بُھلیا !! کی جانڑاں میں کون

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
میں نے آج جناب غالبؔ کی غزل بدقسمتی سے اس وقت پڑھ لی جب میں اپنے آپ میں نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اب بقول غالبؔ "ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی٭٭ کچھ ہماری خبر نہیں آتی"۔​

آپ سب کو ایک زحمت دیتا ہوں بقول غالبؔ :۔ اے ساکنانِ کوچہ دلدار دیکھنا٭٭ جو تم کو کہیں غالبؔ آشفتہ سر ملے

مجھے ذہانت کا دعویٰ تو کبھی نہیں رہا ، لیکن میں کند ذہن بھی نہیں سمجھتا خود کو، مگر اس کے باوجود میں یہ بتانے سے عاجز ہوں کہ میں نے اب تک دیوانِ غالبؔ کتنی بار پڑھا ہے،میں خود کو دیوانِ غالبؔ کا حافظ تو نہیں کہہ سکتا مگر نیم حافظ ضرور کہا جا سکتا ہوں ۔ مگر میری عادت ہے کہ میں دیوانِ غالبؔ کتاب پڑھتا ہوں ، یہ ایک عجیب سا طلسم ہوش ربا ہے، کئی لاکھ بار پڑھا ہوا شعر اچانک کسی خاص لمحے میں پڑھنے پر الہٰ دین کے چراغ کے جن کی طرح دیوانِ غالبؔ نامی چراغ سے آزاد ہو کر میرے پیچھے پڑ جاتا ہے ، یا یوں کہہ لیں کہ مجھ پر سوار ہو جاتا ہے۔ آج میڈم نور جہاں کی آواز میں غالبؔ کی غزل سنتے ہوئے دماغ پٹری سے اترا تو دیوان کھول لیا ۔ غزل پڑھتا گیااور ڈوبتا گیا، یہ غزل نہیں ایک دلدل تھی، مین نے جتنے ہاتھ پیر مارے اتنا ہی ڈوبتا چلا گیا۔ اب جبکہ میں گردن تک ڈوب چکا ہوں اور عنقریب سارا کا سارا اس دلدل میں ڈوبنے والا ہوں ۔ تو جی چاہ رہا ہے کہ جاتے جاتے ایک آخری ہچکی ، آخری چیخ ، آخری غزل کہہ کے ڈوبوں ، تاکہ دل پر کوئی بوجھ نہ رہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ، کہ ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا ہے۔

وہ فتنہ ساماں ، حشر انگیز غزل یہ ہے

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کیے ہوئے

دل سے پڑھیے

کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کیے ہوئے

دنیا کا سب سے خوبصورت شعر
پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاکِ گریباں کیے ہوئے

جی ہاں

پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفس
مدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں کیے ہوئے​
آج خیر نہیں

پھر پرسش ِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمکداں کیے ہوئے

غالبؔ مومن کے شعر پر دیوان دینے کو تیار تھے، میں اس شعر پر اپنی جان دینے کو تیار ہوں، ملاحظہ ہو، غالبؔ کا قاتل ترین شعر
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

میری سادگی دیکھ

پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض متاع ِ عقل و دل و جاں کیے ہوئے

میری خباثت ملاحظہ ہو
دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے

اف یہ میری حماقتیں
پھر چاہتا ہوں نامہ دلدار کھولنا
جاں نذرِ دل فریبی عنواں کیے ہوئے

ہائے
مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے

کوئی ہے؟ سم باڈی ہیلپ می
چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمہ سے تیز دشنہ مژگاں کیے ہوئے

یا اللہ خیر
اک نو بہارِ ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے

اس شعر پہ جس کی آنکھوں میں آنسو نہ آئے وہ منافق ہے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منت درباں کیے ہوئے

کاش
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے​

ہوشیار، خبردار۔۔۔ کسی غلط فہمی میں مت رہنا
غالبؔ! ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے​
کتا بھی حرام ہے، گوشت میرا بھی حلال نہیں
کتا بھی بھونکتا ہے ، میں بھی بھونکتا ہوں
بتائیے مجھ میں اور کتے میں کیا فرق ہوا؟​

دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

کتا ایک موقع شناس، ابن الوقت، اور چاپلوس جانور ہے، مگر اس کی ایک خوبی اس کی وفاداری ہے
میں بھی موقع شناس ، ابن الوقت، اور خوشامدی جانور ہوں ، مگر مجھ میں کوئی وفا داری نہیں۔
کتا جس کا کھاتا ہے اس کے آگے دم ہلاتا ہے ، مگر میں وہ جانور ہوں کہ جس کا کھاتا ہوں اسی پر بھونکتا ہوں
کتا مجھ سے بہتر ہے یا نہیں؟

دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

کتا جس جگہ بیٹھتا ہے دم پھیر کر جگہ صاف کر کے بیٹھتا ہے
مگر میں وہ ناپاک جانور ہوں ، کہ جس جگہ بیٹھتا اٹھتا ہوں وہیں غلاظت پھیلاتا ہوں


دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

کتا مالک کے گھر ، گھر والے ، اور گھر کےسامان کی حفاظت کرتا ہے
مگر میں تو ایسا گھٹیا حیوان ہوں ، کہ جس گھر سے کھاتا ہوں ، اسی کو بیچ کھانے کے موقعے ڈھونڈتا ہوں، میں کبھی مالک کے دشمن پر نہیں بھونکا، میں تو گھر والوں پر بھونکتا ہوں۔
بتائیے میں کس منہ سے خود کو اشرف المخلوقات کہوں؟

دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

حضرت بابا بھلے شاہ سرکارؒ نے فرمایا تھا

اٹھ بھلیا ، چل یار منا لے، نہیں تے بازی لے گئے کتے
تیتھوں اُتے

اور کتے میتھوں اتے
کیونکہ بازی لے گئے کتے

کتا بھی توجہ حاصل کرنے کیلئے ، یا تو دم ہلاتا ہے، یا زور زور سے بھونکتا ہے
میں بھی زور آوروں کے سامنے دم ہلاتا ہوں، کمزوروں اورچھوٹوں پر بھونکتا ہوں
کس منہ سے خود کو میں انسان کہوں؟

دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

منافق کون تھے
عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی
وہ منافق کیوں کہلائے
اس لیے کہ وہ زبان سے تو کلمہ بھی پڑھتے تھے، ظاہر میں مسلمان بھی تھے، حتیٰ کہ نماز بھی مسجد نبوی ﷺ میں آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی امامت میں ادا کرتے تھے۔مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآن مجید میں منافقون کہہ کر مخاطب کیا

منافق کو کافر سے بھی بدتر کہا گیا

اب ذرا میرا گریبان پکڑ لیجئے
اور مجھے جوتے مارئیے
میں بھی ڈرامے باز ہوں، میں بھی زبانی مسلمان ہوں ، میرے کسی بھی عمل میں کوئی اخلاص نہیں، میں ایک لالچی کتا ہوں، میں بھی دنیا کی نظروں میں اچھا نظر آنے کیلئے بڑی باتیں کرتا ہوں ، لمبی لمبی چھوڑتا ہوں ، ریا کاری کرتا ہوں ، تاکہ کوئی کہے دیکھو یار ، یہ اویس کتنا اچھا ہے، یا کتنا سلجھا ہوا ہے، یا کتنا نیک ہے

حقیقت تو یہ ہے کہ میں اسفل السافلین میں بھی سب سے نچلا ہوں
حیران ہو رہے نا کہ کیسے؟
حالانکہ کسی زمانے میں پانچ وقت کی نمازیں بھی پڑھتا تھا، حتیٰ تہجد وغیرہ کا بھی ایک دو دن بخار چڑھا تھا۔
روزے بھی سارے ہی رکھتا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے مجھ میں کوئی ظاہری عیب بھی نہیں، اس سے بھی زیادہ شکر اس بات ہے کہ اس رحمن و رحیم نے میرے سب باطنی عیبوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ میں نے کبھی سگریٹ تو کیا کسی بھی نشہ آور شئے کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔
لیکن اس کے باوجود دوزخ میں میرے لیے آگ دہکائی جا رہی ہے
قبر کے سانپ بچھو میرے انتظار میں ہیں۔

