شکیب

محفلین
چچا جان نے ہم دونوں بھائیوں کو پانچ روپے کا سکہ دیا تھا۔ اس دور میں ہمیں جیب خرچ کے طور پر ہمیں چار آنہ ملا کرتا تھا۔
بھائی نے ان پانچ روپوں میں سے میرا حصہ اب تک نہیں دیا۔ :)
 

شکیب

محفلین
روز مرہ کی طرح آٹھ آنے لے کر پرائمری اسکول گیا۔ ریسیز ہوئی تو باہر لگے خوانچوں کی طرف بڑھ کے چار آنے کے آلو مانگے۔ ابلے آلو املی کی چٹنی کے ساتھ فروخت کیے جاتے تھے۔
دکان والی بوڑھی دادی نے کہا۔۔۔۔ بیٹا! آج سے چار آنہ بند ہو گیا ہے۔
 

شکیب

محفلین
پرائمری اسکول کی دو شفٹیں ہوتی تھیں۔ ایک میں لڑکے اور ایک میں لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ دونوں شفٹوں کو ہر سال بدل دیا جاتا تھا۔ ایک سال لڑکیاں صبح پڑھتیں تو ایک سال لڑکے۔
تیسری جماعت میں دوپہر کی شفٹ ہم لڑکوں کی تھی۔ پانچ بجے چھٹی کی گھنٹی بجی تو سارے بچے معمول کی طرح فورا باہر کی طرف دوڑ پڑے۔ آخر میں میں اور میرا ایک دوست رہ گیا۔ مذاق مذاق میں دوست نے باہر سے کلاس کا دروازہ بند کر دیا۔ میں آواز دیتا رہا وہ ہنستا ہوا چلا گیا۔ میری دانست میں بہت سے لوگ موجود تھے لیکن اچانک احساس ہوا کہ تمام ٹیچرز جا رہے ہیں۔
میں حلق کے بل چلایا ”کھولو۔۔۔ کوئی ہے۔ جناب(سر کو جناب کہتے تھے) دروزہ کھولو۔
سلیم جناب نے دروزہ کھولا۔
اس دوست کا نام یاد نہیں اب۔
 

شکیب

محفلین
رزلٹ کا دن تھا۔۔۔ تیسری جماعت کا غالبا۔ تمام کلاسیں بھری ہوئی تھیں اور بہت سے بچوں کے والدین بھی آئے ہوئے تھے۔ تمام اسٹاف ایک ایک کلاس میں جا کر نتائج کا اعلان کرتے تھے۔ اساتذہ کلاس میں داخل ہوئے اور میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ ہر رزلٹ کے وقت یہی ہوتا تھا، اور سبھی کے ساتھ ہوتا ہے۔
ہیڈ ماسٹر مشتاق جناب تھے۔ انہوں نے نتائج دیکھے اور ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگے۔ پھر بولنے سے پہلے پھر ٹیچرز کی طرف پلٹے اور بات کرنے لگے۔ سسپنس کی انتہاء تھی گویا۔ میں نے گہری سانس لے کر دھڑکن پر قابو پانے کی کوشش کی اور سورہ یس پڑھنے لگا(اس وقت صرف پہلی رکوع یاد تھی)
نتیجہ سنایا جانے لگا اور میرے کان صرف نام پر لگے تھے کہ کس کا پکارا جاتا ہے۔
فرسٹ پوزیشن(اول) آنے والا بچہ ہے۔۔۔۔
میرے ایک کلاس فیلو کا نام لیا گیا اور میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ تالیاں بجیں اور میرا دوست اٹھ کر سامنے چلا گیا، اس کے امی اور ابو نے آگے بڑھ کر اسے اپنے سے چمٹا لیا۔
تالیوں کا شور ختم ہوا اور ہیڈ ماسٹر صاحب نے پھر اناؤنس کیا۔
فرسٹ پوزیشن ہی پر دوسرا بچہ ہے۔۔۔
تالیاں پھر بجیں اور سورہ یس پڑھنے والا کانپتے پیروں سے سامنے جانے لگا۔ خوشی سے بھی پاؤں کانپتے ہیں۔
تالیوں کی گونج میں ہیڈ ماسٹر صاحب نے ہاتھ ملا کر اپنے ساتھ لگایا۔ میرے امی ابا مجھے چمٹانے کے لیے وہاں نہیں تھے۔ کیوں ہوتے بھلا؟ نو اولادوں میں میں سب سے چھوٹا تھا، گھر چلانا ایسا کام تھا جس کے لیے خواہ مخواہ اسکول نہیں آیا جا سکتا۔
اور سب سے اہم وجہ، فرسٹ آنا کوئی نئی بات تو نہیں تھی۔۔۔۔
ہم تمام بہن بھائی فرسٹ پوزیشن کے عادی تھے۔
 

