محمد خرم یاسین
محفلین
بچپن کے دریچے سے ۔۔۔!
ماچس کی خالی ڈبیہ
اور اس ڈبیہ میں بند جلی ہوئی چھوٹی بڑی تیلیاں
کچھ چوڑی کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے
کھڑکی سے نکلی میخیں
اوردروازے سے بچے ہوئے پیچ
سوپر مین کا ٹوٹا بازو، گھومتے لٹو کی ادھڑی ڈوری
ریل گاڑی کے ٹوٹے ڈبے
سٹیکر اکھڑے بلاک کے حصے
یہ سب ہمارا سرمایہ تھا
بیٹھی مکھیوں پہ حملہ کرکے ، انھیں مار گرا تے تھے
اپنےچوزوں کو کھلاتے تھے
گلی ، محلے سے وہ انڈے بھی اٹھالے آتے تھے
جو مرغیاں چھوڑ کے جاتی تھیں
بکری ، بکرے کے چارے کے لیے
مالی کی نظروں سے بچ بچاکر ، باغ سے گھاس کاٹ لاتےتھے
اوراِس بنا قیمت خزانے پر خوب سارا اتراتے تھے
قبرستان کےویران کونوں سے
کتیا جب موجود نہ ہوتی ، اس کے پلے ّ اٹھا لے آتے تھے
ان کے گلے میں رسی ڈالے، اکڑ اکڑ کر چلتے تھے
ان کی خو د ساختہ نسلیں بتاتے تھے
انھیں دودھ اور روٹی دیتے تھے
البتہ قصاب کے تختوں سے،چھیچھڑےبھی اٹھا لے آتے تھے
ٹیک دوپہر میں درخت پہ چڑھ کے، بیر اور جامن توڑتے تھے
گھر والوں کے ڈر سے ہم، گھر سے باہر ہی کھا جاتے تھے
یہ سب ہمارے مشاغل تھے
دو،دوروپے کی قلفیاں لے کر ،
دوستوں سے مل کر کھاتے تھے
سکول کے باہر ریڑھی والا ہمارا پسندیدہ ہوٹل تھا
اس سے نان اورٹکی لیتے ، پکوڑے مفت اڑاتے تھے
گھر والوں نے ، جس بھی شے سے منع کیا تھا،
اس پر خوب دل للچاتا تھا
مزے مزے کے املی ، چورن ، ہم چھپ کر کھاجاتے تھے
کرکٹ میچ میں خوب جھگڑتے
جس کا اپنا بلّاہوتا،وہ خود کپتان بن جاتاتھا
ہم منھ بسورے فیلڈنگ کرتےاور میچ جیت کر جب پارٹی کرتے
ہفتے بھر کے پیسوں سے ہم لیٹر کی بوتل لاتے تھے
مل جُل کر پی جاتے تھے
یہ سب ہماری عیاشیاں تھیں
صبح سویرے مسجد جاتے، پہلی صف میں سبق سناتے
گھر آنے کی جلدی ہوتی ، کارٹون دیکھ کے سکول کو بھاگتے
شام کو عینک والا جن آتا ، ننجا اور کیمپ کینڈی بھی آتے
ان جیسی ہم خو د بھی کہانیاں بناتے
کتنی کہانیوں کےہم خود ہیرو ہوتے
عید کارڈوں پہ ہیروئینیں دیکھ کے، اپنے قد پہ غصہ آتا
بزم ادب کے لیے لطیفے ڈھونڈتے،
جگتیں مارتے، شعر سناتے
جمعے کی جب چھٹی ہوتی تھی
جمعے سے پہلے مسجد جاتے
مائیک کھولتے ، نعتیں سناتے
ان سب سے بہت حوصلہ ملتا تھا
دوست بنتے ، آگے بڑھتے تھے
بچپن کی یادیں، ننھی خوشیوں کا کتنا بڑا سرمایہ ہیں
جسے بچپن میں کمایا تھا
فکر معاش میں گنوایا ہے
محمد خرم یاسین۔ (قرار کرب۔ نظمیں )
ماچس کی خالی ڈبیہ
اور اس ڈبیہ میں بند جلی ہوئی چھوٹی بڑی تیلیاں
کچھ چوڑی کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے
کھڑکی سے نکلی میخیں
اوردروازے سے بچے ہوئے پیچ
سوپر مین کا ٹوٹا بازو، گھومتے لٹو کی ادھڑی ڈوری
ریل گاڑی کے ٹوٹے ڈبے
سٹیکر اکھڑے بلاک کے حصے
یہ سب ہمارا سرمایہ تھا
بیٹھی مکھیوں پہ حملہ کرکے ، انھیں مار گرا تے تھے
اپنےچوزوں کو کھلاتے تھے
گلی ، محلے سے وہ انڈے بھی اٹھالے آتے تھے
جو مرغیاں چھوڑ کے جاتی تھیں
بکری ، بکرے کے چارے کے لیے
مالی کی نظروں سے بچ بچاکر ، باغ سے گھاس کاٹ لاتےتھے
اوراِس بنا قیمت خزانے پر خوب سارا اتراتے تھے
قبرستان کےویران کونوں سے
کتیا جب موجود نہ ہوتی ، اس کے پلے ّ اٹھا لے آتے تھے
ان کے گلے میں رسی ڈالے، اکڑ اکڑ کر چلتے تھے
ان کی خو د ساختہ نسلیں بتاتے تھے
انھیں دودھ اور روٹی دیتے تھے
البتہ قصاب کے تختوں سے،چھیچھڑےبھی اٹھا لے آتے تھے
ٹیک دوپہر میں درخت پہ چڑھ کے، بیر اور جامن توڑتے تھے
گھر والوں کے ڈر سے ہم، گھر سے باہر ہی کھا جاتے تھے
یہ سب ہمارے مشاغل تھے
دو،دوروپے کی قلفیاں لے کر ،
دوستوں سے مل کر کھاتے تھے
سکول کے باہر ریڑھی والا ہمارا پسندیدہ ہوٹل تھا
اس سے نان اورٹکی لیتے ، پکوڑے مفت اڑاتے تھے
گھر والوں نے ، جس بھی شے سے منع کیا تھا،
اس پر خوب دل للچاتا تھا
مزے مزے کے املی ، چورن ، ہم چھپ کر کھاجاتے تھے
کرکٹ میچ میں خوب جھگڑتے
جس کا اپنا بلّاہوتا،وہ خود کپتان بن جاتاتھا
ہم منھ بسورے فیلڈنگ کرتےاور میچ جیت کر جب پارٹی کرتے
ہفتے بھر کے پیسوں سے ہم لیٹر کی بوتل لاتے تھے
مل جُل کر پی جاتے تھے
یہ سب ہماری عیاشیاں تھیں
صبح سویرے مسجد جاتے، پہلی صف میں سبق سناتے
گھر آنے کی جلدی ہوتی ، کارٹون دیکھ کے سکول کو بھاگتے
شام کو عینک والا جن آتا ، ننجا اور کیمپ کینڈی بھی آتے
ان جیسی ہم خو د بھی کہانیاں بناتے
کتنی کہانیوں کےہم خود ہیرو ہوتے
عید کارڈوں پہ ہیروئینیں دیکھ کے، اپنے قد پہ غصہ آتا
بزم ادب کے لیے لطیفے ڈھونڈتے،
جگتیں مارتے، شعر سناتے
جمعے کی جب چھٹی ہوتی تھی
جمعے سے پہلے مسجد جاتے
مائیک کھولتے ، نعتیں سناتے
ان سب سے بہت حوصلہ ملتا تھا
دوست بنتے ، آگے بڑھتے تھے
بچپن کی یادیں، ننھی خوشیوں کا کتنا بڑا سرمایہ ہیں
جسے بچپن میں کمایا تھا
فکر معاش میں گنوایا ہے
محمد خرم یاسین۔ (قرار کرب۔ نظمیں )