بچھ جمورا

تنویرسعید

محفلین
بچپن میں ھم دیکھا کرتے تھے ایک مداری اپنے بندر اور بکری کے ساتھ ڈگڈگی بجا کر تماشا کیا کرتا تھا اس کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی ھوتا تھا جسے وہ بچہ جمورا کے نام سے پکارا کرتا تھا
مداری۔ بچہ جمورا
بچہ جمورا- جی بھا جی
مداری- جو میں کہوں گا وہ کرے گا
بچہ جمورا- کروں گا
مداری- چھلانگ مارے گا
بچہ جمورا- جی ہاں
مداری- بندر کے ساتھ کشتی کرے گا
بچہ جمورا- کیوں میں اپنے کھنے کھلوانے نیں
مداری انکار سن کر بچہ جمورا کو کان پکڑوا کے مرغا بنا دیتا- سزا ختم ہونے کے بعد بچہ جمورا کے کان سے پیسے بھی نکالتا تھا جو کہ ناممکن تھا صرف اس کے ہاتھ کی صفائی تھی- اسی طرح سپر پاور مداری کا ہر ملک میں اپنا بچہ جمورا ہوتا ہے جب تک بچہ جمورا اشاروں پر ناچتا رہتا ہے مداری خوش اور جب انکار کرتا ہے یا اسے سمجھ آ جاتی ہے کہ میں غلط کر رہا ہوں تو کڑی سزا کا مستحق قرار پاتا ہے
ایک تیل پیدا کرنے والے ملک کا بچہ جمورا جب حکم ماننے سے انکاری ہوا تو خطرناک ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر اس کے ملک پر قبضہ کر کے اسے پھانسی لگوادی- ایک اور تیل پیدا کرنے والے ملک کا بچہ جمورا منحرف ہوا تو اس نے جس ملک میں شادی کی تھی اس ملک پر قبضہ کرنے کے لئے پورا ملک نیست و نابود کردیا اور اس ملک کی پیداوار تانبہ اور افہیم ٹرکوں پر بھر بھر کر کروڑوں ڈالر کمائے- ایک اور جمہوری مسلم ملک کے طاقتور باشندے کو بچہ جمورا بنایا- اس کے ذریعے سپر پاور کے ٹکڑے کروائے- مسلم ممالک کا بلاک بنانے والے مقبول لیڈر کو پھانسی دلوائی- جب بچہ جمورا گیارہ سال خدمت کر چکا اور ہوشیاری دکھانے لگا تو جلا کر بھسم کردیا- جو بچہ جمورا پرفارم کررہا ہوتا ہے- وہ سمجھتا ہے میں بڑا عقل مند ہوں- پہلا بچہ جمورا بیوقوف تھا- حالانکہ وہ خود بھی وہی ہوتا ہے (بیوقوف)- بےشمار بچے جمورے مختلف ممالک میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں

میری ان سے التجا ہے کہ خدا کے واسطے اپنی قوم- اپنے ملک سے مخلص رہیں- اپنے مداری آقا کو خوش کرنے کی بجائے- اس آقا کو خوش کریں جس نے پوری دنیا تخلیق کی ہے- ایک دن ہر ایک نے اس دنیا فانی سے کوچ کر جانا ہے- عام آدمی کا حساب آسان مگر بچہ جمورا جو کہ بڑے منصب پر فائز ہوتا ہے قوم و ملک کی اس پر ذمہ داری ہوتی ہے- اس کا کڑا حساب ہونا ہے جو کھ شاید برداشت نہ ھوسکے- اس لئے ابھی سے تیاری کریں- بچہ جمورا بننے کی بجائے انسان بنیں اور بچہ جمورا کے انجام سے ڈریں
 

تنویرسعید

محفلین
یوسف رضا گیلانی اور ایشوریا رائے

پاکستان کے نووارد وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کا ماننا ہے کہ وہ بھارتی اداکارہ ایشوریا رائے کے مداع ہیں اور ایشوریا رائے انہیں اس قدر پسند ہے کہ جب وہ جیل میں تھے تو اپنے لیپ ٹاب پر وہ اکثر ایشوریا رائے کی فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی گلوکارہ لتا منگیشکر کے بھی وہ مداح ہیں۔

پاکستانی حکمرانوں کی دیگر خصوصیات میں ایک یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ پڑوسی ملک کے دیگر معاملات میں دلچسپی لینے کے ساتھ وہاں کے فنکاروں کے بارے میں بھی غیر معمولی دلچسپی لیا کرتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیوں بھارت کے سیاست داں ہمارے ملک کے فنکاروں کے بجائے صرف سیاست دانوں پر ہی توجہ دیتے ہیں؟ میں نے جب یہ سوال اپنے ایک صحافی دوست مسعود انور سے پوچھا تو اس نے برجستہ کہا کہ یار وہاں کے سیاست دان ہمارے ملک کے سیاست دانوں ہی کو فنکار سمجھتے ہونگے۔

ویسے اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ سیاست دان چاہے کسی ملک کا بھی ہو فنکارانا صلاحیتیں تو اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ان کو اکثر و بیشتر اپنی انہیں صلاحیتون سے فائدہ اٹھانا پڑتا ہے۔

ہمارے دیس کے سابق صدر مرحوم ضیاءالحق صاحب بھارتی اداکار شتروگن سنہا کے اس قدر مداح تھے کہ انہوں نے سنہا صاحب کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی تھی امید ہے کہ وزیراعظم پاکستان یوسف گیلانی بھی اپنی پسند کے حوالے سے ایسا ہی کریں گے۔

بات ہورہی تھی بھارتی فنکاروں میں پاکستانی سیاست دانوں اور حکمرانوں کی دلچسپی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے موجودہ صدر بھی اس معاملے میں کچھ کم نہیں ہیں وہ تو پورے بھارت سے ہی محبت کرتے ہیں اور وہاں کی اداکارہ رانی مکھرجی ان کو بہت ہی اچھی لگتی ہے ہوسکتا ہے یہ اطلاع غلط ہو مگر اطلاع یہ ہی ہے ۔۔۔۔۔۔ بہرحال جب میں نے اپنے دوست مسعود سے دریافت کیا کہ یار میاں نواز شریف کی دلچسپی کے حوالے سے کیا کہتے ہو؟ مسعود نے ایک گہرا سانس لیکر کہا کہ بھائی وہ نہ صرف وطن پرست ہیں بلکہ اپنے آس پاس ہی اپنے دلچسپی کے معاماملات چاہتے ہیں ان کی دلچسپی فنکاروں کے حوالے سے ایک گلوگارہ پر رہی ہے لیکن وہ بھی اپنے ہی وطن کی تھیں اب یہ واضع نہیں ہے کہ کیا صورتحال ہے اس دلچسپی کی؟

میں سوچ رہا تھا کہ اگر ہماری اگر خاتونِ اول کے اعزاز کی طرح ہمارے وزراء اعظم یا صدور کی پسندیدہ اداکاراؤں کو بھی کوئی اعزاز سے نوازنے کی روایت ہوتی تو یہ اعزازات زیادہ تر بھارتی اداکاراوں کے حصے میں آجاتے اور اگر کوئی بچ جاتا تو ایک آدھ ہماری گلوگارہ کو بھی مل جاتا۔ بہرحال شکر ہےکہ یہ روایت نہیں ہے۔ ورنہ بھارت ہمارے حکمرانوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اپنے ملک کے اداکاراؤں کی خدمت حاصل کرنے پر زیادہ توجہ دیتا نہ کہ کشمیر پر۔
 
Top