بچپن: یادِ ماضی

محمد امین

لائبریرین
انسانی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے شہر کی سڑک۔ لہراتی بل کھاتی اپنی منزل کی طرف رواں دواں۔ مگر اس سڑک کی موجودہ شکل کے نیچے، کہیں نیچے اس کا ماضی دفن ہوتا ہے۔ مختلف وقتوں کولتار ڈال ڈال کر اسے پختہ بنایا جاتا رہتا ہے۔ کہیں ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرنے کے لیے یا کبھی کسی تشریف لانے والے صدر یا وزیرِ اعظم کے استقبال کے لیے۔ تہہ در تہہ کولتار بچھ بچھ کر اس سڑک کی وہ شکل ہوجاتی ہے جو آپ ہم دیکھتے ہیں۔ اور ضروری نہیں وہ شکل اچھی بھی ہو!!
زندگی کی اس سڑک پر کتنے ہی مقام آتے ہیں۔۔ کتنی ہی تہیں چڑھ جاتی ہیں، کتنے ہی روپ ہم بدل لیتے ہیں اور ۔۔ کتنے راستے بدلتے ہیں۔۔ مگر آپ نے دیکھا ہوگا۔ جب سڑک کھودی جاتی ہے تو اس کی نچلی پرتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ لیکن ہر پرت واضح نہیں ہوتی۔ اپنا الگ تشخص وہی پرت رکھتی کہ جس کا مال مسالہ مضبوط اور جاندار ہو۔انہی جاندار پرتوں میں سے ایک انسان کا بچپن ہوتا ہے۔
آپ کتنے ہی خول چڑھا جائیں۔ کتنی ہی تہوں کے اوپر بالانشین ہوں۔ آپکا حال، آپکا چہرہ کتنا ہی جاذب و خوبصورت کیوں نہ ہو، زندگی کی سب سے خوبصورت تہہ میں کنویں کی سی گہرائی والا بچپن ہوتا ہے۔ ایسا کنواں کہ جس میں آپ نہ بھی پکاریں تو ماضی کی بازگشت یہ آپکو خود بخود سناتا رہے گا۔ آپ اسے جتنی بھی کوشش کر کے بھلانا چاہیں، یہ آپ کو رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ کبھی خلوت میں آپکو رلا دیگا، تو کبھی جلوت میں قہقہے لگوا دیگا۔۔۔ یا کبھی کسی سوچ میں گم آپ یکایک بچپن کی کوئی بات یاد آنے پر بے اختیار مسکرا اٹھیں گے۔۔
پچھلے دنوں ہم کراچی کے ایک پسماندہ سے علاقے لانڈھی میں اپنے آبائی گھر گئے تھے۔ ہم نے اسی گھر میں آنکھ کھولی، وہی پلے بڑھے، وہیں کھیلے کودے اور وہیں شعور کی ابتدائی منازل طے کیں۔ ہماری سنہری یادیں اسی گھر اور اسی محلے سے وابستہ ہیں۔ بچپن کے دن ایسے لگتے ہیں جیسے وقت ٹھہر گیا ہو اور ہر شئے پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی ہو۔۔
وہ گھر ہمارے دادا کو حکومت کی طرف سے ملا تھا۔ ایک چھوٹا سا کوارٹر تھا جو قیامِ پاکستان کے کچھ سالوں بعد بسائی جانے والی لانڈھی کولونی کا حصہ تھا۔ کوارٹر ملنے کے بعد وقتاً فوقتاً ابو نے آپ پاس کی خالی زمین حکومت سے لیز کرالی تھی۔ یوں ایک کمرے کا کوارٹر کئی کمروں پر مشتمل بڑے سے گھر میں تبدیل ہوگیا تھا۔ اس گھر کی خاص بات یہ تھی کہ ہمارےابونے جب بھی "منّے مستری" سے اس گھر میں کام کروایا، ساتھ میں خود بھی لگ جاتے تھے۔ یوں اس گھر کی بنیادوں میں ہمارے والدِ محترم کا خون پسینہ محاورتاً ہی نہیں، حقیقتاً بھی شامل رہا۔ اس گھر کی ایک ایک دیوار اور ہر ہر چھت میں ابو کی محنت شامل تھی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ کچھ تو ان کو ہمیشہ سے سخت محنت کی عادت اور شوق رہا، دوسرے انہوں نے میٹرک کے بعد کچھ عرصے تک سول ڈرافٹنگ کی تربیت حاصل کی تھی۔ کبھی وہ ہتھوڑی چھینی لے کر دیوار میں آرچ بنا رہے ہوتے تو کبھی سمینٹ کی بھاری بھرکم سلیبیں لکڑی کی سیڑھی سے چڑھتے ہوئے "منّے مستری" کو تھما رہے ہوتے۔ اورہمیں اس بات پر ہمیشہ فخر رہا کہ ہم اپنے ابو کے ہاتھ کے بنے ہوئے خوبصورت گھر میں رہے۔
