ام اویس
محفلین
اس قدر سخت موسم میں وہاں تک پہنچنا نہایت مشکل ہو گا۔” آفیسر نے انتہائی اہم مشن کے متعلق اپنے ساتھیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے چھڑی سے دیوار پر لگے نقشے کی طرف اشارہ کیا:
“یہ دنیا کے تین سب سے بلند پہاڑی سلسلے ہیں جو اونچی اور دشوار گزار چوٹیوں پر مشتمل ہیں اور یہاں، اس جگہ آکر مل جاتے ہیں۔ سرد موسم میں درجہ حرارت منفی ساٹھ ڈگری تک گر جاتا ہے۔ برفانی طوفان اور ہواؤں کے جھکڑ دوسو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے ہیں اور ہر سال چالیس فٹ تک برفباری ہوتی ہے۔ “
اور یہ گلیشیئر” اس نے ایک جگہ پر چھڑی رکھی:
“قراقرم کی برفیلی چوٹیوں پر تین کھرب مکعب فٹ برف سے بنا ہوا ہے۔ تقریباً بیس ہزار فٹ کی بلندی سے شروع ہوتا ہے اور پینتالیس میل لمبا برف کا یہ منجمد دریا، قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا کا سب سے بڑا گلیشیئر ہے۔ شمال مغرب کی طرف سے شروع ہو کر بل کھاتا ہوا جنوب مشرق کی جانب سانپ کی طرح نیچے آتا ہے اور بھارت کی وادی نبرا میں ختم ہوتا ہے۔”
اُس نے چھڑی کو اوپر سے نیچے کی طرف حرکت دی، پھر اپنا رُخ ساتھیوں کی طرف موڑ کر کہنے لگا: یہاں بے شمار جنگلی گلاب کھلتے ہیں، اسی لیے بلتی زبان میں اس گلیشیئر کا نام سیاچن، یعنی جنگلی گلابوں کی سرزمین ہے۔ یہاں سال کے آٹھ مہینے برفباری ہوتی رہتی ہے۔ اس قدر اونچائی کی وجہ سے صرف تیس فیصد تک آکسیجن رہ جاتی ہے، اور سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔”
بات مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوا:
“موسم کی اسی شدت کی وجہ سے دشمن اپنے مورچے خالی کرکے پیچھے چلا جاتا ہے۔ یہی وقت ہے ہم وہاں پہنچ کر ان مورچوں پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ جب وہ واپس آئیں گے تو ان کے مورچوں میں، ہم ان کا گولیوں سے استقبال کریں گے۔” ان میں سے ایک نے جوش سے جواب دیا۔
“تم جانتے ہو وہاں اپریل سے پہلے جانا انتہائی خطرناک ہے۔ وہ برف کا قبرستان ہے۔” دوسرے نے جواب دیا۔
“اگر ہم ہمت کرکے ان کی واپسی سے چند ماہ پہلے ہی اس جگہ پر قبضہ کر لیں تو خواہ وہ پوری فوج لے آئیں ہمیں پیچھے نہیں ہٹا سکیں گے۔” پہلے نے جسے کیپٹن شیرا کہا جاتا تھا شیر کی سی دلیری سے جواب دیا:
چاروں آفیسر کچھ دیر تک آپس میں اس بات پر بحث کرتے رہے، بالآخر کیپٹن شیرا کی بات سے متفق ہوکر اس خطرناک مشن کی منظوری دے دی۔ کیپٹن شیرا کے اصرار اور شدید خواہش پر مشن اس کے حوالے کر دیا گیا۔
اس کا پورا نام کرنل شیرخان تھا۔ وہ خیبر پختونخواہ کے ضلع صوابی کے قصبے نواکلی میں یکم جون 1970 کو پیدا ہوا۔ اس کے دادا گلاب خان نے آزادی کی نعمت کے شکرانے اور شوقِ جہاد و شہادت کی بنا پر اپنے پوتے کا نام کرنل شیر خان رکھ دیا۔ دادا کا یہی شوق پوتے کے لہو میں جوش مارتا تھا۔ ایف ایس سی کے بعد پاکستان ائیر فورس میں بطور ائیرمین بھرتی ہوا، پھر بری فوج کی27 سندھ رجمنٹ میں آگیا۔1997میں نیشنل لائٹ انفنٹری میں تعیناتی کے دوران سیاچن کے سرد اور بلند ترین محاذ پر دو سال سے زائد عرصہ گزار چکا تھا۔
اب 1999 میں جب کارگل کا محاذ گرم ہونے والا تھا، شیر خان نے اس خطرناک مشن کے لیے اپنا نام پیش کر دیا۔ والدین اس کا سہرا سجانا چاہتے تھے، مگر جذبہ شوق شھادت اسے میدانِ جنگ کی طرف کھینچ رہا تھا۔
کارگل کے محاذ پر دشمن سے جنگ کرنے کے ساتھ سخت قسم کے موسمی حالات سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ کیپٹن کرنل شیر خان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دشمن سے بہت پہلے، بے رحم موسمی صعوبتوں سے لڑنے کارگل پہنچ چکا تھا، جہاں نہ سبزہ تھا نہ کوئی عمارت ، نہ سڑکیں تھیں نہ کوئی سواری، بھاری سامان کے ساتھ برف کی دبیز تہہ اور اونچے نیچے رستوں پر پیدل چلنا آسان نہ تھا۔
سردی کے مہینوں میں برف سے ڈھکی ان بلند ترین چوٹیوں پر کسی انسان کا زندہ رہنا ناممکن تھا، اسی لیے بھارتی فوج کنکریٹ سے بنے ہوئے اپنے مورچے خالی کرکے سری نگر چھاؤنی چلی جاتی تھی۔ کیپٹن انہی کے مورچوں میں بہادری، مستقل مزاجی اور صبر کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے جذبوں اور حوصلوں کو گرماتا، ناممکن کو ممکن بناتا ، دشمن کا انتظار کر رہا تھا۔
