پروین شاکر بچے تھے آشیانوں میں، طوفان سر پہ تھا

جو دھوپ میں رہا نہ روانہ سفر پہ تھا
اس کے لئے کوئی اور عذاب گھر پہ تھا

چکر لگا رہے تھے پرندے شجر کے گرد
بچے تھے آشیانوں میں، طوفان سر پہ تھا

جس گھر کے بیٹھ جانے کا دکھ ہے بہت ہمیں
تاریخ کہہ رہی ہے کہ وہ بھی کھنڈر پہ تھا

ہم یاد تو نہ آئیں گے لیکن بچھڑتے وقت
تارہ سا اک خیال تری چشم تر پہ تھا

سب زخم کھل اٹھے تو سبک رنگ ہوں بہت
باقی یہ قرض ناخن دست ہنر پہ تھا

یہ کیا کیا کہ گھر کی محبت میں پڑ گئے
آوارگان شب کا تو ہونا سفر پہ تھا​
 
Top