اس گھر کے ساتھ ابو نے ایک چھوٹا سا مگر بہت ہی خوبصورت پائیں باغ بنا رکھا تھا جس میں دنیا جہاں کے پودے اور پھول موجود تھے۔ زندگی میں ہم نے جب بھی کسی کتاب میں "باغ" کا لفظ پڑھا، ہمیشہ ہمارے دماغ میں اسی پائیں باغ کا تصور آیا۔ اور یہ تصور آج تک قائم ہے۔ اللہ ہماری گستاخی کو معاف فرمائے مگر جنت کے باغوں کے تصور سے بھی وہی باغ ذہن میں آجاتا ہے (بلا مثال و تمثیل)۔ جب بھی اس باغ کا تصور ہمارے ذہن میں آتا ہے، اسکی خوشبوئیں آج تک ہمارے مشامِ جاں کو معطر کر دیتی ہیں۔ ایک تو اس وقت آلودگی برائے نام تھی، دھوپ میں تازگی تھی، شام میں سرشاری تھی اور راتیں فرحت بخش ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت کا تصور ہی ہمارے لیے کتنا جانفزا ہے ہمارے احباب شاید اندازہ بھی نہ کر سکیں۔۔ سنا ہے، اور سفید و سیاہ تصاویر میں دیکھا بھی ہے، وہ باغ ہمارے دنیا میں وارد ہونے سے پہلے اپنے جوبن پر تھا اور خواب و خیال کا باغ تھا۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب کراچی میں جناح بین الاقوامی ہوائی اڈہ اپنی تعمیرِ نو کے دور سے گزرا تھا اور ہمارے گھر سے میلوں کے فاصلے پر ہونے کے باوجود ہمارے گھر کی بالائی ٹنکی سے اس کی روشنیاں اور خدوخال صاف نظر آتے تھے۔ اب کی آلودگی اور بجلی کی قلت کے دور میں تو نہ ہوائی اڈے پر وہ روشنیاں رہیں اور نہ اتنے فاصلے کی چیز صاف نظر آتی ہے۔ ضعفِ نظر بھی غالباً ایک وجہ ہوسکتا ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
پچھلی یاد داشت تحریر کرنے کا محرک ہمارا اپنے آبائی علاقے میں عرصے بعد تمام گھر والوں کے ساتھ جا کر اپنے گھر کا معائنہ کرنا تھا۔ جس جگہ پر انسان کا بچپن گزرا ہو وہ جگہ ہمیشہ دل کے پاس رہتی ہے۔ اور اکثر خواب بھی انسان اسی ماحول میں دیکھتا ہے۔ مطالعہ کے ساتھ ساتھ جو تصور اشیاء کے بارے میں قائم ہوتے ہیں، وہ بھی اسی جگہ کے ساتھ مختص ہو جاتے ہیں۔ کم سے کم ہمارے ساتھ تو ایسا ہی ہوا ہے۔ کوئی کہانی یا نوول پڑھتے ہوئے واقعات اور مقامات کے تصور کے ساتھ وہی جگہیں ابھرتی ہیں کہ جہاں ہم نے اپنے سنہرے دن گزارے تھے۔ اسی وجہ سے غالباَ بچپن اور وہ جگہیں زیادہ لبھاتی ہیں۔ مگر اب سب کچھ پہلے سا تو نہیں رہا نا!!! ہر شخص یہی کہتا ہے۔۔۔کہ حالات اور دن رات پہلے سے نہیں رہے۔۔۔ شاعر کہتا ہے: "کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں، جاناں!"۔۔ مگر شاعر صاحب، زمانہ، ماحول، زندگی، دنیا، سب کچھ تو بدل جاتا ہے۔۔۔ زمین، آسمان، خوشبو، دیوار و در، رشتے ناتے، ہماری سوچیں، یہ سب بھی بدل جاتے ہیں، اور ہم انسانوں کے بدلنے کی وجہ بھی غالباً یہی ہے۔ یا پھر ان چیزوں کے بدلنے کی وجہ انسان کا بدل جانا ہے؟؟ اس بات کا فیصلہ واقعی مشکل ہے کہ کون کس پر دار و مدار کر رہا ہے۔ مگر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ "ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں" ۔۔۔ ایسا کیوں۔۔۔ "تبدیلی انسان کا خمیر ہے" ۔۔۔ایسا کیوں؟؟ اقبال عظیم مرحوم کا ایک شعر:
"اب تو چہرے کے خد و خال بھی پہلے سے نہیں،
کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤ گے"
ہمیں بچپن کی شدت سے یاد فقط اس لیے ہی نہیں آتی کہ وہ بے فکری کے دن تھے اور کھیل کود اپنا شیوہ۔ بلکہ ہمیں مشتاق احمد یوسفی والے "نوسٹیلجیا" نے مارا ہوا ہے۔ اور یہ نوسٹیلجیا غالباً کم عمری میں ہی یوسفی صاحب کی کتب پڑھنے کے بعد مزاج میں در آیا ہوگا۔ یا پھر یہ ہمارا طبع زاد نوسٹیلجیا ہے، اس بارے میں بھی حتمی طور پر ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ خیر، ان یادوں کے بارے میں ہمیں یوں لگتا ہے جیسے آپکا ماضی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاندار اس وجہ سے لگنے لگتا ہے کہ آپ کے تجربات آپ کو ماضی کے جھروکوں میں سے سنہری پل ہی دکھاتے ہیں، تلخیوں اور خامیوں کو ایسے چھان دیتے ہیں جیسے کسی پردے سے چھن کر آنے والی سورج کی روشنی! نہ نگاہوں کو خیرہ کرے، نہ آپ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارا کریں۔ ٹھنڈی، خوشگوار، سنہری دھوپ۔ جس کی کرنوں میں حدت بھی گوارا بلکہ مطلوبہ حد تک موجود۔ اور جب یہ دھوپ ختم ہوجائے تو اس کی تمنا اور تشنگی باقی۔ جیسے صحرا کے بھٹکے ہوئے پیاسے کو دو گھونٹ پانی۔ کیا ہم سب کو اپنا بچپن اور ماضی ایسے دو گھونٹوں جیسا ہی نہیں لگتا؟ کہ جیسے ابھی آیا تھا اور ابھی گزر گیا۔ ابھی تو بہت سے کام باقی تھے۔ ابھی تو اسے کھل کر جینا تھا۔ ابھی تو اس کی لذت سے قلب و جگر کو معمور بھی نہیں کیا تھا!! یا پھر یہ ایسا ہے کہ اس بچے نے ہوس میں مشروبِ زندگی سے اپنے شکم کو اس قدر لبالب بھر لیا کہ اس کی لذت ہونٹوں پر، دہن میں، زباں پر موجود و باقی اور حلق کو اس کی حلاوت سے تر کیے ہوئے ہے۔ اور آنے والے لمحوں میں اس لذت کی یاد دل کو تڑپاتی ہے، مچلاتی ہے کہ کاش! بچپن لوٹ آئے اور یہ جام دوبارہ ہونٹوں سے لگانا نصیب ہوں۔
بچپن میں ہر چیز اپنے سے بڑی معلوم ہوا کرتی ہے، دیو کی طرح، اونچی، وسیع و عریض۔ جیسے جیسے زندگی اور زمین کے طول و عرض میں ہماری آنکھیں پھیلتی ہیں، ہمیں اشیاء کے درست قد و قامت کا اندازہ ہوتا جاتا ہے۔ یہی حال شخصیت پرستی کا بھی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم جو قحط الرجال کا رونا مچاتے رہتے ہیں، اس کی وجہ بھی یہی آنکھوں کی خیرگی کم ہوتے جانا ہے۔ جبھی شاید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ "حسن تو دیکھنے والی آنکھ میں ہوتا ہے"۔ کیوں کہ ہم کسی شخص کو کسی وجہ سے بڑا اور عظیم مان لیتے ہیں، مگر اکثر اوقات ہمارا ہی تجربہ ہمارے اس اخذ کردہ نتیجے کو غلط ثابت کر دیتا ہے تو اس شخص کی شان ہماری نظروں میں گھٹ جاتی ہے۔ بات تو فقط اتنی ہے کہ پہلے ہمارا تجربہ کم وسیع اور نظر زیادہ سخی تھی۔ جیسے جیسے تجربہ بڑھا، نظر کوتاہ ہوتی گئی۔ حتیٰ کہ یہ کوتاہ نظری انسان کو خود پسندی اور تکبر میں بھی لے جا گراتی ہے۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ بلکہ سارا پیراگراف ہی معترضہ ہوگیا۔ جب ہم اپنے اس گھر میں ٹہل رہے تھے تو سوچ رہے تھے کوئی بارہ پندرہ برس قبل تو یہ دیواریں ہمیں دیو قامت دکھائی دیتی تھیں، گھر ایک محل سرا لگتا تھا، گلیاں کوچے اور سامنے والا پارک ایسے لگتا تھا جیسے سب کچھ بہت بڑا اور عظیم الشان ہو۔ اور چشمِ تصور نے بھی ایسا ہی کچھ خیال باندھا ہوا ہے۔ مگر یہ تو سب چیزیں معمول سے بھی چھوٹی اور پھیکی دکھائی دیتی ہیں۔ تو وہ بچپن کی شان کدھر گئی، وہ چمک دمک، وہ قامت و زیبائی کدھر گئی۔ کیا وہ صرف خواب و خیال تھا؟ اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تخیل پر "چیری بلوسم پولش" پھرتی گئی؟ اور آج یہ شاندار قلعے زمین بوس ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ جون ایلیاء کے اشعار ملاحظہ ہوں:
ہم رہے پر نہیں رہے آباد،
یاد کے گھر نہیں رہے آباد،
شہرِ دل میں عجب محلے تھے،
ان میں اکثر نہیں رہے آباد۔
مگر وہ خوشبو تو ہم محسوس کر سکتےہیں۔ کیوں کہ اس خوشبو کے لیے ہم قوتِ شامہ کے محتاج نہیں۔ تخیل کی پرواز جہانِ دگر میں پہنچا دیتی ہے، یہ تو پھر ہمارا دیکھا بھالا بچپن کا جہان ہے۔ "جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لیا"۔۔
یہ خوشبو سانسوں میں بسی رہنے کے لیے ہی موجود تھی شاید۔ زندگی بھی کیا خوبصورت چیز ہے۔ انسان اسے جیسا محسوس کرے یہ اسی روپ میں سامنے آتی ہے۔ ہم شاید ماضی کو ماضیٔ تمنائی سمجھتے ہیں، جبھی وہ ہمیں اتنا خوبصورت اور شاندار لگتا ہے۔ تمنا مر جائے تو زندگی کی خوبصورتی اور شان بھی کہاں برقرار رہتی ہے۔ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔۔۔۔۔ کی جگہ "تمنا کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا" ، ہونا چاہیے تھا J ۔۔۔ ہم اپنے تخیل کو بھی تمنا کے تابع کر سکتے ہیں اور یہی تمنا ماضی کو بھی آپ کی مرضی کے مطابق ڈھال کر آپ کے سامنے لا کھڑا کر سکتی ہے!!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت اچھا لکھا ہے امین۔
جس جگہ پر انسان کا بچپن گزرا ہو وہ جگہ ہمیشہ دل کے پاس رہتی ہے۔ اور اکثر خواب بھی انسان اسی ماحول میں دیکھتا ہے۔ مطالعہ کے ساتھ ساتھ جو تصور اشیاء کے بارے میں قائم ہوتے ہیں، وہ بھی اسی جگہ کے ساتھ مختص ہو جاتے ہیں۔ کم سے کم ہمارے ساتھ تو ایسا ہی ہوا ہے۔ کوئی کہانی یا نوول پڑھتے ہوئے واقعات اور مقامات کے تصور کے ساتھ وہی جگہیں ابھرتی ہیں کہ جہاں ہم نے اپنے سنہرے دن گزارے تھے۔
متفق علیہ :)
 
Top