ٹائپنگ مکمل بچوں کی کہانیاں : پھنس گیا کنجوس (از: محمد حسین مشاہدرضوی)

مراٹھی ادب سے بچوں کے لیے ترجمہ کی گئی میری کتاب "پھنس گیا کنجوس " کی مکمل ٹائپنگ حاضر خدمت ہے ۔​

ننّھا چوٗزہ

شبّو مرغی بڑے جتن سے اپنا ایک انڈہ بچا پائی تھی۔ کیوں کہ اُس کے سارے انڈے ناشتے میں کھا لیے گئے تھے۔ بے چاری شبّواُسے لے کر ایک کونے میں بیٹھ گئی ۔ بیٖس بائیس دن کی لمبی محنت کے بعد انڈے کا چھلکا توڑ کر چوزہ باہر آگیا۔ شبّوکی خوشی کاٹھکانا نہ رہا۔
چوزہ تھا بڑا چنچل اور شریر … شبّودانہ چگنے جب با ہر جانے لگی تو اس نے چوزے کو نصیحت کی کہ یہاں سے ہٹنا نہیں ۔ ماں جب باہر چلی گئی تو چوزہ گھر کا معاینہ کرنے لگا۔ اُسے سامنے چوہے کی بِل دکھائی دی ۔ چو ہا ابھی ابھی گھوم پھِر کر واپس آیاتھا۔ اُس نے چوزے کو دیکھا تو للچا اُٹھا، اور دل ہی دل میںکہنے لگا:’’ ہاے ! اتنا پیارا چوزہ!‘‘ اس کے من میں کھوٹ آگیا وہ سوچنے لگا ، کاش! اس کے نرم و ملائم اور ریشمی پر مِل جائیں تو میں اپنا گدّا بنا کر سکون کی نیند سو سکوں۔
وہ چوزے سے بول اُٹھا:’’ پیارے چوزے مجھ سے دوستی کروگے؟‘‘
’’ہاں ! ہاں !‘‘ چوزہ کہہ اُٹھااورحیرت سے پوچھا:’’کیا تم مجھے اپنا دوست بناؤگے؟‘‘
’’کیوں نہیں !‘‘چوہے نے جھٹ سے جواب دیااور کہا کہ :’’ میں تمہیں دُنیا کی سیرکراؤں گا، مالکن کے کچن روم میں لے جاکر اچھے اچھے کھانے کھلاؤں گا۔‘‘
’’سچ مچ!‘‘ چوزہ چہک اُٹھا۔ اور چوہے کی چکنی چپڑی باتوں میں آگیا۔ چوہا ترکیٖب سوچنے لگا کہ کس طرح اِس کے پرکترے جائیں۔ سو اُس نے کہا :’’دوست! میرے گھر نہیں آؤگے؟‘‘
چوزے نے کہا:’’کیوں نہیں ؟ دوستی کی ہے تو اُس کو نبھا ؤں گا بھی۔‘‘اتنا کہہ کر چوزہ چوہے کی بِل میں گھسنے لگا ، لیکن وہ اُس باریک سوراخ میں کہاں جا پاتا؟اُس کی گردن اُس میں پھن￿س گئی ۔ چوہا فوراً اس کے نرم و ملائم اور ریشمی پر و ں کو کترنے لگا ۔ چوزہ بولا :’’میرے دوست! مجھے بہت درد ہورہا ہے اور مجھ کو گھٹن محسوس ہورہی ہے کہیں میرا دم نہ نکل جائے۔‘‘
’’میرے پیارے دوست! تھوڑا اور ٹھہرو میں بِل کا سوراخ بڑا کررہا ہوں ‘‘چوہے نے چالاکی سے کہا۔
تب ہی شبّومرغی دانہ چُگ کر واپس آگئی ، اپنے پیارے بچے کی گردن چوہے کی بِل میں پھن￿سی دیکھ کر کراہ اُٹھی اور فوراًاس کو باہر کھینچ لیا۔ اسی جھٹکے میں چوزے کا پر کترنے میں مصروف چوہا بھی بِل سے باہر آگیا ۔ شبّواس کے کرتوت کو سمجھ کر غصہ سے بپھر گئی ۔ اس نے زور سے چوہے کو چون￿چ ماری کہ اس کی ہڈی پسلی ایک ہوگئی ۔
چوزہ اپنی بگڑی ہو ئی حالت دیکھ کر زور زور سے رونے لگا۔ کیوں کہ اس کی گردن کے پاس کے سارے پر صاف ہوگئے تھے۔ شبّو نے بڑے لاڈ سے اس کو کہا:’’ کوئی بات نہیں میرے لعل یہ بچپن کے پر ہیں کچھ دنوں کے بعد تمہارے دوسرے پر اُگ آئیں گے ‘‘۔ اور پھر سمجھایا کہ ’’تمہیں میری نصیحت یاد رکھنی چاہیے تھی نا!‘‘ ……
’’ہاں! امّی جان!‘‘ چوزہ بہت شرمندہ ہوا۔​
:rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow:

 
پھنس گیا کنجوس

پُرانے زمانے کی بات ہے ایک گاؤںمیں ایک آدمی رہتا تھا۔ وہ بہت ہی کنجوس تھا۔ ایک بار و ہ ایک جنگل سے گذررہا تھاتو اس نے کھجور کا ایک درخت دیکھا ، جس میں بہت سارے میٹھے میٹھے کھجور لگے ہوئے تھے ۔ پھر کیا تھا؟… کنجوس آدمی کو مفت میں کھجور مل گئی ، اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ مالِ مفت دلِ بے رحم۔ اس نے جلدی جلدی درخت پر چڑھنا شروع کردیا۔
وہ جب کافی اونچائی تک چڑھ گیا تو اچانک ایک شہد کی مکھی نے اسے ڈنک ماردیا۔ اس نے دیکھا کہ درخت پر شہد کی مکھیوں کا ایک بڑا سا چھتّا لگا ہوا ہے، وہ گھبرااُٹھا، اس نے نیچے چھلانگ لگانے کے بارے میں سوچا، … لیکن یہ کیا؟ نیچے ایک کنواں تھا۔
وہ بہت زیادہ ڈر گیا اور وہ خدا سے دعا مانگنے لگا کہ :
’’ اے خدا! مجھے بچا لے میں سو(۱۰۰) فقیروں کو کھانا کھلا ؤں گا۔‘‘پھر اس نے دھیرے دھیرے نیچے اترنے کی کوشش کی ، تھوڑا نیچے آنے کے بعد اس نے کہا :
’’ سو (۱۰۰) نہیں تو پچہتر(۷۵) کو تو کھلا ہی دوں گا۔‘‘ تھوڑا اور نیچے آنے پر اس نے کہا :’’چلو پچہتر(۷۵) نہیں تو پچاس(۵۰) کو تو ضرور کھلاؤں گا۔‘‘
ایسا کرتے کرتے وہ نیچے آنے تک ایک (۱) فقیر تک پہونچ گیا ۔ اور نیچے اتر کر وہ سلامتی کے ساتھ اپنے گھر چلا گیا۔ اس نے سارا حال اپنی بیوی کو کہہ سنایا۔
دوسرے روز بیوی نے ایک ایسے فقیر کو بلایا جس کا پیٹ خراب تھا اور جو کھانا ٹھیک ڈھنگ سے کھا نہیںسکتا تھا ۔ فقیر بھی اتفاق سے کنجوس اور چالاک آدمی تھا ، اس نے بیس(۲۰) روٹیاں ، دہی، کھیٖر اور دوٗدھ پیک کرنے کو کہا اور جاتے وقت کنجوس آدمی کی بیوی سے کہا :
’’اجی ! میرا نذرانہ!‘‘اس نے سونے کی دوموتیاں فقیر کو دے دیں۔ شام کو جب کنجوس آدمی گھر واپس آیا تو اُس نے فقیر کے بارے میں پوچھا ، تو اس کی بیوی نے اُسے سارا ماجرا کہہ سنایا، کنجوس آدمی کو بہت غصہ آیا، وہ لاٹھی لے کر فقیر کے گھر پہونچا ۔ فقیر کی بیوی بہت چالاک تھی ، اُس نے جب کنجوس آدمی کو غصے کی حالت میں اپنے گھر کی طرف بڑھتے دیکھا تو وہ دروازے کے باہر آکر زور زور سے چلانے لگی کہ :
’’پتا نہیں کس نے میرے شوہر کو کیا کھلا دیا ہے؟ اُن کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی ہے ، ہاے! میں کیا کروں ؟ ایسا لگتا ہے اب وہ زندہ نہیں بچیں گے ، ارے کوئی ہے جو میری خبر گیری کرے۔‘‘
کنجوس آدمی یہ سُن کر بری طرح سہم گیا، اس نے فقیر کی بیوی سے کہا: ’’ آپ چلائیں مت، میں آپ کے شوہر کے علاج کے لیے ابھی گھر جاکر دو سونے کے سکّے بھیج دیتا ہوں ۔‘‘
چالاک فقیر گھر کے اندر بیٹھا مزے لے لے کر خوب ہنس رہا تھا ۔ اس طرح ایک کنجوس نے ایک بڑے کنجوس کو پھنسا لیا۔

:rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow:

جس نے زندگی بدل دی

مجھے ابھی بھی میری زندگی کا ایک حادثہ یاد ہے جو شاید مجھے ہمیشہ ہی یاد رہے گا۔ اس حادثے نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔ پانچ سال پہلے کی بات ہے جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا، اُن دنوں میری دوستی کچھ بُرے لڑکوں کے ساتھ ہوگئی تھی ۔
ہم سب دوست اکٹھے ہوتے اور نئے نئے شرارتی منصوبے بناتے اور پھر ان کو پورا کرنے میں لگ جاتے ۔ کہتے ہیں جیسی صحبت ویسی عادت ، ایک دن مجھ سے میرے دوستوں نے کہا : ’’ آج ہمیں اسکول نہیں جانا ہے۔‘‘ میں اور میرے دوست راجیندر اور سکھ دیو نے اپنے اپنے بستے ایک جگہ چھپا دیے اور ایک کھیت میں جا پہو نچے، اور وہاں پانی کے حوض میں نہانے لگے۔ کھیت میں کچھ کالی بوتلیں پڑی تھیں۔ راجیندر نے کہا کہ : ’’ ان بوتلوں کو لے جاکر بازار میں بیچ دیتے ہیں۔‘‘ کھیت موہن داس روڈ کے کنارے پر تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہاں سے ردّی خریدنے والے بابو کاکا گذررہے تھے۔ ہماری تو جیسے چاندی ہوگئی ۔ ہم نے بابو کا کا کو تما م بوتلیں بیچ ڈالیں اور بدلے میں جتنے روپے ملے ہم تینوں نے آپس میں برابر برابر بانٹ لیے۔ اسی دوران سکھ دیوکھیت میں بنے کمرے کے اوپر چڑھ گیا جس پر اس کی چابی رکھی ہوئی تھی ، اس نے چابی اُٹھاکر سڑک کی طرف پھینک دی۔
اس طرح چھٹی کے وقت تک ہم اِدھر اُدھر گھومتے رہے۔ ساڑھے چار بجے کے قریب ہم نے بستے نکالے اور اپنے اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔
جب شام ہوئی تو گھر میں اخبار والا اخبار دے کر گیا۔میرے والد صاحب خبریں پڑھتے ہوئے اچانک چونک پڑے۔آج کی تازہ خبر میں تھا کہ :
’’دن دہاڑے موہن داس روڈ کے کنارے لالہ جی کے کھیت میں چوری ہوگئی ۔ کھیت میں بنے ہوئے کمرے میں رکھے ہوئے کئی ہزار روپے اور ضروری چیزیں چور لے اُڑے۔‘‘
اسی دوران دروازے پر دستک ہوئی ، ردّی خریدنے والے بابو کاکا باہر کھڑے تھے، میں انھیں دیکھ کر گھبرا اُٹھا۔ انھوں نے میرے والد صاحب کو بتا یا کہ آج آپ کے لڑکے کو میں نے موہن داس روڈ کے کنارے والے لالہ جی کے کھیت میں دیکھا تھا۔ میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔ مجھے یاد آیا کہ سکھ دیو نے اس کمرے کی چابی سڑک کی طرف پھینک دی تھی۔ بابو کاکانے کہا کہ : ’’بیٹا گھبراؤ مت اصلی چور پکڑا گئے ہیں ۔لیکن یہ بات یاد رکھو کہ ہمیشہ نیک اور اچھے لڑکوں کے ساتھ رہا کرو۔‘‘ ان کے جانے کے بعد ابّو اور امّی نے مجھے بہت ڈانٹ پِلائی۔
دوسرے دن میری والدہ مجھے اسکول چھوڑنے گئیں اور میری ٹیچر کو بتایا کہ کل کیا واقعہ ہوا تھا اور یہ کہ میں دن بھر گھومتا رہا۔ ٹیچر نے بھی بڑے پیار سے مجھے سمجھایا کہ ہمیشہ غلط کاموں سے دور رہو ۔ اس کے بعد ہم تینوں دوستوں نے عہد کیا کہ کبھی بھی کوئی غلط کام نہیں کریں گے۔

:rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow:

تحفہ

پر دھڑی گاوں میں ایک غریب لکڑہارا رہتاتھا۔وہ روزانہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور انھیں بیچ کر اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتا تھا۔ لکڑہارا بہت غریب لیکن ایمان دار، رحم دل اور اچھے اَخلاق والا آدمی تھا۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے کا م آتا اور بے زبان جانوروں ، پرندوں وغیرہ کا بھی خیال رکھتا تھا۔
ایک دن جنگل میں لکڑیاں اکٹھّی کرنے کے بعد وہ کافی تھک گیا اور ایک سایا دار درخت کے نیچے سُستانے کے لیے لیٹ گیا۔ لیکن جیسے ہی اس کی نظر اوپر پڑی اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔ اس نے کیا دیکھا کہ ایک سانپ درخت پر بنے ہوئے گھونسلے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس گھونسلے میں کوّے کے بچّے تھے جو سانپ کے ڈر سے چیٖں چیٖں کررہے تھے۔ بچّوں کے ماں باپ دونوں دانہ چگنے کہیں دوٗر گئے ہوئے تھے۔ رحم دل لکڑ ہارا اپنی تھکان بھول کر فوراًاُٹھ بیٹھا اور کوّے کے بچّوں کو سانپ سے بچانے کے لیے درخت پر چڑھنے لگا ۔ سانپ نے خطرہ بھانپ لیا اور گھونسلے سے دور بھاگنے لگا۔ اسی دوران کوّے بھی لوٹ آئے ۔ لکڑہارے کو پیڑ پر چڑھا دیکھا تو وہ سمجھے کہ اس نے ضرور بچّوں کو مار دیا ہوگا۔ وہ غصّے میں کائیں کائیں چِلّا نے لگے اور لکڑہارے کو چونچیں مارمار کر اَدھ مَرا کردیا ۔ بے چارہ لکڑہارا کسی طرح جان بچا کر نیچے اُترا اور چین کی سانس لی۔
لیکن جب کوّے اپنے گھونسلے میں گئے تو بچّے وہاں دُبکے ہوئے بیٹھے تھے، بچّوں نے ماں باپ کو ساری بات بتادی اور تب ہی انہوں نے دیکھا کہ سانپ بھی درخت سے اُتر کر بھاگ رہا ہے۔ اب کوّوں کو اپنی غلَطی کا احساس ہوا ۔ وہ بہت زیادہ شرمندہ ہوئے ۔ کوّے لکڑہارے کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ کوّے نے گھونسلے میں رکھا ہوا اصلی موتیوں کا قیمتی ہار جو انھیں کچھ ہی دن پہلے گاوں کے تالاب کے کنارے مِلا تھا۔ اُس ہا ر کو اُٹھا کر لکڑہارے کے آگے ڈال دیا اور تھوڑی دوری پر بیٹھ کر کائیں کائیں کرنے لگے۔ جیسے کوّے اپنے پی￿ارے بچّوں کی جان بچانے پر رحم دل لکڑہارے کا شکریہ ادا کررہے ہوں ۔ غریٖب لکڑہارا بھی قیٖمتی ہار پاکر بہت خوٗش ہوا اور اُس نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
جب لکڑہارا لکڑیوں کا گٹھّا سر پر اُٹھا کر اپنے گاوں کی طرف چلا تو کوّے بھی اس کے اوٗپر کائیں کائیں کرتے اُڑرہے تھے۔ لیکن چون￿چ مارنے کے لیے نہیں بل کہ اُسے دوٗر تک الوداع کرنے کے لیے…

:rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow:

اور سپنا ٹوٹ گیا

میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتی تھی۔ گاؤں کا نام سون پوری تھا، جوکہ ایک خوش حال گاؤں تھا ۔ گاؤں کے سب ہی لوگ مِل جُل کرایک ساتھ رہتے تھے۔ ہمارے گاؤں میں ایک غریب پُجاری رہتا تھا جواپنے چھوٹے سے گھر میں بالکل اکیلا رہتا تھا۔ وہ اتنا زیادہ غریب تھا اسے ایک وقت کا کھانا بھی بہت مشکل سے مِلتا تھا ۔ روزانہ پاس پڑوس سے کھانا مانگ کر کھاتاتھا۔ اُس پُجاری کے لیے اس کی زندگی ایک امتحان سے کم نہیں تھی۔ ہر پَل اُس کو مصیبتوں اور تکلیفوں کا سامناتھا۔
ایک دن وہ کہیں جارہا تھا ، تو ایک عورت نے اُسے بھیک میں ایک مٹکا بھر آٹا دیا۔ وہ تو خوشی سے پھولا نہیں سمارہاتھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اُسے سارا سُکھ حاصل ہوگیا ہے جو اُسے اِس سے پہلے کبھی بھی نہیں مِلا تھا۔ اب اُس پُجاری کے سامنے خوشیاں ہی خوشیاں ناچنے لگیں ۔ وہ آٹے سے بھرے اُس مٹکے کو اپنے گھر لے آیااور دیوار سے لگا کر سوگیا۔ اس کے بعد امیر بننے کے سپنے دیکھنے لگا۔
اس نے سوتے وقت سوچا کہ وہ آٹے کو کھائے گا نہیں بل کہ بازار میں لے جاکر بیچ ڈالے گا۔ پھر اُن روپیوں اور پیسوں سے ایک بکری خریدے گا، اُسے پالے گا، پھر اُسے اچھے داموں میں بیچ دے گااور مِٹھائی کی دکان کھولے گا۔ مِٹھائیاں خوب بکیں گی۔ اس کے بعد خوب پیسا کماؤں گا اور سُنار بنوں گا۔راجا کے محل میں جاکر راج کُماری کا ہاتھ مانگوں گا۔
اور پھر راج کُماری کے گلے میں سنہری مالا ڈالوں گا۔ جیسے ہی اُس نے راج کُماری کے گلے میں مالا ڈالی …اُس کا پاوں مٹکے سے ٹکراگیا مٹی ٹوٹ گئی اور پُجاری کا سپنا بھی ٹوٹ گیا۔​
:rainbow::rainbow::rainbow::rainbow::rainbow::rainbow::rainbow::rainbow:
کملا بائی کا نیولا

کملا بائی نے ایک نیولا پالا تھا۔ جو اُس کی چھوٹی سی جھونپڑی میں کملا بائی کے آگے پیچھے گھومتا پھرتا رہتا تھا، اورکملا بائی کے چھوٹے بچّے کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ نیولے پر کملا بائی بہت زیادہ مہربان تھی وہ اُسے بہت چاہتی تھی۔ اُس کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرتی تھی ۔ پاس پڑوس کے بچّے نیولے کو دیکھنے کے لیے کملا بائی کے گھر آتے اور کہتے :
’’نیولے راجا ، نیولے راجاباہر آؤباہر آؤ ہم کو اپنا چہرا دکھاؤ۔‘‘
نیولا گھر سے نکل کر اُن لڑکوں کے دلوں کولُبھاتا، بچّے اُس کو دیکھ کر بے حد خوش ہوجاتے۔
کملابائی کے گھر سے گاؤں کا کنواںدوری پر تھا۔ پانی لانے کے لیے جب کملابائی کنویں پر جانے لگتی تو اپنے چھوٹے بچّے کو جھونپڑی میں سُلا دیتی تھی اور جھونپڑی کا دروازہ بند کردیتی تھی۔ ایمان دار نیولے کے ہوتے ہوئے مجھے خطرہ کس بات کا؟ …یہ سوچتے ہوئے کملا بائی چین سے کنویں پر جاتی اور پانی بھر بھر کر لاتی ۔ کملابائی روزانہ کی طرح آج بھی کنویں پر آئی، اور جب گھر واپس آئی تو اُسے بہت عجیب و غریب لگا ، اُس نے اپنے پاوں سے جھونپڑی کا دروازہ کھولا ۔ نیولا ایک لمبی چھلانگ لگا کر اُس کے قریب آیا اور پیچھے پیچھے چلنے لگا ۔ کملابائی نے کیا دیکھا کہ اُس کے منہ سے خون ٹپک رہا ہے اور اس کے جسم پر جگہ جگہ خون کے دھبّے ہیں ۔ کملا بائی کو حیرت ہوئی ۔ اُس نے یہ سمجھاکہ نیولے نے اُس کے چھوٹے بچّے کو مار ڈالا ہے اور یہ خون اُسی کا ہے۔ کملابائی کو بہت غصّہ آیا اور اُس نے آو دیکھا نہ تاو اپنے سر پر رکھے ہوئے پانی کے ہنڈے سے کو نیولے کے سر پر زور سے مار دیا اور چلّانے لگی : ’’ہاے میرا بچّہ! ہاے میرا بچّہ! لیکن پھُرتیٖلا نیولا کملابائی کے ارادے کو بھانپ کر جلدی سے دوسری طرف ہٹ گیا ۔ کملابائی نے دوبارہ اُسے مارا، اب کی بار نیولے کو چوٹ آگئی اور وہ ادھ مَرا ہوکر بے ہوش ہوگیا۔ کملا بائی نے نیولے کو بڑی حقارت سے ٹھوکر مار کنارے کیا اور جلدی جلدی جھولے کی طرف بڑھی ، لیکن کیا دیکھتی ہے کہ بچہّ آرام سے سورہا ہے اور پاس ہی ایک خطرناک زہریلا سانپ بھی مرا پڑا ہے۔
کملابائی کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی وہ گھبرائی گھبرائی نیولے کی طرف بڑھی۔
ہوا یوں تھا کہ جب کملا بائی کنویں پر گئی تو ایک سانپ اس کی جھونپڑی میں گھس گیا قریب تھا کہ وہ ننھّے بچّے کو نقصان پہنچائے نیولے نے اُس کو کاٹ کاٹ کر مار ڈالا اور اپنی مالکن کے بچّے کی جان بچا کر وفاداری نبھائی۔
کملا بھائی نے نیولے کی طرف دیکھ کر رونا شروع کردیا اور خود سے کہنے لگی: ’’ یہ میں نے کیا کِیا؟… ایسی کیسی میں ناسمجھ اور بے وقوف؟ … میرے ننھّے بچّے اور میری جھونپڑی کے رکھوالے وفادار نیولے کو میں نے مار دیا، آہ آہ! … یہ کیسا میرے دل نے ظلم کیا ، آہ آہ! …
یکایک اس نے دیکھا کہ نیولے نے اپنی آنکھ کھول دی ، جلدی سے کملا بائی نے اُس کے منھ پر پانی کا چھینٹا مارا اور اس کے زخموں کو صاف کر کے دوائی لگادی اور روتے روتے کہتے جاتی کہ:’’ میرے وفادار نیولے مجھے معاف کردے ، میرے وفادار نیولے مجھے معاف​
کردے ۔‘‘​
:rainbow::rainbow::rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow:
بانواور رانو

بانو اوررانو نام کی دو لڑکیاں تھیں۔ وہ دونوں اچھی سہلیاں تھیں۔ بانو اور رانو دونوں ایک ہی محلّے میں رہتی تھیں لیکن بانواسکول اور گھر کے ہرہر کام میں دل چسپی لیتی تھی وہ تھی بھی بہت ذہین اور عقل مند ، جب کہ رانو آرام پسند اور تھوڑا بے وقوف اور کم عقل تھی۔
ایک مرتبہ بانو گرمیوں کے دنوں میں اپنی نانی جان کے گھر جانے کا ارادہ کیا اور نانی جان کے گھر جانے کی تیاری کرنے لگی ۔ راستے میں اُسے ایک گاے ملی، گاے نے کہا: ’’بیٹی!میرے آس پاس جو گوبر ہے اُسے صاف کردوتاکہ میں آرام سے بیٹھ سکوں ۔‘‘ رانو نے گوبرصاف کردیا اور آگے بڑھنے کے بعد ایک برگد کا پیڑ ملا، پیڑ نے کہا: ’’ بیٹی! میرے پاس جو سوکھے پتّے پڑے ہیں اُنھیں صاف کردو ، لوگ میرے سایے میں بیٹھ کر گندگی پھیلا جاتے ہیں ۔‘‘ بانو نے سوکھے پتّے صاف کردیا ۔ اب وہ آگے بڑھنے لگی تب ہی اُسے ایک پتھّر ملا، اُس نے کہا: ’’ بیٹی! یہاں میاں چاروں طرف جو ٹکڑے پڑے ہیں اُنھیں صاف کردو ۔‘‘ بانونے اُسے صاف کردیا اور وہ اپنی نانی جان کے گھر پہنچ گئی ۔ وہاں جاکر اُس ن اپنی بوڑھی نانی جان کے کاموں میں ہاتھ بٹایا ، جب بانواپنے گھر واپس آنے لگی تو اُس کی نانی جان نے اُسے بہت سارے تحفے دیے۔
واپس ہوتے وقت اُسے وہی پتھّر ملا جس کے چاروں طرف ٹکڑوں کے بجاے سونے اینٹ پڑی ہوئی تھی۔ پتھّر نے کہا : ’’ بیٹی ! تم جتنی چاہو اینٹ لے لو۔ بانو نے کچھ اینٹیں لے لیں اور آگے بڑھنے گئی۔ پھر اُسے برگد کا وہی پیڑ ملا، رانو نے پیڑ کے کہنے پر اس کی شاخوں سے لٹکے ہوئے قیمتی کپڑوں میں سے کچھ کپڑے لے لیے۔اب بانو آگے بڑھی اُسے وہی گاے ملی ، گاے نے کہا: ’’’ بیٹی تم جتنا چاہو اُتنا دودھ پی لو اور یہ مَٹھَّا بھی ساتھ لے جاؤ ۔ بانو اس طرح اپنے گھر واپس آگئی۔اور سبھی باتیں اُس نیاپنی سہیلی رانو کو بتائیں ۔
رانونے بھی اُس کی باتیں سُن کر اپنی نانی جان کے گھر جانے کا ارادہ کر لیا اور وہ جانے کی تیاری کرنے لگی ۔ راستے میں جاتے وقت اُسے وہی گاے ملی ۔ گاے نے کہا: ’’ بیٹی! تم یہ گوبر صاف کردو ۔ اِس پر رانو نے کہا میں بانو نہیں ہوں جو آپ کی بات مانوں۔‘‘ آگے بڑھنے پر اُسے وہی برگد کا پیڑ اور پتھّر ملے اور اِن دونوں نے جب رانو سے صفائی کرنے کو کہا تو اُس نے انھیں بہت ٹکا سا جواب دے دیا۔ اب وہ اپنی نانی جان کے گھر پہنچ گئی نانی جان کے گھر جا کر اُس نے کوئی کام نہیں کیا بل کہ خوب کھایا پیا اور نئی نئی چیزوں کی بے جا ضد بھی کی ۔
جب رانو اپنے گھر لوٹنے لگی تو اُس کی نانی نے اپنی کام چور نواسی کو کچھ بھی تحفہ نہیں دیا ۔ راستے میں واپس ہوتے وقت وہی پتھّر اور برگد کے پیڑ ملے ۔ ان دونوں نے رانو پر چھوٹے چھوٹے پتھّروں اور سوکھے پتّوں کی برسات کردی ، رانو وہاں سے بچ بچا کر نکلی کہ وہی گاے مل گئی گاے نے ایسے ایسی زور کی لات ماری کہ وہ دور جاگری اس طرح اُسے بہت زخم آئے اور وہ زخمی حالت میں اپنے گھر پہنچ گئی ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دوسروں کے کام آنا اچھی بات ہے ۔


:rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow:


ترقی

ایک گاؤں میں جھمرو اور منگلو نام کے دو دوست رہتے تھے۔ دونوں بہت غریب، جاہل اور سیدھے سادھے تھے۔ دونوں میں بڑی گہری دوستی تھی دونوں اپنے اپنے خاندان کے ساتھ آپس میں مل جل کر رہتے تھے ۔دونوں فرصت کے وقت مندر کی صاف صفائی بھی کر لیا کرتے اور بیٹھ کر بھجن کیرتن کرتے تھے۔ یہی ان کا روزمرہ کا معمول تھا ۔ دونوں اپنی غریبی کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان تھے ۔ ایک دن مندر میں دونوں کی ملاقات ایک پنڈت جی سے ہوئی دونوں نے اُن سے اپنی پریشانیاں بتائیں۔ دونوں کی باتیں سُن کر پنڈت جی مسکرائے اور کہا : ’’ تم اس ترقی یافتہ دور میں اپنی بے وقوفی کی وجہ سے بے روزگار ہو۔ ‘‘ وہ دونوں پنڈت جی کی باتیں چپ چاپ سُنتے رہے ۔ پنڈت نے ان کی حالت بھانپ کر دونوں سے کہا: ’’تم دونوں شہر جاکر اپنے لیے روزگار ڈھونڈ سکتے ہو یہاں پڑے پڑے تمہیں کچھ نہیں ملنے والا۔ بغیر محنت و مشقت کے دینے والا کچھ بھی نہیں دیتا۔‘‘ان دونوں کو پنڈت کی بات سمجھ میں آگئی۔
یہ دونوں کبھی بھی گاؤں سے باہر نہیں گئے تھے۔ اس لیے شہر جانے سے ڈرتے تھے۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ اب کی بار گاؤں کی جاترا میں جب شہر کے لوگ آئیں گے تو ہم دونوں ان کے ساتھ شہر چلے جائیں گے۔
جھمرو اور منگلو شہر آگئے ۔ شہر کی چکا چوندھ سے وہ بھونچکے رہے گئے ۔ کام کی تلا ش میں دونوں کئی دنوں تک بھٹکتے رہے وہ جہاں بھی کام کی تلاش میںجاتے تو لوگ ان کے بارے میں پوچھتے اور کیا کام کر سکتے ہو یہ پوچھتے ۔ وہ دونوں شہر کے لوگوں کے سامنے کچھ ڈھنگ سے بول بھی نہیں پاتے تھے۔ اور لوگ انھیں دھتکار کر اپنے پاس سے بھگا دیتے۔
ایک دن ہمت کرکے کام ڈھونڈنے نکلے تو اناج کے گودام میں کام مل گیا ۔ کام تھااناج کی بوریاں ڈھونا، جھمرو اور منگلو محنتی تو تھے ہی، اپنی محنت اور لگن سے کام کرنے لگے اب دھیرے دھرے ان کی تکلیفیں دور ہونے لگیں۔ جھمرو اور منگلو اپنی کمائی کے پیسے اکٹھے ہی رکھتے اور تھوڑی بہت بچت بھی کرتے ۔ دن گذرت گئے اب ان کے رہنے کا مسئلہ بھی دور ہوگیا ، انھوں نے کرایے پر ایک کمرہ لے لیااور گاؤ ں جاکر اپنے اپنے خاندان کو شہر لے آئے دونوں کی بیویاں چمیلی اور بیلا بھی کام کرنے لگیں اور اپنی کمائی ساتھ ہی رکھنے لگیں اُن دونوں کے بچّے پڑھنے کے لیے اسکول بھی جانے لگے۔
جب کمائی بڑھنے لگی تو جھمرو کی بیوی چمیلی کے دل میں لالچ پیدا ہوا اور وہ کمائی کے پیسوں میں سے کچھ پیسے الگ نکال کر اپنے اور اپنے بچوں کا شوق پورا کرنے لگی اور منگلو کی بیوی بیلا اور اس کے بچوں سے بھید بھاو کرنے لگی ۔ بیلا اس کی ان حرکتوں کو سمجھ گئی ، چمیلی فضول خرچ اور لالچی تھی وہ چالاکی سے اپنے داو پیچ چلاتی جب کہ بیلا سمجھ دار اور اچھی عادتوں کی مالک تھی۔ ایک دن بیلا نے چمیلی سے کہا کہ کیوں نہ ہم دونوں اپنا کام الگ الگ کریں اوراپنی اپنی کمائی بھی اپنے پاس رکھیں چمیلی کو یہ بات پسند آئی اور وہ مان گئی۔
کچھ دنوں بعد جھمرو اور منگلو بھی اپنے اپنے خاندانوں کے ساتھ الگ الگ رہنے لگے ۔ چمیلی کی لالچی طبیعت اور فضول خرچی کی خراب عادتوں کی وجہ سے جھمرو اور اس کے خاندان کے لوگ پریشان رہنے لگے ۔ جب کہ بیلا کی سمجھ داری اور کفایت شعاری سے منگلو ترقی کرنے لگا۔ بیلا تھی تو سمجھ دار لیکن پڑھی لکھی نہیں تھی اس نے پڑھنا لکھنا سیکھا اور منگلو کو بھی سمجھایا کہ علم سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی ، جب جاگے تب سویرا ، منگلو نے بھی پڑھنا سیکھ لیا اورترقی کرتے ہوئے اپنے بچوں کو اعلا تعلیم دلوائی آج منگلو اور بیلا کے بچے ڈاکٹر اور انجینئر بن گئے ہیں، جب کہ جھمرو اور چمیلی اپنی خود کی حرکتوں سے گاؤں سے بھی نچلے درجے کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے ۔ہوا یوں کہ اس دوران چمیلی بھی مر گئی ۔
یہ بات منگلو کو پسند نہ آئی کہ اُس کا دوست جھمرواس طرح پریشان رہے اُس نے بڑھ کر اپنے دوست کی مدد کی اور اُس کے بچوں کی تعلیم کے لیے اچھا انتظام کیا اورنائٹ اسکول میں ان کا داخلہ کرادیا۔ دھیرے دھیرے ایک دوست کی مدد سے دوسرا دوست بھی ترقی کرنے لگا ۔اب جھمرو کے بچے بھی ٹیچر بن کر محنت سے پڑھانے کا کام کررہے ہیں ۔ سچ ہے کہ فضول خرچی سے ہمیشہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے جب کہ کفایت شعاری سے ترقی ہوتی ہے۔
گوپال نے جھوٹ کیوں بولا
گوپال بہت پیارا بچہ ہے ۔ اس کے ماں باپ اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔ اس کی ہر مانگ پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے ہنس کر بات کرتے ، نہ کبھی ڈانٹتے نہ پھٹکارتے۔ مارنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جب کبھی گوپال کوئی غلط کا م کرتا تو وہ اسے غلطی بتاتے اور لاڈ پیار سے اس کو سمجھاتے بجھاتے۔ ہاں! کبھی کبھی مارنے کی نوبت آتی تو وہ مارنے کے بعد بہت زیادہ دکھی ہوجاتے ۔ ان کا دکھ ان کے چہرے سے ظاہر ہوجاتاتھا ۔ گوپال اپنے ماں باپ کو دکھ کی حالت میں دیکھ کر خود بھی دکھی ہوجاتا اور سوچنے لگتا کہ میری وجہ سے ماں باپ کو تکلیف پہنچی ہے۔
آج وہ بہت زیادہ خوش تھا موسم میں معمولی گرمی تھی لیکن جلن اور گھٹن نہیں تھی ۔ وہ جلدی جلدی اسکول جانے کے لیے اپنا بستہ ٹھیک ٹھاک کررہاتھابستہ ٹھیک کرنے کے بعد وہ ڈرائنگ روم میں اپنے والد کے پاس گیا اور بولا:’’ ابوجان! ؤج اسکول کی چھٹی ہونے کے بعد میں سوئمنگ پول میں تیرنے کے لیے جانا چاہتا ہوں ، مجھے بیس روپے چاہیے۔‘‘
اس کے ابّا نے جیب سے بیس روپے نکاے اور گوپال کو دیتے ہوئے کہا کہ:’’ بیس روپے کیوں ، کیا اتنا زیادہ ٹکٹ لگتا ہے۔؟‘‘
گوپال یہ سُن کر ہڑبڑا گیا ۔ بولا:’’ ہاں! ابو جان۔‘‘
گوپال روپے لے کر چل دیا لیکن وہ دل ہی دل میں پریشان ہورہا تھا ۔ کیوں کہ اس نے اس کے ابا جان کو جھوٹ بولا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر اس کا جھوٹ پکڑا گیا تو کیا ہوگا؟
گوپال کے گھر سے نکلتے ہی اُس کے ابا جان کو ذہنی دھکا لگا وہ جانتے تھے کہ گوپال نے جھوٹ بولا ہے۔ انھیں ڈر ہونے لگا کہ کہیں گوپال غلط صحبت میں تو نہیں پڑ گیا ہے؟
سوچتے سوچتے وہ اُٹھ کھڑے ہوئے ، جوتے پہنے اور گوپال کے پیچھے پیچھے چل دیے۔ تھوڑی دیر میں اُنھیں گوپال دکھائی دیا۔ وہ ایک پھل والے کی دکان سے پھل خرید رہا تھا۔ اس نے پھل خریدکر اپنے بستے میں ڈالے اور پھر چل دیا۔ گوپال کے والد کچھ سمجھ نہ سکے کہ گوپال نے پھل کیوں خریدا ہے۔ اب معاملہ اور زیادہ اُلجھ گیا تھا۔ وہ پھر گوپال کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ گوپال ایک گلی میں مڑگیا اور ایک پُرانے مکان میں گھس گیا۔
گوپال کے والد دَم سادھے کھڑے رہے، تھوڑی دیر میں گوپال مکان سے نکلا اور اپنی اسکول کو چل دیا۔ اس کے والد گھر واپس آگئے وہ الجھن میں تھے کہ گوپال نے پھل کیوں خریدا ؟ اور وہ سیدھا اسکول میں جانے کی بجاے اُس پُرانے مکان میں کیوں گیا؟ وہ طرح طرح کے اندیشے کررہے تھے کہ شام ہوگئی۔
گوپال اسکول سے واپس آیاتھکن کے آثار نمایاں تھے، وہ بھی حیران تھا کیوں کہ وہ تو سوئمنگ پول نہیںگیاتھا۔ وہ جیسے ہی ڈرائنگ روم میں داخل ہوتا تو سامنے اس کے والد صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔انھوں نے گوپال کو اپنے پاس بلایا اور صوفے پر بٹھا کر پوچھا:’’ کہو کیسا رہا آج کا دن؟ ‘‘ گوپال گھبرااُٹھا اور بولا:’’ اچھا رہا پاپا۔‘‘
اس کے والد نے کہا :’’ تم جلدی آگئے کیا سوئمنگ پول نہیں گئے؟‘‘
گوپال بولا:’’ ہاںپاپا! پلان بدل گیا تھا۔‘‘اس کے والد نے کہا:’’ لیکن تم نے تو وہاں کے ٹکٹ کے لیے بیس روپے لیے تھے، ٹکٹ کی فیس تو اتنی زیادہ نہیں ہوتی، تم نے جھوٹ بولا ہے سچ بتاؤ تم نے اُن بیس روپیوں کا کیا کِیا؟‘‘
گوپال بولا:’’ ابوجان ! وہ… در…اصل… میرے… دوست کی امّی جان… بیمار تھیں ان کے پاس پیسے نہیں تھے …اور ڈاکٹر نے اُن کو سیب کھانے کے لیے کہا تھا اس لیے میں نے بیس روپے لے کر سیب خریدے اور ان کو لے جاکر دے دیے۔‘‘
گوپال کے والد صاحب سمجھ گئے کہ وہ سچ بول رہا ہے وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ :’’دوسروں کی مدد کرنا اچھی بات ہے لیکن اس کے لیے جھوٹ نہیں بولنا چاہیے ، اگر تم سچ سچ بتاتے تو ہم اور بھی زیادہ رقم سے پھل فروٹ خرید کر لے جاتے اور دوا گولی وغیرہ کے لیے بھی اُن کی مدد کرتے۔‘‘
گوپال نے کہا :’’ پاپا! میں ڈرا ہوا تھا کہ کہیں آپ منع نہ کردیں۔‘‘اس کے والدصاحب نے کہا کہ :’’ بیٹا! اچھے کام کے لیے ڈرنا کیسا؟ اگر کبھی کوئی غلطی ہو بھی جائے تو جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ ہمیشہ سچ بولنا چاہیے ۔‘‘ گوپال کا سر شرمندگی سے جھک گیا اور اس نے اپنے ماں باپ سے معافی مانگی ۔​
:rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow:
مُنّا …میرادوست

جب سے جنگل کٹنے شروع ہوئے ہماری تو مصیبت ہی ہوگئی ۔ جنگل میں شکار نہیں ملتا تو شیر اور بھڑیے گاؤں میں گھس آتے ہیں ، جو ملا اسے ہی مار کر کھا جاتے ہیں ، چاہے بچھڑا ملے، بھیڑ، بکری یا کتّا بلّی۔ ہمارے گاؤں میں پچھلے کئی دنوں میں بہت ساری اس طرح کی واردات ہوچکی ہے۔ رات میں چپکے سے شیر آیا اور ایک گاے کو مار کر کھا گیا۔ دوسرے دن ہمارے پڑوسی کی گاے کے بچھڑے کو کھاگیا۔ بھڑیے نے ایک رات ہمارے گاؤں کے سرپنچ کے کتّے تامی کو ہی کھا ڈالا۔ گاؤں والوں کے دلوں میں ڈر بیٹھ گیاکہ شیر اور بھڑیے کسی دن کہیں آدمی کو نہ کھالیں اور آدم خور بن کر بڑا نقصان پہنچائیں۔
گوؤں کے لوگ اس مسئلے کو لے کر سرپنچ کشن لال کے گھر پہنچے ۔ وہاں پہنچ کر سب اپنی اپنی ہی بولی بول رہے تھے کوئی کہہ رہا تھا:’’ اس سال بارش کم ہوئی تمام تالاب سوکھ گئے۔‘‘ کوئی کہہ رہا تھا: ’’ جنگل میں اب درخت نہیں بچے ہیں ہم پکانے کے لیے لکڑیاں کہاں سے کاٹ کر لائیں؟‘‘ وغیرہ ۔
سرپنچ کشن لال نے تبھی بیچ میں کہا کہ :’’ پانی کی تلاش میں ہی شیر اور بھڑیے گاؤں میں آرہے ہیں اور جنگل میں درختوں کی لگاتار کٹائی ہونے سے چھوٹے چھوٹے جنگلی جانور گاؤں کی طرف آکر اپنے پیٹ کی آگ بجھا رہے ہیں ۔ شیر اور بھیڑیے کو شکار نہ ملنے کی وجہ سے وہ بھی گاؤں کی طرف رُخ کرتے ہیں ایسے حادثات کے ذمہ دار تو ہم ہی ہیں ۔‘‘
راہل دُکھی لہجے میں کہنے لگا:’’ شیر نے تو میری گاے کی بچھڑی کو ہی کھا گیا ہے سر پنچ صاحب کوئی علاج سوچیے۔‘‘
چرن سنگھ نے کہا:’’ رام کلا لوہار سے ایک جال بنوالیتے ہیںاور شیر اور بھڑیے کو اس میں پھنسا لیتے ہیں تاکہ ہم سکھ کی سانس لے سکیں۔‘‘
چرن سنگھ کی بات سب کو ٹھیک لگی۔ رام کلا لوہار نے کہا کہ :’’ ایساجال بناؤں گا کہ شیر ہو یا بھیڑیا، پیر رکھتے ہی پھنس جائیں گے۔‘‘ لوگوں نے کہا کہ یہ بھی طَے کرلیا جائے کہ شیر اور بھیڑیے کو پھنسانے کے لیے کیا کِیا جائے ؟ کوئی بھیڑ بکری جال کے پاس باندھنی پڑے گی تب ہی توشیر یا بھیڑیا وہاں آئیں گے۔
’’ بکری میں دے دوں گا۔‘‘ سر کشن لال نے کہا۔
میں کھونٹے سے بندھی یہ سب سُن رہی تھی ۔ میرے تو پیروں کے نیچے کی زمین کھسک گئی ۔ میرا سر چکرانے لگا ۔ مجھے سر پنچ کے اوپر غصہ آنے لگا ۔ ٹامی نے اپنی جان دے کر میری جان بچائی تھی ۔ وہ زور زور سے بھونکتا رہا۔ کسی نے دھیان ہی نہیں دیاآخر کار بھیڑیے نے اسی کو اپنا شکار بنالیا۔
مُنّا بھی چار پائی پر بیٹھا لوگوں کی باتیں سُن رہا تھا۔ وہ بول پڑا :’’ میںاپنی بکری نہیں دوں گا۔ گاؤں میں کئی لوگوں کے یہاں کئی کئی بکریاں ہیں۔ہم ہیں کیوں اپنی بکری دیں؟‘‘… اُسے اِس طرح بیچ میں بولتا دیکھ کر کشن لال نے ڈانٹ کر کہا:’’ بچے اِس طرح بڑوں کے بیچ میں نہیں بولا کرتے۔‘‘
کئی لوگوںنے ایک ساتھ مڑ کر مُنّا کی طرف دیکھا وہ سب کو گھور رہا تھا۔
مجھے بہت اچھا لگا چلو کوئی تو ہے جو میرے بارے میں سوچتا ہے۔ میری جان میں جان آئی۔ مُنّا ضدی ہے، وہ میرے لیے کچھ بھی کر سکتاہے۔ ہمارے خاندان میں صرف تین جانور ہیں ۔ میری ماں، میری بہن چھوٹی اور مَیں … ماں کو جال کے پاس باندھا جائے گا تو شیر یا بھیڑیا کھا جائے گا۔ میری بہن چھوٹی ابھی بہت چھوٹی تھی وہ چارا کم کھاتی تھی ۔ روز وہ ماں کا دودھ پیتی تھی۔ ماں کے بغیر وہ پل بھر نہیں رہے سکتی تھی اور دودھ کے بغیر تو اس کا زندہ رہنا ہی مشکل ہوجائے گا۔
اب صرف مَیں بچی تھی ۔ رام کلا لوہار نے لوہے کا جال بنا دیا ، گاؤں کے کنارے والے راستے پر باندھنے کے لیے مجھے لے کر گئے ۔ مُنّا نے بہت ہاے توبہ کی ،بہت رویا ، گڑگڑایالیکن اس کی بات کسی نے نہ سُنی مجھے ایک کھونٹے سے باندھ دیا گیا۔ میرے سامنے ہری ہری گھاس ڈال دی گئی ایک بالٹی میں میرے لیے پانی بھی رکھ دیا گیا ۔ مَیں ڈری سہمی تھی، کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ مجھے اس جگہ کیوں باندھا گیا ہے مَیںنے چارا تو نہیں کھایا ہاں! پانی تھوڑا سا پانی ضرور پِیا۔
سورج ڈوب چکا اور رات ہو چکی تھی جو بھی اس راستے سے گذرتا وہ یہی کہتا کہ سر پنچ کشن لال کی یہ بکری تو گئی جان سے۔ شیر اسے کھا جائے گا یا بھیڑیا چٹ کر جائے گا۔ چاروں طرف سناٹا چھانے لگا ۔ میرے تو ہوش اُڑ گئے۔ مجھے ماں کی یاد آنے لگی اور بہن چھوٹی کے ساتھ کھیلنا کودنا بھی یاد آنے لگا۔ میں سوچنے لگی ہاے! اب کیا ہوگا۔ جنگل سے طرح طرح کی ڈراونی آوازیں آرہی تھیںمَیں نے رونا اور چلا نا چاہا پھر میں نے سوچا کہ کہیں میری آواز سُن کر شیر نہ آجائے ۔ اچانک کسی کا سایا نظر آنے لگا اور کوئی میری طرف بڑھنے لگا میں ڈرگئی لیکن کیادیکھتی ہوں کہ وہ اُچھلو خرگوش ہے۔ اس نے مجھ کو بندھا دیکھااور خود ہی دور بھاگ گیا ۔ مَیں تھوڑی دیر تک اور کھڑی رہی اور پھر نیچے بیٹھ گئی۔
رات اور گہری ہوتی گئی ، مجھے بار بار ہر آہٹ پر یہ لگتا تھا کہ شیراب آیا ، شیراب آیا۔ مجھے کسی کے دھیرے دھیرے چلنے کی آہٹ محسوس ہوئی ۔ بس مَیں سمجھ گئی کہ اب میرا کام تمام ہوجائے گا سو مَیں نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کرلیں ۔ مجھے ایسا لگنے لگا کہ اب مجھے شیر یا بھیڑیا بس دبوچنے ہی والے ہیں اچانک کسی نے میرے گلے پر ہاتھ رکھا مَیں بہت زیادہ ڈر گئی اور کانپنے لگی۔ مَیں نے محسوس کیا کہ یہ ہاتھ تو بہت زیادہ نرم و ملائم بالکل مُنّا کے ہاتھ جیسا ۔ ہاں! یہ مُنّا ہی تھا اس نے میرے گلے کی رسّی کھول دی اور میرے کان میں کہا :’’ جا جلدی سے گھر کی طرف بھاگ جا۔‘‘
مَیں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور گھر کی طرف پوری رفتار سے دوڑنے لگی ۔ ماں میرے بغیر زور زور سے مِمیا رہی تھی۔ مجھے واپس آیا ہوا دیکھ کر میری بہن چھوٹی خوشی سے اُچھلنے کودنے لگی۔ مجھے آج پتا چلا کہ مُنّا مجھ سے کتنا پیار کرتا ہے اور وہ میرا سچا اور اچھا دوست ہے۔دوسرے دن پتا چلا کہ شیر اُدھر سے گذررہا تھا جب اس نے بالٹی میں پانی دیکھا تو اس کو پینے کے لیے آگے بڑھا اور جال میں پھنس گیا لوگوں نے اُسے پکڑ کر چڑیا گھر بھجوادیا ۔ اس طرح مُنّا کی مجھ سے دوستی اور پیار کی وجہ سے میری جان بھی بچ گئی اور شیر بھی پکڑا گیا۔​
:rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow:
غلط مشورہ
ایک گاؤں میں ایک کسان تھا، جسے جانوروں کی بولی سمجھ میں آتی تھی۔ ایک شام کسان اپنے باڑے میں چارا ڈالنے گیا ۔ اس وقت کسان کا بیل اور گھوڑاآپس میں باتیں کررہے تھے ۔ کسان کان لگا کر اُن دونوں کیہ بات چیت کو دھیان سے سننے لگا۔
بیل اُداسی سے گھوڑے سے کہہ رہا تھا:’’ واہ گھوڑے بھائی! تمہارے تو جب دیکھو ٹھاٹ ہی ٹھاٹ ہیں۔ دونوں وقت کی مالش سے تمہارا جسم چم چم کرتا رہتا ہے۔ کھانے کے لیے چنے بھی تمہیں خوب ملتے ہیں ، پھر مالک کو پیٹھ پر بیٹھا کر اِدھر اُدھر گھومنے پھرنے بھی جاتے ہو۔ ایک میں ہوں کہ دن بھر کھیت میں لگے رہتا ہوں ۔ ذرا بھی سُستایا نہیں کہ مالک کے کوڑے پیٹھ پر دَنا دَن برسنے لگتے ہیںاور شام کو واپس آؤ تو یہ روکھا سوکھا چارا کھانے کو ملتا ہے۔‘‘ گھوڑے نے یہ سُن کر اِتراتے ہوئے کہا:’’ اداس کیوں ہوتے ہو بیل بھائی ! مَیں جیسا کہوں ، تم ویسا کرو تو تم بھی میری طرح شان و شوکت سے رہ سکتے ہو۔ ‘‘
بیل نے بے تابی سے کہا:’’ جلدی جلدی بتاؤ نا گھوڑے بھائی کہ مجھے شان و شوکت سے جینے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ گھوڑے نے ہنستے ہوئے بیل سے کہا:’’ آسان کام ہے، کل جب مالک کے نوکر تمہیں لینے کے لیے آئیں تو اُنھیں خودکو چھونے نہ دینا، اُنھیں سینگ دکھانا ، ایک دم عجیب و غریب حرکتیں کرنا، زمین پر لیٹ جانا، کچھ مت کھانا اور منہ سے سفید جھاگ نکالنے لگنا، بس پھر تو تمہارا عیش ہی عیش ہوگا۔‘‘
سیدھے سادھے بیل کو غلط مشورہ دیتے ہوئے گھوڑے کو دیکھ کر کسان نے یہ ٹھان لیا کہ وہ ایک نہ ایک دن گھوڑے کو ضرور بہ ضروراچھا سبق سکھائے گاکہ وہ آیندہ کبھی بھی کسی جانور کو غلط مشورہ دینے کی کوشش نہیںکرے گا۔ دوسرے دن جب کسان کے نوکر بیل کو لینے گئے تو بیل نے گھوڑے کے دیے ہوئے غلط مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایسی اُودھم مچائی کہ نوکروں کے چھکے چھوٹ گئے اور وہ ڈر کر بھاگے بھاگے کسان کے پاس پہنچے اور ساراماجرا کہہ سنایا۔
کسان نے بیل کی حالت جانچنے کا ناٹک کرتے ہوئے کہا کہ :’’ لگتا ہے بے چارا بیل بہت زیادہ محنت و مشقت کرنے سے بیمار پڑ گیا ہے اس لیے آج سے یہ آرام کرے گااور بیل کی جگہ آج سے گھوڑے کو ہل میں جوتا جائے گا اور جب تک بیل اچھا نہیں ہوجاتا کھیت میں گھوڑا ہی کام کرے گا۔‘‘
اب تو گھوڑے کی شامت آگئی ۔ دن بھر کھیت میں کوڑے کھا کھا کر گھوڑے کی ساری شان و شوکت ہَوا ہو گئی ۔ وہ من ہی من میں پچھتانے لگا کہ اس نے بیل کو غلط مشورہ دے کر اچھا نہیں کیا۔
ایک ہفتے بعد کسان نے جان بوجھ کر گھوڑے اور بیل کے لیے ایک ہی جگہ پر گھاس ڈالی تاکہ وہ جان سکے کہ دونوں کے درمیان کیا بات ہوتی ہے؟ گھوڑے کو دیکھ کر بیل چہکتے ہوئے بولا:’’ واہ دوست! کیا مشورہ دیا تم نے ! مَیں توقسمت سے راجا ہوگیا اب تو کچھ کام نہیں کرنا پڑتا اور وقت وقت پر ہرا ہرا تازہ چارا کھانے کو ملتا ہے۔‘‘
یہ سُن کر گھوڑا بھانپ گیا کہ بیل کی نیت اب کام پر جانے کی نہیں ہے ۔ گھوڑے نے دل میں سوچا اگر بیل اپنے کام پر نہیں جائے گا تو اسی طرح کچھ دن اور کھیت پر کام کرتے کرتے وہ تو پر لوک سدھار جائے گا، اس نے کچھ سوچتے ہوئے بیل سے کہا:’’ دوست! بڑے دکھ کے اتھ تمہیں کہنا پڑ رہا ہے کہ مالک نے تمہیں ایک قصائی کو بیچ دیا ہے ، کیوں کہ مالک کی نظر میں اب تم کسی بھی کام کے نہیں رہے ۔ یہ دیکھ بھال اور دو وقت کا ہرا ہرا چارا اس لیے دیا جارہا ہے کہ تم صحت مند ہوجاؤ اور قصائی سے اُس حساب سے اچھی رقم وصول کی جاسکے ۔‘‘ یہ سنتے ہی بیل سوکھے پتّے کی طرح تھر تھر کانپنے لگا اور گھبراتے ہوئے اس نے گھوڑے سے کہا کہ :’’ گھوڑے بھائی ! اب تم ہی مجھے بچانے کی کوئی ترکیب نکالو، میں اس طرح ناٹک کرکے مرنا نہیں چاہتا۔‘‘
گھوڑے نے تیر نشانے پر لگتا دیکھ کر کہاکہ :’’ کل سے بیمارہونے کا ناتک مت کرنا ، مالک کو تم بھلے چنگے لگو گے تو وہ تمہیں نہیں بیچے گا۔‘‘ گھوڑے کی چالاکی دیکھ کر کسان زور سے ہنس پڑا ۔ دوسرے دن بیل کو بھلا چنگا دیکھ کر کسان نے اُسے پھرسے کھیت پر بلوالیا۔ اور گھوڑے نے ہمیشہ کے لیے کان پکڑلیاکہ اب کسی بھی جانور کو غلط مشورہ نہیں دے گا۔​
:rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow:
ایشور کا درشن

ایک گاؤں میں ایک گھمنڈی آدمی رہتاتھا۔ایک دن وہ ایک سودھوکے پاس گیا اور کہا کہ :’’ سادھو مہاراج ! میں ایشور کا درشن کرنا چاہتا ہوں ، مجھے ایشور کیسے ملے گا؟‘‘
سادھو بہت گیانی اور تجربے کار تھا، اُسے اُس آدمی کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا کہ وہ کیسا ہے؟ اُس نے اُس کی بات سنی اور کہا کہ:’’ میں تمہاری یہ خواہش پوری کردوں گا لیکن تم کو میرا ایک کام کرنا پڑے گا۔‘‘
’’کیا؟‘‘گھمنڈی آدمی نے فوراً پوچھا۔ سادھو نے کہا:’’ میرے پاس بڑا ٹوکرا ہے اس کو اپنے سر پر رکھ کر تمہیں سامنے کی پہاڑی پر میرے ساتھ چڑھنا ہوگا وہاں پہنچ کر مَیں تمہیں ایشور کا درشن کرادوں گا۔ ‘‘
اُس گھمنڈی آدمی نے خوشی خوشی سادھو کی بات سُنی اور اپنے گھر چلا گیا۔ دوسرے دن صبح سویرے جب وہ سادھو کے پاس آیا تو سادھو اپنے سامنے ایک بڑا ساٹوکرا رکھے ہوئے اس کا انتظار کررہاتھا ۔ سادھو کے کہنے کے مطابق اس نے وہ ٹوکرا اٹھایا اور اپنے سر پر رکھ کر دونوں پہاڑی کی طرف بڑھنے لگے۔ پہاڑی کے دامن تک پہنچتے ہوئے اس آدمی کے دل میں امنگ تھی لیکن جیسے ہی پہاڑی کے اوپر چڑھنا شروع کیا تو اسے تھکن ہونا شروع ہوگئی ۔ اس آدمی نے سادھو سے کہا:’’ خوب وزن پڑرہا ہے مجھے ٹھیک طور پر چڑھنے میں تکلیف ہورہی ہے۔‘‘
سادھو نے کہا :’’ ٹھیک ہے! اس ٹوکرے میں پانچ پتھر ہیں ، اُس میں سے ایک پھینک دو۔‘‘
گھمنڈی آدمی نے ایک پتھر پھینک دیا ۔ ٹوکرا تھوڑا ہلکا ہوگیا ۔ اس کو سر پر رکھے ہوئے وہ پھر پہاڑی پر چڑھنے لگا۔ دوبارہ تھوڑی اوپر چڑھنے کے بعد پھر وہ ہانپنے لگا اور سادھو سے کہنے لگا:’’ خوب وزن پڑرہا ہے مجھے ٹھیک طور پر چڑھنے میں تکلیف ہورہی ہے۔‘‘سادھو نے ایک اور پتھر پھینکنے کے لیے کہا، اس کے بعد تیسرا … چوتھا اور آخر میں پانچواں پتھر بھی پھینک دیا۔اور ہلکا پھلکا ٹوکرا لے کر وہ گھمنڈی آدمی پہاڑی پر پہنچ گیا۔
جب دونوں اوپر پہنچ گئے تو اس نے سادھو سے کہا ’’ مہاراج! کہاں ہے ایشور ؟ اب جلدی سے مجھے ایشور کا درشن کراؤ ۔‘‘
سادھو اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا:’’ بے وقوف آدمی ! پانچ پتھروں کا ٹوکرا تو پہاڑی پرنہیں لاسکا۔ لیکن اپنے دل میں کینہ، بغض، حسد، غرور، تکبر ، جھوٹ اور گھمنڈ جیسے بڑے بڑے پتھررکھ کر ایشور کے درشن کی خواہش کرتا ہے۔ جس طرح پتھروں کو پھینکے بغیر تو پہاڑی پر نہیں چڑھ سکا۔اسی طرح اپنے دل سے برائیوں کے پتھروں کوپھینکے بغیر کبھی بھی ایشور کا درشن نہیں پاسکتا ۔

:rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow:

تین د وست

طوطا ، چوہا اور خرگوش آپس میں گہرے دوست تھے ۔ وہ تینوں مل جل کر رہتے تھے۔ خرگوش سب کے لیے کھانا پکاتا، گھر کو صاف کرتا اور سنبھالتا۔ چوہا گھر کے لیے اناج ، راشن پانی ، سبزی ترکاری بازار سے لاتا اور طوطا جنگل سے کچھ لکڑیاں بازار میں جاکر بیچ آتا۔ اس طرح تینوں خوب محنت اور مشقت کرتے اور خوشی خوشی رہتے۔
ان کی یہ گہری دوستی اور میل ملاپ پڑوس میں رہنے والی لومڑی کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ مکار لومڑی نے ایک دن موقع پاکر طوطے کو نمستے کیا اور حال چال دریافت کیا۔ ’’ ہم لوگ خوب مزے سے اور خوش ہیں۔‘‘ طوطے نے جواب دیا۔
’’ہاں بھائی! تو ہی ہے جو اتنی زیادہ محنت کرتا ہے ۔ دن بھر جنگل میں لکڑیاں اکٹھی کرتا پھرتاہے اور تیرے دونوں ساتھی گھر بیٹھے آرام سے موج مستی کرتے رہتے ہیں۔
طوطے نے کہا:’’ نہیں نہیں! وہ دونوں بھی خوب کام کرتے ہیں۔‘‘ …… ’’کیا خاک کام کرتے ہیں چوہا ذرا سا پانی بھر کرلاتاہے، دوڑ کر بازار سے تھوڑی سی سبزی لاکر دن بھر گھر میں پڑا لیٹا رہتا ہے ۔ خرگوش صبح اور شام روٹی پکالیتا ہے اور دن بھر چوہے کے ساتھ مل کر گپ ہانکتے رہتا ہے۔ بس! بے وقوف تو تُو ہے طوطے بھائی! جو دن بھر مارامرا پھرتا رہتا ہے ، جنگل سے لکڑیوں کا گٹھا بنا کر بازار لے جاتا ہے اور اسے بیچ کر پیسے لاتا ہے تجھے تو پورا دن کام کرنا پڑتا ہے ۔‘‘ لومڑی نے مکاری سے کام لیتے ہوئے طوطے کو اپنے جھانسے میں لینے کی کوشش کی۔
طوطا بولا:’’ نہیں نہیں ! ایسا ہرگز نہیں ہے۔‘‘ … ’’اچھا! ٹھیک ہے۔‘‘ اتنا بول کر لومڑی اپنے راستے چلی گئی ۔ اور طوطا لکڑی لینے جنگل چلا گیا، اس کے دل میں خیال آیا کہ لومڑی صحیح کہہ رہی ہے کام کام تو میں ہی زیادہ کرتا ہوں۔
طوطا شام کو گھر لوٹنے کے بعد چوہے اور خرگوش سے کہا کہ :’’ روز روز لکڑیاں لاتے لاتے میں بہت زیادہ تھک گیا ہوں ۔ اس لیے ہم آپس میں کام بدل لیتے ہیں ۔میں گھر پر رہ کر کھانا بنایا کروں گا۔ چوہے اور خرگوش نے جب یہ انوکھی بات سُنی تو بہت حیران رہ گئے۔پہلے تو ان دونوں نے طوطے کو منانے کی کوشش کی لیکن جب وہ نا مانا تو پھر چوہے نے کہا:’’ چلو! ٹھیک ہے ، میں ہی جنگل سے لکڑیاں لے آیا کروں گا۔‘‘
دوسرے دن چوہا لکڑی لانے جنگل چلا گیا۔ شام ہوگئی لیکن چوہا گھر واپس نہیں آیا۔ خرگوش کو بہت فکر ہوئی اس نے کہا کہ :’’چلو طوطے بھائی ! چوہے کو جنگل میں تلاش کرتے ہیں ۔‘‘ ……’’ تم گھر پر ہی رہو میں خود جاکر دیکھتا ہوں کہ چوہے کو دیر کیسے ہوگئی؟‘‘ طوطے نے کہا ۔
طوطا تھوڑی دیر بعد لوٹا ، وہ بہت اُداس تھا اس نے خرگوش کو بتایا کہ چوہا جب لکڑی لے کر لوٹ رہا تھا تو بلّی نے اسے مار کر کھا لیا ۔ خرگوش کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ۔ طوطا بھی رونے لگا کہ تین دوستوں میں سے ایک کی فضول میں مکار لومڑی کے بہکانے کی وجہ سے جان چلی گئی۔
سویرے اُٹھ کر طوطا خرگوش کو لومڑی کی ساری باتیں بتاکر روتے ہوئے معافی مانگنے لگا اور کہا کہ اب ہم دونوں مل جل کر ہی رہیں گے اور یہ وعدہ بھی کیا کہ و ہ آیندہ کبھی بھی مکار لومڑی سے نہیں ملے گا۔


:rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow: :rainbow::rainbow:

کندن کی واپسی

بچوں کا کھیلنے میں ذرا بھی دل نہیں لگ رہا تھا۔ کندن ان کی ٹولی کا سب سے خاص ممبر تھا۔ وہ پچھلے کئی ہفتے سے کھیلنے نہیں آ رہا تھا ۔ آج بھی جو وہ نہیں آیا تو بچے دکھی ہو کر گھاس پر بیٹھ گئے۔
جمپی نے کہا :’’ مجھے نہیں لگتا کہ کند ن اب کبھی ہمارے ساتھ کھیلنے کے لیے آئے گا، رامو کاکا بتا رہے تھے کہ اس کے پاپا کا پروموشن ہوگیا ہے ، وہ ایک بڑے آفیسر بن گئے ہیں بھلا کندن اب یہاں ہم جیسے عام لڑکوں کے ساتھ کھیلنے کیوں آئے گا؟‘‘
’’لیکن اس سے کندن کا کیا لینا دینا؟‘‘اسلم نے پوچھا۔
اس پر بے بی نے کہا:’’ لینا دینا کیوں نہیں ہے؟ کندن کے پاپا نے ایک کار خرید لی ہے ۔ کندن اب اچھے اچھے کپڑے پہنتا ہے ۔ یہاں ہمارے ساتھ کھیلنے سے اس کے کپڑے میلے ہوجائیں گے۔ بھلاوہ کیوں آنے لگا؟‘‘
ببلو بڑی دیر سے گھاس نوچ رہا تھا ۔ اس نے اپنی خاموشی توڑی اور کہا:’’ یہ سب ٹھیک ہے لیکن گھر کے اندر وہ کس کے ساتھ کھیلتا ہے ؟‘‘
سریندر نے ببلوکی بات کا جواب دیا:’’ کندن کے لیے ایک اچھی سی گیند آگئی ہے ، اس کے پاس کمپیوٹر بھی ہے وہ طرح طرح کے کمپیوٹر گیم کھیلتا ہے ۔ اور ہاں! اس کے پاس رحمانی پبلی کیشنز کی چھپی ہوئی کامکس کی ڈھیر ساری کتابیں بھی ہیں ،اتنا سب کچھ رہتے ہوئے اسے یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا ہے، کیوں ہم خود کسی دن اس کے گھر چلیں ؟‘‘
ہاں ہاں! یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘سریندر کی بات پر سب نے اتفاق کیا۔
دوسرے دن موقع پاکر وہ سب کے سب کندن کے گھر جادھمکے۔ اس وقت وہ گھر میں اکیلا ہی تھا ۔ رامو کاکا باہر پھولوں کو پانی دے رہے تھے ۔ اپنے دوستوں کو دیکھ کر کندن پھولا نہ سمایا۔ لیکن اگلے ہی پل وہ اداسی سے کہنے لگا:’’ مَیں روز تم سب کے ساتھ کھیلنے آنا چاہتا ہوں لیکن میرے ممی پاپانے مجھے اس کے لیے منع کردیا ہے ، انھیں پارٹیوں میں جانے سے فرصت نہیں ہے اورمَیں یہاں اکیلا پڑا بور ہوتا رہتاہوں ۔ پلیز! تم سب میرے لیے کچھ کرو۔‘‘یہ کہتے کہتے کندن کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ رونے لگا۔
کندن کی بات سن کر بچوں کا شک و شبہ دور ہوگیا۔ وہ سبھی سوچنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ جمپی کے دماغ میں ایک ترکیب سوجھی۔ جب اس نے اپنی راے ظاہر کی تو سب خوش ہوگئے ۔ پھربچوں نے مل کر اس پر مشورہ کیااور کندن کو’ باے باے‘ کہتے ہوئے سب لوٹ گئے ۔دوسرے دن کندن نے دیکھا کہ اس کے ممی پاپا جلدی جلدی تیار ہو رہے تھے اس نے قریب جاکر ممی سے کہا:’’ ممی! آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘
’’ایک پارٹی میں جارہے ہیں بیٹا!تم اپنا خیال رکھنا اور باہر نہیں جانا چپ چاپ گھر میں ہی کھیلنا اور ہاں! راموکاکا کو تنگ مت کرنا۔‘‘ کندن کی ممی نے ایک ہی سانس میں سب کہہ ڈالا۔
کندن نے پھر پوچھا:’’ کیا پارٹی میں جانا ضروری ہے؟‘‘
یہ سُن کر اس کے پاپا نے جواب دیا :’’ ہاںبیٹے! ایک ضروری پارٹی ہے، اس میں ہمارے سارے دوست آرہے ہیں ہمیں سب کے ساتھ ملنا جلنا ہے باتیں کرنی ہے۔ اس لیے ہمارا جانا ضروری ہے۔‘‘
کندن نے پھر پوچھا:’’ پاپا آپ دونوں یہاں گھر میں ہی پارٹی کیوں نہیں کرلیتے ؟ وہاں جانے کیا کیا ضرورت ؟‘‘
یہ سُن کر اس کے پاپا کو بڑی حیرانی ہوئی۔ انھوں نے اسے لاڈ کرتے ہوئے کہا:’’ ارے! یہ تُو کیسی باتیں کررہا ہے بیٹا؟ تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ بھلا ہم گھر میں اکیلے پارٹی کیسے کرسکتے ہیں ؟اس کے لیے ہمارے سبھی دوستوں کا ہونا ضروری ہے اس لیے تو ہم وہاں جارہے ہیں ۔‘‘
موقع پاتے ہی کندن نے اپنی بات کہہ دی:’’ پاپا! جب آپ دونوں گھر میں اکیلے پارٹی نہیں کرسکتے تو میں بھلا یہاں اکیلا کیسے کھیل سکتا ہوں؟ میرے بھی تو دوست ہیں جن سے مَیں ملنا چاہتا ہوں ان کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں اور خوب ساری باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ لیکن آپ تو مجھے باہر نکلنے ہی نہیں دیتے ۔ مَیں گھر میں بند ہوکر نہیں رہنا چاہتا۔‘‘
اتنا کہتے کہتے کندن کا گلا رندھ گیا اور وہ سسکنے لگا۔ اس کے ممی پاپا کو اپنی غلطی کا احساس اور انھیں گہر اپچھتاوا ہوا۔
اس کی ممی اس کے پاس آئیں اور کندن کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں:’’ہم سے بڑی بھول ہوگئی بیٹا! ہمیں معاف کردو ، آج سے تم روز اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلو گے ۔ ہم تمھیں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے اور ملنے جلنے سے کبھی منع نہیں کریں گے ۔‘‘
ممی نے کندن کے آنسو پونچھے اور پیار سے اس کی پیشانی کو بوسا دیا۔
تبھی رامو کاکا نے آکر کہا:’’ کندن کندن! آپ کے دوست لوگ باہر کھڑے آپ کا انتظار کررہے ہیں ۔‘‘
اتنا سُن کر کندن باہر کی طرف دوڑ پڑا ۔ بچے دوہری خوشی کے ساتھ کھیل رہے تھے کیوں کہ آج ان کی ٹولی کا کاص ممبر کندن ان کے ساتھ کھیل رہا تھا۔

٭٭٭
 
Top