حسیب احمد حسیب
محفلین
بچوں کا بڑا ادیب
ادب کی جس صنف کو اردو والوں نے سب سے زیادہ نظر انداز کیا ہے وہ بچوں کا ادب ہے .....
تمام اصناف ادب کا مطالعہ کر جائیے سب سے کم کام اسی حوالے سے ملے گا اگر ہم یہ کہیں کہ اردو ادب میں اسلامی تاریخ کو نسیم حجازی مرحوم تصوف کی چاشنی کو اشفاق احمد سری ادب کو ابن صفی اور بچوں کے ادب کو اشتیاق احمد مرحوم نے زندہ رکھا تو کچھ غلط نہ ہوگا ....
کیا کوئی ایسا نوجوان اس دور میں تھا کہ جو ان حضرات سے گزرے بغیر عمر کی اگلی منزلوں میں داخل ہوا ہو بچپن میں اشتیاق احمد جوانی میں ابن صفی اور پختہ فکری میں اشفاق احمد کی معرفت سے لبریز تحاریر نے ایک حب الوطن اور سلیم الفطرات معاشرے کی تشکیل میں جو کردار ادا کیا اس کا انکار کرنا سچائی سے نگاہیں چرانا ہے .......
اشتیاق صاحب مرحوم سے ابتدائی تعارف نونہال کے توسط سے ہوا اور پھر یہ تعلق کچھ دیر قائم رہا پھر ابن صفی نے کافی عرصۂ جکڑے رکھا اور پھر ہم اشفاق احمد اور قدرت الله شہاب کی دنیا میں داخل ہو گئے .
اشتیاق صاحب کی خوبی یہ تھی کہ وہ تحریر کو بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق رکھتے تھے چاشنی ایسی کہ آخر تک دلچسپی قائم رہے اور پرواز تخیل کا یہ عالم کہ قاری کو کسی دوسری دنیا کی سیر کروا دے آج کے دور میں تھری ڈی انیمیشن نے جہاں ایک انقلاب بپا کر رکھا ہے اور ہر وہ شے جو تخیل کے دائرہ کار میں آتی ہے تصور کے پردے سے نکل کر تصویر بن جاتی ہے ایک بھاری نقصان یہ ہوا کہ ہماری جدید نسل کی پرواز تخیل محدود ہو گئی یعنی جو کچھ اسے دکھایا جاتا ہے وہ اس منظر نامے میں کھو جاتا ہے لیکن اپنے تخیل کو متحرک کرنے سے قاصر رہتا ہے ......
اس دور کے ادیب چاہے وہ بابا اشفاق احمد ہوں یا نسیم حجازی جیسے داستان گو ابن صفی کی چہکتی ہوئی لکیریں ہوں یا اشتیاق احمد کا تخیل، کردار سازی کو ہمیشہ خاص اہمیت حاصل رہی ہے قومی اور ملی جذبات کا خاص خیال رکھا جاتا رہا ہے اور مذہبی اور اخلاقی اقدار ہمیشہ اپنی پوری رنگت اور ساخت کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں .......
اشتیاق صاحب مرحوم کی مناسبت اپنے وطن اپنے دین معاشرتی اخلاقیات اور روایت سے انتہائی گہری تھی اور یہی تربیت آپ نے اپنے ننھے منھے معصوم قارئین کو بھی دینے کی کوشش کی اور ہم کہ سکتے ہیں کہ اس کام میں مالک الملک کی رضا بھی ان کے ساتھ رہی لیکن دور جدید کے کچھ خود ساختہ مفکرین کے نزدیک یہی ان کا جرم ہے .....
اشتیاق صاحب کے انتقال کے بعد محترم جناب یاسر پیرزادہ صاحب کا ایک کالم نگاہ سے گزرا عنوان تھا " جیرال کا منصوبہ " حیرت ہوئی کہ کیا کسی مرحوم لکھاری کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایسا بھونڈا عنوان بھی اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن کیا کیجئے ......
اکثر ایک محاورہ سنتے آئے ہیں دودھ میں مینگنیاں ڈالنا موصوف کی تحریر پڑھ کر پہلی بار یہ محاورہ اپنی مکمل معنویت کے ساتھ آشکار ہوا .....
