بچپن کی کھٹی میٹھی یادیں

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بچپن کی بہت سی باتیں یاد آئیں تو ایک دم ہنسی آ جاتی ہے کہ
اففففف میں بچپن میں کتنی بیوقوف تھی
شاید سب کو ہی کبھی نا کبھی زندگی کا وہ دور یاد آتا ہے کہ جب صحیح اور غلط کی پہچان نہیں ہوتی ، ہماری پریشانیاں اٹھانے کو بڑے سر پر موجود ہوتے ہیں ۔جب ساری دنیا کھلونوں سے شروع ہوتی ہے اور ان ہی پر ختم ہو جاتی ہے۔
مجھے یاد ہے جب میں چھوٹی تھی تو نانی اماں کے گھر گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے جایا کرتے تھے ، بڑی خوشی خوشی ٹرین کا سفر کیا کرتے ، ہمیشہ کھڑکی والی سیٹ پر سب کی لڑائی ہوتی ، نانی اماں کے یہاں رات بڑی خوبصورت ہوا کرتی تھی اب جانے ہے کہ نہیں ، مگر تب رات کو ڈھیر سارے تاروں کی بارات آجاتی اور وہ آسمان پر اٹھکھلیاں کرتے ، آسمان رات کو بہت کالا ہوتا اور تارے اتنے زیادہ ہوتے تھے کہ گننا مشکل ہو جاتا تھا ،چاند تو اتنا قریب لگتا تھا کہ یوں ہاتھ بڑھاؤ اور چھو لو لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا تھا آسمان پر گنتی کے ستارے نظر آیا کرتے تھے میں شادی سے پہلے تک اکثر ستارے گنتی گنتی سو جاتی تھی ،مجھے آج تک سمجھ نا آ سکی کہ نانی اماں کے یہاں کی رات اور ہمارے یہاں کی رات ایک جیسی کیوں نہیں ہوتی !
اور نانی جان کے گھر سے واپسی پر ٹرین تک کا سفر رو رو کے گزرتا اور جب ریلوے سٹیشن پر امی ٹکٹ لینے جایا کرتیں تو میری جان پر بن جاتی ۔ ڈر کے مارے سانس بھی بند ہو جایا کرتی ، امی کے پیچھے جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی ورنہ سامان کا دھیان کون رکھتا ، اور ہمیشہ مجھے یہ لگتا کہ امی ٹکٹ گھر کے دوسری طرف سے نکل کر نانی اماں کے یہاں چلی جائیں گی یا کہیں اور ، ہم لوگ اکیلے سٹیشن پر رہ جائیں گے ٹرین آئے گی اور چلی جائے گی ہمارا کیا بنے گا ۔۔۔ ہاہاہاہا

جب سکول جایا کرتے تھے تو ہمارے ہمسائیوں کے گھر کے لان کے گرد لگی باڑ پر چھوٹے چھوٹے پھول لگا کرتے جن کے پیچھے ایک کیپ بھی ہوتا تھا اسے اتار کر چوسنے پر اس پھول سے میٹھا رس نکلتا اور اسے پی کر جی خوش ہو جاتا ، میں صبح سویر ے سکول جاتے ہوتے اکثر چپکے سے وہ پھول توڑ لیا کرتی اور وہاں جا کر اپنی سب سے اچھی دوست کو دیتی۔ اور پچھلے دنوں جب میں امی کے یہاں گئی تو میں نے دیکھا کہ ہمسائیوں نے لان کے گرد وہ باڑ ہٹا کر دوسری باڑ لگو ا لی ہے دیکھ کر دل کو دکھ سا ہوا میں نے امی سے کہا یہ والی باڑ بالکل اچھی نہیں لگتی

ایک پھول ہوتا ہے Dandelion۔۔ اکثر کہیں نا کہیں اُڑتا پھرتا دکھائی دیتا ہے ہم چھوٹے ہو تے اسے "مائی پونڈی" کہا کرتے تھے اور ہمیں یقین تھا کہ وہ اللہ میاں کے پاس جاتا ہے ، تو جب بھی وہ کہیں نظر آتا اسے بڑے پیار سے ہاتھ میں پکڑتے اور کہتے
"مائی پونڈی مائی پونڈی اللہ نوں میرا سلام کہیں "

