بچے، بوڑھے اور کورونا وائرس سے بچاؤ ۔۔۔۔ تحریر : رضوان عطا

حبیب صادق

محفلین

بچے، بوڑھے اور کورونا وائرس سے بچاؤ ۔۔۔۔ تحریر : رضوان عطا


بچے اور بوڑھے دونوں جسمانی اور نفسیاتی طور پر کمزور ہوتے ہیں، اس لیے حکومت کے ساتھ معاشرے کے توانا اور متحرک افراد کا یہ فرض ہے کہ وہ کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں اپنا کردار ادا کریں۔

اس سلسلے میں دو امور غور طلب ہیں: اول، ہم نے اپنے بچوں اور معمر افراد کو اس خطرناک اور مہلک وائرس سے کیسے دور رکھنا ہے۔ دوم، انہیں خوف، تشویش اور نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہونے سے کیسے بچانا ہے کیونکہ خبروں، افواہوں اور سنی سنائی باتوں سے ابہام اور خوف پیدا ہوتا ہے۔

بچے شعور کی سیڑھیوں پر ابتدائی قدم رکھ رہے ہوتے ہیں، جذباتیت زیادہ اور ذہنی پختگی کم ہوتی۔ جسمانی تحفظ اور رہنمائی کے لیے ان کا بیشتر انحصار بڑوں، بالخصوص والدین اور اساتذہ پر ہوتا ہے۔ پس کسی ناگہانی صورت حال میں ان کا جلد خوف زدہ ہونا فطری امر ہے۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ وائرس بچوں پر حملہ آور تو ہوتا ہے لیکن انہیں نسبتاً کم ضرر پہنچاتا ہے۔ تاحال یہی دیکھا گیا ہے کہ بچوں اور نوعمروں کے جسم اس وائرس کے خلاف لڑنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود بچوں اور نوعمروں پر اس کا حملہ خطرناک ہو سکتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ وائرس ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتاہے، لہٰذا یہ بچوں سے بڑوں، بوڑھوں میں داخل ہو سکتا ہے اور اس کے برعکس بھی ممکن ہے۔ہمارے ہاں بچے اور معمر افراد گھر پر نسبتاً زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ وائرس معمرافراد کو، جن کی عمر 60 برس سے زیادہ ہے، بہت زیادہ متاثر کر رہا ہے۔

والدین اور بڑوں کا یہ جاننا اہم ہے کہ ان کی جانب سے بلاوجہ خوف کا اظہار ان کے بچوں کو بہت زیادہ خوف زدہ کر سکتا ہے جو ان کے لیے کوفت کا باعث ہو گا۔

کورونا وائرس (کووڈ- 19) کوئی ''جادوئی‘‘ شے نہیں کہ جہاں چاہے انسان پر حملہ آور ہو جائے۔ اس کی حدود و قیود ہیں اور ہم انسان اس کے رحم و کرم پر نہیں۔ اس کے حملے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے اپنے منہ، ناک اور آنکھوں کے قریب نہ آنے دیا جائے کیونکہ انہیں راستوں سے یہ جسم میں داخل ہوتا ہے۔ عموماً ان تینوں مقامات پر یہ ہاتھوں یا دوسروں کی چھینک، کھانسی یا سانسوں سے جا سکتا ہے۔ اگر ہاتھ صاف رکھے جائیں، انہیں چہرے سے دور رکھا جائے اور دوسروں سے مناسب فاصلہ رکھا جائے (کم از کم تین فٹ) تو اس وائرس کے جسم میں داخل ہونے کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

کورونا وائرس پر بچوں سے بات کرنے سے گریز مت کریں۔ انہیں حقائق بتائیں لیکن اس انداز میں کہ وہ خوف زدہ نہ ہوں۔ ان کے ساتھ ہمہ وقت کورونا وائرس پر بات نہ کریں۔ اگر بچے سوال کریں تو ان کا جواب لازماً دیں۔ اس دوران اپنی تشویش اور گھبراہٹ کو قابو میں رکھیں۔