کہیں موصوف اشتیاق احمد صاحب کی کردار نگاری سے نالاں ہیں لیکن یہ بھی فرماتے ہیں کہ اشتیاق صاحب کے ناولوں نے ایک طویل عرصے انھیں اپنے سحر میں جکڑے رکھا کہیں موصوف انکے ناولز میں موجود سائنس فکشن کی توجیہ کرنے سے قاصر ہیں ویسے عجیب بات یہ ہے کہ موصوف نہ تو سائنس دان ہیں نہ ہی ناول نگار ہیں ہاں کالم نگار ہونے کے دعوے دار ضرور ہیں سائنس فکشن کی اعلی ترین شکل ہی وہ ہے کہ جسکی توجیہ اس دور میں ممکن نہ ہو کہ جب وہ لکھا جا رہا ہو انگریزی ادب کے قاری اس امر سے بخوبی واقف ہیں ........
جناب پیرزادہ صاحب کو سب سے زیادہ اعتراض اشتیاق صاحب کی دینی فکر پر ہے وہ اس بات سے انتہائی نالاں دکھائی دیتے ہیں کہ اشتیاق احمد مرحوم اپنی " دو باتوں " میں ایک مصلح اور اور مدرس کا رویہ کیوں اختیار کر لیتے ہیں ........
" ناول پڑھنے سے پہلے یہ دیکھ لیجئے کہ کہیں نماز کا وقت تو نہیں ......
آپ کی پڑھائی کا ٹائم تو نہیں ہو گیا ...
گھر والوں نے کہیں آپ کے ذمے کوئی کام تو نہیں سونپ رکھا ......
اگر ایسا ہے تو ناول کو الماری میں رکھئے اور پہلی اپنی دینی اخلاقی اور گھریلو ذمے داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کیجئے "
اب جناب پیر زادہ صاحب کو کون سمجھائے کہ حضرت ان نصیحتوں کو سگریٹ کے ڈبے پر لکھی اس تحریر سے تشبیہ دیتے ہیں کہ جو سگرٹ نوشی روکنے کی منافقانہ بات کرتی ہے ........
جی ہاں جناب آپ کے نزدیک شاید اشتیاق صاحب کے ناول تمباکو کی طرح ہی مضر ہیں
نماز کا کہنے پر آپ کا چیں بجبیں ہونا بلکل بنتا ہے کہ آپ پیرزادگی کے اس مقام پر ہیں کہ جہاں نماز جیسی ازافتوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور بچوں کی تعلیمی مصروفیات بھی کوئی ایسی چیز نہیں کہ جن کو پر کاہ کی اہمیت بھی دی جاوے جہاں تک بات ہے گھریلو کام کاج تو جن کے منہ میں سونے کے نوالے ہوں وہ مڈل اور نچلی کلاس کی ان مجبوریوں کو کیا سمجھیں .........
پیر زادہ صاحب کے نزدیک اشتیاق صاحب نے مذہبی منافرت کو بھی جنم دیا بات دراصل یہ ہے کہ موصوف نے مذھب کی بات ہی کیوں کی دراصل یہی ان کا جرم ٹھہرا ........
اب کچھ اشتیاق صاحب مرحوم کی اپنی زبانی انکی دین سے مناسبت کی بات ہو جائے
اپنے ایک کالم " آپ بھی یہ شوق پالیں " میں لکھتے ہیں
سنتوں پر عمل کرنے کا شوق بھی عجیب مزیدار شوق ہے ... یوں کہہ لیں یہ جستجو کی ایک نئی دنیا ہے اور جوں جوں آپ اس دنیا کے سمندر میں اترتے جاتے ہیں ...اتنی ہی زندگی زیادہ مزے دار لگنے لگتی ہے... 1982ء تک میں نے ڈاڑھی نہیں رکھی تھی ... روزانہ شیو کرتاتھا ... 1982 ء میں حج کے لیے گیا تو بھی ڈاڑھی نہ رکھی ... حج کے دنوں میں وہاں شیو تو نہیں کی، لیکن حج سے واپسی آتے ہی پھر شیو شروع کر دی ...لیکن پھر کیا ہوا ... ایک دن صبح سویرے شیو کرنے کی تیاری شروع کی ... گالوں پر صابن لگایا، پھر ریزر اٹھایا، لیکن ہاتھ گال تک نہ گیا ... اٹھا کا اٹھا رہ گیا ... خود وہیں آئینے کے سامنے کھڑا کا کھڑا رہ گیا... اس روز ریزر گال تک نہ آسکا ... نہ جانے کیا ہو گیا تھا ... کبھی کسی نے کہا تک نہیں تھا کہ ڈاڑھی رکھ لو... پھر دوسرے دن بھی شیونہ کی ... تیسرے دن بھی شیو نہ کی ... بیو ی کہنے لگی : ’’کیا بات ہے، آپ آج کل شیو نہیں کر رہے۔‘‘ جواب دیا : ’’جی نہیں چاہ رہا ... کرلوں گا جب جی چاہے گا۔‘‘ کئی دن گزرگئے ... شیوکرنے کو جی نہ چاہا اور اس طرح ڈاڑھی رکھ لی ... لیکن ایک بہت عجیب سوال ذہن میں ابھرا۔