کیوں؟؟؟؟

میرے اعمال میں اخلاص نہیں ہے۔ میں منافق ہوں
تو لازمی بات ہے ، میرے منہ پہ مار دی جائیں گی میری یہ اٹھک بیٹھک نما نمازیں، میرے یہ ڈائٹنگ نما ، بھوک ہڑتال جیسے روزے
افسوس میں نے سب کچھ کر کے بھی کچھ نہ پایا، صرف اپنی منافقت کی وجہ سے

مجھے اب احساس ہو رہا ہے کہ قبر میں صرف میں اکیلا ہی ہوں گا اور وہاں پر میری یہ دکھاوے کی نیکیاں یا نیک نامی کسی کام نہیں آنے والی

میں کیا منہ لے کر جاؤں گا ؟
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
میں کس منہ سے شفاعت کی امید رکھوں اس عظیم ترین ہستی سے، جن کاطرہ امتیاز ان کا عظیم اخلاق تھا
اور انہوں نے فرمایا بھی تھا ، کہ تم میں سے سب سے بہتر شخص وہ ہے جس کا اخلاق بہتر ہو
افسو س میں غیر ضروری چیزوں کو ضروری سمجھ کر اپنے محسن ، اپنے آقاﷺ کی بات کو پس پشت ڈال دیا
وہ اتنے عظیم ہیں کہ وہ مجھے پھر بھی نہیں دھتکاریں گے، مگر میں اتنا ناپاک ہوں کہ ان کا سامنا کرنے کی بھی جرات نہیں۔

میرا دماغ نہیں خراب ہو گیا۔ میں خود کو ہوش وحواس میں ہی منافق کہہ رہا ہوں
کیوں کہہ رہا ہوں؟؟؟
تو دیکھئے

میرے کسی بھی عمل میں اخلاص نہیں
میرا ہر کام دکھاوے کیلئے ہے
میں بڑی سے بڑی بات کروں گا۔ حالانکہ میں نے کبھی اس پر خود عمل بھی نہیں کیا ہوگا
مگر میں لوگوں کے منہ سے یہ سننا چاہوں گا کہ اس کی باتیں بہت اچھی ہوتی ہیں۔ یہ کتنی گہری باتیں کرتا ہے
میں ایسا ڈرامے باز ہوں ، کہ میں اپنے کیفیت نامے میں وہ باتیں لکھوں گا جن پر کبھی مجھے عمل کرنے کی توفیق نہیں ہوئی
لیکن جب لوگ واہ واہ کرتے ہیں تو میں پھول جاتا ہوں

میرے اندر رعونت بھر ی ہے، میں اندر سے فرعون جیسا غرور رکھتا ہوں
مگرمیں غرور میں لپٹی عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرتا ہوں، صرف لوگوں کی داد سمیٹنے کی خاطر

میں بڑی لمبی چوڑی پوسٹس کرتا ہوں، لیکن سچ تو یہ ہے کہ کبھی اپنی پوسٹ کی کسی بات پر عمل نہیں کیا۔ یہ تو بس داد سمیٹنے اور واہ وا سننے کیلئے دوکان سجائی ہوئی ہے۔
جب کوئی مجھے بتائے کہ میرے قول اور فعل میں تضاد ہے ، تو میں اس سے باقاعدہ ناراض ہو جاتا ہوں۔

کیا میں منافق ہوں یا نہیں؟

میں کھاتا اللہ کا دیا ہوں اور خوش لوگوں کو کرتا پھرتا ہوں۔
میں نے خود کو برگزیدہ سمجھا ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے حق ہے ہربات کا۔ مجھے حق ہے کسی کا دل دکھانے کا۔ مجھے حق ہے لوگوں کو سچ سنانے کا۔ میری ہر بات کو حق سمجھا جائے ۔ میری ہر بات کو اہمیت دی جائے۔ میری ہر بات کو جائز سمجھا جائے۔
لیکن میں کسی کو عزت نہیں دینا چاہتا۔ جی ہاں میں دکھاوے کیلئے عزت تو کرتا ہوں۔ سائیں، قبلہ، سرکار، محترم، جناب کہہ کر بھی بات کرتا ہوں ، مگر سب اوپر سے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں صرف میرا دل ہی گوشت کا ہے جو دکھ بھی جاتا ہے ، اور ٹوٹ بھی جاتا ہے۔ باقی سب پتھر کے ہیں جیسے۔

پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا ، اپنے آپ نوں پڑھیا ای نئیں
جا جا وڑدا مندر مسیتاں، من اپنے وچ وڑیا ای نئیں
اینویں روز شیطان نال لڑدا، نفس اپنے نال لڑیا ای نئیں


چل بھلیا اوتھے چلیے، جتھے سارے اَنے
نا کوئی ساڈی ذات پچھانے ، نہ کوئی سانوں منے​
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت لطف آیا ہے آپ کی تحریر پڑھ کر۔ تحلیل نفسی (کتھارسس) تو آپ نے خوب کی ہے، تاہم، میرے خیال میں خود ملامتی میں ذرا دو قدم آگے نکل گئے ہیں۔ اشرف المخلوقات کے اوصاف تو انتہائی زیادہ ہیں۔ اسفل السافلین تک جانے سے پرہیز کی طاقت رب تعالےٰنے ہرانسان کو عطا فرمائی ہوئی ہے اور دونوں اطراف کا راستہ خود آپ کے اپنے بس میں ہے۔

بلہے شاہ کی املا ذرا درست کرلین۔ یہ ' بھلا ' نہیں ' بلہا' ہے۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

ایک روایت ہے کہ جب فرشتوں نے ابلیس کے سجدے اور عبادتیں دیکھیں تو انہیں بہت رشک آیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ یا اللہ !! اسے ہمارا اتالیق مقرر فرما دے تاکہ اس کے درس کی برکت سے ہم بھی تیرے اتنے ہی عبادت گزار ہو جائیں ، اور تیری خوشنودی حاصل کر سکیں۔ دعا قبول ہوئی ۔ ابلیس کو آسمان پر فرشتوں کا استاد مقرر کر دیا گیا۔اور آسمانی قاعدے کے مطابق اس کا نام عزازیل ہوا۔ ایک دن دورانِ درس عزازیل نے فرشتوں کو بتایا کہ میں نے لوح محفوظ پر مشاہدہ کیا ہے ، ہم میں سے کوئی ایک مردود ہوگا، اور راندہ قرار پائے گا ہمیشہ کیلئے۔ سب فرشتوں کو خوف خدا نے آلیا، اور وہ اس فکر اور کوشش میں لگ گئے کہ کہیں یہ مردودیت ہمارا مقدر نہ بن جائے ۔ ہر ایک نے اپنے آپ کو عاجز اور حقیر جانا، اور اسی خوف میں مبتلا رہا کہ کہیں میں ہی مردود نہ ہو جاؤں۔ مگر قسمت دیکھئے ، جس نے لوح محفوظ سے مشاہدہ کر کے فرشتوں تک اطلاع پہنچائی تھی، وہ اس بے فکری میں ہے کہ مجھے بھلا کیوں فکر ہو۔ مین تو سب سے برگزیدہ مخلوق ہوں ، کائنات میں آج مجھ جیسا عبادت گزار کوئی نہیں، میں بھلا کیسے مردود ہو سکتا ہوں۔
بالاخر وقت آن پہنچا ۔ اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو۔ سب نے فوراً اللہ کے حکم کی تعمیل میں سجدے میں سر جھکا دیا، کیونکہ ان کے دل میں خوف تھا کہ کہیں مردودہونا ہمارا مقدر نہ بن جائے۔ لیکن ابلیس کو لے ڈوبا اس کی عبادت گزاریوں کا غرور۔اس نے انکار کیا، اور کہا کہ میں آگ سے بنا ہوں، میں کیوں مٹی کے آدمؑ کو سجدہ کروں۔
اور کچھ کام نہ آیا، نہ ہزاروں سال کی عبادتیں، نہ کروڑ ہا سجدے ، نہ نیکیاں ۔ سب کے سب لے ڈوبا صرف اور صرف غرور۔

میں کس منہ سے کہوں کہ میں اشرف المخلوقات ہوں ، بخشش میرا مقدر ہے ، شفاعت کا مجھ سے وعدہ ہے ۔ حساب کتاب کر کے دیکھئے کہ ابلیس کے ہزاروں سال کی عبادات کو صرف ایک لمحے کا غرور لے ڈوبا۔ اور میرے پلے کیا ہے؟ آج کل تو انسان کی اوسط عمر 60 یا 65 سال ہے جن میں سے آدھی تو میں نے حرام کر دی ، اور اب میں دن رات باقی کی عمر عبادت اور نیکیاں کرنے میں گزار دوں تو کیا ہوگا؟
جس کو ایک لمحے کا غرور لے ڈوبا ، تو میرا آدھی عمر کا غرور میرا کیا حشر کرنے والا ہے۔؟

کیا فرق رہ گیا ہے مجھ میں اور ابلیس میں؟

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

میرا دل بہت کمینہ ہے ، جب کبھی مجھ پر کتھارسس کے یہ لمحات طاری ہوتے ہیں ، دل کہتا ہے "چھڈ یار، بخشے جائیں گے سب"
مجھے "خلدین فیہا" ستانے لگتی ہے، تو دل مجھے حدیث شریف سناتا ہے "رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس وقت جنت میں نہ جاؤں گا جب تک آخری مسلمان کو دوزخ سے چھٹکارا دلا کر جنت میں داخل نہ کرا لوں"۔ "ویسے بھی تم تو سید ہو، لوگ تمہیں آل نبی اولاد علی کہتے ہیں، فکر کی بھلا کیا بات ہے"
مگر میری آنکھیں کھولنے کو فرمان رسول اللہ ﷺ کافی ہے جب وہ خاتونِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرماتے ہیں :۔ "فاطمہ اس بھول میں نہ رہنا کہ میں نبی کی بیٹی ہوں "
جنت کی تمام عورتوں کی سردار سے یہ فرمایا جا رہا ہے تو میں بھلا کس کھیت کی مولی؟؟ میری حیثیت ہی کیا ہے ان کی پاکیزگی کے سامنے ۔ جن کے پردے کے احترام میں سورج طلوع نہیں ہوتا ، وہاں مجھے ناپاک ، اور غلاظت کی پوٹ کی کیا اوقات ؟؟
دل اپنی کمینگی سے باز نہیں آتا" رسول اللہ ﷺ شبِ معراج اللہ تعالیٰ سے وعدہ لیکر لوٹے تھے کہ تمام امت محمدیہ بخشی جائے گی۔"میں ابھی ٹھیک سے مطمئن بھی نہیں ہوپاتا کہ ایسی کئی احادیث شریف سامنے آ جاتی ہیں ، جن میں بار بار خبردار کیا گیا ہے کہ جس نے ایسا کیا وہ ہم میں سے نہیں۔ مثلاً

اب میرا کیا حشر ہونے والا ہے، یہ تو ظاہر ہے
اسفل السافلین ، کافروں سے بھی نچلا درجہ ، منافق کا ہے ، وہ گڑھے جہاں دوزخیوں کی پیپ جمع ہوگی ، وہیں کہیں مجھے بھی مینڈک کی طرح الٹا لٹکا دیا جائے گا۔

قرآن مجید مجھے بار بار خبردار کر رہا ہے کہ "زمانے کی قسم ۔ انسان خسارے میں ہے" اور میں ابلیس کی طرح اس زعم میں ہوں کہ وہ کوئی اور ہونگے جو خسارے میں ہیں۔
مجھے احسن تقویم ہونے کا غرور بلندیوں کا مسافر بنائے پھرتا ہے ، مگر قرآن مجید مجھے میری اوقات یاد دلا رہا ہے :۔ فلینظر الانسان مما خُلق۔ خلق الانسان من ما ء دافق۔ یخرج من بین الصلب و الترائب۔" بس اتنی سی ہے میری اوقات ، اور میں اس بات پر منہ بناتا پھر رہا ہوں کہ فلاں نے میری توہین کر دی، فلاں نے میری عزت کرنے میں کوتاہی کی، فلاں نے میری بے عزتی کر دی۔
میں ہوں ہی کیا جس کی عزت ہو؟ میری بنیاد کیا ہے؟ ایک ناپاک قطرہ ، جس کے نکلنے کو حدث اکبر کہا گیا ہے یعنی سب سے بڑی ناپاکی ، ناپاکی میری بنیاد ہے ، اور میں بڑا پاک صاف بنا پھرتا ہوں ، لعنت میری اس گھٹیا سوچ پر، شرم تم کو مگر نہیں آتی

دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

چھوٹے غالبؔ صاحب بڑے آئے اکڑنے والے ۔ جن کی شاگردی کا دم بھرتے ہو، خود کو جن کی کاربن کاپی قرار دیتے ہو، ذرا سنو تو وہ کیا کہہ رہے ہیں:۔ "سچ تو یوں ہے کہ غالب کیا مرا ، بڑا ملحد مرا ، بڑا کافر مرا۔ ہم نے از راہ ِتعظیم چونکہ یہ اپنے کو شاہِ قلمرو سخن جانتا تھا، سقر ، مقر اور ہاویہ ، زاویہ خطاب تجویز کر رکھا ہے ۔ آئے نجم الدولہ بہادر ! ۔ ایک قرضدار کا گریبان میں ہاتھ ، ایک قرضدار بھوگ سنا رہا ہے ۔ میں ان سے پوچھ رہا ہوں :۔ اجی حضرت نواب صاحب ، نواب صاحب کیسے؟ اوغلان صاحب ، آپ سلجوقی اور افراسیابی ہیں ۔ پھر یہ کیا بے حرمتی ہو رہی ہے ؟ کچھ تو اکسو، کچھ تو بولو۔ بولے کیا بے حیا ، بے عزت ۔ کوٹھی سے شراب ، گندھی سے گلاب ، بزاز سے کپڑا ، میوہ فروش سے آم ، صراف سے دام قرض لئے جاتا ہے ۔ یہ بھی تو سوچا ہوتا ، کہاں سے دوں گا۔"
عین یہی صورتحال تمہارے ساتھ بھی قیامت کے دن ہونے والی ہے۔ تمام مخلوقات کے سامنے کھڑا کر کے جب ذلیل کیا جائے گا تب کوئی دکھاوا ، کوئی ریاکاری کام نہیں آئے گی چن مکھناں ۔اب بھی وقت ہے سنبھل جا۔ مانگ لے معافی اپنے پروردگار سے۔ وہ توبہ قبول کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے۔
مگر اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند جو چیز ہے وہ غرور ہے۔ غرور دل میں رکھ کے کس امیدپہ کہئے کہ آرزو کیا ہے۔ کس منہ سے کہئے کہ آرزو کیا ہے۔ استاد قبلہ جب فرما گئے ہیں:۔ " میں تو اس قابل ہوں کہ جب میں مروں تو میرے گلے میں رسہ ڈال مجھے گلیوں میں گھسیٹا جائے۔ اور خوب رسوا کیا جائے، اور پھر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر میری لاش کو چیل کووں اور کتوں کے کھانے کیلئے پھینک دیا جائے، اگر وہ کھانا پسند کریں تو۔"