بہت سےکام تو میں بڑے ہو کر بھی بڑی معصومیت سے کیے، جب نیا نیا موبائل استعمال کرنا شروع کیا تو ایزی لوڈ کا پتا ہی نہیں ہوتا تھا، ایک دن کالج میں بھائی کو کال کرنا تھی مجھے آ کر لے جاؤ مگر موبائل میں بیلنس ہی نہیں تھا اور میرے پاس صرف پچاس روپے تھے تو میں نے چوکیدار کو پیسے دئیے اور کہا کہ ایزی لوڈ کروا دینا اور نمبر نہیں دیا ، تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا اور کہا کہ دوکاندار نمبر مانگ رہا ہے مجھے شک گزرا میں نے چوکیدار سے کہا کہ اسے کہو ایسے ہی کر دے ، وہ دوبارہ گیا اور واپس آکر بھی اس نے یہی بات کہی کہ دوکاندار نمبر مانگ رہا ہے ، تب مجھے بڑا غصہ آیا میں نے دل ہی دل میں دوکاندار کو بڑا بھلا کہا اور غلط نمبر لکھ کر دے دیا ، چوکیدار چلا گیا واپس آیا تو میرے ذہن میں یہی تھا کہ جیسے کارڈ کا نمبر ڈالیں تو بیلنس مل جاتا ہے اس کا بھی کوئی نمبر ملے گا
جب میں نے چوکیدار سے پوچھا کہ بیلنس ؟
تو وہ کہنے لگا ہو گیا ؟
میں نے کہا کہا ں ہو گیا ؟
کہنے لگا باجی جو نمبر آپ نے دیا تھا دوکاندار کہہ رہا ہے کہ اس نمبر پر بیلنس ہو گیا
اففففففف میرے تو صحیح معنوں میں چودہ طبق روشن ہو گئے ہاہاہاہاہا آج بھی جب یہ بات یاد آتی ہے تو ہنس ہنس کے دوہری ہو جاتی ہوں ۔

جب بھائی نے مجھے نیا نیا اردو محفل پر اکاونٹ بنا کر دیا تو مجھے یہ بھی پتا نہیں ہوتا تھاکہ آئی ڈی اور پاسورڈ بھی کسی بلا کا نام ہوتے ہیں ، میں اکثر اردو محفل پر آوارہ گردی کرتی اور سوچتی کہ یہاں پر لوگ کیسے لکھتے ہوں گے میں تو لکھ ہی نہیں سکتی اور پھر تنگ آ کر بند کر دیتی کہ کوئی فائدہ نہیں ، ایک دن میں نے بھائی سے پوچھا کہ لوگ یہاں لکھتے کیسے ہیں تب انہوں نے بتایا کہ میں نے تمھیں آئی اور پاسورڈ تو دیا ہی نہیں ۔

اور وہ بات کہ جس نے مجھے یہ لکھنے پر مجبور کیا وہ یہ تھا کہ آج صبح میں یونہی فیس بک پر آوارہ گردی کر رہی کہ میں نے مختلف "بک مارکس " دیکھے ۔ ایک دم سے میری ہنسی نکل گئی چھبیس سال میں یہ بات مجھے کبھی پتا نہیں چلی ، ہم چھوٹے ہوتے تھے تو کورس کتاب کے اندر مور کے پر سے علیحدہ ہوئے تنکے رکھا کرتے تھے اور ساتھ ہی چینی بھی ڈال دیا کرتے تھے تب ہمارے خیال کے مطابق وہ چینی مور کی غذا تھی اور اسے کھا کر ایک دن وہ حقیقت میں مور بن جائیں گے ، ہر ہفتے بعد کتاب کا وہ ورق کھول کر دیکھنا اور چینی تبدیل کرنی اور یہ یقین کی حد تک یہ گمان بھی رکھنا کہ ہاں یہ تھوڑے بڑے ہو گئے ہیں بس جلدی مور بن جائیں گے ، ہاہاہاہاہاہاہا مگر یہ راز آج افشا ہوا کہ دراصل لوگ موروں کے پر بک مارکس کے طور پر استعمال کرتے ہیں نا کہ مور بنانے کے لئے ۔۔۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
بچپن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاش کہ لوٹ کر آ جائیں وہ دن ۔۔۔۔
بہت کچھ یاد دلاتی اک خوبصورت تحریر
بہت شکریہ بہت دعائیں
 