’’ڈاڑھی رکھی کیسی جائے ... جدھر نظر جاتی ہے ... نئی طرح کی ڈاڑھی نظر آتی ہے ... اگربیس ڈاڑھیوں والے ایک جگہ جمع کر دیے جائیں ... اور ان کی ڈاڑھیوں کو دیکھا جائے تو سب کی مختلف نظر آئیں گی ... اس سوال نے بہت چکرایا ... خیرا لمدارس ملتان کے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق جالندھری صاحب سے انھی دنوں نئی نئی علیک سلیک شروع ہوئی تھی ... وہ جھنگ میں جمعہ پڑھانے آتے تھے ... اور میں ان کا خطبہ سناکرتاتھا ... ایک دن جمعے کے بعد ان سے ذکر کیا ... کہنے لگے : ’’یہ دیکھو ... ایسی رکھو۔‘‘
اسی طرح ڈاڑھی رکھ لی ... انھی دنوں ایک چھوٹی سی کتاب خریدی نام تھا علیکم بسنتی، میری سنتوں پر عمل کرو، اس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے ناشتے کا ذکر تھا کہ آپ کبھی کبھی رات کو چھوہارے پانی میں بھگو دیتے تھے اور صبح اٹھ کر اس پانی کو پی لیتے تھے ... یہ گویا آپ کا ناشتا تھا، ناشتے سے پہلے آپ یہ پانی پیتے تھے ... یہ پڑھا تو خود سے کہا: ’’میں نے تو آج تک یہ ناشتا کیا ہی نہیں۔‘‘
بازار گیا، چھوہارے خریدے ... رات کو سونے سے پہلے ان کو توڑکر پانی میں بھگودیا اور برتن ڈھانپ دیا ... صبح اٹھا تو ایسے ہی برتن کومنہ سے لگا لیا ... یہ خیال ہی نہ رہا کہ پہلے اس پانی کو ہلا تو لیا جائے... پہلا گھونٹ بھرا بہت ہلکا سا میٹھا محسوس ہوا، دوسرا بھر اتو اس سے قدرے زیادہ میٹھا لگا ... تیسرا اس سے زیادہ ... یہاں تک کہ آخری گھونٹ لیا تو محسوس ہوا، میں نے آج دنیا کی لذیذ ترین چیز پی ہے... اس سے سنتوں کی تڑپ میں اضافہ ہوا ... اب ہروقت ہرآن یہ فکر رہنے لگی ...
’’یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کس طرح کیا کرتے تھے ... یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کس طرح کیا کرتے تھے، غرض جو کام بھی کرنے لگتا پہلے سوچتا کہ اس کا م کا سنت طریقہ کیا ہے... کتابوں میں بہت سی باتیں تلاش کے باوجودنہیں ملتیں ... ان کے لیے علمائے کرام سے رجوع کرنا پڑتا ہے ... لہٰذا مولانا صدیق صاحب ... اور اپنے شہر کے علما سے پوچھنے لگا۔ دیکھا جائے تو یہ سنتوں پر عمل کرنے کی برکت تھی کہ بچوں کا اسلام کا مدیر بن گیا ... ورنہ میں نے تو کسی مدرسے میں پڑھا ہی نہیں تھا... ویسے بھی صرف میٹرک کیا تھا ... میٹرک سے آگے کالج کی تعلیم بھی حاصل نہیں کر سکا تھا ...
ایک مثال سناتاہوں ... پچھلے دنوں تشہد کے دوران انگلی اٹھانا اور پھر جھکانا میرے لیے مسئلہ بن گیا... جس کی طرف بھی دیکھا ... انداز مختلف ہی پایا ... سنتوں کے موضوع پر نو کتابیں پہلے ہی موجود تھیں ... کچھ اور حاصل کرلیں اور ان میں تلاش کرنے لگا ... آخر سنت ِ حبیب نامی کتاب میں بہت وضاحت سے یہ موضوع مل گیا ... اس کے بعد کہیں جا کر مطمئن ہو ا ...
