ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
اور سپنا ٹوٹ گیا
محمدحسین مشاہدرضوی
میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتی تھی۔ گاؤں کا نام سون پوری تھا، جوکہ ایک خوش حال گاؤں تھا ۔ گاؤں کے سب ہی لوگ مِل جُل کرایک ساتھ رہتے تھے۔ ہمارے گاؤں میں ایک غریب پُجاری رہتا تھا جواپنے چھوٹے سے گھر میں بالکل اکیلا رہتا تھا۔ وہ اتنا زیادہ غریب تھا اسے ایک وقت کا کھانا بھی بہت مشکل سے مِلتا تھا ۔ روزانہ پاس پڑوس سے کھانا مانگ کر کھاتاتھا۔ اُس پُجاری کے لیے اس کی زندگی ایک امتحان سے کم نہیں تھی۔ ہر پَل اُس کو مصیبتوں اور تکلیفوں کا سامناتھا۔
ایک دن وہ کہیں جارہا تھا ، تو ایک عورت نے اُسے بھیک میں ایک مٹکا بھر آٹا دیا۔ وہ تو خوشی سے پھولا نہیں سمارہاتھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اُسے سارا سُکھ حاصل ہوگیا ہے جو اُسے اِس سے پہلے کبھی بھی نہیں مِلا تھا۔ اب اُس پُجاری کے سامنے خوشیاں ہی خوشیاں ناچنے لگیں ۔ وہ آٹے سے بھرے اُس مٹکے کو اپنے گھر لے آیااور دیوار سے لگا کر سوگیا۔ اس کے بعد امیر بننے کے سپنے دیکھنے لگا۔
اس نے سوتے وقت سوچا کہ وہ آٹے کو کھائے گا نہیں بل کہ بازار میں لے جاکر بیچ ڈالے گا۔ پھر اُن روپیوں اور پیسوں سے ایک بکری خریدے گا، اُسے پالے گا، پھر اُسے اچھے داموں میں بیچ دے گااور مِٹھائی کی دکان کھولے گا۔ مِٹھائیاں خوب بکیں گی۔ اس کے بعد خوب پیسا کماؤں گا اور سُنار بنوں گا۔راجا کے محل میں جاکر راج کُماری کا ہاتھ مانگوں گا۔
اور پھر راج کُماری کے گلے میں سنہری مالا ڈالوں گا۔ جیسے ہی اُس نے راج کُماری کے گلے میں مالا ڈالی …اُس کا پاوں مٹکے سے ٹکراگیا مٹی ٹوٹ گئی اور پُجاری کا سپنا بھی ٹوٹ گیا۔
محمدحسین مشاہدرضوی
میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتی تھی۔ گاؤں کا نام سون پوری تھا، جوکہ ایک خوش حال گاؤں تھا ۔ گاؤں کے سب ہی لوگ مِل جُل کرایک ساتھ رہتے تھے۔ ہمارے گاؤں میں ایک غریب پُجاری رہتا تھا جواپنے چھوٹے سے گھر میں بالکل اکیلا رہتا تھا۔ وہ اتنا زیادہ غریب تھا اسے ایک وقت کا کھانا بھی بہت مشکل سے مِلتا تھا ۔ روزانہ پاس پڑوس سے کھانا مانگ کر کھاتاتھا۔ اُس پُجاری کے لیے اس کی زندگی ایک امتحان سے کم نہیں تھی۔ ہر پَل اُس کو مصیبتوں اور تکلیفوں کا سامناتھا۔
ایک دن وہ کہیں جارہا تھا ، تو ایک عورت نے اُسے بھیک میں ایک مٹکا بھر آٹا دیا۔ وہ تو خوشی سے پھولا نہیں سمارہاتھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اُسے سارا سُکھ حاصل ہوگیا ہے جو اُسے اِس سے پہلے کبھی بھی نہیں مِلا تھا۔ اب اُس پُجاری کے سامنے خوشیاں ہی خوشیاں ناچنے لگیں ۔ وہ آٹے سے بھرے اُس مٹکے کو اپنے گھر لے آیااور دیوار سے لگا کر سوگیا۔ اس کے بعد امیر بننے کے سپنے دیکھنے لگا۔
اس نے سوتے وقت سوچا کہ وہ آٹے کو کھائے گا نہیں بل کہ بازار میں لے جاکر بیچ ڈالے گا۔ پھر اُن روپیوں اور پیسوں سے ایک بکری خریدے گا، اُسے پالے گا، پھر اُسے اچھے داموں میں بیچ دے گااور مِٹھائی کی دکان کھولے گا۔ مِٹھائیاں خوب بکیں گی۔ اس کے بعد خوب پیسا کماؤں گا اور سُنار بنوں گا۔راجا کے محل میں جاکر راج کُماری کا ہاتھ مانگوں گا۔
اور پھر راج کُماری کے گلے میں سنہری مالا ڈالوں گا۔ جیسے ہی اُس نے راج کُماری کے گلے میں مالا ڈالی …اُس کا پاوں مٹکے سے ٹکراگیا مٹی ٹوٹ گئی اور پُجاری کا سپنا بھی ٹوٹ گیا۔