بہت سےکام تو میں بڑے ہو کر بھی بڑی معصومیت سے کیے، جب نیا نیا موبائل استعمال کرنا شروع کیا تو ایزی لوڈ کا پتا ہی نہیں ہوتا تھا، ایک دن کالج میں بھائی کو کال کرنا تھی مجھے آ کر لے جاؤ مگر موبائل میں بیلنس ہی نہیں تھا اور میرے پاس صرف پچاس روپے تھے تو میں نے چوکیدار کو پیسے دئیے اور کہا کہ ایزی لوڈ کروا دینا اور نمبر نہیں دیا ، تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا اور کہا کہ دوکاندار نمبر مانگ رہا ہے مجھے شک گزرا میں نے چوکیدار سے کہا کہ اسے کہو ایسے ہی کر دے ، وہ دوبارہ گیا اور واپس آکر بھی اس نے یہی بات کہی کہ دوکاندار نمبر مانگ رہا ہے ، تب مجھے بڑا غصہ آیا میں نے دل ہی دل میں دوکاندار کو بڑا بھلا کہا اور غلط نمبر لکھ کر دے دیا ، چوکیدار چلا گیا واپس آیا تو میرے ذہن میں یہی تھا کہ جیسے کارڈ کا نمبر ڈالیں تو بیلنس مل جاتا ہے اس کا بھی کوئی نمبر ملے گا
جب میں نے چوکیدار سے پوچھا کہ بیلنس ؟
تو وہ کہنے لگا ہو گیا ؟
میں نے کہا کہا ں ہو گیا ؟
کہنے لگا باجی جو نمبر آپ نے دیا تھا دوکاندار کہہ رہا ہے کہ اس نمبر پر بیلنس ہو گیا
اففففففف میرے تو صحیح معنوں میں چودہ طبق روشن ہو گئے ہاہاہاہاہا آج بھی جب یہ بات یاد آتی ہے تو ہنس ہنس کے دوہری ہو جاتی ہوں
بہت خوب ناعمہ جی یہ یادیں ہی تو سرمایہ ہوتی ہیں زندگی کا...
میرا بچپن بھی کچھ ایسا ہی تھا مجھے ایک واقعہ یاد ہے اپنے بچپن کا میں جب سکول سے واپس رہی تھی تو دیکھا کہ زمین میں سے پانی نکل رہا ہے(واٹر سپلائی کا پائپ لیک ہو رہا تھا) پچھلی رات کو امی نے حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ سنایا تھا کہ کیسے تنور میں سے پانی نکلنا شروع ہوا اور دنیا ختم ہو گئی تھی تو وہ واقعہ میرے خیال میں گھوم رہا تھا،، مجھے نہیں پتا تھا کے یہ واٹر سپلائی کا پانی ہے جو قسمت سے ہی آتا ہے. میں نے وہاں سے بھاگنا شروع کر دیا اور گھر آ کر دم لیا اور امی نے میرا چہرہ دیکھا تو پوچھا کیا ہوا بیٹی تو میں نے رونا شروع کر دیا اور بتایا کہ امی ابھی دنیا ختم ہو جائے گی اور ہم سب مر جائیں گے امی تھوڑا مسکرائی اور پوچھا کیا ہو تو میں نے بتایا کہ ہماری سکول والی گلی میں زمین سے پانی نکلنا شروع ہو گیا ہے جیسے حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں تنور میں سے نکالنا شروع ہوا تھا اور اسی ڈر سے میں اگلے دن سکول نہیں گئی
 

آوازِ دوست

محفلین
بچپن کی بہت سی باتیں یاد آئیں تو ایک دم ہنسی آ جاتی ہے
اپنی اپنی قسمت کہ ہم آج تک اُن دِنوں کو روتے ہیں :)

جب ساری دنیا کھلونوں سے شروع ہوتی ہے اور ان ہی پر ختم ہو جاتی ہے۔
شائد ساری زندگی ہی کھلونوں کے گرد گھومتی ہےبس ہمارے ساتھ ساتھ وہ بھی کُچھ بڑے ہو جاتے ہیں :)

