چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
میں نے آج جناب غالبؔ کی غزل بدقسمتی سے اس وقت پڑھ لی جب میں اپنے آپ میں نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اب بقول غالبؔ "ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی٭٭ کچھ ہماری خبر نہیں آتی"۔
آپ سب کو ایک زحمت دیتا ہوں بقول غالبؔ :۔ اے ساکنانِ کوچہ دلدار دیکھنا٭٭ جو تم کو کہیں غالبؔ آشفتہ سر ملے
مجھے ذہانت کا دعویٰ تو کبھی نہیں رہا ، لیکن میں کند ذہن بھی نہیں سمجھتا خود کو، مگر اس کے باوجود میں یہ بتانے سے عاجز ہوں کہ میں نے اب تک دیوانِ غالبؔ کتنی بار پڑھا ہے،میں خود کو دیوانِ غالبؔ کا حافظ تو نہیں کہہ سکتا مگر نیم حافظ ضرور کہا جا سکتا ہوں ۔ مگر میری عادت ہے کہ میں دیوانِ غالبؔ کتاب پڑھتا ہوں ، یہ ایک عجیب سا طلسم ہوش ربا ہے، کئی لاکھ بار پڑھا ہوا شعر اچانک کسی خاص لمحے میں پڑھنے پر الہٰ دین کے چراغ کے جن کی طرح دیوانِ غالبؔ نامی چراغ سے آزاد ہو کر میرے پیچھے پڑ جاتا ہے ، یا یوں کہہ لیں کہ مجھ پر سوار ہو جاتا ہے۔ آج میڈم نور جہاں کی آواز میں غالبؔ کی غزل سنتے ہوئے دماغ پٹری سے اترا تو دیوان کھول لیا ۔ غزل پڑھتا گیااور ڈوبتا گیا، یہ غزل نہیں ایک دلدل تھی، مین نے جتنے ہاتھ پیر مارے اتنا ہی ڈوبتا چلا گیا۔ اب جبکہ میں گردن تک ڈوب چکا ہوں اور عنقریب سارا کا سارا اس دلدل میں ڈوبنے والا ہوں ۔ تو جی چاہ رہا ہے کہ جاتے جاتے ایک آخری ہچکی ، آخری چیخ ، آخری غزل کہہ کے ڈوبوں ، تاکہ دل پر کوئی بوجھ نہ رہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ، کہ ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا ہے۔
وہ فتنہ ساماں ، حشر انگیز غزل یہ ہے
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کیے ہوئے
دل سے پڑھیے
کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کیے ہوئے
دنیا کا سب سے خوبصورت شعر
پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاکِ گریباں کیے ہوئے
جی ہاں
پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفس
مدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں کیے ہوئے
آج خیر نہیں
پھر پرسش ِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمکداں کیے ہوئے
غالبؔ مومن کے شعر پر دیوان دینے کو تیار تھے، میں اس شعر پر اپنی جان دینے کو تیار ہوں، ملاحظہ ہو، غالبؔ کا قاتل ترین شعر
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
میری سادگی دیکھ
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض متاع ِ عقل و دل و جاں کیے ہوئے
میری خباثت ملاحظہ ہو
دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے
اف یہ میری حماقتیں
پھر چاہتا ہوں نامہ دلدار کھولنا
جاں نذرِ دل فریبی عنواں کیے ہوئے
ہائے
مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے
کوئی ہے؟ سم باڈی ہیلپ می
چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمہ سے تیز دشنہ مژگاں کیے ہوئے
یا اللہ خیر
اک نو بہارِ ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے
اس شعر پہ جس کی آنکھوں میں آنسو نہ آئے وہ منافق ہے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منت درباں کیے ہوئے
کاش
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
پھر پرسش ِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمکداں کیے ہوئے
غالبؔ مومن کے شعر پر دیوان دینے کو تیار تھے، میں اس شعر پر اپنی جان دینے کو تیار ہوں، ملاحظہ ہو، غالبؔ کا قاتل ترین شعر
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
میری سادگی دیکھ
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض متاع ِ عقل و دل و جاں کیے ہوئے
میری خباثت ملاحظہ ہو
دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے
اف یہ میری حماقتیں
پھر چاہتا ہوں نامہ دلدار کھولنا
جاں نذرِ دل فریبی عنواں کیے ہوئے
ہائے
مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے
کوئی ہے؟ سم باڈی ہیلپ می
چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمہ سے تیز دشنہ مژگاں کیے ہوئے
یا اللہ خیر
اک نو بہارِ ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے
اس شعر پہ جس کی آنکھوں میں آنسو نہ آئے وہ منافق ہے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منت درباں کیے ہوئے
کاش
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
ہوشیار، خبردار۔۔۔ کسی غلط فہمی میں مت رہنا
غالبؔ! ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے
کتا بھی حرام ہے، گوشت میرا بھی حلال نہیں
کتا بھی بھونکتا ہے ، میں بھی بھونکتا ہوں
بتائیے مجھ میں اور کتے میں کیا فرق ہوا؟
کتا بھی بھونکتا ہے ، میں بھی بھونکتا ہوں
بتائیے مجھ میں اور کتے میں کیا فرق ہوا؟
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
کتا ایک موقع شناس، ابن الوقت، اور چاپلوس جانور ہے، مگر اس کی ایک خوبی اس کی وفاداری ہے
میں بھی موقع شناس ، ابن الوقت، اور خوشامدی جانور ہوں ، مگر مجھ میں کوئی وفا داری نہیں۔
کتا جس کا کھاتا ہے اس کے آگے دم ہلاتا ہے ، مگر میں وہ جانور ہوں کہ جس کا کھاتا ہوں اسی پر بھونکتا ہوں
کتا مجھ سے بہتر ہے یا نہیں؟
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
کتا جس جگہ بیٹھتا ہے دم پھیر کر جگہ صاف کر کے بیٹھتا ہے
مگر میں وہ ناپاک جانور ہوں ، کہ جس جگہ بیٹھتا اٹھتا ہوں وہیں غلاظت پھیلاتا ہوں
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
کتا مالک کے گھر ، گھر والے ، اور گھر کےسامان کی حفاظت کرتا ہے
مگر میں تو ایسا گھٹیا حیوان ہوں ، کہ جس گھر سے کھاتا ہوں ، اسی کو بیچ کھانے کے موقعے ڈھونڈتا ہوں، میں کبھی مالک کے دشمن پر نہیں بھونکا، میں تو گھر والوں پر بھونکتا ہوں۔
بتائیے میں کس منہ سے خود کو اشرف المخلوقات کہوں؟
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
حضرت بابا بھلے شاہ سرکارؒ نے فرمایا تھا
اٹھ بھلیا ، چل یار منا لے، نہیں تے بازی لے گئے کتے
تیتھوں اُتے
اور کتے میتھوں اتے
کیونکہ بازی لے گئے کتے
کتا بھی توجہ حاصل کرنے کیلئے ، یا تو دم ہلاتا ہے، یا زور زور سے بھونکتا ہے
میں بھی زور آوروں کے سامنے دم ہلاتا ہوں، کمزوروں اورچھوٹوں پر بھونکتا ہوں
کس منہ سے خود کو میں انسان کہوں؟
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
منافق کون تھے
عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی
وہ منافق کیوں کہلائے
اس لیے کہ وہ زبان سے تو کلمہ بھی پڑھتے تھے، ظاہر میں مسلمان بھی تھے، حتیٰ کہ نماز بھی مسجد نبوی ﷺ میں آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی امامت میں ادا کرتے تھے۔مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآن مجید میں منافقون کہہ کر مخاطب کیا
منافق کو کافر سے بھی بدتر کہا گیا
اب ذرا میرا گریبان پکڑ لیجئے
اور مجھے جوتے مارئیے
میں بھی ڈرامے باز ہوں، میں بھی زبانی مسلمان ہوں ، میرے کسی بھی عمل میں کوئی اخلاص نہیں، میں ایک لالچی کتا ہوں، میں بھی دنیا کی نظروں میں اچھا نظر آنے کیلئے بڑی باتیں کرتا ہوں ، لمبی لمبی چھوڑتا ہوں ، ریا کاری کرتا ہوں ، تاکہ کوئی کہے دیکھو یار ، یہ اویس کتنا اچھا ہے، یا کتنا سلجھا ہوا ہے، یا کتنا نیک ہے
حقیقت تو یہ ہے کہ میں اسفل السافلین میں بھی سب سے نچلا ہوں
حیران ہو رہے نا کہ کیسے؟
حالانکہ کسی زمانے میں پانچ وقت کی نمازیں بھی پڑھتا تھا، حتیٰ تہجد وغیرہ کا بھی ایک دو دن بخار چڑھا تھا۔
روزے بھی سارے ہی رکھتا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے مجھ میں کوئی ظاہری عیب بھی نہیں، اس سے بھی زیادہ شکر اس بات ہے کہ اس رحمن و رحیم نے میرے سب باطنی عیبوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ میں نے کبھی سگریٹ تو کیا کسی بھی نشہ آور شئے کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔
لیکن اس کے باوجود دوزخ میں میرے لیے آگ دہکائی جا رہی ہے
قبر کے سانپ بچھو میرے انتظار میں ہیں۔
کیوں؟؟؟؟
میرے اعمال میں اخلاص نہیں ہے۔ میں منافق ہوں
تو لازمی بات ہے ، میرے منہ پہ مار دی جائیں گی میری یہ اٹھک بیٹھک نما نمازیں، میرے یہ ڈائٹنگ نما ، بھوک ہڑتال جیسے روزے
افسوس میں نے سب کچھ کر کے بھی کچھ نہ پایا، صرف اپنی منافقت کی وجہ سے
مجھے اب احساس ہو رہا ہے کہ قبر میں صرف میں اکیلا ہی ہوں گا اور وہاں پر میری یہ دکھاوے کی نیکیاں یا نیک نامی کسی کام نہیں آنے والی
میں کیا منہ لے کر جاؤں گا ؟
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
میں کس منہ سے شفاعت کی امید رکھوں اس عظیم ترین ہستی سے، جن کاطرہ امتیاز ان کا عظیم اخلاق تھا
اور انہوں نے فرمایا بھی تھا ، کہ تم میں سے سب سے بہتر شخص وہ ہے جس کا اخلاق بہتر ہو
افسو س میں غیر ضروری چیزوں کو ضروری سمجھ کر اپنے محسن ، اپنے آقاﷺ کی بات کو پس پشت ڈال دیا
وہ اتنے عظیم ہیں کہ وہ مجھے پھر بھی نہیں دھتکاریں گے، مگر میں اتنا ناپاک ہوں کہ ان کا سامنا کرنے کی بھی جرات نہیں۔
میرا دماغ نہیں خراب ہو گیا۔ میں خود کو ہوش وحواس میں ہی منافق کہہ رہا ہوں
کیوں کہہ رہا ہوں؟؟؟
تو دیکھئے
میرے کسی بھی عمل میں اخلاص نہیں
میرا ہر کام دکھاوے کیلئے ہے
میں بڑی سے بڑی بات کروں گا۔ حالانکہ میں نے کبھی اس پر خود عمل بھی نہیں کیا ہوگا
مگر میں لوگوں کے منہ سے یہ سننا چاہوں گا کہ اس کی باتیں بہت اچھی ہوتی ہیں۔ یہ کتنی گہری باتیں کرتا ہے
میں ایسا ڈرامے باز ہوں ، کہ میں اپنے کیفیت نامے میں وہ باتیں لکھوں گا جن پر کبھی مجھے عمل کرنے کی توفیق نہیں ہوئی
لیکن جب لوگ واہ واہ کرتے ہیں تو میں پھول جاتا ہوں
میرے اندر رعونت بھر ی ہے، میں اندر سے فرعون جیسا غرور رکھتا ہوں
مگرمیں غرور میں لپٹی عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرتا ہوں، صرف لوگوں کی داد سمیٹنے کی خاطر
میں بڑی لمبی چوڑی پوسٹس کرتا ہوں، لیکن سچ تو یہ ہے کہ کبھی اپنی پوسٹ کی کسی بات پر عمل نہیں کیا۔ یہ تو بس داد سمیٹنے اور واہ وا سننے کیلئے دوکان سجائی ہوئی ہے۔
جب کوئی مجھے بتائے کہ میرے قول اور فعل میں تضاد ہے ، تو میں اس سے باقاعدہ ناراض ہو جاتا ہوں۔
کیا میں منافق ہوں یا نہیں؟
میں کھاتا اللہ کا دیا ہوں اور خوش لوگوں کو کرتا پھرتا ہوں۔
میں نے خود کو برگزیدہ سمجھا ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے حق ہے ہربات کا۔ مجھے حق ہے کسی کا دل دکھانے کا۔ مجھے حق ہے لوگوں کو سچ سنانے کا۔ میری ہر بات کو حق سمجھا جائے ۔ میری ہر بات کو اہمیت دی جائے۔ میری ہر بات کو جائز سمجھا جائے۔
لیکن میں کسی کو عزت نہیں دینا چاہتا۔ جی ہاں میں دکھاوے کیلئے عزت تو کرتا ہوں۔ سائیں، قبلہ، سرکار، محترم، جناب کہہ کر بھی بات کرتا ہوں ، مگر سب اوپر سے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں صرف میرا دل ہی گوشت کا ہے جو دکھ بھی جاتا ہے ، اور ٹوٹ بھی جاتا ہے۔ باقی سب پتھر کے ہیں جیسے۔
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا ، اپنے آپ نوں پڑھیا ای نئیں
جا جا وڑدا مندر مسیتاں، من اپنے وچ وڑیا ای نئیں
اینویں روز شیطان نال لڑدا، نفس اپنے نال لڑیا ای نئیں
چل بھلیا اوتھے چلیے، جتھے سارے اَنے
نا کوئی ساڈی ذات پچھانے ، نہ کوئی سانوں منے