بٹ گیا ہوں میں کتنے خانوں میں- تازہ غزل

ایک تازہ غزل پیشِ خدمت ہے

بٹ گیا ہوں میں کتنے خانوں میں
گھر میں دفتر میں اور دکانوں میں

یادِ ماضی امیدِ مستقبل
جی رہا ہوں کئی زمانوں میں

کیوں زمانے میں آشکار ہوئی
بات اک تھی جو رازدانوں میں

ختم ہوگی مری اماوس کیا؟
چاند ابھریں گے آسمانوں میں

ایسے مشکوک ہو کے تکتے ہو
تم بھی شامل ہو بد گمانوں میں

سب مری ذات پر چلائے گئے
تیر جتنے بھی تھے کمانوں میں

دھوپ ،بارش، ہوا کہاں رکتی
چھید اتنے تھے سائبانوں میں

صاف لفظوں میں ترکِ الفت کر
یوں نہ الجھا مجھے بہانوں میں

کوئی جائے اماں نہ مل پائی
ڈھونڈ بیٹھا ہوں سب جہانوں میں

شوقِ سجدہ کی ہو جہاں تسکیں
در نہ پایا وہ آستانوں میں

مصلحت کوش تو جو ٹھہرا شکیل
سوز کیوں ہو ترے ترانوں میں

محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
 
جنھیں شاعری کا دعویٰ ہے وہ بھی اپنے اِس دعوے کی آبر و کا پاس و لحاظ نثر میں کہیں رکھتے نظر نہیں آتے ۔اور جو واقعی شاعر ہیں،اللہ اللہ اُن کا حسن ِ تکلم، طرزِ تحریر ، نثر کی جامہ زیبی اور دلربائی اُردُو کومکمل طور پر تباہ و برباد ہونے سے بچائے ہوئے ہے، خدا اُنھیں سلامت رکھے ۔وہ اِن دِنوں محفل میں کم کم تشریف لارہے ہیں ۔غم روزگار میں الجھے ہونگے اس لیے اد ب کی خدمات انجام دینے سے قاصر ہیں اور وضعِ احتیاط نے اُنھیں الل ٹپ کہنے سننے سے روک رکھاہوگا۔۔۔۔۔۔۔
بٹ گیا ہوں میں کتنے خانوں میں
گھر میں دفتر میں اور دکانوں میں لفظ دکانوں کو عروض ڈاٹ کام سُرخ دکھارہا ہے ۔ آپ خود یا اساتذہ ٔ کرام اِس پر روشنی ڈالیں
یادِ ماضی امیدِ مستقبل
جی رہا ہوں کئی زمانوں میں سادہ سی بات ہے آپ کیا ۔۔۔۔سب کے ساتھ یہی ماجرا ہے
کیوں زمانے میں آشکار ہوئی کیوں زمانے پہ آشکار ہوئی
بات اک تھی جو رازدانوں میں ظاہر ہے عشق اور مُشک چھپائے نہیں چھپتے لیکن یہاں بھی اب تک کی کمی محسوس ہوتی ہے بات اب تک جو تھی ۔۔۔۔۔مگر ظاہر ہے بحر گوارہ نہیں کریگی
ختم ہوگی مری اماوس کیا؟لفظ اماوس کے لیے ڈکشنری سے رجوع کرنا پڑا
چاند ابھریں گے آسمانوں میں یہاں کب کی کمی ہے
ایسے مشکوک ہو کے تکتے ہو سچی بات ہے بیانیہ بے رنگ اور پھیکا سیٹھا ہے/خوامخواہ مشکوک لفظ لایا گیا ہے شک سیدھا اور صاف لفظ تھا اور تکنا بھی بے محل ہیں دیکھنا ہی کافی تھا
تم بھی شامل ہو بد گمانوں میں کیا ہوئے تم بھی بدگمانوں میں / کچھ اس طرح کا بیانیہ چاہیے تھا
سب مری ذات پر چلائے گئے
تیر جتنے بھی تھے کمانوں میں کچھ خاص نہیں یہ شکایت تو پوری دنیا کو پوری دنیا سے ہے/اک میں ہی بُرا ہوں باقی سب لوگ اچھے ہیں
دھوپ ،بارش، ہوا کہاں رکتی
چھید اتنے تھے سائبانوں میں، واہ، ماشاء اللہ!
صاف لفظوں میں ترکِ الفت کر
یوں نہ الجھا مجھے بہانوں میں کمزور بیانیہ حیلوں میں اور بہانوں میں /کی ضرورت ہے یہاں
کوئی جائے اماں نہ مل پائی
ڈھونڈ بیٹھا ہوں سب جہانوں میں ڈھونڈ بیٹھا ہوں میرے تو خیال میں یہ اُردُو محاورے کے خلاف ہے۔ایک بس تو ہی نہیں مجھ سے خفا ہوبیٹھا،میں نے جو سنگ تراشا وہ خدا ہوبیٹھامگر اسے بھی سند کون مانے گا
شوقِ سجدہ کی ہو جہاں تسکیں
در نہ پایا وہ آستانوں میں اگر عجزِ بیاں یہ ہے کہ برمحل الفاظ کا بندش میں لانا محال تو اِس شعر میں یہی کمزوری ہے یہاں درنہ ایسا ملا کی ضرورت تھی
مصلحت کوش تو جو ٹھہرا شکیل یہاں جو کی جگہ جب کی ضرورت تھی /مصلحت کوش جب تُو۔۔۔۔۔
سوز کیوں ہو ترے ترانوں میں
سرمحمد شکیل خورؔشید صاحب!میں نے جو طورو طرزِ تبصرہ اختیار کیا ہے وہ بالکل اصلاح طلب سخنوری کے زُمرے کا سا تھا۔ ازرہِ کرم مجھے اِس تُندوتیز لب لہجے (تبصرے ) کے لیے معاف کیجیے گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ غزل پڑھ کر جو رائے قائم کی وہ عرض کردی ہے۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
جنھیں شاعری کا دعویٰ ہے وہ بھی اپنے اِس دعوے کی آبر و کا پاس و لحاظ نثر میں کہیں رکھتے نظر نہیں آتے ۔اور جو واقعی شاعر ہیں،اللہ اللہ اُن کا حسن ِ تکلم، طرزِ تحریر ، نثر کی جامہ زیبی اور دلربائی اُردُو کومکمل طور پر تباہ و برباد ہونے سے بچائے ہوئے ہے، خدا اُنھیں سلامت رکھے ۔وہ اِن دِنوں محفل میں کم کم تشریف لارہے ہیں ۔غم روزگار میں الجھے ہونگے اس لیے اد ب کی خدمات انجام دینے سے قاصر ہیں اور وضعِ احتیاط نے اُنھیں الل ٹپ کہنے سننے سے روک رکھاہوگا۔۔۔۔۔۔۔
بٹ گیا ہوں میں کتنے خانوں میں
گھر میں دفتر میں اور دکانوں میں لفظ دکانوں کو عروض ڈاٹ کام سُرخ دکھارہا ہے ۔ آپ خود یا اساتذہ ٔ کرام اِس پر روشنی ڈالیں
یادِ ماضی امیدِ مستقبل
جی رہا ہوں کئی زمانوں میں سادہ سی بات ہے آپ کیا ۔۔۔۔سب کے ساتھ یہی ماجرا ہے
کیوں زمانے میں آشکار ہوئی کیوں زمانے پہ آشکار ہوئی
بات اک تھی جو رازدانوں میں ظاہر ہے عشق اور مُشک چھپائے نہیں چھپتے لیکن یہاں بھی اب تک کی کمی محسوس ہوتی ہے بات اب تک جو تھی ۔۔۔۔۔مگر ظاہر ہے بحر گوارہ نہیں کریگی
ختم ہوگی مری اماوس کیا؟لفظ اماوس کے لیے ڈکشنری سے رجوع کرنا پڑا
چاند ابھریں گے آسمانوں میں یہاں کب کی کمی ہے
ایسے مشکوک ہو کے تکتے ہو سچی بات ہے بیانیہ بے رنگ اور پھیکا سیٹھا ہے/خوامخواہ مشکوک لفظ لایا گیا ہے شک سیدھا اور صاف لفظ تھا اور تکنا بھی بے محل ہیں دیکھنا ہی کافی تھا
تم بھی شامل ہو بد گمانوں میں کیا ہوئے تم بھی بدگمانوں میں / کچھ اس طرح کا بیانیہ چاہیے تھا
سب مری ذات پر چلائے گئے
تیر جتنے بھی تھے کمانوں میں کچھ خاص نہیں یہ شکایت تو پوری دنیا کو پوری دنیا سے ہے/اک میں ہی بُرا ہوں باقی سب لوگ اچھے ہیں
دھوپ ،بارش، ہوا کہاں رکتی
چھید اتنے تھے سائبانوں میں، واہ، ماشاء اللہ!
صاف لفظوں میں ترکِ الفت کر
یوں نہ الجھا مجھے بہانوں میں کمزور بیانیہ حیلوں میں اور بہانوں میں /کی ضرورت ہے یہاں
کوئی جائے اماں نہ مل پائی
ڈھونڈ بیٹھا ہوں سب جہانوں میں ڈھونڈ بیٹھا ہوں میرے تو خیال میں یہ اُردُو محاورے کے خلاف ہے۔ایک بس تو ہی نہیں مجھ سے خفا ہوبیٹھا،میں نے جو سنگ تراشا وہ خدا ہوبیٹھامگر اِس سند کہنے میں بھی عار ہے
شوقِ سجدہ کی ہو جہاں تسکیں
در نہ پایا وہ آستانوں میں اگر عجزِ بیاں یہ ہے کہ برمحل الفاظ کا بندش میں لانا محال تو اِس شعر میں یہی کمزوری ہے یہاں درنہ ایسا ملا کی ضرورت تھی
مصلحت کوش تو جو ٹھہرا شکیل یہاں جو کی جگہ جب کی ضرورت تھی
سوز کیوں ہو ترے ترانوں میں
سرمحمد شکیل خورؔشید صاحب!میں نے جو طورو طرزِ تبصرہ اختیار کیا ہے وہ بالکل اصلاح طلب سخنوری کے زُمرے کا سا تھا۔ ازرہِ کرم مجھے اِس تُندوتیز لب لہجے (تبصرے ) کے لیے معاف کیجیے گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ غزل پڑھ کر جو رائے قائم کی وہ عرض کردی ہے۔۔۔۔
ہمارا طرز تکلم ہماری شخصیت کا عکاس ہوتا ہے۔ مجھے آپ کی شخصیت پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ، جزاک اللّہ خیرا
 

الف عین

لائبریرین
بٹ گیا ہوں میں کتنے خانوں میں
گھر میں دفتر میں اور دکانوں میں لفظ دکانوں کو عروض ڈاٹ کام سُرخ دکھارہا ہے ۔ آپ خود یا اساتذہ ٔ کرام اِس پر روشنی ڈالیں
عروض ڈاٹ کام شاید لفظ دکان کی جگہ دوکان، یا دکّان سے زیادہ واقفیت رکھتا ہے۔
ویسے اصلاح کی نیت سے دیکھا جائے تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کتنی دوکانیں؟ عام طور پر ایک شخص کی ایک ہی دوکان/دکان ہو سکتی ہے، لیکن کئی کئی بھی امکان سے بعید نہیں
 
ایک تازہ غزل پیشِ خدمت ہے

بٹ گیا ہوں میں کتنے خانوں میں
گھر میں دفتر میں اور دکانوں میں

یادِ ماضی امیدِ مستقبل
جی رہا ہوں کئی زمانوں میں

کیوں زمانے میں آشکار ہوئی
بات اک تھی جو رازدانوں میں

ختم ہوگی مری اماوس کیا؟
چاند ابھریں گے آسمانوں میں

ایسے مشکوک ہو کے تکتے ہو
تم بھی شامل ہو بد گمانوں میں

سب مری ذات پر چلائے گئے
تیر جتنے بھی تھے کمانوں میں

دھوپ ،بارش، ہوا کہاں رکتی
چھید اتنے تھے سائبانوں میں

صاف لفظوں میں ترکِ الفت کر
یوں نہ الجھا مجھے بہانوں میں

کوئی جائے اماں نہ مل پائی
ڈھونڈ بیٹھا ہوں سب جہانوں میں

شوقِ سجدہ کی ہو جہاں تسکیں
در نہ پایا وہ آستانوں میں

مصلحت کوش تو جو ٹھہرا شکیل
سوز کیوں ہو ترے ترانوں میں

محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
زندگی کی امیدوں میں
مرگیا میں زمانوں میں
 
عروض ڈاٹ کام شاید لفظ دکان کی جگہ دوکان، یا دکّان سے زیادہ واقفیت رکھتا ہے۔
ویسے اصلاح کی نیت سے دیکھا جائے تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کتنی دوکانیں؟ عام طور پر ایک شخص کی ایک ہی دوکان/دکان ہو سکتی ہے، لیکن کئی کئی بھی امکان سے بعید نہیں
شکریہ استاد محترم!
میں نے دکانوں کا لفظ یہاں مالی معاملات کے استعارے کے طور پر استعمال کیا تھا، جو ظاہر ہے جمع کے صیغے میں ہی ہوتے ہیں ۔
اپنی شاعری کہیں بھی پیش کرنے سے پہلے میں بھی عروض ڈاٹ کام سے مدد لیتا ہوں اس موقع پر وہاں سرخ نشان دہی پر فیروز اللغات اردو سے تصدیق کرکے ہی یہاں پیش کیا تھا ۔ آپ کی قبولیت سے مزید مہر اعتبار ثبت ہوگئی
جزاک اللّہ
 
Top