بچپن کی محبّت کو بھلایا نہیں جاتا

الف عین
شاہد شاہنواز
محمد عبدالرؤوف
سید عاطف علی
--------
بچپن کی محبّت کو بھلایا نہیں جاتا
اپنوں کو کبھی غیر بنایا نہیں جاتا
---------
کرتے ہو محبّت کا یوں دعویٰ تو ہمیشہ
ملنے کے لئے مجھ سے تو آیا نہیں جاتا
--------
انسان کا تنہا تو گزارا نہیں ہوتا
جذبات کو ایسے تو سلایا نہیں جاتا
----------
رستے پہ محبّت کے مجھے خود ہی لگا کر
اب تم سے ہی الفت کو نبھایا نہیں جاتا
-----------
حالات نے جینا بھی بنایا ہے یوں مشکل
یہ بوجھ ہے اتنا کہ اٹھایا نہیں جاتا
------
چہرے سے نمایاں ہے مرا رازِ محبّت
چاہوں بھی چھپانا تو چھپایا نہیں جاتا
-------
نفرت جو دکھائے اسے نفرت ہی ملے گی
سر پر تو کبھی اس کو بٹھایا نہیں جاتا
-----------
جو بھول گئے تم کو انہیں تم بھی بھلا دو
ایسوں کو سدا دل میں بسایا نہیں جاتا
--------
اک روز مجھے اس نے جو سینے سے لگایا
آنکھوں سے وہ منظر تو ہٹایا نہیں جاتا
----------
ارشد سے تو ملتے ہیں وہ غیروں کی طرح ہی
اپنوں کو کبھی یوں تو ستایا نہیں جاتا
-------------
 

الف عین

لائبریرین
الف عین
شاہد شاہنواز
محمد عبدالرؤوف
سید عاطف علی
--------
بچپن کی محبّت کو بھلایا نہیں جاتا
اپنوں کو کبھی غیر بنایا نہیں جاتا
---------
دو لخت، ردیف بھی واضح نہیں ہے اس غزل کی کہ فاعل ہر جگہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھ سے یہ ممکن نہیں ہوتا، یا تم سے نہیں ہو سکتا!
کرتے ہو محبّت کا یوں دعویٰ تو ہمیشہ
ملنے کے لئے مجھ سے تو آیا نہیں جاتا
--------
مجھ سے ملنے کے لئے تم کو، یا تم سے ملنے کے لئے مجھے؟
پہلا مصرع بھی اس طرح زیادہ رواں ہو سکتا ہے
تم کرتے ہو دعویٰ تو محبت کا ہمیشہ
یہ مصرع فوراً سوجھ گیا، اگر آپ سارے امکانات کا جائزہ لیتے تو بہتر مصرع کہہ سکتے تھے!
انسان کا تنہا تو گزارا نہیں ہوتا
جذبات کو ایسے تو سلایا نہیں جاتا
----------
کس سے؟ دو لخت بھی لگتا ہے
رستے پہ محبّت کے مجھے خود ہی لگا کر
اب تم سے ہی الفت کو نبھایا نہیں جاتا
-----------
ٹھیک، بہتر ہو سکتا تھا اگر بیانیہ میں یہ بھی ہوتا کہ یہ کیا ستم ہے؟
حالات نے جینا بھی بنایا ہے یوں مشکل
یہ بوجھ ہے اتنا کہ اٹھایا نہیں جاتا
------
فاعل؟ یوں کا محض یُ تقطیع ہونا اچھا نہیں
بنا ڈالا ہے مشکل
چہرے سے نمایاں ہے مرا رازِ محبّت
چاہوں بھی چھپانا تو چھپایا نہیں جاتا
-------
درست، فاعل واضح ہے
نفرت جو دکھائے اسے نفرت ہی ملے گی
سر پر تو کبھی اس کو بٹھایا نہیں جاتا
-----------
درست
جو بھول گئے تم کو انہیں تم بھی بھلا دو
ایسوں کو سدا دل میں بسایا نہیں جاتا
--------
درست، فاعل سمجھا جا سکتا ہے
اک روز مجھے اس نے جو سینے سے لگایا
آنکھوں سے وہ منظر تو ہٹایا نہیں جاتا
----------
واقعہ ماضی میں بیان کیا جاتا تو بہتر تھا، یعنی گلے لگایا تھا
دوسرے مصرعے میں فاعل واضح نہیں
ارشد سے تو ملتے ہیں وہ غیروں کی طرح ہی
اپنوں کو کبھی یوں تو ستایا نہیں جاتا
-------------
ہی؟" اغیار کی مانند" بہتر ہو گا
 
الف عین
(اصلاح)
--------
اپنوں سے حقیقت کو چھپایا نہیں جاتا
دل کھول کے غیروں کو دکھایا نہیں جاتا
-----------یا
جو راز چھپانا ہو بتایا نہیں جاتا
دل کھول کے لوگوں کو دکھایا نہیں جاتا
------
تم کرتے ہو دعویٰ تو محبّت کا ہمیشہ
ملنے کو مرے پاس تو آیا نہیں جاتا
-----------
انسان کو ہوتی ہے ضرورت بھی کسی کی
-------یا
لمحات جدائی کے نہیں سہل تو اتنے
جذبات کو تنہا تو سلایا/دبایا نہیں جاتا
----------
سینے سے لگایا تھا مجھے پیار سے اس نے
آنکھوں سے وہ منظر تو ہٹایا نہیں جاتا
----------
 

الف عین

لائبریرین
دونوں متبادل مطلعوں میں فاعل واضح نہیں
انسان کو ہوتی ہے ضرورت بھی کسی کی
-------یا
لمحات جدائی کے نہیں سہل تو اتنے
جذبات کو تنہا تو سلایا/دبایا نہیں جاتا
----------
تو کیا دونوں ساتھ مل کر جذبات دبانے یا سلانے کا پلان بنائیں؟
باقی دو اشعار ٹھیک ہو گئے
 
الف عین
(اصلاح)
----------
مجھ سے تو ترا پیار بھلایا نہیں جاتا
کیوں تجھ سے محبّت کو نبھایا نہیں جاتا
--------
لمحات جدائی کے تو کاٹے نہیں کٹتے
کوشش سے غمِ دل کو بھلایا نہیں جاتا
------یا
کاموں میں بھی دل مجھ سے لگایا نہیں جاتا
----------یا
غم کس کو بتاؤں کہ بتایا نہیں جاتا
---------
 

الف عین

لائبریرین
تو ترا
تنافر ہے
الفت کو تری مجھ سے.....

دوسرے شعر کا دوسرا متبادل مفہوم میں بہتر ہے، لیکن روانی میں نہیں، کاموں لفظ کی وجہ سے، کام میں کسی طرح استعمال کرنے سے تنافر پیدا ہو جاتا ہے

کیا کام کروں؟ دل ہی لگایا نہیں جاتا
 
Top