موسم بدلتے ہی ایک صبح برف پوش وادیوں کے آئینے میں دشمن کا عکس دکھائی دینے لگا ۔ وہ اطمینان سے اپنے ٹھکانے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ کیپٹن نے اپنے مستعد جوانوں سے کہا: “ کوئی زندہ بچ کر نہ جانے پائے۔”
جونہی دشمن رینج میں آیا، اُن پر بارود کی بارش ہونے لگی۔ پہلے ہی ہلے میں ان کے درجنوں فوجی جہنم واصل ہوگئے۔ اس سے پہلے کہ انہیں ہوش آتا چوٹیوں پر متعین جوانوں نے ان پر مارٹر گنوں سے فائرنگ کر دی۔ اسلحہ سے بھری گاڑیاں سپاہیوں سمیت بھسم ہوگئیں۔
کیپٹن کرنل شیرخان نے ثابت کر دیا کہ برف ان کا خون جما سکتی ہے لیکن خون میں دوڑتے جذبے کو ٹھنڈا نہیں کر سکتی۔ پہلے دن کے اس معرکے نے بھارتی فوج کو تہہ تیغ کر دیا۔ وہ جان گئے کہ یہ علاقہ اب ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ بھارتی حکومت تک بھی اطلاع پہنچ گئی، چنانچہ فورا ہی بے شمار فوجی دستے کمک کے لیے روانہ کر دئیے گئے۔ بوفرز توپوں کے استعمال کے باوجود کئی ہفتوں تک بھارتی فوج اپنے مورچے واپس نہ لے سکی۔
یہ ایک بڑی کامیابی تھی، اب کارگل اور لداخ شاہراہ مکمل طور پر مجاہدین کے کنٹرول میں آگئی۔ سیاچن پر بھارتی فوج کا مورال گرگیا۔ دراس اور کارگل کی اہم چوٹیاں اور پینتیس کلومیٹر تک کا علاقہ بھارتی فوج کے ہاتھ سے نکل کر پاک فوج کے قبضے میں آ گیا۔
دشمن مزید تین ڈویژن فوج میدان جنگ میں لے آیا۔ رات دن گولہ باری کے باوجود کامیابی نہ ملنے پر بھارتی فضائیہ بھی جنگ میں کود پڑی تو پاکستانی ہنزہ میزائلوں کے ہاتھوں دو طیاروں کی تباہی نے ان کے خوف میں مزید اضافہ کردیا۔
سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس محاذ پر زبردست جنگ جاری تھی۔ دن بھر بھاری توپ خانے سے پاکستانی چوکیوں پر گولہ باری کی جاتی اور رات کو بھارتی فوج آگے بڑھنے کی کوشش کرتی۔ مئی کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ میدانی علاقوں میں شدید گرمی تھی لیکن کارگل کا درجہ حرارت اس وقت بھی منفی دس درجے سے کم تھا۔ افسران نے کیپٹن شیرخان کو ریکی کرنے کا حکم دیا۔ وہ تین ساتھیوں سمیت روانہ ہوا اور دو روز بعد دشمن کے مقابل جگہ ڈھونڈ کر ایک چوکی قائم کر لی، جہاں سے وہ بھارتی پوسٹوں کو نشانہ بنانے لگے۔ بھارتی فوج کے لیے یہ چوکی وبال جان بن گئی۔ تنگ آ کر انہوں نے بھاری توپ خانے سے پانچ گھنٹے مسلسل شدید گولہ باری کی۔ انہیں یقین تھا کہ کوئی شخص زندہ نہیں بچے گا اور اگر زندہ رہا بھی تو اس چوٹی پر نہیں ہو گا۔ اس زعم میں انہوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے درجن بھر فوجی چوکی کے عین سامنے اتار دیئے۔
’’دشمن اپنی موت آپ مرنے آگیا ہے،‘‘ کیپٹن نے اپنے آپ سے سرگوشی کی۔ وہ سب شدید گولہ باری سے بچنے کےلیے تودوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے۔ بھارتی فوج کے اُترتے ہی چوکی پر آگئے اور دشمن پر فائرکھول دیا۔ آدھے فوجی مارے گئے اور باقی فوری طور پر راہ فرار اختیار کر گئے۔
کیپٹن نے فرار ہوتے فوجیوں کو مخاطب کرکے کہا، ’’میں یہاں پر تم لوگوں کی موت کا پروانہ ہوں!‘‘ کیپٹن کرنل شیر خان کی دھاڑ برف پوش چوٹیوں سے ٹکرا کر پوری وادی میں گونج رہی تھی۔ یہ شیر کی دھاڑ تھی جو اس علاقے میں اپنی بادشاہی کا اعلان کر رہا تھا۔
جنگ ابھی جاری تھی، کارگل کی چوٹیاں اپنے سینے پر گولہ باری سہتی رہیں۔ جون کی آخری تاریخیں آن پہنچیں۔ ایک دن گشت کے دوران کیپٹن نے ایک چوٹی پر بھارتی فوج کے کیمپ کا سراغ لگا لیا۔ افسران سے حملے کی اجازت طلب کی جو فوراً مل گئی۔ بھارتی فوج کو منہ توڑ جواب دینے کا وقت آن پہنچا تھا۔ اس نے چند افراد منتخب کئے۔ دشمن کے قبضہ شدہ ہتھیاروں میں سے دو مشین گنز، سات دستی بم، ایک آر پی جی، چار جی تھری رائفلز اور ایک موٹرولا سیٹ اُٹھائے سرفروشوں کا یہ قافلہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوا۔ کیپٹن نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ جوان الله اکبر! کہہ کر وطن کے تحفظ کے لیے جان قربان کرنے کا عزم لے کر آگے بڑھے۔
صبح ساڑھے چار بجے وہ دشمن کے کیمپ کے قریب پہنچ گئے۔ کڑاکے کی سردی سے ہر چیز جمتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی مگر سرفروشوں کے سامنے یخ بستہ ہواؤں کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ کیپٹن نے دو دو افراد کے تین گروپ بنا کر ان کو بھاری ہتھیاروں کے ساتھ مختلف پوزیشنز پر تعینات کردیا۔
’’جب تک میں نہ کہوں، کوئی فائر نہیں کرے گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے ہمراہ سپاہی عرفان کو لیا اور دشمن کے کیمپ کی طرف بڑھ گیا۔ کیمپ کی چوکی کے اندر دو فوجی ساری رات فائرنگ کے بعد سو رہے تھے۔ کیپٹن نے عرفان کو اشارہ کیا کہ ان کو گلا دبا کر مارنا ہے، کوئی آواز نہ نکلے۔
اس نے شیر کی طرح جھپٹ کر اپنے شکارکو گلے سے دبوچ لیا؛ لیکن دوسرا فوجی عرفان کی گرفت سے نکل گیا۔ وہ آپس میں الجھ گئے۔ مجبوراً کیپٹن کو گولی چلانی پڑی، گولی چلتے ہی سارا کیمپ بیدار ہو گیا۔ ’’پاکستانی سینا آگئی!‘‘ کسی فوجی نے آواز لگائی۔ بے تحاشہ فائرنگ شروع ہوگئی، کیمپ سے آنے والی ایک گولی عرفان کو لگی وہ زخمی ہو کر گر پڑا۔ اب دونوں طرف سے بارود کی بارش ہو رہی تھی۔ فائرنگ تھمی توکیپٹن عرفان کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کے جسم سے بہت سا خون بہہ چکا تھا، وہ کمزور لیکن جذبے سے بھرپور آواز میں بولا: ’’سر آپ میری فکر نہ کریں، الله نے مجھے قبول کر لیا ہے۔ پھر بلند آواز میں کلمہ طیبہ پڑھا اور جان، جان آفریں کے سپرد کر دی۔
اس دوران بھاری توپ خانے اور جنگی طیاروں نے بمباری کا آغاز کردیا۔ کیپٹن شیرا نے عرفان کو تودے کے پیچھے لٹایا اورخود کیمپ سے پیچھے ہٹنے لگا۔ بمباری تھمی تو عرفان کی لاش بھارتی فوج لے جا چکی تھی۔ وہ اپنی پوزیشن پر واپس آگیا۔ کرنل شیر خان اپنی وردی پر لگے عرفان کے خون کو بار بار چھو کر دیکھتا اور اس کی مہک کو محسوس کرتا رہا، اُسے عرفان کی کامیابی پر رشک آ رہا تھا۔ جذبۂ شوقِ شھادت فزوں تر ہو چکا تھا۔
جولائی کا آغاز ہنگاموں سے بھرپور تھا۔ کیپٹن شیرخان کو ٹائیگر ہل جانے کا حکم ملا۔ پاک فوج نے وہاں تین چوکیاں قائم کر رکھی تھیں۔ ان چوکیوں کے کوڈ نیمز اے، بی اور سی تھے جبکہ انہیں کاشف، وکیل اورکلیم چوکی کہا جاتا تھا۔ ’’دشمن اے اور بی چوکی کے درمیان گھسنے میں کامیاب ہوگیا ہے،‘‘ افسر نے کیپٹن کو بریف کیا۔
’’سر! میں جان پر کھیل کر انہیں یہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دوں گا،‘‘
اس نے علاقے میں پہنچ کر صورت حال کا جائزہ لیا اور علی الصبح حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کمپنی کے سارے جوان آج کچھ کر گزرنا چاہتے تھے۔ ادھر بھارتی فوج ٹائیگر ہل کی پوزیشن پر ہر صور ت قبضہ برقرار رکھنا چاہتی تھی۔
سات جولائی کو نماز فجر ادا کرنے کے بعد کیپٹن نے دشمن پر حملہ کر دیا۔ چار بھارتی زخمی ہوئے اور باقی فوجی بھاگ نکلے۔ صورت حال پر کنٹرول کرتے ہی وہ آگے بڑھے اور اگلی چوکی پر میجر ہاشم سے جا ملے۔ ابھی حالات کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ دشمن کی ایٹ سکھ رجمنٹ نے بھرپور حملہ کر دیا۔
پاک فوج کے سپاہی پوزیشنز بدل بدل کر بھرپور مقابلہ کرتے رہے لیکن اسلحے کی کمی راہ کا پہاڑ بن گئی، چنانچہ میجر ہاشم نے توپ خانے کو اپنی ہی پوزیشن پر گولہ باری کرنے کا حکم دے دیا۔ جنگ میں یہ حکم اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ دشمن کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔ اب گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی، پیچھے سے گولے گر رہے تھے اور سامنے سے دشمن گولیاں برسا رہا تھا۔ پاک فوج کے جوان ایک ایک کرکے جام شہادت نوش کر رہے تھے۔ کیپٹن شیر خان بھی زخمی ہوچکا تھا۔ اسے ایک سکھ فوجی کی آواز سنائی دی جو گالی دے کر کہہ رہا تھا: ’’مرگئے سارے!‘‘
