بچوں کو جسمانی سزا دینے پر پابندی کیوں ضروری ہے؟

جاسم محمد

محفلین
واقعی مذہبی لوگ ہر بری بات کا جواز مذہب میں تلاش کرنے میں ماہر ہیں لیکن مغرب کی نقل کر کے بچوں کو مارنا نہیں چھوڑ سکتے
آپ کو شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ کٹر مذہبی لوگ اپنے اچھے برے کی تمیز نہیں رکھتے۔ ان کو ہمہ وقت بس یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ آیا ایوان میں قانون سازی عین شریعت کے مطابق ہو رہی ہےیا نہیں؟ کیا اس قانون سازی سے معاشرہ پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اس کی بالکل کوئی پرواہ نہیں کرتے۔
ضیاء دور میں عین شرعی اسلامی حدود آرڈیننس نافذ کرنے کے بعد جو سنگین صورتحال ملک میں پیدا ہوئی تھی۔ اس سے بھی سبق نہیں سیکھتے۔ صحیح ڈھیٹ لوگ ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ ترمیمی بل کے مرتبین کو ماں، باپ، بیٹا، بیٹی کے فطری پیار محبت اور شفقت کے رشتوں کا پوری طرح ادراک ہی نہیں- انہوں نے اسے سانپ اور سنپولیوں کا رشتہ سمجھ لیا ہے- کہا جاتا ہے کہ مادہ سانپ اپنے بچوں کی پیدائش پر ہی حیوانی بھوک مٹانے کی خاطر خاصی تعداد میں ان کو ہڑپ کرجاتی ہے- ماں باپ اور اولاد کو وہ شاید اسی طرح کی مخلوق سمجھتے ہین- معلوم نہیں ہمارے دور جدید کے ان خود ساختہ فقیہان مجلس شوری (پارلیمنٹ) کو یہ استحقاق کہاں سے حاصل ہوگیا کہ وہ قرآن و سنت اور آئین پاکستان کے خلاف قانون سازی کریں- یہ دین و آئین اور اسلام کے خلاف بغاوت ہے- کتاب زندہ قرآن حکیم کی موجودگی میں ایسی اپنی موت آپ ہی مرجائيں گی-
والد سے قصاص کا حکم اور نیا پاکستانی قانون
 

محمداحمد

لائبریرین
نہ جانے کیوں محفل پر کم ایکٹیوٹی کا دکھ لیا جاتا ہے :) میں جس لڑی میں کچھ لکھنے کے بارے میں سوچتی ہوں وہاں پہلے ہی مذہب بیزار, یہود و انگریز و قادیانی نواز کے اتنے نعرے لگ چکے ہوتے ہیں کہ پتلی گلی سے نکلنے میں ہی عافیت محسوس ہوتی ہے۔

جاری رکھیں :)

یہ بات تو ٹھیک ہے کہ کسی پر براہِ راست لیبلنگ نہیں کرنی چاہیے۔ جیسا کہ آپ نے نشاندہی کی۔
  • مذہب بیزار
  • یہود و انگریز و
  • قادیانی نواز
لیکن یہ کوئی یکطرفہ بات نہیں ہے بلکہ اسی لڑی میں اس قسم کے کئی ایک جملے دیکھے جا سکتے ہیں جن میں براہِ راست مذہبی طبقے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اگر آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر شریک ِ گفتگو لوگوں سے کچھ مختلف ہےیا آپ موضوع پر کچھ اضافہ کر سکتی ہیں تو اپنی رائے کا ضرور اظہار کیجے کہ فورمز بنائے ہی اسی لئے جاتے ہیں کہ گفتگو ہو سکے۔کیونکہ صرف غیر متفق کی ریٹنگ دے کر آپ کسی کو قائل نہیں کر سکتیں۔

تاہم اُس سے پہلے یہ دیکھنا بے حد ضروری ہے کہ آپ کا اپنا موڈ کیسا ہے اور بحث میں شامل ہو کر آپ کی طبیعت کی بشاشت میں کمی تو واقع نہیں ہوگی۔
 

