طارق شاہ
محفلین
غزل
بڑھی جو حد سے تو سارے طلِسم توڑ گئی
وہ خوش دِلی ، جو دِلوں کو دِلوں سے جوڑ گئی
ابد کی راہ پہ بے خواب دھڑکنوں کی دھمک
جو سو گئے اُنھیں بُجھتے جگوں میں چھوڑ گئی
یہ زندگی کی لگن ہے، کہ رتجگوں کی ترنگ !
جو جاگتے تھے اُنہی کو یہ دھن جھنجوڑ گئی
وہ ایک ٹیس، جسے تیرا نام یاد رہا
کبھی کبھی تو مِرے دِل کا ساتھ چھوڑ گئی
رُکا رُکا تِرے لب پر عجب سُخن تھا کوئی
تِری نِگہ بھی جسے ، ناتمام چھوڑ گئی
فرازِ دِل سے اُترتی ہُوئی ندی ، امجدؔ !
جہاں جہاں تھا حَسِیں وادیوں کا موڑ ، گئی
مجید امجؔد