کیپٹن نے سر اُٹھا کر دیکھا، وہ ایک شہید کے پاک چہرے پر ٹھوکریں مار رہا تھا۔ کیپٹن نے ایک نظر اپنے اطراف میں پڑے جوانوں کی لاشوں پر ڈالی پھر ہاتھ بڑھا کر ایک فوجی کی مشین گن اٹھا لی اور لاشوں کی بے حرمتی کرنے والے سپاہی پر گولیوں کا برسٹ مارا۔ اس کے ساتھ کھڑے دو سپاہی بھی ڈھیر ہو گئے۔ باقی فوجی فائرنگ کی آواز سن کر سمجھے کہ پاک فوج نے پلٹ کر حملہ کر دیا اور بھاگ نکلے، وہ اپنے کیمپ کی طرف دوڑ رہے تھے، زخمی شیر ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ بھارتی سپاہی کیمپ میں داخل ہوئے تو کیپٹن بھی بے دھڑک ان کے پیچھے اندر چلا گیا اور ایک ایک کو نشانہ بنانے لگا۔ اب بھارتی فوجیوں کو پتا چلا کہ انہیں یہاں تک بھگا کر لانے والا صرف ایک شخص ہے۔ وہ کیپٹن کو گھیرنے کی کوشش میں تھے۔ جو سامنے آتا، کیپٹن فائر کھول کر اسے نشانہ بناتا۔ یہ اعصاب شکن لمحات تھے۔
آخر وہ وقت بھی آگیا کہ جب کیپٹن کی مشین گن کا میگزین خالی ہو گیا۔ اتنے میں بھارتی فوج کا کمانڈنگ افسر بھی باہر آ گیا۔ پچاس کے قریب سپاہیوں نے کیپٹن کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا۔ کمانڈنگ آفسر نے کیپٹن کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا۔
لیکن! کیپٹن کرنل شیرخان تو شھادت کی طلب میں وہاں پہنچا تھا، وہ ہتھیار کیسے ڈال دیتا۔ اس نے اپنے قریب کھڑے سی او کے سر پر بندوق کا بٹ مارا۔ افسر نے فائر کا حکم دے دیا۔ دشمن کی بندوقوں کے دہانے کھل گئے۔ پگھلا ہوا سیسہ کیپٹن کے سینے میں اتر رہا تھا۔ اس قدر زخمی ہوجانے کے بعد بھی کیپٹن کی کوشش تھی کہ کسی طرح سی او کو ایک بار پھر نشانہ بنائے۔ وہ دشمن کوایسا سبق سکھانا چاہتا تھا جو مدتوں یاد رکھا جائے۔ کچھ اور گولیاں کیپٹن کے جسم سے پار ہوئیں تو اس کی پیش قدمی رک گئی۔ شہادت کی منزل قریب آ چکی تھی۔
’’بیٹا کبھی شہادت کا وقت آئے تو دشمن کے سامنے سر اور سینہ نہ جھکنے دینا‘‘ اس کے ذہن میں اپنے دادا گلاب خان کی ہدایت گونجی اور وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور ہاتھ میں تھامی مشین گن کا سہارا لے لیا۔
“الله اکبر! لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ،‘‘ کیپٹن کے جسد خاکی نے آخری ہچکی لی اور اسی طرح بیٹھے بیٹھے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ اس کا سر مشین گن کے ساتھ لگا ہوا تھا۔
بھارتی فوج کے جوان اور کمانڈنگ افسر حیرت کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ کچھ سپاہیوں نے غصے کے عالم میں کیپٹن کی لاش کی بے حرمتی کرنا چاہی تو کمانڈنگ آفسر نے جوانوں کو سختی سے منع کیا۔ ’’کوئی اس جوان کی لاش کو ہاتھ نہ لگائے۔”
وہ کیپٹن کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر حیران رہ گیا۔
’’بہت ہی جی دار فوجی تھا۔ اس کی بہادری نے میرا دل جیت لیا اس کی لاش کو عزت و احترام کے ساتھ سری نگر پہنچا دو،‘‘ کرنل شیر خان کی ہیبت کے زیر اثر اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے:
کمانڈنگ افسر نے کرنل شیر خان کی لاش عزت و احترام کے ساتھ اعلی انتظامیہ تک پہنچائی اور اپنے افسروں سے اس کی بہادری کا اعتراف پاکستانی حکومت تک پہنچانے کی درخواست بھی کی جو قبول کر لی گئی۔
چنانچہ اٹھارہ جولائی کو انڈین ائیر لائنز کے ذریعے دہلی سے آنے والی پرواز پر بھارتی حکومت کی طرف سے دو تابوت بھیجے گئے۔ ایک تابوت میں کیپٹن کا جسد خاکی تھا جبکہ دوسرے فوجی کی شناخت ہونا باقی تھی۔ بلوچ رجمنٹ کے جوانوں نے تابوت جہاز سے اتارے اور مارچ کرتے ہوئے زمین پر رکھ دیئے۔ فوجی جوانوں کے ساتھ بے شمار دوسرے لوگ بھی شہید کے استقبال کے لیے وہاں موجود تھے، انہوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ اگرچہ سب کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں لیکن ان کے سینے فخر سے چوڑے ہو رہے تھے۔
یہاں سے تابوت کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ پہلے اسلام آباد اور پھر ان کے آبائی علاقے نوا کلی پہنچا دیا گیا۔ وہ نوا کلی کی تاریخ کا سب بڑا جنازہ تھا۔ کیپٹن کرنل شیر خان صرف نام کا ہی نہیں حقیقت میں گارگل کا شیرتھا۔