شکیب

محفلین
دانش میرا قریبی دوست تھا۔ چوتھی جماعت تک میرے ساتھ رہا۔ ایک رزلٹ کے بعد اس کے ابو اسے سائیکل پر بٹھا کر ہمارے گھر لے آئے اور آواز دی۔ گھر کرائے کا تھا اور ہم اوپری منزل پر رہتے تھے۔ میں نیچے آیا تو اس کے ابو نے پوچھا بیٹا رزلٹ کیا رہا؟ میں نے مارک شیٹ لا کر دکھائی
”پاس“ کے برابر میں واضح حروف میں ”اول“ لکھا دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور جیب سے پانچ روپے کا نوٹ نکال کر رزلٹ کے ساتھ واپس کر دیا۔ دانش حسبِ عادت اس دوران میں مسکراتا رہا۔
وہ محبت بھرے پانچ روپے مجھے بھولتے نہیں۔
دانش چوتھی کے بعد حفظ کے لیے مدرسے میں داخل ہوگیا۔ وہ اکثر چوتھی ہی میں مجھ سے کہا کرتا تھا کہ میں آگے نہیں پڑھوں گا۔ میرے ابو مجھے مدرسے میں ڈالیں گے۔ میں نے اسے بڑا فورس کیا تھا کہ ساتھ میں پڑھے۔
اب وہ حافظ ہے۔ کتنا خوبصورت فیصلہ کیا تھا اس کے ابو نے۔
 

شکیب

محفلین
روز مرہ کی طرح آٹھ آنے لے کر پرائمری اسکول گیا۔ ریسیز ہوئی تو باہر لگے خوانچوں کی طرف بڑھ کے چار آنے کے آلو مانگے۔ ابلے آلو املی کی چٹنی کے ساتھ فروخت کیے جاتے تھے۔
دکان والی بوڑھی دادی نے کہا۔۔۔۔ بیٹا! آج سے چار آنہ بند ہو گیا ہے۔
اب کیا بتائیں۔ یہ غمناک مراسلہ کچھ لوگوں کو پر مزاح لگ رہا ہے۔
 

شکیب

محفلین
میں نیا نیا اسکول میں داخل ہوا تھا اسی وقت دو بہنوں کی شادی تھی۔ شادی کے گھروں کا ماحول تو آپ کو پتہ ہی ہے، ہر وقت ہنگامہ لگا رہتا۔ دو دن پہلے سارے کزنز جمع تھے اور کچھ کھیلنے کا پلان تھا۔ لوگ زیادہ ہونے کی وجہ سے کچھ طے نہیں ہو پایا کہ کیا کھیلنا ہے۔ آخر کار ٹیم بنا کر کچھ کھیلنا طے ہوا۔(کھیل کون سا تھا یاد نہیں)
ٹیم بنانے کے لیے ہمارے یہاں ایک دستور رائج ہے جسے ”اواج کی کھواج“ کہتے ہیں۔ واللہ اعلم یہ کن الفاظ کی بگڑی ہوئی اشکال ہیں۔ اس میں دو دو کی جوڑی میں لوگ نام رکھنے جاتے ہیں اور اپنا اپنا ایک نقلی نام پسند کر کے آجاتے ہیں۔ دو کپتان پہلے سے طے ہوتے ہیں اور وہ ان ناموں میں سے باری باری ایک نام چنتے ہیں اور جس کا بھی نام وہ نکلتا ہے، اسے اس کی ٹیم میں شامل کر دیا جاتا ہے۔
خیر ٹیمیں بانٹی گئیں۔آخر میں میں بچا، تو چونکہ بہت چھوٹا سا تھا، اس لیے بڑوں نے جھگڑنا شروع کر دیا کہ یہ ہماری ٹیم میں رہے گا۔ تھوڑی ہی دیر بعد کیا کپتان اور کیا ممبران، ساروں نے مل کر مجھے اپنی اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ رات کا وقت تھا اور بجلی نہیں تھی۔ اوپر سے ان کی چیخ و پکار ”یہ ادھر رہے گا“ ”شکیب ہمارا ہے“”ہم لوگوں کی طرف“ واللہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ رفتہ رفتہ گھیرا تنگ ہوتا گیا اور میں درمیان میں پھنس سا گیا۔ ان کی چیخ و پکار جاری رہی اور میرا دم گھٹنے لگا۔
میں نےپھیپھڑوں کی پوری طاقت لگا کر کہا ”مجھے سانس لینا نہیں ہو رہا ہے“۔ لیکن اس چیخ و پکار میں میری آواز شاید صرف مجھی تک محدود تھی۔ حلق کے بل ایک اور مرتبہ چلایا تو شاید کسی کو سنائی دیا اور پھر وہ سارے ہٹ گئے۔
ان کے ہٹتے ہی میں لمبی لمبی سانس لینے لگا۔ اور ایک طرف کو ہو گیا۔ پھر کافی دیر کچھ اور کھیلنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
 

