ناعمہ عزیز
لائبریرین
نا پوچھیں بس مجھے اس لڑکی نے دھوکہ دیا۔
اس معصوم سے تیرہ سال کے بچے کے منہ سے یہ بات سن کے میں دنگ رہ گئی ! اس کے چہرے کا ہر نقش اس کی معصومیت کی گواہی دے رہا تھا ۔ اس کی چمکتی سفید آنکھیں اس بات کا چیخ چیخ کے یقین دلا رہی تھیں کہ وہ ٹھیک اور غلط کی پہچان نہیں رکھتا ۔ اس کے چہرے پر چھلکتی معصومیت اس بات کی گواہ تھی کہ جنم دینے والی ماں نے تیرہ سال تک اس کے بڑے ناز نخرے اٹھا ئے ہوں گے اس کے مستقبل کے حوالے سے کئی خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوں گے ۔ اس کی ترقی کی دن رات دعائیں مانگی ہوں گی ، اس کے درد اپنی جان پر سہے ہوں گے !
مگر یہ وہ کیا کہہ رہا تھا ؟ اچانک مجھے اس میں دلچسبی پیدا ہونے لگی !
میرا پارک جانے کا کوئی موڈ نہیں تھا مگر چھوٹی بہن اور خالہ کی بیٹی کی ضد کی وجہ سے میں انہیں گھمانے کے لئے قریبی پارک میں لے گئی ! انہیں کھیلتا چھوڑ کر میں پارک میں قدرے سنسان جگہ پر جا کر بیٹھ گئی ! چونکہ وہ پارک عورتوں کے لئے مخصوص ہے ،عورتوں کی اکثریت وہاں اپنے بچوں کے ساتھ ہی آتی ہے ! مگر وہ دونوں اکیلے ہی آئے تھے !
میں نے خود کو اکیلا پا کر حسب معمول سے اللہ سے شکایتوں کا پلندہ کھول کر ڈھیر کر دیا ! یہ میرا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہے ہممم اللہ سے شکایتیں کرنا ! گلے شکوے کرنا ! میرا اللہ ہے میں کچھ بھی کہہ سکتی ہوں ! میں چلتی پھرتی اپنے پسندیدہ کام میں مصروف کبھی سر اٹھا کر آسمان کو دیکھ لیتی جیسے وہ مجھے ہی دیکھ رہا ہو کہ دو لڑکیاں میرے پاس سے گزری اور بولی کہ
آپی رمضان مبارک
میں نے مسکرا کر جواباََ کہا آپ کو بھی بہت مبارک ہو
تو ان میں سے ایک نے کہا کہ آپی سر پر دوپٹہ لے لیں رمضان شروع ہو گیا ہے !
اور پیچھے آتے وہ دونوں چھوٹے لڑکوں میں سے ایک نے آگے بڑ ھ کر کہا کہ ،
دوپٹہ نا لینا آج کل کا فیشن ہے
مجھے بُرانہیں لگا میں مسکراتی اپنے کام میں مشغول رہی !
کچھ دیر کے بعد مجھے اپنی بہن اور کزن کا خیال آیا تو میں نے سوچا کہ ایک نظر ان پر بھی ڈال آؤں ، ان کو دیکھنے کے لئے جاتے ہوئے راستے میں ہی ان دونوں بچوں سے ٹکر ہو گئی ! مجھے شرارت سوجھی میں رکی اور بولا
سنو
بچہ : جی
میں : تمھیں کسی نے بتایا
بچہ: کیا ؟
میں : یہی کہ تم بہت بدتمیزہو ؟
بچہ : نہیں
میں: جھوٹے ابھی میں نے بتایا تو ہے !
بچہ : اوہ آپ نے میری فیشن والی بات کا مائنڈ کیا ؟ سوری
میں : مسکراتے ہوئے نو پرابلم ۔ اٹس اوکے
بات آئی گئی ہو گئی
میں اسی جگہ آ کر بینچ پر بیٹھ گئی اور پھر سے گفتگو کا سلسلہ وہاں سے ہی جوڑا جہاں سے ٹوٹا تھا کہ وہ دونوں ایک بار پھر سے آ ٹپکے ! مجھے ان دونوں کا اپنی تنہائی میں ایک بار پھر سے مخل ہو نا ایک نظر نا بھایا ! کہ اسی بچے نے ایک بار پھر سے پوچھا
آپ اکیلی کیوں بیٹھی ہیں ؟
میں نے جواباََ کہا ، تم میرے پاس آکر بیٹھ جاؤ ۔
وہ دونوں آگے چلے گئے !
واپس آئے تو میں نے ان دونوں کو اپنے پاس بیٹھا لیا ۔
میں : کیا نام ہے تمھارا ؟
بچہ مدثر
میں : کونسی کلاس میں پڑھتے ہو ؟
بچہ : آٹھویں میں ؟
میں : عمر کیا ہے تمھاری ؟
بچہ: تیرہ سال
میں نے کہا میں آپ سے کافی بڑی ہوں ! لڑکیوں کو ہمیشہ ایسے ہی تنگ کرتے ہوں آپ ؟
بچہ: نہیں اب زیادہ نہیں کرتا جب سے اس لڑکی نے مجھے دھوکہ دیا ہے
میں : اوہ کس نے ؟
بچہ : وہ تھی ایک پچھلی عید پر اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے پانچ سو روپے چاہیئں مجھے بہت سخت ضرورت ہے میرے پاس تین سوروپے تھے میں نے اسے دے دیئے !
میں : کیا عمر تھی اس کی ؟
بچہ: چودہ سال
میں : ہممم آپ سے ایک سال بڑی ہیں ؟
بچہ : جی
مجھے اس بچے میں دلچسبی پیدا ہونے لگے میں نے اس سے کہا ہممم شروع سے بتاؤ کیا ہوا تھا ؟
بچہ: بس پیسے لینے سے ہی بات شروع ہوئی تھی پھر پرسوں وہ مجھے کہتی کہ میں تم جیسے لڑکوں سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی !
بچہ : میں نے بھی اسے کہا جاؤ جاؤ مجھے بھی تم سے کوئی بات نہیں کرنی ہے !
دوسرا بچہ : حالانکہ اس نے اس لڑکی کی خاطر لڑکوں کی پٹائی بھی لگائی تھی !
پہلا بچہ : ہا ں جی ایک لڑکے نے اس لڑکی کے منہ پر تھوک دیا تھا اور میں نے اسے خوب مارا!
دوسرابچہ: بس آج کل یہ بڑا دکھی ہے ، میں تو اپنی زندگی مزے میں گزار رہا ہوں پر میرے ساتھ بھی ایک مسئلہ ہو گیا ہے میری گرل فرینڈ نے میرا آئی ڈی بلاک کر دیا ہے ،
میں : اوہ وہ کیسے ؟
دوسرا بچہ : ابھی دو تین دن پہلے میں نے اسے فیس بک پر ایڈ کیا تھا اس نے پاس ورڈ مانگا میں نے دے دیا اس کے بعد میرا آئی ڈی نہیں اوپن ہوا !
میں : بہت افسوس کی بات ہے یہ تو !
پہلا بچہ : آپ روز یہاں آتی ہیں ؟
میں : نہیں آج تو بچوں کو گھمانے آئی تھی !
دوسرا بچہ ! عید پر آئیں گی ؟
میں : وہ کیوں
دوسرا بچہ: یونہی پوچھا ؟ ویسے ہم دونوں یہاں روز آتے ہیں
میں دل میں سوچ رہی تھی کہ اتنے معصوم سے بچوں کے ذہنوں پر کس چیز نے اپنا غلبہ جما رکھا ہے ! ہمارے سہا نے مستقبل کی ضمانت، ہمارے خواب جو اس نئی نسل کے ہاتھ میں ہیں ، یہ نسل تو اپنے ہاتھ سے انہیں چکنا چور کر دے گی ! یہ جس راستے پر چل رہے ہیں اس کی منزل سوائے تباہی کے اور کیا ہے ! یہ جن عزائم کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ انہیں جلا کر راکھ کر دیں گے اور ان کے ہاتھ خالی رہ جائیں گے !
بہت دیر تک ان سے باتیں ہوتیں رہیں اور پھر میں نے گھر کی راہ لی ! مگر وہ دونوں ابھی بھی وہاں ہی تھے اپنی ہم عمر لڑکیوں کے اردگرد!
اس معصوم سے تیرہ سال کے بچے کے منہ سے یہ بات سن کے میں دنگ رہ گئی ! اس کے چہرے کا ہر نقش اس کی معصومیت کی گواہی دے رہا تھا ۔ اس کی چمکتی سفید آنکھیں اس بات کا چیخ چیخ کے یقین دلا رہی تھیں کہ وہ ٹھیک اور غلط کی پہچان نہیں رکھتا ۔ اس کے چہرے پر چھلکتی معصومیت اس بات کی گواہ تھی کہ جنم دینے والی ماں نے تیرہ سال تک اس کے بڑے ناز نخرے اٹھا ئے ہوں گے اس کے مستقبل کے حوالے سے کئی خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوں گے ۔ اس کی ترقی کی دن رات دعائیں مانگی ہوں گی ، اس کے درد اپنی جان پر سہے ہوں گے !
مگر یہ وہ کیا کہہ رہا تھا ؟ اچانک مجھے اس میں دلچسبی پیدا ہونے لگی !
میرا پارک جانے کا کوئی موڈ نہیں تھا مگر چھوٹی بہن اور خالہ کی بیٹی کی ضد کی وجہ سے میں انہیں گھمانے کے لئے قریبی پارک میں لے گئی ! انہیں کھیلتا چھوڑ کر میں پارک میں قدرے سنسان جگہ پر جا کر بیٹھ گئی ! چونکہ وہ پارک عورتوں کے لئے مخصوص ہے ،عورتوں کی اکثریت وہاں اپنے بچوں کے ساتھ ہی آتی ہے ! مگر وہ دونوں اکیلے ہی آئے تھے !
میں نے خود کو اکیلا پا کر حسب معمول سے اللہ سے شکایتوں کا پلندہ کھول کر ڈھیر کر دیا ! یہ میرا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہے ہممم اللہ سے شکایتیں کرنا ! گلے شکوے کرنا ! میرا اللہ ہے میں کچھ بھی کہہ سکتی ہوں ! میں چلتی پھرتی اپنے پسندیدہ کام میں مصروف کبھی سر اٹھا کر آسمان کو دیکھ لیتی جیسے وہ مجھے ہی دیکھ رہا ہو کہ دو لڑکیاں میرے پاس سے گزری اور بولی کہ
آپی رمضان مبارک
میں نے مسکرا کر جواباََ کہا آپ کو بھی بہت مبارک ہو
تو ان میں سے ایک نے کہا کہ آپی سر پر دوپٹہ لے لیں رمضان شروع ہو گیا ہے !
اور پیچھے آتے وہ دونوں چھوٹے لڑکوں میں سے ایک نے آگے بڑ ھ کر کہا کہ ،
دوپٹہ نا لینا آج کل کا فیشن ہے
مجھے بُرانہیں لگا میں مسکراتی اپنے کام میں مشغول رہی !
کچھ دیر کے بعد مجھے اپنی بہن اور کزن کا خیال آیا تو میں نے سوچا کہ ایک نظر ان پر بھی ڈال آؤں ، ان کو دیکھنے کے لئے جاتے ہوئے راستے میں ہی ان دونوں بچوں سے ٹکر ہو گئی ! مجھے شرارت سوجھی میں رکی اور بولا
سنو
بچہ : جی
میں : تمھیں کسی نے بتایا
بچہ: کیا ؟
میں : یہی کہ تم بہت بدتمیزہو ؟
بچہ : نہیں
میں: جھوٹے ابھی میں نے بتایا تو ہے !
بچہ : اوہ آپ نے میری فیشن والی بات کا مائنڈ کیا ؟ سوری
میں : مسکراتے ہوئے نو پرابلم ۔ اٹس اوکے
بات آئی گئی ہو گئی
میں اسی جگہ آ کر بینچ پر بیٹھ گئی اور پھر سے گفتگو کا سلسلہ وہاں سے ہی جوڑا جہاں سے ٹوٹا تھا کہ وہ دونوں ایک بار پھر سے آ ٹپکے ! مجھے ان دونوں کا اپنی تنہائی میں ایک بار پھر سے مخل ہو نا ایک نظر نا بھایا ! کہ اسی بچے نے ایک بار پھر سے پوچھا
آپ اکیلی کیوں بیٹھی ہیں ؟
میں نے جواباََ کہا ، تم میرے پاس آکر بیٹھ جاؤ ۔
وہ دونوں آگے چلے گئے !
واپس آئے تو میں نے ان دونوں کو اپنے پاس بیٹھا لیا ۔
میں : کیا نام ہے تمھارا ؟
بچہ مدثر
میں : کونسی کلاس میں پڑھتے ہو ؟
بچہ : آٹھویں میں ؟
میں : عمر کیا ہے تمھاری ؟
بچہ: تیرہ سال
میں نے کہا میں آپ سے کافی بڑی ہوں ! لڑکیوں کو ہمیشہ ایسے ہی تنگ کرتے ہوں آپ ؟
بچہ: نہیں اب زیادہ نہیں کرتا جب سے اس لڑکی نے مجھے دھوکہ دیا ہے
میں : اوہ کس نے ؟
بچہ : وہ تھی ایک پچھلی عید پر اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے پانچ سو روپے چاہیئں مجھے بہت سخت ضرورت ہے میرے پاس تین سوروپے تھے میں نے اسے دے دیئے !
میں : کیا عمر تھی اس کی ؟
بچہ: چودہ سال
میں : ہممم آپ سے ایک سال بڑی ہیں ؟
بچہ : جی
مجھے اس بچے میں دلچسبی پیدا ہونے لگے میں نے اس سے کہا ہممم شروع سے بتاؤ کیا ہوا تھا ؟
بچہ: بس پیسے لینے سے ہی بات شروع ہوئی تھی پھر پرسوں وہ مجھے کہتی کہ میں تم جیسے لڑکوں سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی !
بچہ : میں نے بھی اسے کہا جاؤ جاؤ مجھے بھی تم سے کوئی بات نہیں کرنی ہے !
دوسرا بچہ : حالانکہ اس نے اس لڑکی کی خاطر لڑکوں کی پٹائی بھی لگائی تھی !
پہلا بچہ : ہا ں جی ایک لڑکے نے اس لڑکی کے منہ پر تھوک دیا تھا اور میں نے اسے خوب مارا!
دوسرابچہ: بس آج کل یہ بڑا دکھی ہے ، میں تو اپنی زندگی مزے میں گزار رہا ہوں پر میرے ساتھ بھی ایک مسئلہ ہو گیا ہے میری گرل فرینڈ نے میرا آئی ڈی بلاک کر دیا ہے ،
میں : اوہ وہ کیسے ؟
دوسرا بچہ : ابھی دو تین دن پہلے میں نے اسے فیس بک پر ایڈ کیا تھا اس نے پاس ورڈ مانگا میں نے دے دیا اس کے بعد میرا آئی ڈی نہیں اوپن ہوا !
میں : بہت افسوس کی بات ہے یہ تو !
پہلا بچہ : آپ روز یہاں آتی ہیں ؟
میں : نہیں آج تو بچوں کو گھمانے آئی تھی !
دوسرا بچہ ! عید پر آئیں گی ؟
میں : وہ کیوں
دوسرا بچہ: یونہی پوچھا ؟ ویسے ہم دونوں یہاں روز آتے ہیں
میں دل میں سوچ رہی تھی کہ اتنے معصوم سے بچوں کے ذہنوں پر کس چیز نے اپنا غلبہ جما رکھا ہے ! ہمارے سہا نے مستقبل کی ضمانت، ہمارے خواب جو اس نئی نسل کے ہاتھ میں ہیں ، یہ نسل تو اپنے ہاتھ سے انہیں چکنا چور کر دے گی ! یہ جس راستے پر چل رہے ہیں اس کی منزل سوائے تباہی کے اور کیا ہے ! یہ جن عزائم کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ انہیں جلا کر راکھ کر دیں گے اور ان کے ہاتھ خالی رہ جائیں گے !
بہت دیر تک ان سے باتیں ہوتیں رہیں اور پھر میں نے گھر کی راہ لی ! مگر وہ دونوں ابھی بھی وہاں ہی تھے اپنی ہم عمر لڑکیوں کے اردگرد!
آخری تدوین: