طارق شاہ
محفلین
غزل
اکبرالٰہ آبادی
بُہت رہا ہے کبھی لطف یار ہم پر بھی
گزرچُکی ہے یہ فصلِ بہار ہم پر بھی
عروس دہر کو آیا تھا پیار ہم پر بھی
یہ بیسوا تھی کسی شب نِثار ہم پر بھی
بِٹھا چکا ہے زمانہ ہمیں بھی مسند پر
ہُوا کئے ہیں جواہر نِثار ہم پر بھی
عدو کوبھی جو بنایا ہے تم نےمحرمِ راز
تو فخْر کیا، جو ہُوا اعتبار ہم پر بھی
خطا کسی کی ہو لیکن کُھلی جو اُنکی زباں
تو ہو ہی جاتے ہیں دو ایک وار ہم پر بھی
ہم ایسے رند، مگر یہ زمانہ ہے وہ غضب
کہ ڈال ہی دِیا دُنیا کا بار ہم پر بھی
ہمیں بھی آتشِ اُلفت جَلا چُکی اکبر
حرام ہوگئی دوزخ کی نار ہم پر بھی
اکبرالٰہ آبادی