سین خے

محفلین
یہ بات تو ٹھیک ہے کہ کسی پر براہِ راست لیبلنگ نہیں کرنی چاہیے۔ جیسا کہ آپ نے نشاندہی کی۔
  • مذہب بیزار
  • یہود و انگریز و
  • قادیانی نواز
لیکن یہ کوئی یکطرفہ بات نہیں ہے بلکہ اسی لڑی میں اس قسم کے کئی ایک جملے دیکھے جا سکتے ہیں جن میں براہِ راست مذہبی طبقے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اگر آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر شریک ِ گفتگو لوگوں سے کچھ مختلف ہےیا آپ موضوع پر کچھ اضافہ کر سکتی ہیں تو اپنی رائے کا ضرور اظہار کیجے کہ فورمز بنائے ہی اسی لئے جاتے ہیں کہ گفتگو ہو سکے۔کیونکہ صرف غیر متفق کی ریٹنگ دے کر آپ کسی کو قائل نہیں کر سکتیں۔

تاہم اُس سے پہلے یہ دیکھنا بے حد ضروری ہے کہ آپ کا اپنا موڈ کیسا ہے اور بحث میں شامل ہو کر آپ کی طبیعت کی بشاشت میں کمی تو واقع نہیں ہوگی۔

:) شروعات پر غور کیجئے۔

دوسری بات آپ شائد یہاں ہر لڑی نہ پڑھتے ہوں پر میں ایک سال سے ان ایکٹیو ہو کر بھی پڑھتی تقریباً سب کچھ ہوں۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہاں کیا کیا چلتا رہا ہے اور ہو رہا ہے :)

اگر ہر لڑی کو لے کر تجزیہ کرنا میں نے شروع کیا تو بہت ہی مختلف تصویر سامنے آئے گی :)

میں نے یہاں پر کبھی مذہب یا قومیت کی بنیاد پر کسی پر حملے نہیں کیے لیکن میں پھر بھی زیر اعتاب آئی اور اسی وجہ سے ایک وقت آیا کہ میں نے آنا چھوڑ دیا۔ :)

اب یہ صرف میری شکایت نہیں رہی ہے۔ میرے علاوہ اور بھی بہت میمبرز ہیں۔ جن کو اس طرح کے رویے سے ایک سال پہلےتک کوئی شکایت نہیں تھی بلکہ حوصلہ افزائی ہی کرتے نظر آتے تھے اب وہ بھی بیزار نظر آرہے ہیں۔

میری تو بلکہ آٹھ نو مہینے پہلے کی ساری پیشنگوئیاں بالکل صحیح ثابت ہو رہی ہیں۔

خیر آپ سب جاری رکھئے :) میں واقعی بے جا الزامات اپنے اوپر لگوا کر اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی ہوں۔ مجھ جیسے افراد ان ایکٹیو ہی بھلے :)
 

محمد سعد

محفلین
بچوں‌ میں‌ جسمانی تشدد سے ان کی ذہنی نشونما رک جاتی ہے۔ تکلیف اور خوف سے نہ صرف اینڈوکرائن سسٹم متاثر ہوتا ہے بلکہ دماغ کے ان حصوں پر بھی اثر پڑتا ہے جن کا تعلق پیچیدہ معلومات کو سمجھ کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور سماجی تعلقات قائم کرنے سے ہے۔
اس حوالے سے عرصہ قبل ایک ریسرچ پیپر پڑھا تھا۔
Tomoda, A., Suzuki, H., Rabi, K., Sheu, Y.-S., Polcari, A., & Teicher, M. H. (2009). Reduced prefrontal cortical gray matter volume in young adults exposed to harsh corporal punishment. NeuroImage, 47, T66–T71. Redirecting
Reduced Prefrontal Cortical Gray Matter Volume in Young Adults Exposed to Harsh Corporal Punishment

Results
GMV was reduced by 19.1% in the right medial frontal gyrus (medial prefrontal cortex; MPFC, BA10) (P = 0.037, corrected cluster level), by 14.5% in the left medial frontal gyrus (dorsolateral prefrontal cortex; DLPFC, BA 9) (P = 0.015, uncorrected cluster level) and by 16.9% in the right anterior cingulate gyrus (BA 24) (P < 0.001, uncorrected cluster level) of HCP subjects. There were significant correlations between GMV in these identified regions and performance IQ on the WAIS-III.
 

