ذکی انور ہمدانی
محفلین
خاکسار ایک بار پھر اپنا کلام پیش کرنے کی جرات کر رہا ہے... امید ہے کہ کلام کی ناپختگی کو در گزر فرمائیں گے اور اصلاح فر ما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں گے ....
بِنا لیلیٰ کوئی مجنوں دیوانہ ہو نہیں سکتا
بِنا اُلفت کوئی رنگیں فسانہ ہو نہیں سکتا
یہ کیسی آرزو لب پر؟ یہ آخر ماجرا کیا ہے؟
یقیں جانو، یہ اندازِ حسیناں ہو نہیں سکتا
بہاریں ہیں سکونِ جاں، خزائیں ہیں متاعِ قلب
چمن زاروں، کوئی ہم سا دیوانہ ہو نہیں سکتا
وہ مجھ سے مل نہیں سکتے وہ وعدہ کر نہیں سکتے
الہی خیر! یہ ہرگز بہانا ہو نہیں سکتا
تری نظروں میں شوخی تھی ، تری آنکھوں میں مستی تھی
گزر جاتا بِنا بہکے زمانہ، ہو نہیں سکتا
وہ رازِ روحِ اُلفت ہے، اَمانت ہے، قَسَم لے لو
بَیاں دنیا میں مجھ سے وہ فَسانہ ہو نہیں سکتا
کسی ساحر نے بتلایا، کسی مورت نے دکھلایا
ہر اک افسوں سے بچ جانا... کہا ناں ہو نہیں سکتا
کبھی خنداں، کبھی گریاں، کبھی حسرت، کبھی مضطر
سنا ہے زِندگانی سا فسانہ ہو نہیں سکتا
کلامِ ذکی انور ہمدانی
مورخہ 16 اکتوبر 2021
بِنا لیلیٰ کوئی مجنوں دیوانہ ہو نہیں سکتا
بِنا اُلفت کوئی رنگیں فسانہ ہو نہیں سکتا
یہ کیسی آرزو لب پر؟ یہ آخر ماجرا کیا ہے؟
یقیں جانو، یہ اندازِ حسیناں ہو نہیں سکتا
بہاریں ہیں سکونِ جاں، خزائیں ہیں متاعِ قلب
چمن زاروں، کوئی ہم سا دیوانہ ہو نہیں سکتا
وہ مجھ سے مل نہیں سکتے وہ وعدہ کر نہیں سکتے
الہی خیر! یہ ہرگز بہانا ہو نہیں سکتا
تری نظروں میں شوخی تھی ، تری آنکھوں میں مستی تھی
گزر جاتا بِنا بہکے زمانہ، ہو نہیں سکتا
وہ رازِ روحِ اُلفت ہے، اَمانت ہے، قَسَم لے لو
بَیاں دنیا میں مجھ سے وہ فَسانہ ہو نہیں سکتا
کسی ساحر نے بتلایا، کسی مورت نے دکھلایا
ہر اک افسوں سے بچ جانا... کہا ناں ہو نہیں سکتا
کبھی خنداں، کبھی گریاں، کبھی حسرت، کبھی مضطر
سنا ہے زِندگانی سا فسانہ ہو نہیں سکتا
کلامِ ذکی انور ہمدانی
مورخہ 16 اکتوبر 2021