نانی اماں کے یہاں رات بڑی خوبصورت ہوا کرتی تھی اب جانے ہے کہ نہیں
آج بھی آپ کسی دیہی علاقے میں جائیں جہاں کی فضا شہری آلودگیوں سے نا آشنا ہو تو ایسی ہی ڈھیر ساری رات ملے گی :)

بڑی خوشی خوشی ٹرین کا سفر کیا کرتے ، ہمیشہ کھڑکی والی سیٹ پر سب کی لڑائی ہوتی
سفر بچپن سے میرا جنون رہا نانی کا چہیتا تھا سو وہ جہاں جاتیں میں اُن کے ساتھ ہوتا بڑے ماموں میرے اِس اٹوٹ ساتھ پر اکثر بُڑبڑا کر نانی امّی سے کہتے کہ سفر میں بچے کا ساتھ آپ کے لیے تنگی کا باعث ہو گا مگر اُن کی کبھی ایک نہ سُنی گئی۔ میں بس یا ٹرین کی کھڑکی میں دیکھتے ہوئے ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں رہتا اور میری یہی چاہت ہوتی کہ میں نظر کے سامنےسے گُزرنے والے سارے نظارے سمیٹ لوں اور کوئی چیز بھی مِس نہ ہو :)

جب سکول جایا کرتے تھے تو ہمارے ہمسائیوں کے گھر کے لان کے گرد لگی باڑ پر چھوٹے چھوٹے پھول لگا کرتے جن کے پیچھے ایک کیپ بھی ہوتا تھا اسے اتار کر چوسنے پر اس پھول سے میٹھا رس نکلتا اور اسے پی کر جی خوش ہو جاتا
میں جب نانی امّی کے گھر جاتا تو اُن کی بکری کے لیے گھاس لے کر آتا اِسی دوران میں نے ایک پودا دریافت کیا جس پر کالی مرچ سے ذرا بڑے سائز کے پھلوں کے خوشے لگے تھے چکھنے پر بہت مزیدار لگے اور پھر جب بھی میں کھال کنارے چلتا تو وہ میری نظروں کا خصوصی ہدف رہتے بعد میں پتا چلا کہ اُس پھل کا نام " مکّو" ہے۔ اِسی طرح ایک بوٹی کو توڑنے پر اُس میں سے سفید دودھ نما مائع نکلتا تھا :)

ایک پھول ہوتا ہے Dandelion۔۔ اکثر کہیں نا کہیں اُڑتا پھرتا دکھائی دیتا ہے ہم چھوٹے ہو تے اسے "مائی پونڈی" کہا کرتے تھے اور ہمیں یقین تھا کہ وہ اللہ میاں کے پاس جاتا ہے ، تو جب بھی وہ کہیں نظر آتا اسے بڑے پیار سے ہاتھ میں پکڑتے اور کہتے
"مائی پونڈی مائی پونڈی اللہ نوں میرا سلام کہیں "
ہمارے علاقے میں اِسے بچے "مائی بُڈی" کہتے تھے شائد اُس کے سفید بالوں کی وجہ سے لیکن مُجھے اُس کا یہ نام اچھا نہیں لگتا تھا، میں اُسے ہمیشہ "مائی کریم بی بی" کہا کرتا تھا :)

ہم چھوٹے ہوتے تھے تو کورس کتاب کے اندر مور کے پر سے علیحدہ ہوئے تنکے رکھا کرتے تھے اور ساتھ ہی چینی بھی ڈال دیا کرتے تھے تب ہمارے خیال کے مطابق وہ چینی مور کی غذا تھی اور اسے کھا کر ایک دن وہ حقیقت میں مور بن جائیں گے
ہم بھی ایسا ہی کرتے تھے لیکن اِس اُمید پر نہیں کہ اِس سے سالم مور مِل جائے گا بلکہ ہماری عرضِ تمنا فقط اتنی تھی کہ جو مور کے پر والی ٹکیہ ہم نے کتاب میں رکھی ہے یہ سائز اور تعداد میں بڑھ جائے :)
 