سین خے

محفلین
ویسےمیں بھی سکول میں پٹی ہوں پوزیشن ہولڈر رہنے کے باوجود۔ میگرین بچپن سے ہے اور نظر بھی کمزور رہی ہے۔ ایک بار سر پر رجسٹر پوری طاقت سے پڑا تھا۔ نہ جانے شاک تھا یا کیا وجہ ہوئی کہ اس دن کے بعد سے آج تک بیچ سر میں درد اٹھتا ہے۔

لوگ ہاتھ تو چلا لیتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ کس کا کیا نقصان ہوگا۔
 

جاسمن

لائبریرین
نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ہمیں اس حوالے سے جو درس ملتا ہے، اسی پر عمل پیرا ہونا مناسب ہے۔ ان تعلیمات میں بچوں سے حُسنِ سلوک کا درس نمایاں ہے۔ ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ تو زندگی کا حُسن ہے تاہم بچوں پر تشدد کرنا اور ان کی بے چارگی کا لحاظ نہ رکھنا قابل مذمت فعل ہے
ہم نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی حدیث سے یہ سیکھا ہے کہ بچے کو سات سال کی عمر سے نماز کا کہنا ہے۔ سکھانا، بتانا ہے۔ کوشش کرنی ہے کہ اس میں شوق پیدا ہو۔ جیسی بھی پڑھے۔۔۔اس کی حوصلہ افزائی کرنی ہے۔ اگر دس سال کا ہوجائے اور پھر بھی نہ پڑھے تو آخری۔۔۔ آخری حل مار ہے۔ اور میں نے اس سے یہ سیکھا ہے کہ ہر وہ بات جو ہم اپنے بچے کو سکھانا چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ وہ عمل کرے۔۔۔سختی کی عمر دس سال سے شروع ہوتی ہے۔لیکن یہ سختی مار سے بہرحال نہیں شروع ہوتی۔
پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم تو رحمت اللعالمین ہیں۔ معصوم بچوں سے بے پناہ محبت کرنے والے۔ جب حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز میں ان پہ چڑھ جاتے تھے تو آپ اپنا سجدہ طویل فرماتے تھے۔ ہم کیسے بچوں کو مار سکتے ہیں جب تک کہ ناگریز نہ ہو۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگر دس سال کا ہوجائے اور پھر بھی نہ پڑھے تو آخری۔۔۔ آخری حل مار ہے۔
مذہبی معاملات میں بہرحال جبر کرنا ظلم و بربریت ہے۔ اگر بچہ کوئی غیراخلاقی حرکت کرتا ہے جس سے کسی دوسرے کو نقصان پہنچتا ہو تو بیشک اسے پہلے پیار سے، پھر ڈانٹ کر اور پھر تھوڑی سی جسمانی تکلیف جیسے پیٹھ پر تھپکی دے دینی چاہئے۔ مگر اس سے زیادہ نہیں۔
جو چیز پیار سے سمجھائی جا سکتی ہے وہاں بےوجہ کی ڈانٹ ڈپٹ اور پٹائی الٹا ساری تربیت خراب کر دیتی ہے۔
 

سین خے

محفلین
اس لڑی میں اب تک جو سب سے مزے کا پہلو سامنے آیا ہے وہ یہ کہ اسلام میں مار کی اجازت ہے۔ اس 'مار' کی کیا حدود و قیود ہیں ان کےبارےمیں اب تک کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ دوستوں نے لگتاہے مار کا حکم تو پڑھا ہے پر حدود و قیود کیا ہیں شائد نہ پڑھی ہوں۔

اس آرٹیکل کو پڑھنا کافی مفید رہے گا۔

اس مار کی حدود کا مطالعہ کرنے کے بعد تو یہی سمجھ آتا ہے کہ گریز ہی بہتر ہے کیونکہ زیادتی کرنے والا تو اور زیادہ 'گناہگار' ہوگا۔

دوسری بات جو مار کو جائز قرار دے رہے ہیں انکے نزدیک مار کیا ہے؟

مار کی حدود سے معلوم ہوتا ہے کہ پیٹھ یا ہاتھ پر تھپکی کی بات کی گئی ہے۔ جلد پھٹنے کی سختی سےممانعت ہے اور چہرے پر مارنا بھی جائز نہیں ہے۔

جہاں تک ہمارے یہاں عام طور پر مار پٹائی کی جاتی ہے اس میں والدین اور اساتذہ غصے میں قابو رکھ نہیں پاتے ہیں۔ جب غصے میں قابو ہی نہ رہے تو زیادتی نہ ہونے کےکتنے چانسز ہوں گے؟
 

جاسمن

لائبریرین
اس لڑی میں اب تک جو سب سے مزے کا پہلو سامنے آیا ہے وہ یہ کہ اسلام میں مار کی اجازت ہے۔ اس 'مار' کی کیا حدود و قیود ہیں ان کےبارےمیں اب تک کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ دوستوں نے لگتاہے مار کا حکم تو پڑھا ہے پر حدود و قیود کیا ہیں شائد نہ پڑھی ہوں۔

اس آرٹیکل کو پڑھنا کافی مفید رہے گا۔

اس مار کی حدود کا مطالعہ کرنے کے بعد تو یہی سمجھ آتا ہے کہ گریز ہی بہتر ہے کیونکہ زیادتی کرنے والا تو اور زیادہ 'گناہگار' ہوگا۔

دوسری بات جو مار کو جائز قرار دے رہے ہیں انکے نزدیک مار کیا ہے؟

مار کی حدود سے معلوم ہوتا ہے کہ پیٹھ یا ہاتھ پر تھپکی کی بات کی گئی ہے۔ جلد پھٹنے کی سختی سےممانعت ہے اور چہرے پر مارنا بھی جائز نہیں ہے۔

جہاں تک ہمارے یہاں عام طور پر مار پٹائی کی جاتی ہے اس میں والدین اور اساتذہ غصے میں قابو رکھ نہیں پاتے ہیں۔ جب غصے میں قابو ہی نہ رہے تو زیادتی نہ ہونے کےکتنے چانسز ہوں گے؟

جی آپ درست کہہ رہی ہیں۔ بچوں کو تو تھوڑی سی فہمائش ہی کافی ہوتی ہے۔ ضرورت پڑنے پہ ہلکی پھلکی ڈانٹ سے کام چل جائے تو مار کی نوبت ہی نہیں آتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
جی آپ درست کہہ رہی ہیں۔ بچوں کو تو تھوڑی سی فہمائش ہی کافی ہوتی ہے۔ ضرورت پڑنے پہ ہلکی پھلکی ڈانٹ سے کام چل جائے تو مار کی نوبت ہی نہیں آتی۔
اصل میں سزا کا مقصد بچوں کی سرزنش کرنا ہے تا کہ ان کو باور کروایا جا سکے کہ جو وہ کر رہے ہیں وہ غلط ہے۔
بےجا ڈانٹ، ڈپٹ و مارکٹائی سے بچوں کے دل میں خوف یا بغاوت جیسے جذبات جنم لیتے ہیں۔ جو ان کے نفسیاتی مستقبل کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔
 

ابن جمال

محفلین
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کا نام محتاج تعارف نہیں ،انہوں نے بچوں کی سرزنش کیلئے اساتذہ کو ایک اہم ہدایت دی ہے اوراس میں والدین بھی شامل ہوسکتے ہیں اوراگراس نصیحت پر عمل کیاجائے تو بہت حد تک زیادتی سے بچاجاسکتاہے۔
اولاً: تویہ بات والدین اوراستاذ کوبھی یاد رکھنی چاہئے کہ بچہ کو مارنے کا محرک کیاہے،اس کی غلطی پر تادیب یاپھر اپنے نفس کو ٹھنڈاکرنا، اگر اول الذکر ہے تو پھر سزا بقدر جرم ہوگا، زائد نہیں ہوگا،ثانی الذکر ہے، تو خداکے ہاں لازمااس کے بارے میں پوچھ کچھ ہوگی، خدانے استاذ اوروالدین کو نگراں بنایاہے، مالک نہیں، مالک ایک وہی ذات پاک ہے۔
ثانیاً: جب بچے کی کسی بات یافعل پر غصہ آرہاہو،اس وقت پٹائی نہ کریں، کیوں کہ غصے میں اکثر حدود کا خیال نہیں رہتا، آدمی عموماً زیادتی کا مرتکب ہوجاتاہے، دس پانچ منٹ کے بعد جب غصہ ختم ہوجائے تواس کے جرم کے بقدر اسے سزادی جائے، اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جرم پہلی بار ہواہے، یا اس کی عادت بن چکی ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ محض سمجھایاجائے، جسمانی تادیب نہ کی جائے،اگرایساہوتا توپھر قید خانے، پولس ،عدلیہ کسی کی بھی ضرورت نہ پڑتی، محض کونسلنگ سے کام چل جایاکرتاتھا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تشدد کا رویہ کب اپنانے کی ضرورت پیش آتی ہے ؟
عموماََ یہ وجہ ہوتی ہے کہ بچے بات نہیں مانتے اور بڑے مار کر منوانے لگ جاتے ہیں ۔ یہ انتہائی اہم بات نظر انداز کردی جاتی ہے کہ وہ اس بات کی پابندی ہوتے دیکھتے بھی نہیں ۔ جب والدین کو اچھی باتوں پر عمل کرتے دیکھیں گے تو ضرور بات ماننے لگیں گے ۔ اگر بچوں سے وہ بات زبر دستی منوائیں جس پر آپ خود عمل پیرا نہیں تو پھر اس تشدد کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور بچوں میں اس بات کی اہمیت دلانا چاہیں جس کو آپ خود اہمیت نہیں دیتے تو یہ بگاڑ کی طرف رہنمائی کرنے کے برابر ہے (بڑوں میں اقوال و اعمال کا تضاد اس سارے معاملے میں سب سے بنیادی اہمیت رکھتا ہے ) ۔ بڑوں کو اپنے عمل اور اعتدال کی فکر کرنی چاہیئے ۔ بچے تو خود اچھے رستے پر رہیں گے ۔ ہاں اگر ماحول کی وجہ سرزنش کی ضرورت پیش آئے (جو ایک فطری بات ہے) تو بچوں کو دلیل سے قائل کرنا چاہیے جو آسان ہوتا ہے کہ وہ بچے ہیں اور آپ بڑے ، لیکن اس میں بھی ظاہر ہے کہ خود بڑوں کا خود کا صبر بہت اہم ہوتا ہے اس کے بغیر تربیت ممکن نہیں ۔
 

جاسمن

لائبریرین
بعض اوقات ایک تھپڑ بڑا ضروری بھی ہو جاتا ہے۔
ایک چور کی کہانی کہیں پڑھی تھی جس نے عدالت میں اپنی ماں کو تھپڑ مارا تھا کہ یہ تھپڑ اگر آپ مجھے پہلی چوری پہ مارتین تو آج میں یہاں نہ ہوتا۔
اس شخص کا فعل غلط تھا۔۔۔۔لیکن دس سال کے بعد بچے سمجھ دار ہو رہے ہوتے ہیں۔ معقول بات نہ ماننے پہ کوئی مناسب سی سزا ضروری ہے۔
 

سین خے

محفلین
آجکل کے بچے گیمنگ (پلے اسٹیشن، موبائل) میں حد سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ اگر سزا دینا ضروری ہے تو ایک موثر طریقہ بچوں سے ان کی دلچسپی کی چیز کو کچھ عرصہ دور رکھنا ہو سکتا ہے۔ پلے اسٹیشن، موبائل، پی سی کے استعمال پر پابندی لگا دیں۔ کوئی گھر کا کام ان کے ذمے لگا دیں جیسے صفائی وغیرہ۔ سزا مار پٹائی کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ چلانے کا شوق بچوں پر ہی نکالا جائے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آجکل کے بچے گیمنگ (پلے اسٹیشن، موبائل) میں حد سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ اگر سزا دینا ضروری ہے تو ایک موثر طریقہ بچوں سے ان کی دلچسپی کی چیز کو کچھ عرصہ دور رکھنا ہو سکتا ہے۔ پلے اسٹیشن، موبائل، پی سی کے استعمال پر پابندی لگا دیں۔ کوئی گھر کا کام ان کے ذمے لگا دیں جیسے صفائی وغیرہ۔ سزا مار پٹائی کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ چلانے کا شوق بچوں پر ہی نکالا جائے۔
درست ! ایسے معاملات کو ڈسپلن کے اوقات کار سے حل کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ آپ خود بھی بچوں کے لیے اچھا نمونہ پیش کر یں اور مثال بن کر دکھائیں ۔
 