بچوں کو بتائیں کہ آپ نے بھی کورونا وائرس سے دور رہنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے ہیں۔ انہیں بتائیں کہ آپ بے اختیار نہیں، اس وائرس سے دور رہنا آپ کے بس میں ہے۔ انہیں وائرس سے دور رہنے کی بنیادی معلومات فراہم کریں۔ اس سلسلے میں چند اہم نکات یہ ہیں:

٭ اپنے ہاتھ صابن اور پانی سے (یا الکحل والے ہینڈ سینی ٹائزر سے) وقتاً فوقتاً دھونے ہیں۔ بچوں کو ہاتھ کے تمام حصے دھونے کا طریقہ بتائیں اور اس کا عملی مظاہرہ کریں۔

٭ انہیں بتلائیں کہ بیمار افراد سے مناسب فاصلہ رکھیں (کم از کم تین فٹ) بالخصوص جب وہ کھانس رہے ہوں یا انہیں چھینکیں آ رہی ہوں۔

٭گھر میں داخل ہونے کے بعد صابن اور پانی سے اچھی طرح، تقریباً 20 سیکنڈ تک، ہاتھ دھوئیں۔ اچھی طرح ہاتھ دھونے کے بعد ہی کھانا کھائیں۔

٭ گھر میں ان مقامات کو صاف رکھیں جنہیں ہم زیادہ چھوتے ہیں جیسے میز، دروازے کے ہینڈل، بلب کے بٹن وغیرہ۔ ان پر تجویز کردہ کیمیکل چھڑکیں، ایسا نہ کر پائیں تو بیمار افراد انہیں چھونے سے ہر ممکن حد تک گریز کریں یا ٹشو وغیرہ سے چھو کر اسے تلف کر دیں۔

٭ کھلونوں کو صاف رکھیں، اگر دھل سکتے ہیں تو صابن اور گرم پانی سے دھوئیں۔ اگر کھلونے صاف نہیں ہو سکتے تو ان کے ساتھ کھیلنے سے پرہیز کریں۔

٭ اگر بچے صحت مند ہیں تو ان کے لیے ماسک پہننا لازمی نہیں۔ تاہم جن میں بیماری کی علامات ہیں یا جو بیماروں کی تیمارداری کر رہے ہیں، انہیں ماسک پہننے کی ضرورت ہے۔زیادہ احتیاطی تدبیر اپنانا چاہیں تو ماسک پہن سکتے ہیں، خصوصاً باہر رش میں نکلتے ہوئے۔

٭ بچوں کو چہرے کے حصوں، بالخصوص ناک، منہ اور آنکھ پر ہاتھ لگانے سے منع کریں۔ انہیں بتائیں کہ اس طرح وائرس جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔ بچے غیر ارادی طور پر چہرے کے حصوں پر ہاتھ لگاتے رہتے ہیں اس لیے انہیںکئی بار بتانے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ انہیں بتائیں کہ دوسروں کو بھی اپنے چہرے کے حصوں پر ہاتھ نہ لگانے دیں۔

٭تعلیمی اداروں کے بند ہونے کے بعد ان کی تعلیم اور مشاغل کے لیے ٹائم ٹیبل طے کریں اور انہیں مصروف رکھیں۔

٭انہیں دوسرے بچوں سے کم ملنے کا کہیں اور اس کا سبب بھی بتائیں۔

٭تفریح کے لیے انہیں ایسے مشاغل میں مصروف کریں جو اکیلے یا کچھ فاصلے سے ممکن ہے، جیسے ٹیلی ویژن دیکھنا۔

٭ اب تک کے شواہد کے مطابق بچوں میں کورونا کی علامات بالغوں اور بوڑھوں کی نسبت کم شدید ظاہر ہو رہی ہیں، اس لیے ان پر گہری نظر رکھیں اور علامات ظاہر ہونے پر طبی امداد طلب کریں۔ اس دوران بچے کا خیال رکھتے ہوئے، وہ تمام ضروری اقدامات کریں جن سے آپ وائرس سے دور رہ سکیں۔

٭ اگر گھر میں معمر افراد ہیں تو بیمار بچوں سے انہیں فاصلے پر رکھیں۔ بچوں کو سمجھائیں کہ ان کا اس طرح فاصلے پر رہنا کیوں ضروری ہے۔

٭ بچوں تک مستند اور معتبر معلومات پہنچائیں۔

کوروناوائرس کی وبا میں معمرافراد ہماری خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ معمرافراد میں ذیابیطس، دل اور پھیپھڑوں کے امراض کا امکان زیادہ ہوتاہے۔ اس طرح کے مسائل کے شکار افراد کے لیے کورونا وائرس زیادہ مہلک ثابت ہو رہا ہے۔ اس لیے انہیں بہت زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 80 سال سے زیادہ عمر کے افراد میں کورونا وائرس سے اموات کا تناسب 15 فیصد کے قریب ہے جبکہ مجموعی تناسب دو سے تین فیصد کے لگ بھگ ہے۔ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق 10 سال سے کم عمر بچوں میں کورونا وائرس (کووڈ19-) کے صرف ایک فیصد کیس رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ 30 سے 79 برس کی عمر کے افراد میں یہ تناسب 90 فیصد کے قریب ہے۔ معمر افراد، بالخصوص جنہیں دل اور پھیپھڑوں کے امراض، ذیابیطس، سرطان یا بلندفشارِ خون (ہائی بلڈ پریشر) کے مسائل ہیں، ان میں کورونا وائرس کی علامات، نوجوانوں اور صحت مند افراد کی نسبت زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں۔

بوڑھے افراد کو انہیں ہدایات پر عمل کرنا ہے جو دیگر افراد کے لیے ہوتی ہیں۔ لیکن خطرے کے پیش نظر انہیں ان پر زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ انہیں گھر سے صرف انتہائی مجبوری کے عالم میں نکلنا چاہیے۔

جوان، توانا اور خواندہ افراد کا یہ فرض ہے کہ وہ معمر افراد کی معاونت کریں۔ ہاتھ دھونے کا انتظام ان کی پہنچ میں ہونا چاہیے۔ انہیں کھانے پینے کی اشیا میسر ہوں۔ معمر افراد کی بہت بڑی تعداد پڑھی لکھی نہیں، انہیں کورونا کے بارے میں بنیادی اور ضروری معلومات پہنچانے اور احتیاطی تدابیر بتانے کی ذمہ داری بھی نبھانی ہے۔ عدم آگاہی کی صورت میں ان کے بیمار ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔ نیز صحت مند حالت میں بھی وہ بے جا تشویش کا شکار ہو سکتے ہیں۔

معمر افراد کا میل ملاپ کم ہو جائے تو انہیں تفریح کے متبادل انتظامات کر کے دینے چاہئیں تاکہ وہ ذہنی دباؤ، یاسیت اور احساس تنہائی میں مبتلا نہ ہوں۔وہ موبائل ، انٹرنیٹ، موسیقی، کتب بینی وغیرہ کا سہار لے کر اپنا دل بہلا سکتے ہیں۔

اس وبا کے دوران بچوں اور بوڑھوں کو صحت مندانہ خوراک لینی چاہیے، تاکہ ان کی قوتِ مدافعت بہتر رہے۔

بڑی عمر کے افراد میں روایات کا پاس رکھنے کی عادت پختہ ہو چکی ہوتی ہے، تاہم موجودہ صورت حال عارضی طور پر چند روایات کو پس پشت ڈالنے کا تقاضا کرتی ہے۔ مثلاً سلام منہ سے بھی کیا جا سکتا ہے۔

ذرائع ابلاغ، دوستوں اور ہنگامی اقدامات ، جیسا کہ عوامی مقامات کا بند ہونا، اجتماعات پر پابندی وغیرہ نے ہمیں مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کر دیا ہے، اب اس سے نپٹنے کا کام کرنا ہے۔



 
Top