حسیب نذیر گِل
محفلین
از :عباس اطہر
چھوٹوں کے ساتھ کچھ بُرا بھی ہو جائے تو خبر نہیں بنتی۔
خبر تب بنتی ہے جب کسی بڑے کے ساتھ کچھ برا ہو جائے۔ چاہے یہ ہونا نہ ہونے کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً کوئی عام شہری ناکے پر پولیس مقابلے میں مارا جائے تو یہ ایسی خبر ہے جس کا کوئی افسر نوٹس نہیں لیتا۔ نوٹس لے تو احمق سمجھا جائے گا کہ چھوٹی اور غیر اہم باتوں پر توجہ دے کر وقت کا زیاں کر رہا ہے لیکن اگر کسی بڑے کو پولیس ناکے پر محض روک لیا جائے تو بہت بڑی خبر بنتی ہے۔ اخبار کی نمایاں سرخی اور ٹی وی کی بریکنگ نیوز اور پھر اس بڑی خبر کے اندر سے مزید خبریں برآمد ہوتی ہیں۔ کوئی ممتاز شخصیت نوٹس لے لیتی ہے اور روکنے کی ناقابل معافی گستاخی کرنے والوں کو معطل اور لائن حاضر کر دیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
بالکل ایسا ہی ماجرا ملکوں کا بھی ہے۔ بحیرہ کیرے بین میں کئی چھوٹے چھوٹے ملک ہیں، کیوبا، جمیکا اور ہیٹی وغیرہ۔ پچھلے دنوں وہاں بہت بڑا سمندری طوفان آیا جس نے بہت تباہی مچائی۔
کتنی تباہی؟ میرے سمیت کسی کو معلوم نہیں۔ وہ اس لیے کہ چھوٹے ملکوں میں قدرتی یا غیر قدرتی آفتیں معمول سمجھی جاتی ہیں۔ جس طوفان نے کیوبا سمیت تین ممالک کے ساحلی علاقے روند ڈالے، ان کے جانی اور مالی نقصان پر دنیا نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اسی طرح پچھلے ہفتے اسرائیل نے ایک ’’چھوٹے‘‘ ملک سوڈان پر فضائی حملہ کرکے اس کی بعض دفاعی تنصیبات تباہ کر دیں۔ کئی لوگ مارے گئے۔ اخبارات باقاعدگی سے پڑھنے والوں کی 90 فیصد اکثریت نے اس خبر کی سنگینی پر غور نہیں کیا۔ اس کے بجائے حماس یا حزب اللہ کے کسی جنگجو نے اسرائیلی پوسٹ پر حملہ کر کے ایک آدھ اسرائیلی سپاہی کو زخمی کر دیا ہوتا تو خبر اتنی زیادہ نمایاں ہوتی اور اتنی بار چھپتی (بیانات اور رد عمل کی شکل میں) کہ ہر اخبار بین کو حملے کی تاریخ اور وقت تک یاد ہو جاتا۔
بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ ذکر اس طوفان کا ہے جو بحیرہ کیرے بین کے چھوٹوں کو تباہی کا ذائقہ چکھانے کے بعد اب ایک بڑے ملک، امریکا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان سطروں کی اشاعت تک خیال ہے کہ وہ امریکا کے بہت سے شمال مشرقی ساحلی علاقوں سے ٹکرا چکا ہو گا۔ اب خدا جانے کتنی تباہی آتی ہے یا ماضی کے طوفانوں کی طرح سینڈی بھی کچھ خاص تباہی مچائے بغیر ہی ساحلوں کو چھو کر واپس آجاتا ہے۔ بہرحال امریکا بڑا بلکہ سب سے بڑا ملک ہے، اس لیے طوفان کا وہاں کا رُخ کرنا ہی اس روز دنیا کی سب سے بڑی خبر تھی۔
بدقسمتی سے عام لوگ اخبارات میں طوفان یا دوسرے قدرتی حوادث کی خبر پڑھتے ہیں نہ ٹی وی دیکھتے ہیں، اس لیے انہیں معلوم نہیں ہو پاتا کہ کوئی طوفان انڈونیشیا، سری لنکا، بنگلہ دیش، صومالیہ یا جمیکا جیسے چھوٹوں ملکوں کا کیا حشر کر گیا۔ امریکا تاریخ عالم کی سب سے بڑی اور سب سے طاقتور سلطنت ہے، جس پر میلی نظر ڈالنا گناہ ہے لیکن امریکا کی جنگی طاقت سے خوف کھائے بغیر چھوٹے چھوٹے وقفوںکے بعد سمندری طوفان امریکا کے ساحلوں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ سپر طاقت کو ہار مان کر یہ علاقے خالی کرنے پڑتے ہیں، عمارتیں ڈھے جاتی ہیں۔
سