حفیظ جالندھری بُھولا ہُوا افسانہ

فرحت کیانی

لائبریرین
بُھولا ہُوا افسانہ


دُنیا مجھے کہتی ہے اللہ کا دیوانہ
صُورت ہے فقیرانہ انداز ہیں شاہانہ

آمادۂ کج بحثی عاشق بھی ہے ناصح بھی
اک عشق کا سودائی اک عقل کا دیوانہ

توحید پہ ناز ایسا ، دل محوِ ایاز ایسا
توڑا نہ گیا تجھ سے محمود یہ بُت خانہ

زندان کی دیواریں ، ہیں مانع آزادی
ہاں اے سرِ شوریدہ! ہاں ہمتِ مردانہ

ایمان شکن آنکھیں دل میں ہیں ، دل آنکھوں میں
بُت خانے میں کعبہ ہے ، کعبے میں ہے بُت خانہ

جذبات بھڑکتے ہیں جلوؤں کی نمائش میں
ہے شمع سے وابستہ سوزِ دلِ پروانہ

اب میری خطاؤں پر کہہ دیتے ہیں وہ ہنس کر
سودائی ہے سودائی ، دیوانہ ہے دیوانہ

محشر کا تماشہ ہے اک نقل جوانی کی
گزرا ہُوا ہنگامہ ، بُھولا ہُوا افسانہ

بنتے تھے حفیظ ایسے ہم جان گئے ان کو
یہ طرزِ غزلخوانی ، یہ شیوۂ رندانہ

1921ء

کلام: حفیظ جالندھری
 
Top