اور جب میں نے صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کا مطالعہ شروع کیا ... تو حیرت انگیز حد تک خوشی اس بات کی ہوئی کہ صحابہ کرام بھی سنتوں پر چلنے اور عمل کرنے کے انتہائی درجوں کے شوقین تھے... ان سے بڑھ کر تو خیر کون شوقین ہو گا ... یعنی آپ انتہا ملاحظہ فرمائیں ... حضرت عبداللہ بن عمرؓ جب مدینہ منورہ سے مکّہ معظمہ جاتے تو ایک درخت کے نیچے آرام فرمایا کرتے، کسی نے پوچھا : ’’آپ جب بھی مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جاتے ہیں، اس درخت کے نیچے آرام کرتے ہیں، کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں آرام فرماتے دیکھا ہے ... اسی لیے میں بھی یہاں آرام کرتاہوں۔‘‘ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ کو اس درخت سے بہت محبت تھی ... اسے پانی بھی دیا کرتے تھے کہ وہ کہیں سوکھ نہ جائے۔ ایک روز سفر کے دوران حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا : ’’تم ذرا ٹھہرو! میں ابھی آتاہوں۔‘‘
یہ فرما کر آپ کچھ فاصلے پر چلے گئے ...وہاں جا کر آپ نے پیشاب کیا ... پھر واپس آکر فرمایا : ’’ایک مرتبہ سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اس جگہ پیشاب کیا تھا۔‘‘ ان حضرات تک تو خیر کون پہنچ سکتا ہے ... بہرحال سنتوں کی تلاش کا شوق بہت ہی مزے دار شوق ہے... اگر آپ اپنی زندگی کو مزے دار بنانا چاہتے ہیں تو سنتوں کی تلاش شروع کر دیں ... بہت مزہ آئے گا...
آج اشتیاق احمد صاحب کے حوالے سے بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے
ڈھونڈینگے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہو تم ...
حسیب احمد حسیب
ادب کی جس صنف کو اردو والوں نے سب سے زیادہ نظر انداز کیا ہے وہ بچوں کا ادب ہے .....
تمام اصناف ادب کا مطالعہ کر جائیے سب سے کم کام اسی حوالے سے ملے گا اگر ہم یہ کہیں کہ اردو ادب میں اسلامی تاریخ کو نسیم حجازی مرحوم تصوف کی چاشنی کو اشفاق احمد سری ادب کو ابن صفی اور بچوں کے ادب کو اشتیاق احمد مرحوم نے زندہ رکھا تو کچھ غلط نہ ہوگا ....
کیا کوئی ایسا نوجوان اس دور میں تھا کہ جو ان حضرات سے گزرے بغیر عمر کی اگلی منزلوں میں داخل ہوا ہو بچپن میں اشتیاق احمد جوانی میں ابن صفی اور پختہ فکری میں اشفاق احمد کی معرفت سے لبریز تحاریر نے ایک حب الوطن اور سلیم الفطرات معاشرے کی تشکیل میں جو کردار ادا کیا اس کا انکار کرنا سچائی سے نگاہیں چرانا ہے .......
اشتیاق صاحب مرحوم سے ابتدائی تعارف نونہال کے توسط سے ہوا اور پھر یہ تعلق کچھ دیر قائم رہا پھر ابن صفی نے کافی عرصۂ جکڑے رکھا اور پھر ہم اشفاق احمد اور قدرت الله شہاب کی دنیا میں داخل ہو گئے .
اشتیاق صاحب کی خوبی یہ تھی کہ وہ تحریر کو بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق رکھتے تھے چاشنی ایسی کہ آخر تک دلچسپی قائم رہے اور پرواز تخیل کا یہ عالم کہ قاری کو کسی دوسری دنیا کی سیر کروا دے آج کے دور میں تھری ڈی انیمیشن نے جہاں ایک انقلاب بپا کر رکھا ہے اور ہر وہ شے جو تخیل کے دائرہ کار میں آتی ہے تصور کے پردے سے نکل کر تصویر بن جاتی ہے ایک بھاری نقصان یہ ہوا کہ ہماری جدید نسل کی پرواز تخیل محدود ہو گئی یعنی جو کچھ اسے دکھایا جاتا ہے وہ اس منظر نامے میں کھو جاتا ہے لیکن اپنے تخیل کو متحرک کرنے سے قاصر رہتا ہے ......
