بچوں کی تربیت!

علی ذاکر

محفلین
اسلام و علیکم!
بچوں کی نشونما اور داخلی شخصیت کی تراش خراش ابتدائ عمر ہی سے شروع ہو جاتی ہے اس دور میں جو انہیں‌سکھایا جاتا ہے وہ ہی ان کے کردار کا سانچہ ہوتا ہے ہر ماں‌باپ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ذہیں‌اور مہذب ہوں لیکن یہ نتائج جن راستوں‌پر چل کےحاصل ہوتے ہیں اس پر چلنے سے گریزاں رہتے ہیں،اس ضمن میں‌اساتذہ بلا شبہ اہم کردار ادا کرتے ہیں اگر بچے کی مثالی تعلیم و تربیت چاہتے ہیں‌تو ہمیں‌سب سے پہلے اس کی زندگی میں آنے والے استاد کی طرف توجہ دینا ہوگی جو والدین کی صورت میں‌اس ذہن پر نقش ہو جاتا ہے،والدین کے زمرے جہاں پر ماں‌اور باپ دونوں کو مل کر بچون کی تربیت کرنی چاہیئے ہمارے ہاں‌صرف یہ ذمہ داری ماں ہی نے اُٹھا رکھی ہے،باپ کا کردار بچے کی غذائیت کو پورا کرنا،اس کے لیئے تفریحی لوازماتمہیا کرنا،اور وقفے وقفے سے اس پر رُعب ڈالنا یہ ہے ہمارے معاشرے میں ایک با کردار والدین کی حیثیت،عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے ،کہبچے کی تربیت تب شروع ہوتی ہے جب وہ مدرسہ جانا شروع کرتا ہے، لیکن تب تک تو بچہ مہت کچھ سیکھ چکا ہوتا ہے،انسانی بچے میں‌صلاحتیں ان گنت ہوتی ہیں،ان کی تکمیل کی کوئ حد مقرر نہیں ہوتی،اگر ہم تمام عمر ان کی نشونما کرتے رہیں تو یہ آگے ہی بڑھتی جاتی ہیں تضاد تب جا کر آتا ہے جب بچے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں تو ہم ان کو مسترد کر دیتےہیں،ہم یہ انہیں باور کورانے کی کوشش کرتے ہیں،تمہارے محسوسات غلط ہیں‌ان کی بجائے میری بات پر عمل کرؤ،اس سے بچہ زہنی انتشار کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے اور تمام عمر کوئ پختہ فیصلہ نہیں‌کر پاتا،اور یہ چیز ان کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لیئے بھی نقصان کا باعث بنتی ہے،لیکن سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ برے ہونے کے بعد اس روش میں تبدیلی پیدا کرنا ممکن نہیں‌تو دشوار ضرور ہوتا ہےاس لیئے کہ ہمیں‌خود اس غیر ذمہ دارانہ زندگی میں لذت ملتی ہے،یہی وجہ ہے کہ ہم بچپن کو انسان کی زندگی کا بہترین حصہ کرار دیتے ہیں،اور پھر انہ سہانے دنوں‌کی آرزوئیں ہمارے سینے مٰن مچلتی رہتی ہیں لہذا انسان کی صحیح تربیت بچپن ہی میں ہو سکتی ہے اور اس کے لیئے بہتریں‌تربیت گاہ بچے کا اپنا گھر ہے،جن گھروں میں اس نقطہ نگاہ سے بچوں کی تربیت کا خیال رکھا جاتا ہے،وہاں کے بچے شروع ہی سے خود اعتمادی،ذمہ داری،ہمدردی،محبت،ایثار،جرات،اور وسعت قلب کی خصوصیت لیئےہوئے پروان چرھتے ہیں،اور جن کی تربیت اچھی نہیں ہوتی،وہاں‌بچوں‌کو ابتدا ہی سے خارجی سہاروں کا خوگر بنا دیا جاتا ہے،جس سے ا کے دل میں خوداعتمادی کا جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا،یا اسے بات بات پر جھڑک کےاس قدر خوف زدہ کر دیا جاتا ہے،کہ اس میں جراتو صداقت کےنشانما نہیں پاسکتےکہیں‌اسے ماں کا لاڈلا بنا دیا جاتا ہے،جس سے وہ مردانہ خصائل سے محروم رہ جاتا ہے،اور کہیں وہ باپ کا منظور نظر بن جاتا ہے،تو اس میںزندگی کی لطیف حسیات کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں،کہیں اس قسم کی باتیں‌کر کے کہ تمھارے ابا کی نوکری چھوٹ گئ تو ہم کیا کریں‌گے؟اور یہ مکان چھن گیا تو ہم کیا کریں گے،اسے بچپن ہپی معاشیات کا غلام بنا دیا جاتا ہے،اورکہین اس کی ہر مانگ کو پورا کر کے اس کہ ذہن میں اس خیال کو راسخ‌کر دیا جاتا ہےکہ طبعی ضرورات کا پورا ہو جانا ہی زندگی کا مقصد ہے،کہیں اس کے دل میں یہ بات ڈال دینا کہ تمھارے ابا سب سے اچھے اور تمھارا گھر سب سے بہتر ہے،اس کی نگاہ کو نسل،وطن،اور قومیت کے تنگ دائروں میں جکڑ دیا جاتا ہے،کہیں اس یہ کہہ کر کہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے سے اس کے کپڑے خراب ہو جائیں گے اس کے دل میں دوسرے افراد کے لیئےنفرت اور خود ستائ کے جذبات کا تخم بو دیا جاتا ہے،یہ ہے مختصر الفاظ میں بچہ کی ذہنیتکی خصوصیات جن لوگوں کی عمر کے ساتھ ساتھ ذہن کی پکتگی میں اضافہ نہیں ہوتا ان میں‌یہی خصوصیات قائم رہتی ہیں!
سیرتِ اقوام را صورت گراست!
ماسلام
 

arifkarim

معطل
بچّے کی اصل تر بیعت ماں کی گود ہے، یعنی پہلے ۳ سے ۴ سال۔ اگر ان سالوں میں ماں بہترین تربیت کر دے تو بہت حد تک بچّہ اخلاقیات پر چلتے ہوئے بڑا ہوتا ہے!
 

علی ذاکر

محفلین
جب بچوں کی عمر 10 سال سے زیادہ ہو جائے تو اس کو نامحرموں‌میں نہ بیتھنے دو!

اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا نام باقی رہے تو اولاد کو اچھے اخلاق کی تعلیم دو!

بچہ کو استاد کا ادب سکھاؤ اور اس کو استاد کی سختی سہنے کی عادت ڈالو!

بچے کی تمام ضرورتیں خود پوری کرؤ اور اس کو ایسے عمدہ طریقے سے رکھو کہ وہ دوسری طرف نہ دیکھے!

شروع شروع میں پڑھاتے وقت بچے کی تعریف اور شاباش سے اس کی حوصکہ افزائ کرؤ جب وہ اس طرف راغب ہو جائے تو اس کو اچھے برے کی تمیز سکھانے کی کوشش کرؤ!

بچے کو دستکاری سکھاؤ اگر وہ ہنر مند ہو گا تو برے دنون میں‌بھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں‌پھیلائے گا!

بچوں پر کڑی نگرانی رکھوتاکہ وہ برے لوگوں کی صحبت میں نہ بیٹھے!

بچے کو روپے سے زیادہ علم حاصل کرنے کی نصیحت کرؤ!

شیخ سعدی سے اقتباس
ماسلام
 
Top