جھوٹ کی سزا
یہ ضرور کسی ڈائن کاکام ہے ۔ جنگل کے اوجھا نامی لکڑ بھگّے نے آنکھیں گول گول گھما کر کہا۔’’یہ جو آج کل ایک کے بعد ایک بچّے مرتے جارہے ہیں ، ضرور اس میں اُسی کا ہاتھ ہے وہ ڈائن ہے ۔ اب اُس کی نظر تیرے بچّے پر ہے۔‘‘
’’ تو ہمارا کیا ہوگا؟ ‘‘براؤنی بھالو لگا رونے ۔’’ہمارے دو بچّے ہوئے ایک تو پہلے ہی خدا کو پیارا ہوگیا۔ خدا جانے اسے کون سی بیماری لگی ہے۔ ‘‘
بنٹی لومڑی مانو سسکنے لگی :’’ بابا! کہیں یہ اُس سنہری ہرن کے کرتوت تو نہیں؟ اتنے بڑے کھیت اور کٹیا کی اکیلی مالکن بنی بیٹھی ہے۔‘‘
سنہری ہرن تھی تو اکیلی اس کا کوئی بھی نہ تھا مگر کھیتوں پر راج تھا تو اسی کا ۔ جیسے ہی بنٹی لومڑی نے ہرن کی بات کی، تو مانو اوجھالکڑ بھگّا اسی موقع کی تلاش میں تھا ۔اس نے کہا :’’ ارے ! وہی تو ڈائن ہے اگر اس کانٹے کو راستے سے ہٹا دیا جائے تو کتنا اچھا ہوگا ؟ پھر سارے کھیتوں پر ہماراحکم چلے گا۔ ‘‘ لکڑ بھگّے نے براؤنی بھالو کو اکساتے ہوئے مزید کہا کہ : ’’ ابھی اور اسی وقت جنگل کے راجا شیر سنگھ کے پاس چلو ۔ وہ پنچایت بلائے مَیں سب کے سامنے اس بات کااقرار کروں گا کہ سنہری ہرن ڈائن ہے اور اس کی نظر تمہارے بیٹے پر ہے ۔ وہ آنکھوں آنکھوں ہی سے بچّے کا خون چوس رہی ہے۔‘‘
براؤنی بھالو ان کے جھانسے میں آگیا:’’ ابھی چلو بابا! شیر سنگھ کے پاس ۔‘‘
پنچایت میں اوجھا لکڑ بھگّے اور بنٹی لومڑی نے سنہری ہرن کے خلاف گواہی دی ۔ شیر سنگھ نے فیصلہ سنادیا کہ :’’ سنہری ہرن ڈائن ہے، اس لیے آج رات جنگل کے تمام جانور میدان میں جمع ہوجائیں تاکہ اسے درخت سے باندھ کر زندہ جلادیا جائے۔‘‘
سنہری ہرن بہت روئی لیکن پتھر دل والے شیر سنگھ ، بنٹی لومڑی، اوجھا لکڑ بھگّے کے دل نہ پگھلے ۔ بل کہ بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے تو جیسے اسی بات کا انتطار کررہے تھے کہ کب راجا شیر سنگھ فیصلہ سنائے اور کب وہ سنہری ہرن کو دبوچ لیں؟ چناں چہ جیسے ہی راجا نے فیصلہ سنایا وہ دونوں دوڑے اور سنہری ہرن کو پکڑ کر درخت سے باندھنے لگے۔
ہرن کا کوئی بھی نہ تھا، وہ بالکل اکیلی تھی۔ جنگل کے کسی جانور میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ راجا شیر سنگھ کے فیصلے کے خلاف زبان کھولیں۔ لیکن کھوکھو بندر اور میکو خرگوش نے دل میں یہ ٹھان لی کہ بدمعاشوں کو ہم ضرور سبق سکھائیں گے۔ کیوں کہ انھیں یہ پتا تھا کہ یہ سب بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے کی سازش ہے۔
سنہری ہرن کو درخت سے باندھ کر بنٹی لومڑی ، اوجھا لکڑ بھگّا اور اس کے دوسرے بدمعاش ساتھی درخت کے قریب ہی بیٹھ کر موج مستی کرتے ہوئے بے چاری سنہری ہرن کا مذاق اڑارہے تھے اور خوب کھاپی کر ناچتے گاتے ہوئے جشن منارہے تھے۔ جب شام ہوئی اور اندھیرا پھیلنے لگا تو ایک ایک کرکے دوسرے جنگلی جانور میدان میں درخت کے ارد گرد جمع ہونے لگے ۔ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر کھوکھو بندر درخت پر چھلانگ مار کر بیٹھ گیا۔ جب سب جانور راجا شیر سنگھ کے آنے کی خبر سُن کر اس کے استقبال میں مصروف ہوگئے تو کھوکھو بندر نے سنہری ہرن کو درخت سے کھول دیااور اس سے کہا کہ :’’سنہری ہرن ! جنگل میں جھیل کے پاس جھاڑی میں بھاگ کر چھپ جاؤ کل ہم تم سے ملیں گے۔‘‘
اِدھر جیسے ہی سنہری ہرن کوکھوکھونے کھولا تو وہ چوکڑیاں بھرتے ہوئے وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی ۔ میکو خرگوش چند لکڑیاں اور گھاس پھوس اور چند ہڈیوں کے ٹکڑے لیے پہلے ہی سے تیار تھا ، کھوکھو بندر اور میکو خرگوش دونوں نے آگ جلادی اور اوجھا لکڑ بھگّے کو دھوکا دینے کے لیے ہڈیاں بکھیر دیں۔
سب جانور گھبرانے لگے۔ شیرراجا نے جب یہ دیکھا تو کہا :’’ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ڈائن کو اس کے کیے کی سزا مل گئی ، آگ لگ گئی اور وہ اس میں جل کر مر گئی ۔‘‘
اتنا سُن کر بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے نے نعرہ مارتے ہوئے کہا کہ :’’ چلو اب اس کے کھیت اور کٹیا پر ہمارا قبضہ ہوجائے گا۔‘‘
لیکن یہ کیا براؤنی کے گھر سے خبر آئی کہ اُس کا دوسرا بچّہ بھی مرگیا ۔ تمام لوگ حیران رہ گئے کہ سنہری ہرن جو کہ ڈائن تھی وہ تو مر گئی پھر براؤنی کا بچّہ کیسے مرا؟
جنگل سے لگ کر ایک کارخانہ تھا جہاں سے زہریلا دھواں اور خراب پانی نکل کر جنگل کے چشمے میں مل جاتا تھا۔ اسی پانی کو جنگلی جانوروں کے بچّے پی لیتے تھے وہی ان کے مرنے کا سبب تھا۔ میکو خرگوش اور کھوکھو بندر براؤنی بھالو کو تسلی دینے لگے :’’ دیکھا تم نے تمہارے بھولے پن کا فائڈہ اٹھا کر ان لوگوں نے ایک بے گناہ ہرن پر غلط الزام بھی لگایااور اس کی جان بھی لے لی ، بے چاری سنہری ہرن کتنی سندر اورخوب صورت تھی۔ یہ سب بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے کی سازش ہے وہ لومڑی کے کھیتوں اور کٹیا پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔‘‘
میکو خرگوش کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ اُسی رات سنہری ہرن کے کھیت میں بیٹھے بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّا جشن منارہے تھے۔ اچانک بنٹی لومڑی بُری طرح ڈر کر چلّانے لگی:’’ لکڑ بھگّا بابا! بھوت … بھوت…بچاؤ… بچاؤ !!‘ ‘
ان دونوں نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ کی ہرن اُسی زمین پر یہاں سے وہاں بے تحاشہ دوڑ رہی ہے اور اُس کی سینگ پر آگ جل رہی ہے۔
میکو خرگوش اور کھوکھو بندر ایک جگہ چھپ کر سارا ماجرا دیکھ رہے تھے۔ میکو خرگوش کے مشورے پر کھوکھو بندر نے سنہری ہرن کے جسم پر سفید رنگ پوت دیا تھا اور اس کے دونوں سینگوں پر موم بتّی جلا کر لگادی تھی اور اسے کہا تھا کہ جاکر تمہارے کھیت پر ان لوگوں سے تھورا فاصلے پر بے تحاشہ اِدھر اُدھر دوڑ لگاؤ۔
اوجھا لکڑ بھگّے کی ساری اوجھائی ہوگئی پھُر … لگا چلّانے :’’ ارے باپ رے… ارے باپ رے … کوئی ہے جو ہمیں اِس بھوت سے نجات دلائے … بچاؤ بچاؤ ۔‘‘
بنٹی لومڑی نے جب اوجھا لکڑ بھگّے کی یہ حالت دیکھی تو وہ لگی دھاڑیں مار مار کر رونے۔
میکو خرگوش ، کھوکھو بندر اور ان کے دوست نیٖل گائے، مور ،طوطا، بارہ سنگھاوغیرہ لگے زور زور سے چھپ کر چلّانے کہ :’’ سنہری ہرن کی آتما زمین پر لوٹ آئی ہے … اپنی موت کا بدلہ لینے… جھوٹوں کا پردہ فاش کرنے… اور بدمعاشوں کو سزادینے … بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے کا خون چوسنے … ‘‘
بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے نے جب یہ آواز سُنی تو ڈر کے مارے بے ہوش ہوگئے ۔ میکو خرگوش اور کھوکھو بندر کے ساتھیوں نے دونوں کو رسیوں سے جکڑ لیا اور راجا شیر سنگھ کے دربار میں لے گئے اور وہاںان لوگوں کے دھوکے اور جھوٹ کی قلعی کھول دی۔
راجا شیر سنگھ کو جب اصلیت کا پتا چلا تو اس نے فیصلہ سنایا کہ:’’ آج رات بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے کو درخت سے باندھ کرزندہ جلایا جائے گا۔‘‘
براؤنی بھالو روتے ہوئے آگے بڑھا اور سنہری ہرن سے معافی مانگنے لگا۔ سنہری ہرن نے اسے معاف کردیا اور میکو خرگوش اور کھوکھو بندر کے گلے لگ کر رونے لگی ۔ اور کہتی جاتی کہ:’’ مَیں تم لوگوں کا شکریہ کیسے ادا کروں کہ تمہاری عقل مندی سے میری جان بچ گئی ، اور جھوٹے اور مکار لوگوں کو ان کے کیے کی سزا مل گئی۔
( نامعلوم)
بِٹّی
سات سال کی ننھی سی انشا لال رنگ کا فراک پہنے اِدھر اُدھر اِٹھلاتی پھر رہی تھی ۔ وہ دوڑ دوڑ کر کیاریوں کے پاس تتلیاں پکڑنے کی کوشش کررہی تھی، لیکن شوخ و چنچل تتلیاں تھیں کہ اُس کے ہاتھ ہی نہیں لگ رہی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کسی طرح کوئی تتلی ایک بار ہاتھ میں آجائے ، تو انھیں خوب پیار کروں گی۔ دیر تک ان کے ساتھ کھیلوں ، پیار بھری باتیں کروں اور پھر اڑادوں ۔ ننھے دل نے سوچا کاش! مَیں بھی اِن جیسی ہی ہوتی دور دراز ملکوں کی سیر کرتی ، آسمان میں اڑتی ۔ہاے! کتنے نرم و نازک سے چمکیلے ، خوب صورت اور رنگ برنگے پروں والی ہیں یہ تتلیاں ، وہ دل ہی دل میں کہتی۔ کچھ دیر تک وہ تتلیوں کے ساتھ بھاگتے بھاگتے تھک گئی تو آکر اپنے پیارے طوطے میاں کے پنجرے کے پاس بیٹھ گئی۔ چمکارتے ہوئے بولی:’’ کیا بات ہے طوطے میاں ؟تم کیوں اُداس ہو؟ کیا تمہارے ممّی پاپا بھی تمہیں اکیلا چھوڑ کر کہیں چلے گئے ہیں؟ مَیں بھی تمہاری طرح بہت بور ہوجاتی ہوں ، آخر مَیں بھی کب تک بوڑھی ممانی کے ساتھ کھیلوں۔‘‘
انشا کی بات طوطے میاں کی سمجھ میں آئی یا نہیں انھوں نے پنجرے سے ٹیں ٹیں ٹیں بِٹّی بِٹّی پکارا، جیسے انشا کی تکلیف انھیں سمجھ میں آگئی ہو۔ انشا مسکرا اُٹھی۔ وہ بھاگ کر کچن روم میں گئی اور ڈھیر ساری ہری لال مرچیں لاکر پنجرے میں ڈال دی اور بولی:’’ کھالو طوطے میاں! تمہاری بِٹّی تمہارے لیے یہ مرچیں لائی ہے۔‘‘ طوطے میاں خوشی خوشی اپنی تیز چونچ سے مرچیں کتر کتر کر کھانے لگے۔ یہ دیکھ کر انشا کو بڑا اچھا لگا۔
انشا کو بھی اس وقت بھوک لگ رہی تھی۔ لیکن اُس کا کھانے کو من نہیں کررہا تھا۔ اُسے یاد آیا نوشین جو روز اپنی ممّی کے ہاتھ سے کھانا کھاتی ہے ۔انھیں کے پاس سوتی ہے ۔ اُس کے پاپا اُسے گھمانے لے جاتے ہیں ، لیکن میرے ممّی پاپا کے پاس تو میرے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ کئی بار جی میں آتا ہے کہ مَیں ضد کرکے اپنی بات پوری کراؤں ، لیکن اپنے ممّی پاپا سے مَیں بولنے کی ہمت ہی نہیں کرپاتی ۔
ننھی انشا ڈھیروں سوال اپنے دل میں لیے گھومتی رہتی۔ ایک بوڑھی ممانی ہی تھی جو اُس کے دکھ تکلیف کا خیال رکھتی تھی۔ اُس کے ممّی پاپا ممانی کواس کام کی تنخواہ دیتے تھے ۔
آج انشا کو تیز بخار تھا۔ پورا بدن بخار سے تپ رہا تھا۔ روتے روتے اُس کے آنسو گالوں پر ڈھلک کر آگئے اور ایک لکیر چھوڑ گئے۔ ممانی چاروں طرف میم صاحب ! میم صاحب! کی پکار لگارہی تھی ، ڈاکٹر کا موبائل نمبر یا فون نمبر انھیں پتا نہ تھا۔ اچانک کال بیل بجی۔ ممانی نے دوڑ کر دروازہ کھولا ۔ انشا کے ممّی پاپا دونوں دروازے پر کھڑے تھے۔ ممانی نے روتے روتے گھبراکر انشا کا سارا حال کہہ سنایا۔ ممّی پاپا دونوں بھاگ کر انشاکے پاس پہنچے ۔ وہ بے حال پڑی تھی۔ ساتھ ہی بولے جارہی تھی : ’’ ممّی پاپا! آپ لوگ مجھے پیار کیوں نہیں کرتے؟ مجھے کیوں اپنے ساتھ گھمانے نہیں لے جاتے؟ مجھے کیوں نہیں اپنے ساتھ کھلاتے اور اپنے پاس سلاتے؟‘‘
ننھی انشا کی یہ سب باتیں سن کر ممّی پاپا کو بہت شرمندگی ہوئی ۔ پاپا نے ڈاکٹر کو فون کرکے بلایا۔ ممّی نے اُسے گود میں لٹا لیا ۔ ڈاکٹر آیا دوا دی ۔ تھوڑی دیر میں انشا کا بخار اتر گیا۔ جب اُس کی آنکھیں کھلیں تو اُس نے اپنے آپ کو ممّی کی گود میں پایا۔ اُسے بہت خوشی ہوئی وہ ماں کے گلے لگ گئی۔
اُس کے پاپا نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ اب ساتھ میں گھومنے جائیں گے۔ آج سے انشا ہمارے ساتھ ہی سوئے گی۔ انشا کا خوشی کے مارے بُرا حال تھا ۔ وہ ماں کی گود سے اتر کر طوطے میاں کے پنجرے کے پاس گئی۔ اُس نے پنجرے کی کھڑکی کھول دی۔ طوطے میاں ٹیں ٹیں ٹیں کرتے بلندی کی طرف اڑ چلے اور دور سے بِٹّی بِٹّی پکارتے رہے ۔ انشا کھلکھلا کر ہنس پڑی، ممّی پاپا نے اسے گلے سے لگا لیا۔ ( آر۔ سیفی)
پِنکی اور آدم خور شیر
وڑ گاؤں نام کے ایک گاؤں میں ایک لڑکی رہتی تھی۔ اس کا نام پِنکی تھاوہ بہت نیک تھی۔ ہر ایک کے کام آتی دوسروں کی مدد کرتی ۔ جانوروں ، پرندوں اوردرختوں سے اُسے بہت پیار تھا ۔اُ س گاؤں کے پاس سے ایک ندی بہتی تھی ، جس کا نام پوسی ندی تھا۔ پِنکی کو اِس ندی سے بڑا لگاوتھا۔ جب اسکول جاتی تو ندی کے کنارے کنارے چلتی ہوئی ندی کی کل کل بہتی موجوں، اُس میں اچھلتی کودتی مچھلیوں اور سفید سفید بگلوں کو دیکھ کر خوب خوش ہوتی۔ ندی کے دونوں جانب پھل دار درخت ماحول کی خوب صورتی اور ہریالی کو بڑھا رہے تھے۔ کبھی کبھی پِنکی ان درختوں کے پھلوں کو توڑ کر کھا بھی لیتی تھی۔ اسکول سے واپسی کے وقت وہ ندی کے سنسان کنارے پر کسی درخت کی کھوہ میں اپنا بستہ رکھ دیتی اور ندی کے صاف و شفاف اور ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھوتی ۔ اور اپنے خیالوں میں مگن ہوجاتی۔
ایک دن اسکول سے لوٹتے ہوئے روز کی طرح وہ ندی کے کنارے آہستہ آہستہ چل رہی تھی کہ اچانک اُس کو ہلکی سی آواز سنائی دی :’ ’ پِنکی ! مجھے بچاؤ۔‘‘اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا ندی کے کنارے کافی دور تک بڑھتی چلی گئی ۔ اُس نے دیکھا کہ ایک مچھلی ایک شاخ پرپھنسی ہوئی تھی۔ اُسی نے اسے آواز دی تھی۔ ندی میں کود پھاند کرتے ہوئے شاید و ہ شاخ میں پھنس گئی تھی۔
پِنکی نے فوراً مچھلی کو شاخ سے چھڑا کر اُسے دوبارہ پانی میںڈال دیا۔ پانی میں پہنچتے ہی مچھلی ایک سندر اور خوب صورت پری میں بدل گئی ۔ بالکل کہانیوں والی جل پری کی طرح دل کش۔ اُس نے پِنکی سے کہا:’’ بیٹی! تم نے میری جان بچائی ہے۔ اس کے بدلے میں مَیں تمہیں ایک طلسمی بول سکھادوں گی۔‘‘ اور اُس نے پِنکی کو طلسمی بول سکھا دیا کہ پِنکی اگرکسی کو دیکھ کر یہ کہہ گی کہ:’’ چپک جاؤ۔‘‘ تو فوراً اُس جاند ار کے ہاتھ پاؤں سب چپک جائیں گے۔ اور وہ جب ہی کھلیں گے جب پِنکی کہہ گی کہ :’’ کھل جاؤ۔‘‘ اِس کے بعد پری غائب ہوگئی ، اور پِنکی بھی اپنے گھر کی طرف چل پڑی ۔
راستے میں اُسے ایک بگلا دکھائی دیا ۔ جو ایک مینڈک کو پکڑنے ہی والا تھا ۔ پِنکی نے سوچا کہ پری نے جو طلسمی بول سکھایا ہے اُسے آزمانا چاہیے۔ تب ہی تو یہ معلوم ہوسکے گا کہ اُس پری نے صحیح کہا ہے یا نہیں؟ پِنکی نے بگلے کو دیکھ کرکہا کہ :’’ چپک جاؤ۔‘‘ فوراً ہی بگلے کی چونچ ، پیر اور پرایسے چپک گئے کہ وہ ساکت ہوگیا ۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر مینڈک وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ پری کے ذریعے سیکھے گئے طلسمی بول کو اس طرح کام کرتے دیکھ کر پِنکی بہت خوش ہوئی۔ اُس نے ’’کھل جاؤ‘‘کہہ کر بگلے کی چونچ ، پیر اور پر کو کھلوادیا۔ اور آگے بڑھ گئی ۔
آگے چل کر اُسے ایک کوا ملا جو کہ ایک گلہری کو کھانے جارہاتھا ۔پِنکی نے فوراً اُسے دیکھ کر کہا :’’ چپک جاؤ۔‘‘ کوے کے پیر اور پر آپس میں چپک گئے ۔ گلہری وہاں سے بھاگ گئی۔ دوبارہ پِنکی نے کہا کہ :’’ کھل جاؤ۔‘‘ کوا آزاد ہوگیا ۔ اس طرح پِنکی نے مینڈک اور گلہری کی جان بچاکر طلسمی بول کا تجربہ کیا۔
گاؤں میں پِنکی جیسے ہی داخل ہوئی تو اُس نے دیکھا کہ کالو کتّا شمّو کی بھوری بلّی کو پکڑنے کی کوشش کررہاہے ۔ فوراً پِنکی نے کہا:’’ چپک جاؤ۔‘‘ کتا وہیں چپک کر رہ گیا۔ جب بلّی وہاں سے بھاگ گئی تو دوبارہ پِنکی نے کہا:’’’کھل جاؤ۔‘‘ کتّا آزاد ہوگیا۔
اس طرح پِنکی نے پری کے ذریعہ بتائے گئے طلسمی بول سے کئی بے زبان جانوروں اور پرندوں کی جان بچائی ۔ اسے ایسا کرتے ہوئے بہت زیادہ خوشی حاصل ہورہی تھی۔ دھیرے دھیرے گاؤں میں پِنکی کے اس طلسمی بول کی خبر عام ہوگئی تو لوگ اُس سے ڈرنے لگے۔ لیکن پِنکی بہت اچھی لڑکی تھی ۔ا ُس نے اپنے اس طلسمی بول کا غلط فائدہ نہیں اٹھایا۔
ایک دن اُس کے گاؤں کے پاس کے جنگل میں آدم خور شیر آگیا ۔اُس شیر نے آس پاس کے کئی آدمیوں کو مار کر کھالیا تھا ۔ اور خوب دہشت مچارکھی تھی۔ پِنکی کے گاؤں کے کچھ لوگ بھی اُس آدم خور شیر کا شکار ہوچکے تھے۔ آس پاس کے گاؤں اور وڑگاؤں کے لوگوں نے پِنکی سے کہا کہ وہ اُس شیر کو پکڑنے میں ہماری مدد کرے ۔
پِنکی تو تھی ہی سیدھی سادی اُس نے کہا چلو ابھی پکڑتے ہیں۔ یہ سُن کر گاؤں کے شکاری اور چند جوان پِنکی کو لیے کر جنگل کی طرف چل پڑے۔ بہت تلاش کرنے پر آخر ایک جگہ شیر کے قدموں کے نشانات دکھائی دیے ۔ ساتھ ہی تازہ خون کے دھبّے بھی دکھائی دئیے ایسا لگتاتھا کہ شیر نے پھر کسی آدمی کو شکار کیا ہے۔ تب ہی اچانک ایک جھاڑی کے پیچھے سے ان لوگوں کی طرف شیر دہاڑتے ہوئے لپکا ۔ اُسی وقت پِنکی نے فوراً اُس شیر کی طرف دیکھ کہا کہ :’’ چپک جاؤ۔‘‘ بس پھر کیا تھا شیر کی ابھی چھلانگ بھی پوری نہیں ہوپائی تھی وہ ہوا ہی میں تھا کہ اس کے پیر اور جبڑے آپس میں چپک گئے ۔ اور وہ دھڑام سے زمین پر گر پڑا۔
یہ دیکھ کرگاؤں سے آئے ہوئے تمام لوگ آگے بڑھے اور شیر کومارنے کی کوشش کرنے لگے۔ پِنکی نے کہا کہ شیر اس وقت چپکا ہوا ہے کسی کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا اس لیے اُسے رسیوں سے جکڑ کر قید کرلیا جائے اور وڑگاؤں لے جاکر سب کو بتادیا جائے تاکہ اِ س آدم خور شیر کا ڈر سب لوگوں کے دل سے نکل جائے۔
جب گاؤں کے تمام لوگوں نے شیر کو دیکھ لیا تو پِنکی نے چڑیا گھر فون کیا کہ وہ پنجرہ لے کر آئیں اور شیر کو لے جائیں ۔ چڑیا گھر کے ملازمین پنجرہ لے کر آئے اور شیر کو اس میں قید کرلیا ۔ تب پِنکی نے کہا :’’ کھل جاؤ۔‘‘ شیر کھل گیا مگر اُس نے اپنے آپ کو چڑیا گھر کے ملازمین کی قید میں دیکھ کر بہت دہاڑا ، چلایا ۔ لیکن اب وہ قید میں تھا ، جلدی سے پنجرہ جیپ میں رکھ کر اسے چڑیا گھر بھیج دیا گیا۔
سب لوگوں نے پِنکی کی دوسروں کی مدد کرنے کی عادت کی تعریف کرتے ہوئے اسے شاباشی دی۔ حکومت نے اُسے اچھے بچّے کا خطاب اور سونے کا تمغا انعام میں دیا ۔
( نامعلوم)
تم کون ہو؟
ایک بار راجا بھوج اور اس کے وزیرِ اعظم ماگھ جنگل میں شکار کھیلنے گئے۔ شکار کھیلتے کھیلتے جنگل میں دونوں بھٹک گئے۔ بھٹکتے ہوئے وہ چلے جارہے تھے کہ جنگل کے اندر انھیں ایک جھونپڑی دکھائی دی۔ اُس گھنے جنگل میں ایک جھونپڑی دیکھ کر ان دونوں کی ڈھارس بند ھ گئی کہ چلو جنگل سے نکلنے کا راستا اس جھونپڑی کے مکینوں سے معلوم ہوسکتا ہے۔ جب وہ دونوں جھونپڑی کے قریب پہنچے تو گھوڑوں کی ٹاپ سُن کر جھونپڑی سے ایک بوڑھی عورت باہر نکلی ۔
راجا نے بڑھیا سے پوچھا:’’ ماں! یہ راستا کہا جائے گا؟‘‘
بڑھیانے کہا:’’ یہ راستا تو یہیں رہے گا۔ اِس کے اوپر چلنے ولا ہی آگے یا پیچھے کہیں جائے گا۔ لیکن تم کون ہو؟‘‘
’’ہم تو مسافر ہیں۔‘‘اِس بار وزیرِ اعظم ماگھ بولے۔
’’ مسافر تو دو ہی ہیں ایک سورج دوسرا چاند۔ تم کون ہو۔‘‘ بڑھیا نے تسلی سے پوچھا ۔
’’ماں ! ہم تو مہمان ہیں۔‘‘ راجا بھوج نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
’’ مہمان تو دو ہی ہیں ۔ ایک دولت اور دوسری جوانی ، تم کون ہو؟‘‘ بڑھیا نے پھر ایک سوال داغ دیا۔
اِس بار دونوں ہی بڑھیا کا سوال سُن کر حیرت زدہ رہ گئے ۔ تھوڑی دیر توقف کے بعد دونوں نے ایک ساتھ کہاکہ:’’ ہم تو ایک دوسرے کے کام آنے والے لوگ ہیں۔ ‘‘
’’ دوسروں کے کام آنے والے تو دو ہی ہیں ایک عورت، اور دوسرے زمین ، تم کیسے ایک دوسرے کے کام آتے ہو، تم کون ہو؟‘‘ اِس بار بڑھیا مسکراتے ہوئے بولی۔
’’ ارے مائی! ہم دونوں تو سادھو ہیں ۔‘‘ اب کی راجا بھوج نے جھلاتے ہوئے کہا تو وزیرِ اعظم ماگھ نے ان کا ہاتھ دبایا اور اشارے سے کہا کہ غصہ مت کرو۔
بڑھیا نے جب راجا کو اس طرح جھلاتے ہوئے دیکھا تو اسے بڑا لطف محسوس ہوا ۔ اُس نے پھرکہنا شروع کیا کہ:’’ سادھو تو دو ہی ہیں ایک سچائی اور دوسرے بہادری ۔ تم کون ہو؟‘‘
ماگھ وزیر نے کہا:’’ بوڑھی ماں! ہم پردیسی ہیں؟‘‘
یہ سُن کر بڑھیا کی مسکراہٹ میں اضافہ ہوا اور اس نے کہا: ’’ پردیسی دو ہی ہوتے ہیں ایک جان اور دوسرے درخت کے پتے۔ تم کون ہو؟‘‘
اب راجا بھوج اور وزیرِ اعظم ماگھ کو بڑھیا کی باتیں سُن کر جھلاہٹ نہیں ہوئی بل کہ ان کو بڑھیا کی حاضر جوابی بہت پسند آئی۔ اس کے بعد راجا، وزیرِ اعظم اور بڑھیا کے درمیان اور بھی ایسے کئی سوال و جواب ہوئے ۔ آخر میں راجا بھوج اور وزیرِ اعظم ماگھ نے ہار مان لی اور کہاکہ :’’ مائی! یہ اس ملک کے راجا اور مَیں اُن کا وزیر ہوں ۔ ہم دونوں شکار کھیلتے ہوئے راستا بھٹک گئے ہیں ہم کو محل واپس جانا ہے۔ ‘‘ بڑھیا یہ سُن کر بہت خوش ہوئی اُس نے دونوں کو دودھ پلایا اور خوب آو بھگت کی۔ اور انھیں راستا سمجھانے لگی تو راجا بھوج نے کہا کہ تم بھی ہمارے ساتھ محل چلو گی اور آج سے ہماری کابینہ کی مشیرِ خاص رہوگی۔ اس طرح بڑھیا کی رہِ نمائی میں راجا بھوج اور ویرِ اعظم ماگھ گھنے جنگل سے اپنے محل واپس لوٹے۔
(نانی ماں سے سُنی ہوئی کہانی پر منحصر تفریحی کہانی ۔ سنگیتا سیٹھی)
جادوگربن گیا بندر
اسلم، اکرم، نشا اور لالو چاروں آپس میں بہت گہرے دوست تھے۔وہ سب مل جل کر رہتے تھے۔ ایک دن ان کے شہر میں ایک جادوگر آیا۔ اس جادوگر نے اپنے تھیلے سے ایک چھوٹا سا بندر نکالا ۔ اس چھوٹے سے بندر کے بچّے نے جادوگر کے کہنے پر خوب اچھا کرتب دکھلایا۔ اُس کے بعد جادوگر نے پھر سے بندر کو تھیلے میںبند کردیا۔ اسلم، اکرم، نشا اور لالونے دیکھا کہ بندر جب باہر تھا تو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بہت زیادہ اُداس ہے اور اس نے جو بھی کرتب بتائے جیسے وہ جادوگر کے ڈر سے زبردستی کررہا ہو۔
لالو نے تھیلے کے قریب جاکر پوچھا:’’ بندر بندر ! تم اتنے اُداس کیوں ہو؟‘‘ اس پر بندر نے خاموشی سے کہا:’’ اس طرح رسّیوں سے بندھے ہوئے تھیلے میں رہ کر بھلا کوئی خوش رہ سکتا ہے؟‘‘ سب بچّوں کی آنکھوں میں بندر کی اُداسی اور اس طرح اس کا قید میں رہنا دیکھ کر آنسو بھر آئے ۔ جادوگر لوگوں سے کرتب دکھانے کا پیسہ جمع کرنے میں مصروف تھا ۔ لالو نے موقع غنیمت جان کر تھیلے کی رسّی کھول دی ۔ اس طرح بندر آزاد ہوگیا۔ اور وہاں سے چھلانگ لگاتا ہوا دور جنگل کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔
جب جادوگر نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہوگیا۔ اُس نے اپنی جادو کی چھڑی اٹھائی اور لالو کے سر پر لگائی دیکھتے ہی دیکھتے لالو بندر میں بدل گیا۔
سب بچّوں نے جب اپنے ایک دوست کو بندر بنا ہوا دیکھا تووہ بھی آپے سے باہر ہوگئے ۔ اور بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ لالو کو اِس جادو سے نجات دلانے کے لیے مشورہ کرنے لگے۔ اسلم جو اُن چاروں میں بڑا اور عقل مند تھا اس نے کہا جادوگر کو سبق سکھانے کے لیے طاقت نہیں بل کہ عقل سے کام لینا پڑے گا۔
انھوں نے روتے ہوئے جادوگر سے التجا کی کہ وہ ہمارے دوست لالو کو دوبارہ انسان میں بدل دو۔ لیکن ظالم جادوگر زور زور سے قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ :’’ جب تک تم لوگ میرا بندر واپس نہیں کرو گے مَیں تب تک تمہارے دوست کو بھی واپس نہیں کروں گا۔‘‘
اسلم، اکرم اور نشا جنگل کی طرف روانہ ہوئے ۔ جیسے ہی وہ جنگل میں پہنچے تو انھیں وہ بندر دکھائی دیا۔ بندر کے بچّے نے ان لوگوں کو پہچان لیا اور اپنے ماں باپ سے سارا ماجرا کہہ سنایا کہ اِن بچّوں نے اس کو جادوگر کی قید سے چھڑایا ہے ۔ بندر نے پوچھا :’’ دوستو! تم چار تھے ، جس نے مجھے قید سے آزاد کیا تھا وہ کہاں ہے؟‘‘
تب تینوں نے کہا کہ :’’ جادوگر نے اُسے اپنی جادو ئی چھڑی سے بندر بنادیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک ہم تمہیں پکڑ کر اس کے حوالے نہیں کریں گے تب تک وہ لالو کو دوبار ہ انسان میں نہیں بدلے گا۔‘‘
یہ باتیں سُن کر بندر کے ماں باپ نے کہا :’’ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ، چلو ہم راج کماری مورنی کے پاس چلتے ہیں وہ ضرور اس کا کوئی حل بتائیں گی۔‘‘
وہ سب راج کماری مورنی کے گھر پہنچے اور سارا ماجراکہہ سنایا ۔ مورنی نے کہا :’’ بچّو! مجھے بہت خوشی ہوئی کہ تم نے ہمارے جنگل کے ایک جانور کو ظالم جادوگر کی قید سے آزاد کرایا ۔ مَیں تمہیں ایک طلسمی پنکھ دیتی ہوں ، اس پنکھ کی یہ خاصیت ہے کہ یہ جس کے ہاتھ میں ہوتا ہے اُس پر کوئی بھی جادو اثر نہیں کرتا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے راج کماری مورنی نے طلسمی پنکھ اسلم کو دیتے ہوئے کہا کہ :’’ بہادر بچّے! یہ پنکھ اپنے پاس رکھنا اور اس جادوگر سے جادوئی چھڑی چھین کر اُس کے سر پر لگادینا بس وہ فوراً بندر بن جائے گا اور پھر تمہارے دوست لالو جسے جادوگر نے بندر بنادیا ہے اس کے سر پر لگادینا وہ دوبارہ انسان میں بدل جائے گا۔‘‘
بچّوں نے راج کماری مورنی کا شکریہ ادا کیا اور اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ ابھی شام ہونے میں کافی دیر تھی ۔ بچّوں نے فوراً جادوگر کے پڑاو کی طرف رُخ کیا اورکہا کہ ہمارے دوست لالو کو انسان میں بدل دو ورنہ ہم سے مقابلے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ جادوگر نے غصے سے کہا جب تک تم میرا بندر واپس نہیں کردیتے مَیں تمہارے دوست کو بندر ہی بنائے رکھوں گا۔ بچّوں نے اشاروں ہی اشاروں میں کچھ بات کی اور تھوڑا دور ہٹ گئے ۔
تھوڑی دیربعداسلم نے راج کماری مورنی کا دیا ہواطلسمی پنکھ ہاتھوں میں لے کر جادوگرکومقابلے کے لیے للکارا ۔ جادوگر نے اپنی جادوئی چھڑی اس کے سر پر لگائی ، لیکن اسلم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ جادوگر نے جب اپنی جادوئی چھڑی کاوار خالی دیکھا تو مزید غصے سے لال پیلا ہوگیا اب وہ بجاے اسلم کے اکر م اور نشا کی طرف بڑھنے لگا۔
اسلم نے بڑی پھرتی سے اسے زور کا دھکا دے کر گرا دیا ۔اس کی چھڑی دور بالکل اکرم کے پیروں کے پاس جاگری ۔ اکرم نے جلدی سے چھڑی اٹھائی اور اسلم کو دے دی۔ جادوگر تیزی سے اسلم کو مارنے اور اس سے جادوئی چھڑی چھیننے کے لیے جھپٹا ۔اس سے پہلے کہ وہ اسلم کو کچھ نقصان پہنچاتا ۔ پیچھے سے اکرم اور نشا نے ایسی زور کی لات رسید کی کہ اسے دن میں تارے نظر آنے لگے۔ وہ بُری طرح بوکھلا اٹھا ۔ تب ہی اسلم تیزی سے آگے بڑھا اور جادوگر کے سر پر جادوئی چھڑی لگادی ، دیکھتے ہی دیکھتے جادوگر بندر بن گیا۔ تینوں نے زور زور سے تالی بجائی اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بندر بن گئے جادوگر کو رسیوں سے بُری طرح جکڑ لیا۔
پھر اسلم نے بندر بنے لالو کے سر پر جیسے ہی چھڑی لگائی ، لالو پھر سے ان کے سامنے موجود تھا۔ سب ہی بچّے لالو سے گلے ملے اور زور زور سے کھلکھلاکرہنس پڑے۔
بندر بنے جادوگر کو ایک درخت سے باندھ دیا اور دوسرے دن جنگل میں اسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے جہاں جنگلی جانوروں نے اُس کی خوب پٹائی کی ، آخر میں بچّوں نے جادوئی چھڑی کو آگ میں ڈال کر جلا دیا۔
( آلوک گپتا)
نانی ماں نے جان بچائی
بہت پہلے کی بات ہے کہ ایک گاؤں میں ایک بوڑھی عورت اور اس کی عقل مند ، شوخ اور چنچل نواسی ایک ساتھ رہتے تھے۔بوڑھی عورت کو سب گاؤں والے نانی ماں کہتے تھے اور اس کی نواسی کو شیتل کہہ کر پکارتے تھے۔ نانی ماں کی بیٹی اور داماد ایک حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھے تھے ، تب ہی سے اُن کی نواسی شیتل اُن کے پاس رہ رہی تھی۔ وہ دونوں اپنا پیٹ پالنے اور گھر چلانے کے لیے دن بھرسخت محنت مزدوری کرتے اور شام کو روکھا سوکھا کھا پی کر سوجاتے تھے۔ سب ہی گاؤں والے اُن کی محنت ، خوش مزاجی او ر عقل مندی کی تعریف کیا کرتے تھے۔ خاص طور پر شیتل کی باتوں اور اس کی عادتوں کا تو سبھی گن گاتے تھے۔
نانی ماں کے بیٹے ، بہوئیں ، پوتے اور پوتیاں قریب کے ایک بڑے شہر میں رہتے تھے۔ انھیں ماں کا کوئی بھی خیال نہ تھا۔ لیکن ماں تو آخر ماں ہوتی ہے۔ اس سال گرمیوں کے دن تھے نانی ماں کو اپنے بیٹوں ، بہووں اور پوتے پوتیوں کی یاد ستانے لگی۔ اس نے اپنی نواسی شیتل کو جب یہ بات بتائی تو اُس نے کہا :’’ نانی ماں! چلو مَیں تیاری کروادیتی ہوںکل ہی یہاں سے روانہ ہوجانا اور تمہارا جتنا دن چاہے ماموں ممانی کے گھر رہ کر واپس آجانا۔‘‘
نانی ماں نے یہ سُن کر کہا :’’ بیٹی! تم نہیں چلو گی؟‘‘ عقل مند اور خوش مزاج شیتل نے کہا :’’ نانی ماں جن بیٹوں کو ماں کاخیال نہیں ان کے پاس جاکر مَیں کیاکروں گی مَیں تو اُن کی بھانجی ہوں۔ کہیں میری ممانیوں کو میرا جانا پسند نہ آئے ۔ نانی ماں تم چلی جانا۔‘‘
نانی ماں نے اپنی پیاری نواسی کی اس عقل مندی والی باتوں پر بیٹوں سے ملنے کااردہ ترک کرنا چاہا لیکن شیتل نے انھیں منع کردیا ۔
اس طرح دوسرے روز صبح نانی ماں جب روانہ ہونے لگی تو شیتل نے کہا:’’ جنگل میں بھیڑیا ہے ذرا سنبھل کر جانا۔‘‘ نانی ماں نے ہاں ہاں ! کہتے ہوئے سامان کی پوٹلی سر پر رکھی اور وہاں سے روانہ ہوگئی ۔جب نانی ماں جانے لگی تو شیتل انھیں دور تک چھوڑنے آئی ۔
ابھی وہ جنگل میں تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ ایک خوف ناک بھیڑیا اس کے سامنے آگیااور بولا:’’ بڑھیا بڑھیا ! مَیں تجھے کھاجاؤں گا۔‘‘ نانی ماں ڈر گئی اور روتے ہوئے بولی:’’ بیٹا!مَیں اپنے بیٹے سے ملنے شہر جارہی ہوں ، مجھے جانے دے جب مَیں واپس آؤں گی تو مجھے کھالینا۔ ‘‘
نانی ماں کے رونے پر بھیڑیا مان گیا۔ اور کہا:’’ تو جب واپس آئے گی تو مَیں تجھے ضرور کھاؤں گا۔‘‘ … ’’ ٹھیک ہے۔‘‘ کہہ کر نانی ماں وہاں سے چل پڑی شہر کی طرف۔
بیٹے کے گھر پہنچ کر وہ بہت خوش ہوئی ۔ بیٹوں اور بہووں نے جب ماں کو دیکھا تو پوچھا ماں کب تم آئے اور کب جاؤگی؟‘‘نانی ماں نے کہا:’’ بیٹا ! ابھی تو آئی ہوں اور جانے کے بارے میں پوچھنے لگے۔‘‘نانی ماں کو دکھ ہوا اس نے کہا :’’ آج رہ کر کل ہی چلی جاؤں گی۔‘‘
پوتے پوتیوں نے جب یہ سنا تو کہا کہ :’’ ہم اس طرح دادای ماں کو جانے نہیں دیں گے بل کہ دادای ماں اب ہمارے ہی یہاں رہیں گی۔ ‘‘ نانی ماں کو پوتے پوتیوں کایہ رویہ بہت پسند آیااُس نے ان کو دل سے دعائیں دیں ۔ وہ جب تک وہاں رہیں ان کو کہانیاں سناتیں اور وہ اپنی دادی کی خوب آو بھگت کرتے۔اس طرح ایک ہفتہ گذر گیا۔
نانی ماں کو ایسا لگا کہ اس کا یہاں رہنا اپنے بیٹوں اور بہووں کو ناگوار گذررہا ہے تو اس نے دوسرے ہی روز اپنے گاؤں جانے کا فیصلہ کرلیا۔
نانی ماں اپنے گاؤں جانے کے لیے جب تیار ہوئیں تو انھوں نے اپنے پوتوں اور پوتیوں سے جنگل میں بھیڑیے کے ملنے کی بات کہی تو ان بچّوں نے کہا: ’’ دادی ماں ! پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔تم اپنے پیٹ پر راکھ اور کانچ کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی ایک بوری باندھ لینا اور جب بھیڑیے سے سامنا ہوتو اپنا پیٹ سامنے کردینا ۔‘‘
نانی ماں نے اپنے پوتوں اور پوتیوں کا کہنا مانااور اپنے پیٹ کر راکھ اور کانچ کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی بوری باندھ لی اور جنگل کے راستے اپنے گاؤں کو روانہ ہوگئی ۔ نانی ماں کے پوتے اور پوتی اپنی دادی کو دور تک چھوڑنے کے لیے آئے ، ان کے آنسو نکل رہے تھے، جب تک نانی ماں ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی تب تک وہ سب شہر کی سڑک کے کنارے ہاتھ ہلاتے کھڑے رہے۔
جب نانی ماں جنگل میں پہنچی تو پہلے بھیڑیے ہی سے سامنا ہوگیا جیسے بھیڑیا نانی ماں کا انتظار ہی کررہا تھا۔ بھیڑیا سامنے آیا اور بولا:’’ بڑھیا ! اب تو ہی بتا مَیں تجھے پہلے کہاں سے کھاؤں؟‘‘
نانی ماں بولی:’’ بیٹے! منہ تو میرا پتلا ہے… ہاتھ میرے ہڈی ہیں … پاؤں میرے گلے ہوئے ہیں … موٹا اور تگڑا صرف میرا پیٹ ہی ہے ، اس لیے تُو پہلے اسی کو کھا ۔‘‘ بھیڑیے نے دیکھا سچ مچ نانی ماں کی توند بہت موٹی ، تگڑی اور تازی لگ رہی تھی۔ فوراً وہ لپکا اور نانی ماں کے بیٹ پر اپنے نوکیلے دانت گاڑ دیے ۔ لیکن یہ کیا ؟ جیسے ہی اُس نے دانت گاڑے نانی ماں کے پیٹ پر بندی ہوئی راکھ اور کانچ کے ٹکڑوں سے بھری بوری پھٹ گئی اور اس کی راکھ اور کانچ اُڑ کر بھیڑیے کی آنکھوں میں گھس گئی ۔ اس طرح بھیڑیے کی آنکھ میں خوب زور کا درد ہونے لگا۔ وہ کراہتے ہوئے اِدھر اُدھر بھاگنے لگا۔ بھیڑیے کی اس حالت کودیکھ کرنانی ماں نے اپنے پوتے پوتیوں کی ذہانت کی داد دی اور ان کو دعائیں دیتے تو ہوئے جلدی جلدی جان بچا کرجنگل پار کرنے لگی۔ اور شام تک اپنے گھر پہنچ گئی ۔ جہاں شیتل اس کے لیے بے تاب دوازے پر ہی بیٹھی تھی ، وہ اٹھی اور نانی ماں کی بانہوں میں جھولنے لگی۔
( نامعلوم)
تین دوست
چیں چوبلی اور توتو کتا مل کر کھیل رہے تھے۔ چیں چو نے توتو کو دھکا مارا۔ توتو گر پڑا۔ چیں چو تالی بجانے لگی۔ ’’ گرا دیا ، … گرادیا …‘‘
تو تو اٹھ گیا۔ اس پر تھوڑی مٹّی لگ گئی تھی ۔ اس نے مٹّی جھاڑی اور چیں چو سے بولا:’’ مَیں گراؤں تو کہنا مت کہ گرا دیا۔‘‘ ایسا دھکا ماروں گا کہ تم لڑھکتی چلی جاؤ گی۔‘‘
’’ تم گرا ہی نہیں سکتے۔‘‘ چیں چو ہنسنے لگی۔
’’اچھا۔‘‘……’’ہاں!‘‘
’’ تو تیار ہوجاؤ۔‘‘……چیں چو پنجے گڑا کر کھڑی ہوگئی ۔
توتو جانتا تھا کہ چیں چو پنجے گڑا کر کھڑی ہوجائے گی اور وہ اسے گرانہیںپائے گا۔ پھر بھی وہ اس کے پاس آیا اور دھکا مارا ۔ چیں چو ذرا سی ڈگمگا کر رہ گئی۔
تم میں توبہت طاقت ہے ۔ مَیں سچ مچ تم کو نہیں گرا پایا۔‘‘ توتو بولا۔
’’مَیں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا ۔‘‘ اتنا کہہ کر چیں چو آرام سے کھڑی ہوگئی۔ توتو ہوشیاری سے یہ سب دیکھ رہا تھا ۔ وہ ذرا سا پیچھے ہٹا اور تیزی سے آکر ایک دھکا مارا۔ چیں چو زور سے لڑھک کر زمین پر گر گئی۔ اب تالی بجانے کی باری توتوکی تھی وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔
چیں چو اور تو تو دونوں بہت کھلنڈرے تھے وہ دونوں اس وقت مذاق ہی تو کررہے تھے۔ چیں چو کھڑی ہوگئی ۔ اس نے بھی اپنے جسم پر لگی دھول مٹّی جھاڑی اور بولی :’’ ایسادھکا دینے سے کیا ہوتا ہے ؟ ذرا پہلے ہی بول کر دیتے تو سمجھ میں آتا مجھے نہیں گرا سکتے تھے۔‘‘
توتو کچھ نہیں بولا اور ہنستا رہا ۔
اس کے بعد توتو کہیں سے گیند اٹھا لایا ۔ دونوں کچھ دیر گیند سے کھیلتے رہے۔
شام ہورہی تھی ۔ توتو بولا:’’ چیں چو! اب مَیں گھر جاؤں گا۔ آج تو کھیلتے کھیلتے تھک گیا ہوں ۔ ماں انتظار کررہی ہوگی ۔ آج وہ کچھ دیر بعد مجھے کہیں گھمانے لے جائیں گی۔‘‘
’’ تو جلدی جاؤ!‘‘ چیں چو بولی ۔ ’ مَیں بھی تھک گئی ہوں ۔لیکن کل مجھے ضرور بتانا کہ تم کہاں گھومنے گئے تھے۔ ‘‘ وہ پھر بولی۔ ’’ کل میری ماں مجھے کچھ نئی چیز کھانے کو دینے والی ہیں مگر مجھے بتایا نہیں ہے۔ دیکھیں کیا دیتی ہیں؟ ‘‘
تو تو اپنے گھر چل دیا اور چیں چو اپنے گھر۔ دونوں کو الگ الگ سمت جانا تھا۔
جب چیں چو اپنے گھر جارہی تھی۔ راستے میں پھدکو بندر ملا ۔ وہ درخت کی ایک شاخ پر بیٹھا تھا۔ چیں چوکو دیکھتے ہی شاخ پر سے بولا:’’ کھو کھو… کھوکھو۔‘‘
چیں چوں سمجھ گئی کہ یہ پھدکو بندر ہے۔
’’ ارے بھئی! کیا حال ہے؟ نیچے تو آؤ۔ ‘‘ چیں چو بولی۔ ’’ کچھ کہنا ہے کیا؟‘‘
’’ کہنا تو ہے لیکن نہیں کہوں گا۔ آج کل تو تم توتو کے ساتھ زیادہ کھیلتی ہو۔ مَیں تو درخت کی شاخ پر اکیلا بیٹھا رہتا ہوں ،تم کو تو میرا خیال ہی نہیں رہتا۔‘‘ پھدکو نے شکایت کی ۔
’’ تو تم بھی کھیلا کرو ہمارے ساتھ ، بڑے برگد کے پاس آجایا کرو ۔ وہیں توتو آتا ہے ہم تینوں مل جُل کر کھیلا کریں گے۔ ‘‘ چیں چو نے دوستا نہ انداز میں کہا۔
’’ہاہا… ہاہا… ہاہا ‘‘ پھدکو زور سے ہنسا اور کہنے لگا: ’’ مَیں تو - توتو کے ساتھ نہیں کھیلوں گا ۔ نہ جانے کب وہ مجھے کاٹ لے ؟ جب وہ بھونکتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے بادل گرج رہا ہو۔ مجھے تو اُس سے بہت ڈر لگتا ہے ۔‘‘
’’ تم بے کار میں توتو سے ڈر رہے ہو۔‘‘ چیں چو بولی۔
’’ مَیں بے کار میں نہیں ڈررہا ہوں ۔ بل کہ صحیح معنوں میں ڈررہاہوں ۔‘‘ پھدکو نے کہا۔اور پھر سرگوشی کے انداز میں چیں چو کو بولنے لگا کہ :’’ مَیں تو کہوں گا کہ اب تم بھی اُس کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دو ۔ نہیں تو وہ کسی دن تمہیں بھی ضرور دھوکا دے گا ۔ اور تمہارے دونوں کان کاٹ کر کھاجائے گایا تمہادی دم چبا جائے گا۔ وہ بہت دھوکے باز ہے ۔ ‘‘
’’ یہ سب سراسر غلط ہے ۔‘‘ چیں چو بولی۔
’’ غلط بات نہیں ہے۔ ‘‘ پھدکو نے بات کاٹی اور آگے بولا:’’ کیا بلی اور کتے کی کبھی دوستی رہ سکتی ہے ۔ بلی کتے کو دیکھ کر ہمیشہ ڈرتی رہی ہے ۔ کوئی وجہ ہوگی تب ہی تو بلی کتے سے ڈرتی ہے ۔ مَیں نے تمہاری بھلائی کے لیے یہ نصیحت کی ہے اب تمہاری مرضی تمہیں اس کے ساتھ کھیلنا ہے کھیلو یا مت کھیلو۔ لیکن یاد رکھنا وہ ضرور کسی دن تمہیں دھوکا دے گا ۔‘‘ پھدکو نے پھر سے یہ بات دہرائی کہ :’’وہ تمہارے دونوں کان کاٹ کر کھاجائے گایا تمہادی دم چبا جائے گا۔ وہ بہت دھوکے باز ہے ۔ ‘‘
’’ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ بلی اور کتے کی کبھی نہیں نبھتی لیکن یہ سب کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے ، ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست ہیں ۔‘‘ چیں چو نے پھدکو سے کہا۔
’’اچھا! دوسری مثال بھی سنو۔‘‘ پھدکو بولا:’’ شیر اور ہرن میں کبھی دوستی نہیں سنی گئی ۔ جب بھی شیر ہرن کو دیکھتا ہے ، وہ اس کو مارنے دوڑتا ہے ۔ اگر پکڑ لیتا ہے تو وہ ہرن کو مار ہی ڈالتا ہے ۔ اس لیے شیر ہرن کو دیکھ کر بھاگتی ہے۔ اسی طرح بلی اور کتے کا معاملہ ہے۔‘‘
’’ مَیں تمہاری اس بات سے اختلاف نہیں کرتی ۔‘‘ چیں چو نے کہا۔اور بولی :’’ بل کہ مَیں ایک مثال اور دیتی ہوں ، وہ بھی کسی دوسرے کی نہیں خود اپنی یعنی بلی اور چوہے کی ۔ بلی چوہے کی دشمن ہے ، وہ جہاں کہیں چوہے کو دیکھتی ہے اس کو مارڈالتی ہے ۔ لیکن کہیں بلی اور چوہے کی دوستی ہوئی ہے؟ میری اور توتو کی دوستی کی بات الگ ہے۔‘‘
’’ مَیں نے جو سمجھا وہ تمہیں بتادیا۔‘‘ پھدکو بولا۔’’ تم میری اچھی دوست ہو ۔اس لیے تم کو بتادیا ، نصیحت کردی ، اب تمہاری مرضی تم میری بات مانو یا نہ مانو ، لیکن یاد رکھنا وہ ضرور کسی دن تمہیں دھوکا دے گا ۔‘‘ پھدکو نے پر سے یہ بات دہرائی کہ :’’وہ تمہارے دونوں کان کاٹ کر کھاجائے گایا تمہادی دم چبا جائے گا۔ وہ بہت دھوکے باز ہے ۔ ‘‘
چیں چو کو پھدکو کی یہ باتیں اچھی نہیں لگیں۔ یہ تو کسی کی برائی بیان کرنا ہوا ، غیبت کرنا ہوا ۔ برائی اور غیبت تو دشمن کی بھی نہیں کرنی چاہیے ۔ غیبت کرنا یا کسی کی دوستی کو توڑنا یا کسی میں جھگڑا لگوادینا اچھی بات نہیں ہے بل کہ یہ تو سب سے بڑا دھوکا ہے ۔ اُس نے یہ باتیں پھدکو سے نہ کہی بل کہ من ہی من میں سوچتے ہوئے چپ چاپ اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی۔
چیں چو اور توتو ہمیشہ کی طرح کھیلتے رہے ، ہنستے بولتے ، گاتے رہے ۔ چیں چو روز پھدکو کو کھیلنے کے لیے بلاتی رہی لیکن وہ باربار بلانے کے باوجود بھی کبھی ان کے ساتھ کھیلنے کے لیے نہیں آیا۔ وہ یہی کہتا رہا کہ توتو اُسے کاٹ لے گا ، وہ مجھے پسند نہیں ہے ۔ بل کہ وہ چیں چو سے اکثر کہتا کہ :’’ وہ کسی دن تمہیں دھوکا دے سکتا ہے وہ تمہارے دونوں کان کاٹ کر کھاجائے گایا تمہادی دم چبا جائے گا۔ وہ بہت دھوکے باز ہے ۔ ‘‘
وقت گذرتا رہا کہ ایک دن جھاڑی کے قریب سے چند لڑکے جارہے تھے ۔ ان کے ہاتھوں میں غلیلیں تھیں ، وہ صورت شکل سے ہی بڑے شرارتی لگ رہے تھے۔ چیں چو اور توتو جہاں کھیل رہے تھے وہ لڑکے وہیں سے گذرے تھے۔ اُن میں سے ایک نے کہا:’’ میرا نشانہ ایسا پکا ہے کہ جس کو غلیل ماروں وہ بچ ہی نہیں سکتا ۔ مَیں اڑتے ہوئے پرندے کا بھی نشانہ لگا سکتا ہوں۔‘‘
’’ تو چلیں بندر کو غلیل ماریں۔‘‘ ایک لڑکے نے کہا۔’’ وہ دیکھو ! بندر شاخ پر بیٹھا ہے۔‘‘
’’ ہاں دیکھیں! کس کا نشانہ صحیح بیٹھتا ہے؟‘‘ ایک دوسرے لڑکے نے کہا۔
اُن لڑکوں کی باتیں چیں چو نے بھی سنا اور توتو نے بھی ۔ توتو بولا:’’ چیں چو! تم یہیں رہو۔ مَیں اِن لڑکوں کے ساتھ ساتھ جاتا ہوں۔ یہ جیسے ہی غلیل چلانے جائیں گے۔ مَیں اتنی زور سے بھونکوں گا کہ یہ ڈر کر بھاگ جائیں گے۔ اپنی بھوں بھوں سے مَیں انھیں ایسا ڈراؤں گا کہ پھر کبھی بھی وہ ادھر آنے کی ہمت نہیں کریں گے۔‘‘
’’ ٹھیک ہے، لیکن مَیں بھی آتی ہوں ۔ تم جا کر اُن لڑکوں کو ڈراؤ۔‘‘ چیں چو نے کہا۔
لڑکے جلدی سے درخت کے پاس پہنچے ۔ ایک لڑکے نے کہا :’’دیکھومیرا نشانہ کتنا صحیح ہے مَیں غلیل چلاؤں گا تو میرا ڈھیلا سیدھا بندر کے سر پر لگے گا۔ ‘‘
توتو کے قریب آکر چیں چو بھی کھڑی ہوگئی۔ پھدکو بندر درخت پر سے دیکھ رہا تھا کہ ایک لڑکا اس کو غلیل مارنے والاہے۔ اُس نے سوچ لیا کہ جیسے ہی وہ لڑکا غلیل چلائے گاوہ چھلانگ لگاکر دوسری شاخ پر چلا جائے گا۔
لڑکے نے جیسے ہی غلیل سے نشانہ لگایا ۔ توتو نے ایسی زور سے بھوں بھوں بھونکا کہ وہ بُری طرح ڈر گئے اور غلیل وہیں پھینک کر نو دو گیارہ ہوگئے۔ پھدکو نے دیکھا کہ لڑکے ڈر کر وہاں سے بھاگ گئے اور اس نے یہ بھی دیکھا کہ ان کو توتو نے ڈراکر بھگایا ہے۔
اب پھدکو بڑا شرمندہ ہوا۔ کہیں ڈھیلا اسے لگ جاتا تو؟ توتو نے شرارتی لڑکوں کو بھگا کر اُس پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔
پھدکو شاخ سے کود کر نیچے آیا اور توتو سے بولا:’’ بھیا! مجھے معاف کردینا ۔‘‘
’’کس بات کے لیے ؟‘‘ توتو نے انجان بن کر پوچھا ۔ ’’ کیا چیں چو دیدی نے تمہیں کچھ نہیں بتایا؟‘‘ پھدکو نے کہا۔
’’ نہیں مجھے تو کچھ نہیں معلوم ۔‘‘ توتو بولااور چیں چو سے پوچھا:’’ کیا بات ہے چیں چو؟‘‘
’’ کچھ نہیں کوئی بات نہیں ہے ۔‘‘ چیں چو بولی۔ وہ توتو کو کچھ بتانا نہیں چاہتی تھی کہ کہیں پھدکو اور توتو میں دراڑ پڑ جائے۔
اب پھدکو خود ہی بولا :’’ مَیں نے ایک دن چیں چو سے کہا تھا کہ توتو تمہیں کسی دن دھوکا دے گا ، اُس کا ساتھ چھوڑ دو۔‘‘
توتو ہنسا :’’ بس اتنی سی بات ، اس کے لیے معافی مت مانگو ۔ تمہارے دل میں شک تھاسو وہ آج دور ہوگیا۔ ہم تینوں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
توتوکتے نے نے پھدکو بندر کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ پھدکو بندر کا ہاتھ چیں چو بلی نے پکڑ لیا اور تینوں کہتے جارہے تھے ہم تینوں دوست ہیں۔ (سی۔ ر۔ پرساد)