نور وجدان

لائبریرین
جب ہم بڑے ہوجاتے ہیں تو بچپن کا سوچ کر محظوظ بھی ہوتے ہیں ۔ اففف ! ہم اب کتنے سیانے ہیں ۔ آپ کی تحریر پڑھ کر کچھ اقدار بہت مشترک نظر آئیں ہیں ۔ جیسے بس ، ٹرین کے سفر میں کھڑکی والی سیٹ پر ہماری اپنے بہن بھائیوں سے لڑائی ہوجایا کرتی تھی ۔ اور جب کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھ کر سبز سبز درخت کی گھنیری چھاؤں میں لہلہاتی ہوائیں کو محسوس کرکے ، دور لگے پھولوں کی خوشبو میں سمو کر ہم کھڑکی سے باہر والے دنیا کے باسی ہو جایا کرتے تھے ۔ بالکل اسی طرح گرمیوں کی راتوں میں آسمان پر تاروں کا جال اور ان کو گننا اور گنتے گنتے سو جانا بڑا مسحور کن ہوا کرتا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم چاند کو بھی دیکھا کرتے تھے کہ ایک چاند کے اتنے ستارے ۔ چاند کی روشنی ستاروں سے ہے یا ستاروں کی روشنی چاند سے ہے ۔ یہ سوچتے سوچتے ہمیں نیند کی وادیوں میں کھو جایا کرتے تھے ۔

صبح اسکول جانے کی ہمیں بڑی جلدی ہوتی تھی ۔ جلد از جلد تیار ہو کے ، بھاگم بھاگ اسکول جایا کرتی ۔ میں کوئی پڑھاکو نہیں تھی ۔ صبح صبح کوئی ہوتا نہیں تھا اور درختوں پر چڑھ کر کچے اور چھوٹے چھوٹے آم کھانا جن کو شاید امبیاں کہا جاتا ہو ، وہ کھایا کرتی تھی ۔ اس چوری سے کھانے کا مزہ ہی اپنا ہوتا ہے ۔ یہ اور بات ہے میرا گلہ اتنا شدید خراب ہوا کہ مری پاکٹ منی دینے سے پہلے ہی ضبط کر لی جا تی ۔۔

اور جو Dandelion کا پھول ہوتا تھا اس کو ہم پکڑ کر دعا مانگا کرتے تھے ۔ دعا مانگ کر اس کو اڑا دیا کرتے تھے کہ یہ بڈھی مائی ہے ۔ اس سے پکڑ کو جو دعا مانگی جائے گی وہ قبول ہوگی ۔۔

اسی لیے سدرشن فاکر کی غزل یاد آئی ہے جس کو گایا جگجیت سنگھ نے ہے


اور ان میٹھے پلوں کو یاد رکھنے کے لیے ایک اور ویڈیو سنیے ۔

http://www.dailymotion.com/video/x2h2ub4
 
آخری تدوین:

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بہت خوب ناعمہ جی یہ یادیں ہی تو سرمایہ ہوتی ہیں زندگی کا...
میرا بچپن بھی کچھ ایسا ہی تھا مجھے ایک واقعہ یاد ہے اپنے بچپن کا میں جب سکول سے واپس رہی تھی تو دیکھا کہ زمین میں سے پانی نکل رہا ہے(واٹر سپلائی کا پائپ لیک ہو رہا تھا) پچھلی رات کو امی نے حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ سنایا تھا کہ کیسے تنور میں سے پانی نکلنا شروع ہوا اور دنیا ختم ہو گئی تھی تو وہ واقعہ میرے خیال میں گھوم رہا تھا،، مجھے نہیں پتا تھا کے یہ واٹر سپلائی کا پانی ہے جو قسمت سے ہی آتا ہے. میں نے وہاں سے بھاگنا شروع کر دیا اور گھر آ کر دم لیا اور امی نے میرا چہرہ دیکھا تو پوچھا کیا ہوا بیٹی تو میں نے رونا شروع کر دیا اور بتایا کہ امی ابھی دنیا ختم ہو جائے گی اور ہم سب مر جائیں گے امی تھوڑا مسکرائی اور پوچھا کیا ہو تو میں نے بتایا کہ ہماری سکول والی گلی میں زمین سے پانی نکلنا شروع ہو گیا ہے جیسے حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں تنور میں سے نکالنا شروع ہوا تھا اور اسی ڈر سے میں اگلے دن سکول نہیں گئی
ہاہاہا ہاہاہا
 
Top