شکیب

محفلین
شادی ہی میں یہ بھی قصہ ہوا تھا کہ چھوٹا ہونے کے باعث مجھے خوبصورت سی جرسی اور ہاف پینٹس پہنائے گئے تھے جسے دیکھ کر میں رونے لگا تھا کہ مجھے تو فل پینٹس چاہیئیں۔
ساتھ ہی جب بڑے کزنز نے ہاؤ ہو کرتے ہوئے حسبِ (اس وقت کی) روایت جوتے چرائے تو ہمیں کہا گیا کہ دلہن کے بھائی ہیں۔ انہیں بھی پیسے دیے جائیں گےاور سب سے زیادہ دیے جائیں گے۔ بچے کو ”آس“ لگانا خطرناک ہوتا ہے، اسپیشیلی جب آپ کا پورا کرنے کا کوئی ارادہ نہ ہو۔
بعد میں دیر تک روتا رہا، امی نے گود میں لے کر بہلاتے ہوئے کہا کہ ان پیسوں کے لڈو آ گئے ہیں، اور مجھے لڈو کھلانے لگیں۔
 

شکیب

محفلین
بہت خوب!
دلچسپ احوال ہے۔ لکھتے رہیے۔ :)
خوبصورت یادیں
جاری رکھیئے ۔
بہت دعائیں
جزاکما اللہ۔ کبھی کبھی کچھ یاد آتا رہتا تھا۔ سوچا کہیں بعد میں بھول نہ جاؤں۔۔۔ پتہ نہیں کہ سبھی کو اتنی عمر کی باتیں یاد رہتی ہیں یا مجھے ہی رہ گئیں۔ میں اب بھی حیرت کرتا ہوں جب 3 سال اور 4 سال کی عمر کے واقعات نظر کے سامنے پھرتے ہیں۔ :)
 

ربیع م

محفلین
بہت خوب
ٹیم بنانے کے لیے ہمارے یہاں ایک دستور رائج ہے جسے ”اواج کی کھواج“ کہتے ہیں۔ واللہ اعلم یہ کن الفاظ کی بگڑی ہوئی اشکال ہیں۔ اس میں دو دو کی جوڑی میں لوگ نام رکھنے جاتے ہیں اور اپنا اپنا ایک نقلی نام پسند کر کے آجاتے ہیں۔ دو کپتان پہلے سے طے ہوتے ہیں اور وہ ان ناموں میں سے باری باری ایک نام چنتے ہیں اور جس کا بھی نام وہ نکلتا ہے، اسے اس کی ٹیم میں شامل کر دیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی یہی رائج تھا لیکن نام معلوم نہیں ۔
 
جزاکما اللہ۔ کبھی کبھی کچھ یاد آتا رہتا تھا۔ سوچا کہیں بعد میں بھول نہ جاؤں۔۔۔ پتہ نہیں کہ سبھی کو اتنی عمر کی باتیں یاد رہتی ہیں یا مجھے ہی رہ گئیں۔ میں اب بھی حیرت کرتا ہوں جب 3 سال اور 4 سال کی عمر کے واقعات نظر کے سامنے پھرتے ہیں۔ :)
مجهے بهی تین سے چار سال کی عمر کے بہت سے واقعات یاد ہیں۔
 

شکیب

محفلین
میں اور میرا چچا زاد بھائی، جو مجھ سے تین سال چھوٹا ہے۔۔۔ہم دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔ بچپن میں ہم دونوں ایک ساتھ بڑے اوٹ پٹانگ کھیل کھیلا کرتے تھے۔ ہمارا گھر ملا ہوا تھا۔ سامنے کا حصہ ہمارا اور پیچھے کا ان لوگوں کا تھا۔ پیچھے کی گلی سے ہوتے ہوئے ایک چھوٹی سی کھلی جگہ تھی جسے ہم اس وقت ”میدان“ کہتے تھے۔ میں اپنے میں مگن کچھ کھیل رہا تھا، تبھی وہ گلی سے ہوتا ہوا میری طرف آیا۔ ان کے گھر میں ٹی وی تھی اور میرا غالب گمان ہے کہ وہ اس وقت کوئی مار دھاڑ والی فلم دیکھ کر آیا تھا۔ آتے ہی کہنے لگا
”لڑ را کیا؟“(لڑائی کرے گا کیا؟)
میں اتنی چھوٹی عمر بھی شاید پہلی مرتبہ اتنا حیران ہوا تھا جتنا اس کی بات سن کر ہوا تھا۔
”کائے کو؟“(کس لیے؟) میں نے حیرانی سے پوچھا۔
”لڑ نا، کیوں؟“ وہ اس انداز سے بولا جیسے مجھے لڑائی پر ابھارنا چاہتا ہو۔
میں اس کے بعد بھی تیار نہیں تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ اس کا دماغ جگہ پر نہیں ہے، اور جو بھی ہو میرا بھائی ہے۔
لیکن اس نے اسی ابھارنے کے چکر میں قریب آکر اپنا بایاں ہاتھ گھمایا(وہ لیفٹی ہے) اور قسم بخدا کافی زور کا لگا تھا۔
میری ساری ہمدردی ہوا ہو گئی، اور پھر کیا تھا۔۔۔۔ مابدولت نے اسے دھنک کر رکھ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بھی اس بات کو یاد کر کے ہم دونوں بے تحاشہ قہقہے لگاتے ہیں۔ :D
 
بچپن کا ایک واقعہ بہت یاد آتا ہے ۔۔۔میری ماما بتاتی ہیں ۔۔کہ تم بہت شریر ہوا کرتے تھے ۔۔ہر وقت کوئی نئی شرارت ۔۔۔ایک دفعہ وہ کپڑے سلائی کررہی تھیں کہ کسی کام سے اٹھیں۔۔اور ہم تھے کہ وہاں موجود بس سلائی کرنے کو دل چاہا تو ماما کے آنے تک ہم اپنا پاؤں سلائی کر چکے تھے ۔۔۔اور بہت سا خون اور چیخیں تھیں کہ آسمان سے ٹکرا رہی تھیں۔۔آج بھي ہم اپنے پاؤں کی جانب نگاہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ واقعہ یاد آجاتاہے اور ہم مسکرا دیتے ہیں۔۔
 

شکیب

محفلین
کزن بھائیوں نے ایک مرتبہ کہا "تجھے کپڑے دھلوانے ہیں؟"
"کون سے؟ " میں نے پوچھا...
" چل آ"
بچپن میں تھیوری کی وضاحت میں وقت نہیں گنوایا جاتا، تجربے کیے جاتے ہیں!
ہم سب میدان میں پہنچے... وہاں انہوں نے زمین پر پڑی ہوئی ایک آدھ چِندی اٹھائی(کپڑوں کے ٹکڑے، جو ادھر ادھر پڑے ہوتے ہیں) اور پاس ہی پڑی لکڑی سے زمین کھرچنے لگے...
میں اس وقت تک یہی سمجھتا رہا کہ یہ لوگ پہنے ہوئے کپڑوں کی بات کر رہے ہیں...
مشکل سے آدھی بالشت(بچپن کی ایک بالشت) گہرا گڑھا کھودنے کے بعد وہ کپڑے اس میں ڈال دیے... ساتھ ہی ایک لکڑی بھی رکھ دی...
"اب دیکھ، یہ دُھل کر صاف ہو جائے گا "
گڑھے کو اوپر دفتی کے ٹکڑے سے ڈھانک کر اوپر مٹی ڈال دی گئی...
اس عمل کے دوران تین چار بچے اور جمع ہو گئے...
"کپڑے دھو رہے ہیں۔۔۔ اچھا!" انہیں پہلے سے پتہ تھا۔
ایک میں ہی بے وقوف تھا جسے نہیں پتہ تھا۔۔۔
"اب ان کپڑوں کو نا ایک پری آکر دھو دیتی ہے۔۔۔دیکھ ابھی کپڑا دھونے کی آواز آئے گی"
یعنی ساتھ رکھی گئی لکڑی دھوبی کی بیٹ تھی!
سب نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر زمین سے کان لگا دیے۔ میں بھی اشتیاق سے سننے کی کوشش کرنے لگا۔
"آرہی ہے نا" سب کو کپڑے دھونے کی آواز آرہی تھی۔
محلے کی ایک لڑکی نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو اسے ڈانٹ کر چپ کرادیا گیا۔
اب اسے بھی آواز سنائی دینے لگی۔
آخرکار پانچ منٹ بعد کپڑے باہر نکالے گئے، کزن نے شان سے چندی اٹھاتے ہوئے کہا
"دیکھا۔ صاف ہوگئے نا"
"ہاں یار" کا شور مچا...میں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔
ایک لڑکا منہ بنا کے بولا
"تم لوگوں کو تو پانچ منٹ لگ گئے ۔۔۔ہم لوگ کاتو 2 منٹ میں ہی ہو گیا تھا،اور کپڑے دھونے کی آواز بھی صاف صاف آ رہی تھی۔"
"ہوسکتا ہےپری اس کی دوست ہو!" میں نے سوچا۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top