حکومتِ پاکستان کی طرف سے کیپٹن کرنل شیر خان کو ان کی اس بے مثال بہادری پر پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز “نشانِ حیدر” دیا گیا۔
نزہت وسیم
“یہ دنیا کے تین سب سے بلند پہاڑی سلسلے ہیں جو اونچی اور دشوار گزار چوٹیوں پر مشتمل ہیں اور یہاں، اس جگہ آکر مل جاتے ہیں۔ سرد موسم میں درجہ حرارت منفی ساٹھ ڈگری تک گر جاتا ہے۔ برفانی طوفان اور ہواؤں کے جھکڑ دوسو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے ہیں اور ہر سال چالیس فٹ تک برفباری ہوتی ہے۔ “
اور یہ گلیشیئر” اس نے ایک جگہ پر چھڑی رکھی:
“قراقرم کی برفیلی چوٹیوں پر تین کھرب مکعب فٹ برف سے بنا ہوا ہے۔ تقریباً بیس ہزار فٹ کی بلندی سے شروع ہوتا ہے اور پینتالیس میل لمبا برف کا یہ منجمد دریا، قطب شمالی اور قطب جنوبی کے بعد دنیا کا سب سے بڑا گلیشیئر ہے۔ شمال مغرب کی طرف سے شروع ہو کر بل کھاتا ہوا جنوب مشرق کی جانب سانپ کی طرح نیچے آتا ہے اور بھارت کی وادی نبرا میں ختم ہوتا ہے۔”
اُس نے چھڑی کو اوپر سے نیچے کی طرف حرکت دی، پھر اپنا رُخ ساتھیوں کی طرف موڑ کر کہنے لگا: یہاں بے شمار جنگلی گلاب کھلتے ہیں، اسی لیے بلتی زبان میں اس گلیشیئر کا نام سیاچن، یعنی جنگلی گلابوں کی سرزمین ہے۔ یہاں سال کے آٹھ مہینے برفباری ہوتی رہتی ہے۔ اس قدر اونچائی کی وجہ سے صرف تیس فیصد تک آکسیجن رہ جاتی ہے، اور سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔”
بات مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوا:
“موسم کی اسی شدت کی وجہ سے دشمن اپنے مورچے خالی کرکے پیچھے چلا جاتا ہے۔ یہی وقت ہے ہم وہاں پہنچ کر ان مورچوں پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ جب وہ واپس آئیں گے تو ان کے مورچوں میں، ہم ان کا گولیوں سے استقبال کریں گے۔” ان میں سے ایک نے جوش سے جواب دیا۔
“تم جانتے ہو وہاں اپریل سے پہلے جانا انتہائی خطرناک ہے۔ وہ برف کا قبرستان ہے۔” دوسرے نے جواب دیا۔
“اگر ہم ہمت کرکے ان کی واپسی سے چند ماہ پہلے ہی اس جگہ پر قبضہ کر لیں تو خواہ وہ پوری فوج لے آئیں ہمیں پیچھے نہیں ہٹا سکیں گے۔” پہلے نے جسے کیپٹن شیرا کہا جاتا تھا شیر کی سی دلیری سے جواب دیا:
چاروں آفیسر کچھ دیر تک آپس میں اس بات پر بحث کرتے رہے، بالآخر کیپٹن شیرا کی بات سے متفق ہوکر اس خطرناک مشن کی منظوری دے دی۔ کیپٹن شیرا کے اصرار اور شدید خواہش پر مشن اس کے حوالے کر دیا گیا۔
اس کا پورا نام کرنل شیرخان تھا۔ وہ خیبر پختونخواہ کے ضلع صوابی کے قصبے نواکلی میں یکم جون 1970 کو پیدا ہوا۔ اس کے دادا گلاب خان نے آزادی کی نعمت کے شکرانے اور شوقِ جہاد و شہادت کی بنا پر اپنے پوتے کا نام کرنل شیر خان رکھ دیا۔ دادا کا یہی شوق پوتے کے لہو میں جوش مارتا تھا۔ ایف ایس سی کے بعد پاکستان ائیر فورس میں بطور ائیرمین بھرتی ہوا، پھر بری فوج کی27 سندھ رجمنٹ میں آگیا۔1997میں نیشنل لائٹ انفنٹری میں تعیناتی کے دوران سیاچن کے سرد اور بلند ترین محاذ پر دو سال سے زائد عرصہ گزار چکا تھا۔
اب 1999 میں جب کارگل کا محاذ گرم ہونے والا تھا، شیر خان نے اس خطرناک مشن کے لیے اپنا نام پیش کر دیا۔ والدین اس کا سہرا سجانا چاہتے تھے، مگر جذبہ شوق شھادت اسے میدانِ جنگ کی طرف کھینچ رہا تھا۔
کارگل کے محاذ پر دشمن سے جنگ کرنے کے ساتھ سخت قسم کے موسمی حالات سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ کیپٹن کرنل شیر خان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دشمن سے بہت پہلے، بے رحم موسمی صعوبتوں سے لڑنے کارگل پہنچ چکا تھا، جہاں نہ سبزہ تھا نہ کوئی عمارت ، نہ سڑکیں تھیں نہ کوئی سواری، بھاری سامان کے ساتھ برف کی دبیز تہہ اور اونچے نیچے رستوں پر پیدل چلنا آسان نہ تھا۔
سردی کے مہینوں میں برف سے ڈھکی ان بلند ترین چوٹیوں پر کسی انسان کا زندہ رہنا ناممکن تھا، اسی لیے بھارتی فوج کنکریٹ سے بنے ہوئے اپنے مورچے خالی کرکے سری نگر چھاؤنی چلی جاتی تھی۔ کیپٹن انہی کے مورچوں میں بہادری، مستقل مزاجی اور صبر کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے جذبوں اور حوصلوں کو گرماتا، ناممکن کو ممکن بناتا ، دشمن کا انتظار کر رہا تھا۔
موسم بدلتے ہی ایک صبح برف پوش وادیوں کے آئینے میں دشمن کا عکس دکھائی دینے لگا ۔ وہ اطمینان سے اپنے ٹھکانے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ کیپٹن نے اپنے مستعد جوانوں سے کہا: “ کوئی زندہ بچ کر نہ جانے پائے۔”
جونہی دشمن رینج میں آیا، اُن پر بارود کی بارش ہونے لگی۔ پہلے ہی ہلے میں ان کے درجنوں فوجی جہنم واصل ہوگئے۔ اس سے پہلے کہ انہیں ہوش آتا چوٹیوں پر متعین جوانوں نے ان پر مارٹر گنوں سے فائرنگ کر دی۔ اسلحہ سے بھری گاڑیاں سپاہیوں سمیت بھسم ہوگئیں۔
کیپٹن کرنل شیرخان نے ثابت کر دیا کہ برف ان کا خون جما سکتی ہے لیکن خون میں دوڑتے جذبے کو ٹھنڈا نہیں کر سکتی۔ پہلے دن کے اس معرکے نے بھارتی فوج کو تہہ تیغ کر دیا۔ وہ جان گئے کہ یہ علاقہ اب ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ بھارتی حکومت تک بھی اطلاع پہنچ گئی، چنانچہ فورا ہی بے شمار فوجی دستے کمک کے لیے روانہ کر دئیے گئے۔ بوفرز توپوں کے استعمال کے باوجود کئی ہفتوں تک بھارتی فوج اپنے مورچے واپس نہ لے سکی۔
یہ ایک بڑی کامیابی تھی، اب کارگل اور لداخ شاہراہ مکمل طور پر مجاہدین کے کنٹرول میں آگئی۔ سیاچن پر بھارتی فوج کا مورال گرگیا۔ دراس اور کارگل کی اہم چوٹیاں اور پینتیس کلومیٹر تک کا علاقہ بھارتی فوج کے ہاتھ سے نکل کر پاک فوج کے قبضے میں آ گیا۔
دشمن مزید تین ڈویژن فوج میدان جنگ میں لے آیا۔ رات دن گولہ باری کے باوجود کامیابی نہ ملنے پر بھارتی فضائیہ بھی جنگ میں کود پڑی تو پاکستانی ہنزہ میزائلوں کے ہاتھوں دو طیاروں کی تباہی نے ان کے خوف میں مزید اضافہ کردیا۔
سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس محاذ پر زبردست جنگ جاری تھی۔ دن بھر بھاری توپ خانے سے پاکستانی چوکیوں پر گولہ باری کی جاتی اور رات کو بھارتی فوج آگے بڑھنے کی کوشش کرتی۔ مئی کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ میدانی علاقوں میں شدید گرمی تھی لیکن کارگل کا درجہ حرارت اس وقت بھی منفی دس درجے سے کم تھا۔ افسران نے کیپٹن شیرخان کو ریکی کرنے کا حکم دیا۔ وہ تین ساتھیوں سمیت روانہ ہوا اور دو روز بعد دشمن کے مقابل جگہ ڈھونڈ کر ایک چوکی قائم کر لی، جہاں سے وہ بھارتی پوسٹوں کو نشانہ بنانے لگے۔ بھارتی فوج کے لیے یہ چوکی وبال جان بن گئی۔ تنگ آ کر انہوں نے بھاری توپ خانے سے پانچ گھنٹے مسلسل شدید گولہ باری کی۔ انہیں یقین تھا کہ کوئی شخص زندہ نہیں بچے گا اور اگر زندہ رہا بھی تو اس چوٹی پر نہیں ہو گا۔ اس زعم میں انہوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے درجن بھر فوجی چوکی کے عین سامنے اتار دیئے۔
’’دشمن اپنی موت آپ مرنے آگیا ہے،‘‘ کیپٹن نے اپنے آپ سے سرگوشی کی۔ وہ سب شدید گولہ باری سے بچنے کےلیے تودوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے۔ بھارتی فوج کے اُترتے ہی چوکی پر آگئے اور دشمن پر فائرکھول دیا۔ آدھے فوجی مارے گئے اور باقی فوری طور پر راہ فرار اختیار کر گئے۔
کیپٹن نے فرار ہوتے فوجیوں کو مخاطب کرکے کہا، ’’میں یہاں پر تم لوگوں کی موت کا پروانہ ہوں!‘‘ کیپٹن کرنل شیر خان کی دھاڑ برف پوش چوٹیوں سے ٹکرا کر پوری وادی میں گونج رہی تھی۔ یہ شیر کی دھاڑ تھی جو اس علاقے میں اپنی بادشاہی کا اعلان کر رہا تھا۔
جنگ ابھی جاری تھی، کارگل کی چوٹیاں اپنے سینے پر گولہ باری سہتی رہیں۔ جون کی آخری تاریخیں آن پہنچیں۔ ایک دن گشت کے دوران کیپٹن نے ایک چوٹی پر بھارتی فوج کے کیمپ کا سراغ لگا لیا۔ افسران سے حملے کی اجازت طلب کی جو فوراً مل گئی۔ بھارتی فوج کو منہ توڑ جواب دینے کا وقت آن پہنچا تھا۔ اس نے چند افراد منتخب کئے۔ دشمن کے قبضہ شدہ ہتھیاروں میں سے دو مشین گنز، سات دستی بم، ایک آر پی جی، چار جی تھری رائفلز اور ایک موٹرولا سیٹ اُٹھائے سرفروشوں کا یہ قافلہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوا۔ کیپٹن نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ جوان الله اکبر! کہہ کر وطن کے تحفظ کے لیے جان قربان کرنے کا عزم لے کر آگے بڑھے۔
صبح ساڑھے چار بجے وہ دشمن کے کیمپ کے قریب پہنچ گئے۔ کڑاکے کی سردی سے ہر چیز جمتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی مگر سرفروشوں کے سامنے یخ بستہ ہواؤں کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ کیپٹن نے دو دو افراد کے تین گروپ بنا کر ان کو بھاری ہتھیاروں کے ساتھ مختلف پوزیشنز پر تعینات کردیا۔
’’جب تک میں نہ کہوں، کوئی فائر نہیں کرے گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے ہمراہ سپاہی عرفان کو لیا اور دشمن کے کیمپ کی طرف بڑھ گیا۔ کیمپ کی چوکی کے اندر دو فوجی ساری رات فائرنگ کے بعد سو رہے تھے۔ کیپٹن نے عرفان کو اشارہ کیا کہ ان کو گلا دبا کر مارنا ہے، کوئی آواز نہ نکلے۔
اس نے شیر کی طرح جھپٹ کر اپنے شکارکو گلے سے دبوچ لیا؛ لیکن دوسرا فوجی عرفان کی گرفت سے نکل گیا۔ وہ آپس میں الجھ گئے۔ مجبوراً کیپٹن کو گولی چلانی پڑی، گولی چلتے ہی سارا کیمپ بیدار ہو گیا۔ ’’پاکستانی سینا آگئی!‘‘ کسی فوجی نے آواز لگائی۔ بے تحاشہ فائرنگ شروع ہوگئی، کیمپ سے آنے والی ایک گولی عرفان کو لگی وہ زخمی ہو کر گر پڑا۔ اب دونوں طرف سے بارود کی بارش ہو رہی تھی۔ فائرنگ تھمی توکیپٹن عرفان کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کے جسم سے بہت سا خون بہہ چکا تھا، وہ کمزور لیکن جذبے سے بھرپور آواز میں بولا: ’’سر آپ میری فکر نہ کریں، الله نے مجھے قبول کر لیا ہے۔ پھر بلند آواز میں کلمہ طیبہ پڑھا اور جان، جان آفریں کے سپرد کر دی۔
اس دوران بھاری توپ خانے اور جنگی طیاروں نے بمباری کا آغاز کردیا۔ کیپٹن شیرا نے عرفان کو تودے کے پیچھے لٹایا اورخود کیمپ سے پیچھے ہٹنے لگا۔ بمباری تھمی تو عرفان کی لاش بھارتی فوج لے جا چکی تھی۔ وہ اپنی پوزیشن پر واپس آگیا۔ کرنل شیر خان اپنی وردی پر لگے عرفان کے خون کو بار بار چھو کر دیکھتا اور اس کی مہک کو محسوس کرتا رہا، اُسے عرفان کی کامیابی پر رشک آ رہا تھا۔ جذبۂ شوقِ شھادت فزوں تر ہو چکا تھا۔
جولائی کا آغاز ہنگاموں سے بھرپور تھا۔ کیپٹن شیرخان کو ٹائیگر ہل جانے کا حکم ملا۔ پاک فوج نے وہاں تین چوکیاں قائم کر رکھی تھیں۔ ان چوکیوں کے کوڈ نیمز اے، بی اور سی تھے جبکہ انہیں کاشف، وکیل اورکلیم چوکی کہا جاتا تھا۔ ’’دشمن اے اور بی چوکی کے درمیان گھسنے میں کامیاب ہوگیا ہے،‘‘ افسر نے کیپٹن کو بریف کیا۔
’’سر! میں جان پر کھیل کر انہیں یہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دوں گا،‘‘
اس نے علاقے میں پہنچ کر صورت حال کا جائزہ لیا اور علی الصبح حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کمپنی کے سارے جوان آج کچھ کر گزرنا چاہتے تھے۔ ادھر بھارتی فوج ٹائیگر ہل کی پوزیشن پر ہر صور ت قبضہ برقرار رکھنا چاہتی تھی۔
سات جولائی کو نماز فجر ادا کرنے کے بعد کیپٹن نے دشمن پر حملہ کر دیا۔ چار بھارتی زخمی ہوئے اور باقی فوجی بھاگ نکلے۔ صورت حال پر کنٹرول کرتے ہی وہ آگے بڑھے اور اگلی چوکی پر میجر ہاشم سے جا ملے۔ ابھی حالات کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ دشمن کی ایٹ سکھ رجمنٹ نے بھرپور حملہ کر دیا۔
پاک فوج کے سپاہی پوزیشنز بدل بدل کر بھرپور مقابلہ کرتے رہے لیکن اسلحے کی کمی راہ کا پہاڑ بن گئی، چنانچہ میجر ہاشم نے توپ خانے کو اپنی ہی پوزیشن پر گولہ باری کرنے کا حکم دے دیا۔ جنگ میں یہ حکم اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ دشمن کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔ اب گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی، پیچھے سے گولے گر رہے تھے اور سامنے سے دشمن گولیاں برسا رہا تھا۔ پاک فوج کے جوان ایک ایک کرکے جام شہادت نوش کر رہے تھے۔ کیپٹن شیر خان بھی زخمی ہوچکا تھا۔ اسے ایک سکھ فوجی کی آواز سنائی دی جو گالی دے کر کہہ رہا تھا: ’’مرگئے سارے!‘‘