اس دور کے ادیب چاہے وہ بابا اشفاق احمد ہوں یا نسیم حجازی جیسے داستان گو ابن صفی کی چہکتی ہوئی لکیریں ہوں یا اشتیاق احمد کا تخیل، کردار سازی کو ہمیشہ خاص اہمیت حاصل رہی ہے قومی اور ملی جذبات کا خاص خیال رکھا جاتا رہا ہے اور مذہبی اور اخلاقی اقدار ہمیشہ اپنی پوری رنگت اور ساخت کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں .......
اشتیاق صاحب مرحوم کی مناسبت اپنے وطن اپنے دین معاشرتی اخلاقیات اور روایت سے انتہائی گہری تھی اور یہی تربیت آپ نے اپنے ننھے منھے معصوم قارئین کو بھی دینے کی کوشش کی اور ہم کہ سکتے ہیں کہ اس کام میں مالک الملک کی رضا بھی ان کے ساتھ رہی لیکن دور جدید کے کچھ خود ساختہ مفکرین کے نزدیک یہی ان کا جرم ہے .....
اشتیاق صاحب کے انتقال کے بعد محترم جناب یاسر پیرزادہ صاحب کا ایک کالم نگاہ سے گزرا عنوان تھا " جیرال کا منصوبہ " حیرت ہوئی کہ کیا کسی مرحوم لکھاری کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایسا بھونڈا عنوان بھی اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن کیا کیجئے ......
اکثر ایک محاورہ سنتے آئے ہیں دودھ میں مینگنیاں ڈالنا موصوف کی تحریر پڑھ کر پہلی بار یہ محاورہ اپنی مکمل معنویت کے ساتھ آشکار ہوا .....
کہیں موصوف اشتیاق احمد صاحب کی کردار نگاری سے نالاں ہیں لیکن یہ بھی فرماتے ہیں کہ اشتیاق صاحب کے ناولوں نے ایک طویل عرصے انھیں اپنے سحر میں جکڑے رکھا کہیں موصوف انکے ناولز میں موجود سائنس فکشن کی توجیہ کرنے سے قاصر ہیں ویسے عجیب بات یہ ہے کہ موصوف نہ تو سائنس دان ہیں نہ ہی ناول نگار ہیں ہاں کالم نگار ہونے کے دعوے دار ضرور ہیں سائنس فکشن کی اعلی ترین شکل ہی وہ ہے کہ جسکی توجیہ اس دور میں ممکن نہ ہو کہ جب وہ لکھا جا رہا ہو انگریزی ادب کے قاری اس امر سے بخوبی واقف ہیں ........
جناب پیرزادہ صاحب کو سب سے زیادہ اعتراض اشتیاق صاحب کی دینی فکر پر ہے وہ اس بات سے انتہائی نالاں دکھائی دیتے ہیں کہ اشتیاق احمد مرحوم اپنی " دو باتوں " میں ایک مصلح اور اور مدرس کا رویہ کیوں اختیار کر لیتے ہیں ........
" ناول پڑھنے سے پہلے یہ دیکھ لیجئے کہ کہیں نماز کا وقت تو نہیں ......
آپ کی پڑھائی کا ٹائم تو نہیں ہو گیا ...
گھر والوں نے کہیں آپ کے ذمے کوئی کام تو نہیں سونپ رکھا ......
اگر ایسا ہے تو ناول کو الماری میں رکھئے اور پہلی اپنی دینی اخلاقی اور گھریلو ذمے داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کیجئے "
اب جناب پیر زادہ صاحب کو کون سمجھائے کہ حضرت ان نصیحتوں کو سگریٹ کے ڈبے پر لکھی اس تحریر سے تشبیہ دیتے ہیں کہ جو سگرٹ نوشی روکنے کی منافقانہ بات کرتی ہے ........
