ماروا ضیا
محفلین
بُتوں نے ہوش سنبھالا جہاں شعور آیا
بڑے دماغ بڑے ناز سے غرور آیا
اُسے حیا اِدھر آئی اُدھر غرور آیا
میرے جنازے کے ہمراہ دور دور آیا
زُباں پہ اُن کےجو بھولے سےنامِ حور آیا
اُٹھا کے آئینہ دیکھا وہیں غرور آیا
تُمھاری بزم تو ایسی ہی تھی نشاط افزا
رقیب نے بھی اگر پی مجھے سرور آیا
کہاں کہاں دل مشتاقِدید نے یہ کہا
وہ چمکی برق تجلی وہ کوہِ طور آیا
تری گلی کی زمیں اور اس قدر پامال
مگر یہاں کوئی بے تاب ناصبُور آیا
جہاں میں لاکھ حسیں ہوں تو اُن کو رشک نہیں
قیامت آگئی جس وقت نامِ حور آیا
عدو کو دیکھ کے آنکھوں میں اپنے خون اُترا
وہ سمجھے بادہ گُل رنگ کا سُرور آیا
تیری گلی میں رہی باز گشت مثل نفس
کہ جتنی دور گیا واپس اُتنی دور آیا
قسم بھی وہ کبھی قُرآن کی نہیں کھاتے
یہ رشک ہے اُنھیں کیوں ذکرِ حُور آیا
پیامبر تیری باتوں میں ہم کب آتے ہیں
وہاں ضرور گیا اور تو ضرور آیا
کہا جب اُس نے تہِ تیغ کون آتا ہے
پُکاراُٹھا دل مُشتاق و ناصبور آیا
پیامبر سے شبِ وعدہ وہ بگڑ بیٹھے
بنے بنائے ہوئے کام میں فتور آیا
کسی نے جُرم کیا مل گئی سزا مجھ کو
کسی سے شکوہ ہوا مجھ پہ مُنہ ضرور آیا
جو خم کو جوش تو ساغر کو آگیا چکر
مرے ہی دل کو نہ اُس بزم میں سرور آیا
گزار دی شبِ وعدہ اسی توقع پر
مرے بلانے کو اب آدمی ضرور آیا
کہیں تھی راہنُمائی کہیں تھی راہزنی
کہیں ملا کہیں میں کارواں سے دور آیا
لگاوٹیں ہیں تجلی کی یہ تو اے موسیٰ
کہ سُرمہ بن کے جو آنکھوں میں کوہِ طور آیا
الہی اشک مصیبت کی آبرو رکھنا
یہ بیکسی میں بُرے وقت پر ضرور آیا
خُدا نے بخش دئیے حشر میں بُہت عاشق
خیال یار میں کوئی نہ بے قصور آیا
ترے نصیب کا اے دل وہاں بھی صبر نہیں
جو اب گیا وہ قیامت کے دن ضرور آیا
بنے ہو بزم میں ساقی تق یہ خیال رہے
کسے سرور نہ آیا کسے سرور آیا
شہید ناز بھی عاشق مزاج میں بھی ہوں
اسی لیے ملک الموت بنکے حور آیا
وہیں سے داغؔ سیہ بخت کو ملی ظلمت
جہاں سے حضرتِ موسیٰ کے ہاتھ نُور آیا
مجموعہ کلام : آفتابِ داغ
مُحترم فاتح صاحب اصلاح کی گُزارش