الشفاء
لائبریرین
دوسری کلاس کے بچوں کو سکول سے چھٹی ہوئی تو ہمارے صاحبزادے خلاف معمول ہنستے مسکراتے سکول کے گیٹ سے نمودار ہوئے۔۔۔ اور گاڑی کی طرف جاتے ہوئے بڑے پیار سے ہمارے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یوں گویا ہوئے۔۔۔ پاپا۔ آج دو اچھی باتیں ہوئی ہیں۔۔۔
اچھا۔۔۔۔ کون کون سی۔ ہم نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔۔۔
وہ، ہمارے دوست نے ہمیں ایک مووی کا نام لکھ کر دیا ہے جو انٹر نیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ ۔
خلاف توقع جواب پر اپنی مایوسی کو چھپاتے ہوئے ہم نے بے دلی سے پوچھا ، کون سی مووی؟ ۔۔۔ گاڑی میں بیٹھ کر بتاتا ہوں۔۔۔جواب ملا۔۔۔
اچھا۔۔۔دوسری کون سی بات ہوئی؟ ہم نے سلسلہ کلام جاری رکھا۔۔۔
وہ ، ٹیچر نے آج ہمیں ایک اچھی بات بتائی ہے۔۔۔ ہمیں خوشگوار حیرت کا ایک جھٹکا لگا کہ شائد سکول والوں نے بچوں کی تربیت کے لئے روزانہ چھٹی کے وقت ایک اچھی بات بتانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔۔۔اس لئے فوراً پوچھا، کون سی اچھی بات؟۔۔۔ گاڑی میں بیٹھ کر بتاتا ہوں۔جواب ملا۔۔۔ ۔۔۔۔
گاڑی سٹارٹ کرتے ہی سب سے پہلے تو انہوں نے اے سی آن کر کے اس کو ہائی لیول پر کیا اور پھر پہلی اچھی بات بتانے کے لئے جیب سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا اور کہنے لگے کہ۔۔۔ ہمارے دوست نےایک اچھی سی مووی کا نام لکھ کر دیا ہے جو ہم انٹر نیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نہایت احتیاط سے تعویز کی طرح لپٹے اس چھوٹے سے کا غذ کی تہیں کھول کر ہماری آنکھوں کے سامنے کر دیا۔ جس پر جلی حروف میں لکھا تھا۔۔۔ GOD FATHER II۔
ہم نے اپنے فوری ردعمل کو چھپاتے ہوئے ان کی توجہ دوسری بات کی طرف مبذول کرائی اور پوچھا کہ ٹیچر نے کون سی اچھی بات بتائی ہے۔۔۔
ہاں ، وہ ۔۔۔ ٹیچر نے بتایا ہے کہ پرسوں سکول میں فنکشن ہے۔ جس کی تیاریوں کے لئے کل سکول میں۔۔۔۔۔۔ چھٹی ہوگی۔۔۔
دونوں "اچھی باتیں" بتانے کے بعد انہوں ریڈیو آن کیا اور مختلف چینلز ٹیون کرنے لگے۔۔۔ بہت سے میوزک و ڈسکشنز وغیرہ کے چینلز سرچ کرنے کے بعد وہ تلاوت قرآن کے ایک چینل پر پہنچ کر رک گئے۔اور آرام سے سیٹ سے ٹیک لگا کر۔۔۔ تلاوت سننے لگے۔۔۔تو ہمارے ہونٹوں پر ایک اطمینان بھری مسکراہٹ نے ڈیرہ جما لیا ۔ اور ہم سوچنے لگے کہ ہمارے بچے کچھ بھی کرتے پھریں ، جب تک یہ قرآن سے جڑے رہیں گے، گمراہ نہیں ہوں گے۔۔۔
اچھا۔۔۔۔ کون کون سی۔ ہم نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔۔۔
وہ، ہمارے دوست نے ہمیں ایک مووی کا نام لکھ کر دیا ہے جو انٹر نیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ ۔
خلاف توقع جواب پر اپنی مایوسی کو چھپاتے ہوئے ہم نے بے دلی سے پوچھا ، کون سی مووی؟ ۔۔۔ گاڑی میں بیٹھ کر بتاتا ہوں۔۔۔جواب ملا۔۔۔
اچھا۔۔۔دوسری کون سی بات ہوئی؟ ہم نے سلسلہ کلام جاری رکھا۔۔۔
وہ ، ٹیچر نے آج ہمیں ایک اچھی بات بتائی ہے۔۔۔ ہمیں خوشگوار حیرت کا ایک جھٹکا لگا کہ شائد سکول والوں نے بچوں کی تربیت کے لئے روزانہ چھٹی کے وقت ایک اچھی بات بتانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔۔۔اس لئے فوراً پوچھا، کون سی اچھی بات؟۔۔۔ گاڑی میں بیٹھ کر بتاتا ہوں۔جواب ملا۔۔۔ ۔۔۔۔
گاڑی سٹارٹ کرتے ہی سب سے پہلے تو انہوں نے اے سی آن کر کے اس کو ہائی لیول پر کیا اور پھر پہلی اچھی بات بتانے کے لئے جیب سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا اور کہنے لگے کہ۔۔۔ ہمارے دوست نےایک اچھی سی مووی کا نام لکھ کر دیا ہے جو ہم انٹر نیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نہایت احتیاط سے تعویز کی طرح لپٹے اس چھوٹے سے کا غذ کی تہیں کھول کر ہماری آنکھوں کے سامنے کر دیا۔ جس پر جلی حروف میں لکھا تھا۔۔۔ GOD FATHER II۔
ہم نے اپنے فوری ردعمل کو چھپاتے ہوئے ان کی توجہ دوسری بات کی طرف مبذول کرائی اور پوچھا کہ ٹیچر نے کون سی اچھی بات بتائی ہے۔۔۔
ہاں ، وہ ۔۔۔ ٹیچر نے بتایا ہے کہ پرسوں سکول میں فنکشن ہے۔ جس کی تیاریوں کے لئے کل سکول میں۔۔۔۔۔۔ چھٹی ہوگی۔۔۔
دونوں "اچھی باتیں" بتانے کے بعد انہوں ریڈیو آن کیا اور مختلف چینلز ٹیون کرنے لگے۔۔۔ بہت سے میوزک و ڈسکشنز وغیرہ کے چینلز سرچ کرنے کے بعد وہ تلاوت قرآن کے ایک چینل پر پہنچ کر رک گئے۔اور آرام سے سیٹ سے ٹیک لگا کر۔۔۔ تلاوت سننے لگے۔۔۔تو ہمارے ہونٹوں پر ایک اطمینان بھری مسکراہٹ نے ڈیرہ جما لیا ۔ اور ہم سوچنے لگے کہ ہمارے بچے کچھ بھی کرتے پھریں ، جب تک یہ قرآن سے جڑے رہیں گے، گمراہ نہیں ہوں گے۔۔۔