© عؔلی خان – www.AliKhan.org/book.pdf
 
مثال کے طور پر "پکارتے" اور "سنبھالتے" میں سے اگر "تے" نکال دیا جائے جو کہ ردیف کا حصہ ہے تو "پکار" اور "سنبھال" قوافی نہیں! البتہ یہ میرا ناقص علم ہے اور یقینا حرفِ آخر کا مرتبہ نہیں رکھتا۔
 

عؔلی خان

محفلین
مَیں نے تو جی اِ س سے بڑھ کر گستا خیاں کی ہیں۔ مَیں نے تو "صدائے گیت" اور "مثلِ عمرِ خبَرِ نَو" بھی باندھا ہے۔ اگر خبَر کی جمع اخبار کو مہند کر کے خبریں بنایا جا سکتا ہے تو مصرع کی ضرورت کے تحت دانستہ طور پر خَبَر کو طرزِ کے وزن پر کیوں نہیں باندھا جا سکتا۔ مَیں شاعر ہوں کوئی عروضی نہیں ہوں۔ یہ اور بات کہ مجھے عروض بھی آتے ہیں۔ اور اُردو زبان میں تجربات کرتے رہنا چا ہیے لیکن حدود کے اندر۔ شکریہ۔
 
Top