جی ہاں جناب آپ کے نزدیک شاید اشتیاق صاحب کے ناول تمباکو کی طرح ہی مضر ہیں
نماز کا کہنے پر آپ کا چیں بجبیں ہونا بلکل بنتا ہے کہ آپ پیرزادگی کے اس مقام پر ہیں کہ جہاں نماز جیسی ازافتوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور بچوں کی تعلیمی مصروفیات بھی کوئی ایسی چیز نہیں کہ جن کو پر کاہ کی اہمیت بھی دی جاوے جہاں تک بات ہے گھریلو کام کاج تو جن کے منہ میں سونے کے نوالے ہوں وہ مڈل اور نچلی کلاس کی ان مجبوریوں کو کیا سمجھیں .........
پیر زادہ صاحب کے نزدیک اشتیاق صاحب نے مذہبی منافرت کو بھی جنم دیا بات دراصل یہ ہے کہ موصوف نے مذھب کی بات ہی کیوں کی دراصل یہی ان کا جرم ٹھہرا ........
اب کچھ اشتیاق صاحب مرحوم کی اپنی زبانی انکی دین سے مناسبت کی بات ہو جائے
اپنے ایک کالم " آپ بھی یہ شوق پالیں " میں لکھتے ہیں
سنتوں پر عمل کرنے کا شوق بھی عجیب مزیدار شوق ہے ... یوں کہہ لیں یہ جستجو کی ایک نئی دنیا ہے اور جوں جوں آپ اس دنیا کے سمندر میں اترتے جاتے ہیں ...اتنی ہی زندگی زیادہ مزے دار لگنے لگتی ہے... 1982ء تک میں نے ڈاڑھی نہیں رکھی تھی ... روزانہ شیو کرتاتھا ... 1982 ء میں حج کے لیے گیا تو بھی ڈاڑھی نہ رکھی ... حج کے دنوں میں وہاں شیو تو نہیں کی، لیکن حج سے واپسی آتے ہی پھر شیو شروع کر دی ...لیکن پھر کیا ہوا ... ایک دن صبح سویرے شیو کرنے کی تیاری شروع کی ... گالوں پر صابن لگایا، پھر ریزر اٹھایا، لیکن ہاتھ گال تک نہ گیا ... اٹھا کا اٹھا رہ گیا ... خود وہیں آئینے کے سامنے کھڑا کا کھڑا رہ گیا... اس روز ریزر گال تک نہ آسکا ... نہ جانے کیا ہو گیا تھا ... کبھی کسی نے کہا تک نہیں تھا کہ ڈاڑھی رکھ لو... پھر دوسرے دن بھی شیونہ کی ... تیسرے دن بھی شیو نہ کی ... بیو ی کہنے لگی : ’’کیا بات ہے، آپ آج کل شیو نہیں کر رہے۔‘‘ جواب دیا : ’’جی نہیں چاہ رہا ... کرلوں گا جب جی چاہے گا۔‘‘ کئی دن گزرگئے ... شیوکرنے کو جی نہ چاہا اور اس طرح ڈاڑھی رکھ لی ... لیکن ایک بہت عجیب سوال ذہن میں ابھرا۔
’’ڈاڑھی رکھی کیسی جائے ... جدھر نظر جاتی ہے ... نئی طرح کی ڈاڑھی نظر آتی ہے ... اگربیس ڈاڑھیوں والے ایک جگہ جمع کر دیے جائیں ... اور ان کی ڈاڑھیوں کو دیکھا جائے تو سب کی مختلف نظر آئیں گی ... اس سوال نے بہت چکرایا ... خیرا لمدارس ملتان کے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق جالندھری صاحب سے انھی دنوں نئی نئی علیک سلیک شروع ہوئی تھی ... وہ جھنگ میں جمعہ پڑھانے آتے تھے ... اور میں ان کا خطبہ سناکرتاتھا ... ایک دن جمعے کے بعد ان سے ذکر کیا ... کہنے لگے : ’’یہ دیکھو ... ایسی رکھو۔‘‘
اسی طرح ڈاڑھی رکھ لی ... انھی دنوں ایک چھوٹی سی کتاب خریدی نام تھا علیکم بسنتی، میری سنتوں پر عمل کرو، اس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے ناشتے کا ذکر تھا کہ آپ کبھی کبھی رات کو چھوہارے پانی میں بھگو دیتے تھے اور صبح اٹھ کر اس پانی کو پی لیتے تھے ... یہ گویا آپ کا ناشتا تھا، ناشتے سے پہلے آپ یہ پانی پیتے تھے ... یہ پڑھا تو خود سے کہا: ’’میں نے تو آج تک یہ ناشتا کیا ہی نہیں۔‘‘
بازار گیا، چھوہارے خریدے ... رات کو سونے سے پہلے ان کو توڑکر پانی میں بھگودیا اور برتن ڈھانپ دیا ... صبح اٹھا تو ایسے ہی برتن کومنہ سے لگا لیا ... یہ خیال ہی نہ رہا کہ پہلے اس پانی کو ہلا تو لیا جائے... پہلا گھونٹ بھرا بہت ہلکا سا میٹھا محسوس ہوا، دوسرا بھر اتو اس سے قدرے زیادہ میٹھا لگا ... تیسرا اس سے زیادہ ... یہاں تک کہ آخری گھونٹ لیا تو محسوس ہوا، میں نے آج دنیا کی لذیذ ترین چیز پی ہے... اس سے سنتوں کی تڑپ میں اضافہ ہوا ... اب ہروقت ہرآن یہ فکر رہنے لگی ...
’’یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کس طرح کیا کرتے تھے ... یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کس طرح کیا کرتے تھے، غرض جو کام بھی کرنے لگتا پہلے سوچتا کہ اس کا م کا سنت طریقہ کیا ہے... کتابوں میں بہت سی باتیں تلاش کے باوجودنہیں ملتیں ... ان کے لیے علمائے کرام سے رجوع کرنا پڑتا ہے ... لہٰذا مولانا صدیق صاحب ... اور اپنے شہر کے علما سے پوچھنے لگا۔ دیکھا جائے تو یہ سنتوں پر عمل کرنے کی برکت تھی کہ بچوں کا اسلام کا مدیر بن گیا ... ورنہ میں نے تو کسی مدرسے میں پڑھا ہی نہیں تھا... ویسے بھی صرف میٹرک کیا تھا ... میٹرک سے آگے کالج کی تعلیم بھی حاصل نہیں کر سکا تھا ...
ایک مثال سناتاہوں ... پچھلے دنوں تشہد کے دوران انگلی اٹھانا اور پھر جھکانا میرے لیے مسئلہ بن گیا... جس کی طرف بھی دیکھا ... انداز مختلف ہی پایا ... سنتوں کے موضوع پر نو کتابیں پہلے ہی موجود تھیں ... کچھ اور حاصل کرلیں اور ان میں تلاش کرنے لگا ... آخر سنت ِ حبیب نامی کتاب میں بہت وضاحت سے یہ موضوع مل گیا ... اس کے بعد کہیں جا کر مطمئن ہو ا ...
اور جب میں نے صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کا مطالعہ شروع کیا ... تو حیرت انگیز حد تک خوشی اس بات کی ہوئی کہ صحابہ کرام بھی سنتوں پر چلنے اور عمل کرنے کے انتہائی درجوں کے شوقین تھے... ان سے بڑھ کر تو خیر کون شوقین ہو گا ... یعنی آپ انتہا ملاحظہ فرمائیں ... حضرت عبداللہ بن عمرؓ جب مدینہ منورہ سے مکّہ معظمہ جاتے تو ایک درخت کے نیچے آرام فرمایا کرتے، کسی نے پوچھا : ’’آپ جب بھی مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جاتے ہیں، اس درخت کے نیچے آرام کرتے ہیں، کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں آرام فرماتے دیکھا ہے ... اسی لیے میں بھی یہاں آرام کرتاہوں۔‘‘ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ کو اس درخت سے بہت محبت تھی ... اسے پانی بھی دیا کرتے تھے کہ وہ کہیں سوکھ نہ جائے۔ ایک روز سفر کے دوران حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا : ’’تم ذرا ٹھہرو! میں ابھی آتاہوں۔‘‘
یہ فرما کر آپ کچھ فاصلے پر چلے گئے ...وہاں جا کر آپ نے پیشاب کیا ... پھر واپس آکر فرمایا : ’’ایک مرتبہ سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اس جگہ پیشاب کیا تھا۔‘‘ ان حضرات تک تو خیر کون پہنچ سکتا ہے ... بہرحال سنتوں کی تلاش کا شوق بہت ہی مزے دار شوق ہے... اگر آپ اپنی زندگی کو مزے دار بنانا چاہتے ہیں تو سنتوں کی تلاش شروع کر دیں ... بہت مزہ آئے گا...
آج اشتیاق احمد صاحب کے حوالے سے بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے
ڈھونڈینگے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہو تم ...
حسیب احمد حسیب