سین خے

محفلین
تشدد کا رویہ کب اپنانے کی ضرورت پیش آتی ہے ؟
عموماََ یہ وجہ ہوتی ہے کہ بچے بات نہیں مانتے اور بڑے مار کر منوانے لگ جاتے ہیں ۔ یہ انتہائی اہم بات نظر انداز کردی جاتی ہے کہ وہ اس بات کی پابندی ہوتے دیکھتے بھی نہیں ۔ جب والدین کو اچھی باتوں پر عمل کرتے دیکھیں گے تو ضرور بات ماننے لگیں گے ۔ اگر بچوں سے وہ بات زبر دستی منوائیں جس پر آپ خود عمل پیرا نہیں تو پھر اس تشدد کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور بچوں میں اس بات کی اہمیت دلانا چاہیں جس کو آپ خود اہمیت نہیں دیتے تو یہ بگاڑ کی طرف رہنمائی کرنے کے برابر ہے (بڑوں میں اقوال و اعمال کا تضاد اس سارے معاملے میں سب سے بنیادی اہمیت رکھتا ہے ) ۔ بڑوں کو اپنے عمل اور اعتدال کی فکر کرنی چاہیئے ۔ بچے تو خود اچھے رستے پر رہیں گے ۔ ہاں اگر ماحول کی وجہ سرزنش کی ضرورت پیش آئے (جو ایک فطری بات ہے) تو بچوں کو دلیل سے قائل کرنا چاہیے جو آسان ہوتا ہے کہ وہ بچے ہیں اور آپ بڑے ، لیکن اس میں بھی ظاہر ہے کہ خود بڑوں کا خود کا صبر بہت اہم ہوتا ہے اس کے بغیر تربیت ممکن نہیں ۔

یہی سمجھنے کی بات ہے۔ اور ایسا ہی ہوتا بھی ہے۔ پہلے بڑوں کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔ جو اس زعم میں مبتلا ہوں کہ ہم تو ہیں ہی سب سے اچھے تو ان کو یہ تشدد کی ضرورت ہر وقت ہی محسوس ہوتی رہے گی۔
 

سین خے

محفلین
درست ! ایسے معاملات کو ڈسپلن کے اوقات کار سے حل کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ آپ خود بھی بچوں کے لیے اچھا نمونہ پیش کر یں اور مثال بن کر دکھائیں ۔

بالکل۔ مثال کے طور پر اکثر والدین کو پریشان دیکھا ہے کہ ان کے بچے کتابیں نہیں پڑھتے ہیں۔ اس کا حل بیکن ہاؤس کی ایک پرنسپل سے بتاتے ہوئے سنا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کتابوں میں دلچسپی لیں تو یہ ضروری ہے کہ آپ خود ان کو کتابیں پڑھ کر دکھائیں۔ ریڈنگ آور مقرر کریں۔ بچوں کو کتابیں دیں اور خود بھی کوئی میگزین یا کتاب ساتھ پڑھنا شروع کریں۔ مصنوعی مقابلے کی فضا بنائیں کہ ارے میں تو پیچھے رہ گیا/گئی اور بچے آگے نکل گئے۔

ایسا ممکن نہیں ہے کہ بچے کتابیں پڑھیں اور والدین ٹی وی دیکھتے رہیں۔ بچے وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے بڑوں کو کرتے دیکھتے ہیں۔ یہ سیکھنے کی عمر ہوتی ہے۔ خود سے تو کوئی بچہ اپنے اندر بری عادتیں لے کر پیدا نہیں ہوتا ہے۔ بری عادتوں کے پیچھے کوئی محرک ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
دس سال کے بچے کو تھپڑ مارنا بہت ضروری ہے ہو سکتا ہے یہی تھپڑ اسے ناتزی بننے سے بچا لے
 
Top