کیپٹن نے سر اُٹھا کر دیکھا، وہ ایک شہید کے پاک چہرے پر ٹھوکریں مار رہا تھا۔ کیپٹن نے ایک نظر اپنے اطراف میں پڑے جوانوں کی لاشوں پر ڈالی پھر ہاتھ بڑھا کر ایک فوجی کی مشین گن اٹھا لی اور لاشوں کی بے حرمتی کرنے والے سپاہی پر گولیوں کا برسٹ مارا۔ اس کے ساتھ کھڑے دو سپاہی بھی ڈھیر ہو گئے۔ باقی فوجی فائرنگ کی آواز سن کر سمجھے کہ پاک فوج نے پلٹ کر حملہ کر دیا اور بھاگ نکلے، وہ اپنے کیمپ کی طرف دوڑ رہے تھے، زخمی شیر ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ بھارتی سپاہی کیمپ میں داخل ہوئے تو کیپٹن بھی بے دھڑک ان کے پیچھے اندر چلا گیا اور ایک ایک کو نشانہ بنانے لگا۔ اب بھارتی فوجیوں کو پتا چلا کہ انہیں یہاں تک بھگا کر لانے والا صرف ایک شخص ہے۔ وہ کیپٹن کو گھیرنے کی کوشش میں تھے۔ جو سامنے آتا، کیپٹن فائر کھول کر اسے نشانہ بناتا۔ یہ اعصاب شکن لمحات تھے۔
آخر وہ وقت بھی آگیا کہ جب کیپٹن کی مشین گن کا میگزین خالی ہو گیا۔ اتنے میں بھارتی فوج کا کمانڈنگ افسر بھی باہر آ گیا۔ پچاس کے قریب سپاہیوں نے کیپٹن کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا۔ کمانڈنگ آفسر نے کیپٹن کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا۔
لیکن! کیپٹن کرنل شیرخان تو شھادت کی طلب میں وہاں پہنچا تھا، وہ ہتھیار کیسے ڈال دیتا۔ اس نے اپنے قریب کھڑے سی او کے سر پر بندوق کا بٹ مارا۔ افسر نے فائر کا حکم دے دیا۔ دشمن کی بندوقوں کے دہانے کھل گئے۔ پگھلا ہوا سیسہ کیپٹن کے سینے میں اتر رہا تھا۔ اس قدر زخمی ہوجانے کے بعد بھی کیپٹن کی کوشش تھی کہ کسی طرح سی او کو ایک بار پھر نشانہ بنائے۔ وہ دشمن کوایسا سبق سکھانا چاہتا تھا جو مدتوں یاد رکھا جائے۔ کچھ اور گولیاں کیپٹن کے جسم سے پار ہوئیں تو اس کی پیش قدمی رک گئی۔ شہادت کی منزل قریب آ چکی تھی۔
’’بیٹا کبھی شہادت کا وقت آئے تو دشمن کے سامنے سر اور سینہ نہ جھکنے دینا‘‘ اس کے ذہن میں اپنے دادا گلاب خان کی ہدایت گونجی اور وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور ہاتھ میں تھامی مشین گن کا سہارا لے لیا۔
“الله اکبر! لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ،‘‘ کیپٹن کے جسد خاکی نے آخری ہچکی لی اور اسی طرح بیٹھے بیٹھے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ اس کا سر مشین گن کے ساتھ لگا ہوا تھا۔
بھارتی فوج کے جوان اور کمانڈنگ افسر حیرت کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ کچھ سپاہیوں نے غصے کے عالم میں کیپٹن کی لاش کی بے حرمتی کرنا چاہی تو کمانڈنگ آفسر نے جوانوں کو سختی سے منع کیا۔ ’’کوئی اس جوان کی لاش کو ہاتھ نہ لگائے۔”
وہ کیپٹن کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر حیران رہ گیا۔
’’بہت ہی جی دار فوجی تھا۔ اس کی بہادری نے میرا دل جیت لیا اس کی لاش کو عزت و احترام کے ساتھ سری نگر پہنچا دو،‘‘ کرنل شیر خان کی ہیبت کے زیر اثر اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے:
کمانڈنگ افسر نے کرنل شیر خان کی لاش عزت و احترام کے ساتھ اعلی انتظامیہ تک پہنچائی اور اپنے افسروں سے اس کی بہادری کا اعتراف پاکستانی حکومت تک پہنچانے کی درخواست بھی کی جو قبول کر لی گئی۔
چنانچہ اٹھارہ جولائی کو انڈین ائیر لائنز کے ذریعے دہلی سے آنے والی پرواز پر بھارتی حکومت کی طرف سے دو تابوت بھیجے گئے۔ ایک تابوت میں کیپٹن کا جسد خاکی تھا جبکہ دوسرے فوجی کی شناخت ہونا باقی تھی۔ بلوچ رجمنٹ کے جوانوں نے تابوت جہاز سے اتارے اور مارچ کرتے ہوئے زمین پر رکھ دیئے۔ فوجی جوانوں کے ساتھ بے شمار دوسرے لوگ بھی شہید کے استقبال کے لیے وہاں موجود تھے، انہوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ اگرچہ سب کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں لیکن ان کے سینے فخر سے چوڑے ہو رہے تھے۔
یہاں سے تابوت کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ پہلے اسلام آباد اور پھر ان کے آبائی علاقے نوا کلی پہنچا دیا گیا۔ وہ نوا کلی کی تاریخ کا سب بڑا جنازہ تھا۔ کیپٹن کرنل شیر خان صرف نام کا ہی نہیں حقیقت میں گارگل کا شیرتھا۔
حکومتِ پاکستان کی طرف سے کیپٹن کرنل شیر خان کو ان کی اس بے مثال بہادری پر پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز “نشانِ حیدر” دیا گیا۔
نزہت وسیم
مدیر کی آخری تدوین: