بچوں کی کہانیاں ۔ اب پچھتائے کیا ہوت

ام اویس

محفلین
“آج کوئی چھت پر نہیں جائے گا، نہ ہی پتنگ اڑائے گا” ابا جان نے زور سے کہا اور کالج روانہ ہوگئے۔ فہد نے جی کہتے ہوئے سر ہلایا اور گیٹ بند کرکے اندر آ گیا۔

پے درپے ڈور سے زخمی ہوجانے والے المناک حادثات کی وجہ سے شہربھر میں پتنگ بازی پر پابندی تھی۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ لمبی دوپہر میں جب امی جان کام کاج سے تھک کر بے خبرسوجاتیں توفہد جھاڑو پکڑتا ، زین سلائی والے ڈبے سے نلکی نکالتا اور دونوں چپکے سے چھت پر چلے جاتے۔ گڈی بنا کر اڑانے میں بہت مزہ آتا۔ محلے کے چند لڑکے بھی اپنی چھتوں پر گڈیاں اڑاتے۔ امی کے بیدارہونے سے پہلے ہی دونوں چھت سے اتر آتے۔ دوتین دن سے قریبی مسجد سے اعلان ہو رہا تھا کہ جو بچہ پتنگ اڑاتا پایا گیا؛ اسے اور اس کے والدین کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ابا جان بھی آج انہیں منع کرگئے تھے ؛ لیکن ان دونوں نے کسی کی نصیحت پر کان نہ دھرے اور مسلسل اپنے مشغلے میں مصروف رہے۔ دوپہر کوانہیں امی جان کے سونے کا یقین ہوگیا تو موقع غنیمت جان کر دونوں چھت پر آگئے ، آسمان پر ایک دو پتنگیں اڑ رہی تھیں۔ فہد نے ڈور پکڑی ، زین نے کنی دی ، ہوا تیز تھی ، تھوڑی ہی دیر میں پلاسٹک کی ہلکی پھلکی گڈی کافی بلندی پر چلی گئی۔ فہد پتنگ اڑانے میں مگن تھا کہ اسے کسی کے بولنے کی آواز سنائی دی ، زین بھی اسے کچھ کہہ رہا تھا؛ لیکن پتنگ اڑانے کی دُہن میں اسے کچھ سنائی نہ دیا۔ پیچ لگانے کے ارادے سے جب آسمان پر نگاہ ڈالی تو اس کی پتنگ کے علاوہ کوئی اور پتنگ اڑتی دکھائی نہ دی۔ ابھی وہ حیرت میں گُم اس کی وجہ سوچ رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے کسی نے گُدی سے پکڑ لیا۔ وہ خوف سے چیخنے لگا، مڑ کر دیکھا تو پولیس کی وردی میں ایک سپاہی تھا جو گلی میں سے سیڑھی لگا کر چھت پر آ چکا تھا۔ فہد ڈر سے کانپنے لگا ، خوف سے اس کی گھگھی بندھ گئی سپاہی اسے پکڑ کر گلی میں لے آیا۔ شور سن کر اردگرد کے گھروں سے لوگ باہر نکل آئے۔ سپاہی نے اس کے والد کے متعلق دریافت کیا۔ اسے خبر دی گئی کہ اس کے والد کالج میں پروفیسرہیں۔ سپاہی نے یہ سن کر کہا: “پروفیسر صاحب کو چاہیے تھا کہ اپنے بچوں کو بھی قانون کی پاسداری سکھاتے۔”

فہد یہ سن کر شرم سے زمین میں گڑ گیا ؛ کیونکہ اس نے باپ کی نصیحت پر عمل کرنے کی بجائے اسے چٹکیوں میں اُڑا دیا۔ اگرچہ گلی کے کچھ افراد کی سفارش پر آئندہ پتنگ نہ اڑانے کا وعدہ لے کراسے چھوڑ دیا گیا؛ لیکن اس کی والدہ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے بات چیت بند کر دی۔ سب کے سامنے پولیس کی ڈانٹ کھانے کی وجہ سے وہ سخت شرمندہ تھا۔ اسے والدین کی نافرمانی کا سخت افسوس تھا ؛ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔
نزہت وسیم
 

ام اویس

محفلین
6-A94-C25-C-AB30-4-E42-9-D9-D-61-EBD305-CEFD.jpg
 

ٹرومین

محفلین
“آج کوئی چھت پر نہیں جائے گا، نہ ہی پتنگ اڑائے گا” ابا جان نے زور سے کہا اور کالج روانہ ہوگئے۔ فہد نے جی کہتے ہوئے سر ہلایا اور گیٹ بند کرکے اندر آ گیا۔

پے درپے ڈور سے زخمی ہوجانے والے المناک حادثات کی وجہ سے شہربھر میں پتنگ بازی پر پابندی تھی۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ لمبی دوپہر میں جب امی جان کام کاج سے تھک کر بے خبرسوجاتیں توفہد جھاڑو پکڑتا ، زین سلائی والے ڈبے سے نلکی نکالتا اور دونوں چپکے سے چھت پر چلے جاتے۔ گڈی بنا کر اڑانے میں بہت مزہ آتا۔ محلے کے چند لڑکے بھی اپنی چھتوں پر گڈیاں اڑاتے۔ امی کے بیدارہونے سے پہلے ہی دونوں چھت سے اتر آتے۔ دوتین دن سے قریبی مسجد سے اعلان ہو رہا تھا کہ جو بچہ پتنگ اڑاتا پایا گیا؛ اسے اور اس کے والدین کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ابا جان بھی آج انہیں منع کرگئے تھے ؛ لیکن ان دونوں نے کسی کی نصیحت پر کان نہ دھرے اور مسلسل اپنے مشغلے میں مصروف رہے۔ دوپہر کوانہیں امی جان کے سونے کا یقین ہوگیا تو موقع غنیمت جان کر دونوں چھت پر آگئے ، آسمان پر ایک دو پتنگیں اڑ رہی تھیں۔ فہد نے ڈور پکڑی ، زین نے کنی دی ، ہوا تیز تھی ، تھوڑی ہی دیر میں پلاسٹک کی ہلکی پھلکی گڈی کافی بلندی پر چلی گئی۔ فہد پتنگ اڑانے میں مگن تھا کہ اسے کسی کے بولنے کی آواز سنائی دی ، زین بھی اسے کچھ کہہ رہا تھا؛ لیکن پتنگ اڑانے کی دُہن میں اسے کچھ سنائی نہ دیا۔ پیچ لگانے کے ارادے سے جب آسمان پر نگاہ ڈالی تو اس کی پتنگ کے علاوہ کوئی اور پتنگ اڑتی دکھائی نہ دی۔ ابھی وہ حیرت میں گُم اس کی وجہ سوچ رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے کسی نے گُدی سے پکڑ لیا۔ وہ خوف سے چیخنے لگا، مڑ کر دیکھا تو پولیس کی وردی میں ایک سپاہی تھا جو گلی میں سے سیڑھی لگا کر چھت پر آ چکا تھا۔ فہد ڈر سے کانپنے لگا ، خوف سے اس کی گھگھی بندھ گئی سپاہی اسے پکڑ کر گلی میں لے آیا۔ شور سن کر اردگرد کے گھروں سے لوگ باہر نکل آئے۔ سپاہی نے اس کے والد کے متعلق دریافت کیا۔ اسے خبر دی گئی کہ اس کے والد کالج میں پروفیسرہیں۔ سپاہی نے یہ سن کر کہا: “پروفیسر صاحب کو چاہیے تھا کہ اپنے بچوں کو بھی قانون کی پاسداری سکھاتے۔”

فہد یہ سن کر شرم سے زمین میں گڑ گیا ؛ کیونکہ اس نے باپ کی نصیحت پر عمل کرنے کی بجائے اسے چٹکیوں میں اُڑا دیا۔ اگرچہ گلی کے کچھ افراد کی سفارش پر آئندہ پتنگ نہ اڑانے کا وعدہ لے کراسے چھوڑ دیا گیا؛ لیکن اس کی والدہ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے بات چیت بند کر دی۔ سب کے سامنے پولیس کی ڈانٹ کھانے کی وجہ سے وہ سخت شرمندہ تھا۔ اسے والدین کی نافرمانی کا سخت افسوس تھا ؛ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔
نزہت وسیم
بہت اچھی اور سبق آموز کہانی ہے، آپ کی تصنیف ہے؟
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
“آج کوئی چھت پر نہیں جائے گا، نہ ہی پتنگ اڑائے گا” ابا جان نے زور سے کہا اور کالج روانہ ہوگئے۔ فہد نے جی کہتے ہوئے سر ہلایا اور گیٹ بند کرکے اندر آ گیا۔

پے درپے ڈور سے زخمی ہوجانے والے المناک حادثات کی وجہ سے شہربھر میں پتنگ بازی پر پابندی تھی۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ لمبی دوپہر میں جب امی جان کام کاج سے تھک کر بے خبرسوجاتیں توفہد جھاڑو پکڑتا ، زین سلائی والے ڈبے سے نلکی نکالتا اور دونوں چپکے سے چھت پر چلے جاتے۔ گڈی بنا کر اڑانے میں بہت مزہ آتا۔ محلے کے چند لڑکے بھی اپنی چھتوں پر گڈیاں اڑاتے۔ امی کے بیدارہونے سے پہلے ہی دونوں چھت سے اتر آتے۔ دوتین دن سے قریبی مسجد سے اعلان ہو رہا تھا کہ جو بچہ پتنگ اڑاتا پایا گیا؛ اسے اور اس کے والدین کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ابا جان بھی آج انہیں منع کرگئے تھے ؛ لیکن ان دونوں نے کسی کی نصیحت پر کان نہ دھرے اور مسلسل اپنے مشغلے میں مصروف رہے۔ دوپہر کوانہیں امی جان کے سونے کا یقین ہوگیا تو موقع غنیمت جان کر دونوں چھت پر آگئے ، آسمان پر ایک دو پتنگیں اڑ رہی تھیں۔ فہد نے ڈور پکڑی ، زین نے کنی دی ، ہوا تیز تھی ، تھوڑی ہی دیر میں پلاسٹک کی ہلکی پھلکی گڈی کافی بلندی پر چلی گئی۔ فہد پتنگ اڑانے میں مگن تھا کہ اسے کسی کے بولنے کی آواز سنائی دی ، زین بھی اسے کچھ کہہ رہا تھا؛ لیکن پتنگ اڑانے کی دُہن میں اسے کچھ سنائی نہ دیا۔ پیچ لگانے کے ارادے سے جب آسمان پر نگاہ ڈالی تو اس کی پتنگ کے علاوہ کوئی اور پتنگ اڑتی دکھائی نہ دی۔ ابھی وہ حیرت میں گُم اس کی وجہ سوچ رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے کسی نے گُدی سے پکڑ لیا۔ وہ خوف سے چیخنے لگا، مڑ کر دیکھا تو پولیس کی وردی میں ایک سپاہی تھا جو گلی میں سے سیڑھی لگا کر چھت پر آ چکا تھا۔ فہد ڈر سے کانپنے لگا ، خوف سے اس کی گھگھی بندھ گئی سپاہی اسے پکڑ کر گلی میں لے آیا۔ شور سن کر اردگرد کے گھروں سے لوگ باہر نکل آئے۔ سپاہی نے اس کے والد کے متعلق دریافت کیا۔ اسے خبر دی گئی کہ اس کے والد کالج میں پروفیسرہیں۔ سپاہی نے یہ سن کر کہا: “پروفیسر صاحب کو چاہیے تھا کہ اپنے بچوں کو بھی قانون کی پاسداری سکھاتے۔”

فہد یہ سن کر شرم سے زمین میں گڑ گیا ؛ کیونکہ اس نے باپ کی نصیحت پر عمل کرنے کی بجائے اسے چٹکیوں میں اُڑا دیا۔ اگرچہ گلی کے کچھ افراد کی سفارش پر آئندہ پتنگ نہ اڑانے کا وعدہ لے کراسے چھوڑ دیا گیا؛ لیکن اس کی والدہ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے بات چیت بند کر دی۔ سب کے سامنے پولیس کی ڈانٹ کھانے کی وجہ سے وہ سخت شرمندہ تھا۔ اسے والدین کی نافرمانی کا سخت افسوس تھا ؛ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔
بہت اچھی تحریر ہے آپکی ام اویس بہن۔ اور مبارک ہو آپ کو اس تحریر کی پبلشنگ پر۔ اللہ تعالٰی ہمیں بھی ایسی تحریریں لکھنے کی توفیق عطافرمائے جو محض تفریح کا باعث نہ ہوں بلکہ ہمارے بچوں کی اخلاقی تربیت کا ذریعہ بنیں۔
 
Top