محمد علم اللہ
محفلین
محمد علم اللہ اصلاحی
یہ گرمیوں کا موسم تھا ،ہم بچے گھر کے بر آمدے میں کھیل رہے تھے۔کہار اپنے کاندھوں پر اور آدی واسی خواتین اپنے سروں کے اوپر کچے آموں کی ٹوکریاں لئے ”آم لے لو ،آم لے لو“کی آواز لگاتے ہوئے گلی سے گذر رہے تھے۔امی نے آ م والوں کو رکوایا اور مول بھاﺅکرنے لگی ،غالبا زیادہ مہنگے ہونے کے سبب امی نے آم نہیں خریدے۔لیکن میں نے ایک بڑھیا کی ٹوکری میں سے دو آم چرا کر چپکے سے چاول کی بوری میں چھپا دیا کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور دو چار دن میں کھانے لائق ہو جائیں گے۔لیکن یہ کیا جب دوپہر کے کھانے کے لئے امی بوری میں سے چاول نکالنے گئی تو اس میں سے دو تازے کچے آم دیکھ کر حیران ہوئی انھوں نے اندازہ لگا لیاتھا یہ صبح والے ہی آم ہیں ،خیر پوچھ گچھ شروع ہوئی کہ بوری میں آ م کس کے ہیں ،اس بابت جب مجھ سے دریافت کیا گیا تو جیسے میری زبان ہی گنگ ہو گئی ،امی کو اب ماجرا سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ آم میں نے بڑھیا کے ٹوکری میں سے بغیر اجازت لئے ہیں۔ اسوقت تک ابو بھی اسکول سے واپس آ چکے تھے۔ابو کو جیسے ہی اس بات کا انکشاف ہوا کہ شریف زادے نے آم چوری کئے ہیں۔ابو یوں بھی شروع سے ہی سخت مزاج ہیں ،ایسے موقع پر ان کا رویہ اوربھی سخت ہو جاتا ،آنکھیں سرخ ہو جاتیں ،چہرہ تمتما اٹھتا اور غصہ سے لال پیلےہو جاتے۔یہ سنتے ہی انھوں نے میری وہ درگت بنائی کہ الامان و الحفیظ وہ تو اچھا ہوا امی سامنے آ گئیں ورنہ میری کیا حالت ہوتی وہ میں ہی جانتا ہوں۔ابو نے مجھے سزا سناتے ہوئے کہا کہ میں آم والے کو نہ صرف آم واپس لوٹا آﺅں بلکہ اس سے معافی بھی مانگوں اور جب میں نے ایسا کیا تبھی انھوں نے گھر میں قدم رکھنے دیا۔اس واقعہ کے بعد سے آج تک مجھے بلا اجازت کسی کا ساما ن اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔
یہ گرمیوں کا موسم تھا ،ہم بچے گھر کے بر آمدے میں کھیل رہے تھے۔کہار اپنے کاندھوں پر اور آدی واسی خواتین اپنے سروں کے اوپر کچے آموں کی ٹوکریاں لئے ”آم لے لو ،آم لے لو“کی آواز لگاتے ہوئے گلی سے گذر رہے تھے۔امی نے آ م والوں کو رکوایا اور مول بھاﺅکرنے لگی ،غالبا زیادہ مہنگے ہونے کے سبب امی نے آم نہیں خریدے۔لیکن میں نے ایک بڑھیا کی ٹوکری میں سے دو آم چرا کر چپکے سے چاول کی بوری میں چھپا دیا کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور دو چار دن میں کھانے لائق ہو جائیں گے۔لیکن یہ کیا جب دوپہر کے کھانے کے لئے امی بوری میں سے چاول نکالنے گئی تو اس میں سے دو تازے کچے آم دیکھ کر حیران ہوئی انھوں نے اندازہ لگا لیاتھا یہ صبح والے ہی آم ہیں ،خیر پوچھ گچھ شروع ہوئی کہ بوری میں آ م کس کے ہیں ،اس بابت جب مجھ سے دریافت کیا گیا تو جیسے میری زبان ہی گنگ ہو گئی ،امی کو اب ماجرا سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ آم میں نے بڑھیا کے ٹوکری میں سے بغیر اجازت لئے ہیں۔ اسوقت تک ابو بھی اسکول سے واپس آ چکے تھے۔ابو کو جیسے ہی اس بات کا انکشاف ہوا کہ شریف زادے نے آم چوری کئے ہیں۔ابو یوں بھی شروع سے ہی سخت مزاج ہیں ،ایسے موقع پر ان کا رویہ اوربھی سخت ہو جاتا ،آنکھیں سرخ ہو جاتیں ،چہرہ تمتما اٹھتا اور غصہ سے لال پیلےہو جاتے۔یہ سنتے ہی انھوں نے میری وہ درگت بنائی کہ الامان و الحفیظ وہ تو اچھا ہوا امی سامنے آ گئیں ورنہ میری کیا حالت ہوتی وہ میں ہی جانتا ہوں۔ابو نے مجھے سزا سناتے ہوئے کہا کہ میں آم والے کو نہ صرف آم واپس لوٹا آﺅں بلکہ اس سے معافی بھی مانگوں اور جب میں نے ایسا کیا تبھی انھوں نے گھر میں قدم رکھنے دیا۔اس واقعہ کے بعد سے آج تک مجھے بلا اجازت کسی کا ساما ن اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