چھوٹا غالبؔ کس زعم میں ہو؟ اوقات ہی کیا ہےتمہاری؟​
 

پردیسی

محفلین
او بھائی چھوٹے غالب ۔ بہت کہہ لیا ہے یارا تو نے۔۔۔ اب بس کر جا ۔۔۔ چھوڑ اس غالب والب کو ۔اگر یہی تونے قرآن میں سوچ و بچار کی ہوتی تو آج پائے کا عالم ہوتا۔یہ لفظوں کا ہیر پھیر، یہ جذباتی باتیں عملی انسان کو زیب نہیں دیتیں ۔ابھی یارا تیری عمر ہی کیا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ کیا @چھوٹاغالبؔ۔ یہ کیا تحریر لکھ دی ہے۔ ایسا کیا ہو گیا ہے کہ آگہی تم پر عذاب بنکر اتر آئی ہے۔ آنکھوں کے سامنے سے ایسا کونسا پردہ سرک گیا ہے کہ سارے پند شکیبائی بالائے طاق رکھ دیئے ہیں۔ اپنی تحریروں کا سارا وضع آداب بھول گئے ہو۔ کس حقیقت کے منکشف ہونے پر قلم کی طراوٹ کڑواہٹ میں بدل گئی۔ کہیں خود کو منافق اور کہیں کچھ اور القابات۔ میں ذات کے وجدان کا تو منکر نہیں مگر یوں گریباں چاک کرنا جنوں سے خالی نہیں۔ ٹھیک ہے کہ اقبال نے کہہ دیا تھا
ناصبوری ہے زندگی دل کی​
آہ وہ دل کہ ناصبور نہیں​
مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ گریباں چاک کیئے نعرہ مستانہ لگا دیا جائے۔ کیوں کہ انہی کا یہ فرمان بھی ہے
اک جنوں ہے کہ باشعور بھی ہے​
اک جنوں ہے کہ باشعور نہین​
کونسا غرور؟ کیسی رعونت؟ کہاں کی ملمع سازی؟ یہ سب کیا ہے؟ میں اسے ذات کا ادراک ماننے سے انکاری ہوں کہ اس میں معانی گنجلک ہیں۔ تو کیا یہ دل کے اندر کہیں آتش فشاں پھوٹ پڑا ہے؟ جو قلم کی نوک سے مثل دریا بہہ نکلا ہے؟ میں مانتا ہوں کہ ملمع سازی میں نمود پاتے روابط جب بھی اصل رنگ میں سامنے آتے ہیں تو ہمیشہ محب سے افتراق کا باعث بنتے ہیں مگر وہیں اس بات پر بھی یقین رکھتا ہوں کہ دل ٹوٹنے کی کوئی آواز نہیں ہوتی۔ تو پھر یہ الفاظ کا بہتا دریا کس لیئے؟ تو گیا تو گیا غم کا سلیقہ بھی والا رنگ نمایاں ہے۔ ارے یار غم تو متاع زندگی ہے۔ ہم سے پوچھ۔ یہ متاع کب بے سلیقہ دلوں کو ملتی ہے۔ یہ تو رب کی عنایت ہے چاہے وجدان قلب کے روپ میں ہو یا عذاب آگہی کے منظر میں۔ اس امرت کو پی لے اپنی ذات میں بیکراں ہونے کا منتر ہے یہ۔ کب کسی کے لیئے کہہ رہا ہوں۔ تیرے اپنے لیئے ہے یہ۔ بےنیازی سیکھ کہ بادشاہ بھی اسی کے لیئے ترستے ہیں۔ یار میرے جیسا کم علم اور کج فہم تم جیسوں کو دیکھ کر ادب دوست ہونا باعث فخر سمجھتا ہے گرچہ میں بھی اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہوں کہ میرے حروف سے بنی ہر عمارت ہمیشہ چھوٹی اور بدنما ہوتی ہے۔ پھر بھی اپنی دنیا بسا رہا ہے۔ کہ کونسا کسی سےکاروبار مقصود ہے۔ غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
یقیناً ایسی ہی کسی تحریر کے لیئے کہا گیا ہوگا یہ شعر
نکلے ہیں جنازوں کیطرح حرف قلم سے
تخلیق کے پردے میں ہنر ٹوٹ رہا ہے​
 
چھوٹا غالب جی۔۔۔یار اپنے آپ کو اتنا بھی نہ کوسیں۔۔لیجئے آپکے ان سارے غموں اور دکھوں کا علاج بھی آپکے مرشد کے کلام سے پیش کئے دیتے ہیں ۔۔۔یہ پڑھ کر بھی دل کو سکون نہ ملے تو سمجھیں غالب کی بیعت ٹوٹ گئی۔۔ ۔۔۔سوا لکھ فقیری تحفہ :)
ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال​
خُلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کُھلا​
 

قیصرانی

لائبریرین
آگہی تب عذاب بنتی ہے جب آپ اسے رتی رتی کر کے دیکھتے ہیں۔ اگر یک لخت آگہی نازل ہو جائے تو انسان بولنا بھول جاتا ہے اور ساری زندگی صرف آنکھیں اور کان ہی کھلے رہ جاتے ہیں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
چھوٹا غالب کیا تحریر لکھی ہے،
اب تک کی تحاریر میں ٹاپ آف دا لسٹ ہے یہ۔
بہت رونا آتا ہے اس تحریر کو پڑھ کے۔
بس الفاظ نہیں ہیں۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
چھوٹا غالب جی۔۔۔ یار اپنے آپ کو اتنا بھی نہ کوسیں۔۔لیجئے آپکے ان سارے غموں اور دکھوں کا علاج بھی آپکے مرشد کے کلام سے پیش کئے دیتے ہیں ۔۔۔ یہ پڑھ کر بھی دل کو سکون نہ ملے تو سمجھیں غالب کی بیعت ٹوٹ گئی۔۔ ۔۔۔ سوا لکھ فقیری تحفہ :)
ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال​
خُلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کُھلا​
کچھ جو سمجھا میرے شکوے کو رضواں سمجھا
مجھ کو جنت سے نکالا ہوا اک انساں سمجھا

جزاک اللہ سر جزاک اللہ
اللہ سے دعا ہے کہ آپ کی گور کے اندر کملی والے سرکار ﷺ کی تشریف آوری ہو
میں جہاں بھی پہنچتا ہوں اس پڑاؤ پر آپ کو بھی پاتا ہوں،پہلے سے:bighug:
آپ کا مرشد سائیں کو میرا عاجزانہ سلام:notworthy: ، جن کے سبق نے ہمیشہ آپ کو سیدھے رستے پر رکھا ہے
آپ ہمیشہ مجھے متاثر کرتے ہیں:applause:

یہ تو واقعی امرت دھارا ہے سائیں، امرت دھارا
آپ کے بچے جئیں آپ کی سدا خیر ہو:)
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
کچھ مزید حسبِ حال عرض ہے​
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم

نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

آجا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم

تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔


تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم

تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔

اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم

اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔

خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم

واہ وہ رندی کہ جس کیلیے میں سینکڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔

منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

میں عثمان مروندی کہ شیخ منصور (حلاج) میرے دوست ہیں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں دار پر رقص کرتا ہوں​
@نیرنگ خیال ، محمود احمد غزنوی
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
چین اک پل نہیں​
اور کوئی حل نہیں​
سیو نی!!!!!!!!!!!!!!​
کون موڑے مہار​
کوئی سانول نہیں​
کیا بشر کی بساط​
آج ہے کل نہیں​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مرنڑ کولوں مینوں روک نہ ملّا مرنڑ دا شوق مٹاون دے
کنجری بنیا عزت نہ گھٹدی نچ کے یار مناون دے
مل جاوے دیدار تے نچنا پیندا اے
سامنڑے ہووے یار تے نچنا پیندا اے
عشق بلہے دے اندر وڑیا پانبڑ اندر مچدا
عشق دے گھنگرو پا کے بلہا یار دے ویڑے نچیا
عشق بلے نوں نچاوے یار تے نچنا پیندا اے
جدوں مل جاوے دیدار تے نچنا پیندا اے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بُلا پُلا پیر ولوں جدوں دل وچ حیرت آئی
کیسا ڈھنگ ملن دا کراں جد ہووے رسوائی
پا لباس طوائفاں والا پہلی چانجر پائی
کنجری بنیا عزت نہ گھٹدی او نچ کے یار منائیں
عشق بلے نوں نچاوے یار تے نچنا پیندا اے
سامنڑے ہووے یار تے نچنا پیندا اے
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
یاد ایشوریہ دی تے گانا مادھوری دا:sarcastic: ۔۔۔ ۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے:jutt:
یار بندہ بشر ہے، غلطی کر ہی بیٹھتا ہے اکثر:lol:
کچھ چشم پوشیاں سیکھو:(
اگر اردو محفل پر رہنا ہے تو:):):)
ویسے میں نے پہلی اور آخری بار پتا نہیں کب دیکھا تھا یہ ، اس لیے ، ویسے ایش سے زیادہ مادھوری حقدار ہے:laugh:
کیا کہتے ہو؟:happy:
 
Top