بِنا لیلیٰ کوئی مجنوں دیوانہ ہو نہیں سکتا

خاکسار ایک بار پھر اپنا کلام پیش کرنے کی جرات کر رہا ہے... امید ہے کہ کلام کی ناپختگی کو در گزر فرمائیں گے اور اصلاح فر ما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں گے ....



بِنا لیلیٰ کوئی مجنوں دیوانہ ہو نہیں سکتا
بِنا اُلفت کوئی رنگیں فسانہ ہو نہیں سکتا

یہ کیسی آرزو لب پر؟ یہ آخر ماجرا کیا ہے؟
یقیں جانو، یہ اندازِ حسیناں ہو نہیں سکتا

بہاریں ہیں سکونِ جاں، خزائیں ہیں متاعِ قلب
چمن زاروں، کوئی ہم سا دیوانہ ہو نہیں سکتا

وہ مجھ سے مل نہیں سکتے وہ وعدہ کر نہیں سکتے
الہی خیر! یہ ہرگز بہانا ہو نہیں سکتا

تری نظروں میں شوخی تھی ، تری آنکھوں میں مستی تھی
گزر جاتا بِنا بہکے زمانہ، ہو نہیں سکتا

وہ رازِ روحِ اُلفت ہے، اَمانت ہے، قَسَم لے لو
بَیاں دنیا میں مجھ سے وہ فَسانہ ہو نہیں سکتا

کسی ساحر نے بتلایا، کسی مورت نے دکھلایا
ہر اک افسوں سے بچ جانا... کہا ناں ہو نہیں سکتا

کبھی خنداں، کبھی گریاں، کبھی حسرت، کبھی مضطر
سنا ہے زِندگانی سا فسانہ ہو نہیں سکتا


کلامِ ذکی انور ہمدانی
مورخہ 16 اکتوبر 2021
 
ایک اور شعر بھی موزوں ہوا تھا جسے اس کلام میں شامل کرنا مناسب نہیں معلوم ہوا....

سر محضر، سرِ مقتل، یہی ہم گنگناتے ہیں
جدا ہم سے فلسطیں کا ترانہ ہو نہیں سکتا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اچھی غزل ہے ہمدانی صاحب ۔
البتہ تکنیکی طور پر حسیناں والا قافیہ درست نہیں ۔
اسلوب کہیں کہیں کچھ ضعیف ہے لیکن وقت کے ساتھ اچھا ہو جائے گا۔ جیسے
کبھی خنداں، کبھی گریاں، کبھی حسرت، کبھی مضطر
اس مصرع میں حسرت کی موجودگی دیگر مذکورہ عناصر سے موافق نہیں ، اس کا اسم کے بجائے صفت کی طرح ہونا بہتر ہو گا۔
کبھی خنداں، کبھی گریاں، کبھی شاداں، کبھی نازاں وغیرہ ۔ (ویسے مضطر بھی اس لحاظ سےٹھیک ہی ہے )
 

الف عین

لائبریرین
یہ اگرچہ اصلاح سخن میں نہیں ہے لیکن شاعر نے اصلاح کی گزارش کی ہے، اس لئے میں بھی کچھ کہہ رہا ہوں

بِنا لیلیٰ کوئی مجنوں دیوانہ ہو نہیں سکتا
بِنا اُلفت کوئی رنگیں فسانہ ہو نہیں سکتا
... دِوانہ املا کے علاوہ تکنیکی غلطی تو کوئی نہیں، لیکن مفہوم کے اعتبار سے کچھ بات نہیں بن سکی

یہ کیسی آرزو لب پر؟ یہ آخر ماجرا کیا ہے؟
یقیں جانو، یہ اندازِ حسیناں ہو نہیں سکتا
... اس پر بات کی جا چکی ہے

بہاریں ہیں سکونِ جاں، خزائیں ہیں متاعِ قلب
چمن زاروں، کوئی ہم سا دیوانہ ہو نہیں سکتا
... یہاں بھی دوانہ قافیہ کا محل ہے، چمن زاروں سے خطاب ہے تو اس کی املا' چمن زارو!' ہونی تھی۔
لیکن اس خطاب کا محل بھی نہیں!

وہ مجھ سے مل نہیں سکتے وہ وعدہ کر نہیں سکتے
الہی خیر! یہ ہرگز بہانا ہو نہیں سکتا
... خطرے کی بات تو نہیں جو الہی خیر کہا جائے!

تری نظروں میں شوخی تھی ، تری آنکھوں میں مستی تھی
گزر جاتا بِنا بہکے زمانہ، ہو نہیں سکتا
... درست

وہ رازِ روحِ اُلفت ہے، اَمانت ہے، قَسَم لے لو
بَیاں دنیا میں مجھ سے وہ فَسانہ ہو نہیں سکتا
.... وہ فسانہ؟ کچھ ہنٹ تو دیا جائے کہ کون سا فسانہ؟

کسی ساحر نے بتلایا، کسی مورت نے دکھلایا
ہر اک افسوں سے بچ جانا... کہا ناں ہو نہیں سکتا
.... ناں کوئی لفظ نہیں، 'کہا نا' ہوتا ہے جو قافیہ نہیں بن سکتا

کبھی خنداں، کبھی گریاں، کبھی حسرت، کبھی مضطر
سنا ہے زِندگانی سا فسانہ ہو نہیں سکتا
.. اس پر بھی بھائی عاطف کہہ چکے ہیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب!
محفلِ سخن میں خوش آمدید ہمدانی صاحب! محفل پر موجود گرامی قدر اساتذہ کی رہنمائی ایک نعمت ہے ۔ آپ ضرور اس سے استفادہ کیجیے ۔
امید ہے کہ آپ اپنے کلام سے نوازتے رہیں گے ۔
 
Top