محمد شکیل خورشید
محفلین
ایک تازہ غزل پیشِ خدمت ہے
بٹ گیا ہوں میں کتنے خانوں میں
گھر میں دفتر میں اور دکانوں میں
یادِ ماضی امیدِ مستقبل
جی رہا ہوں کئی زمانوں میں
کیوں زمانے میں آشکار ہوئی
بات اک تھی جو رازدانوں میں
ختم ہوگی مری اماوس کیا؟
چاند ابھریں گے آسمانوں میں
ایسے مشکوک ہو کے تکتے ہو
تم بھی شامل ہو بد گمانوں میں
سب مری ذات پر چلائے گئے
تیر جتنے بھی تھے کمانوں میں
دھوپ ،بارش، ہوا کہاں رکتی
چھید اتنے تھے سائبانوں میں
صاف لفظوں میں ترکِ الفت کر
یوں نہ الجھا مجھے بہانوں میں
کوئی جائے اماں نہ مل پائی
ڈھونڈ بیٹھا ہوں سب جہانوں میں
شوقِ سجدہ کی ہو جہاں تسکیں
در نہ پایا وہ آستانوں میں
مصلحت کوش تو جو ٹھہرا شکیل
سوز کیوں ہو ترے ترانوں میں
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
بٹ گیا ہوں میں کتنے خانوں میں
گھر میں دفتر میں اور دکانوں میں
یادِ ماضی امیدِ مستقبل
جی رہا ہوں کئی زمانوں میں
کیوں زمانے میں آشکار ہوئی
بات اک تھی جو رازدانوں میں
ختم ہوگی مری اماوس کیا؟
چاند ابھریں گے آسمانوں میں
ایسے مشکوک ہو کے تکتے ہو
تم بھی شامل ہو بد گمانوں میں
سب مری ذات پر چلائے گئے
تیر جتنے بھی تھے کمانوں میں
دھوپ ،بارش، ہوا کہاں رکتی
چھید اتنے تھے سائبانوں میں
صاف لفظوں میں ترکِ الفت کر
یوں نہ الجھا مجھے بہانوں میں
کوئی جائے اماں نہ مل پائی
ڈھونڈ بیٹھا ہوں سب جہانوں میں
شوقِ سجدہ کی ہو جہاں تسکیں
در نہ پایا وہ آستانوں میں
مصلحت کوش تو جو ٹھہرا شکیل
سوز کیوں ہو ترے ترانوں میں
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر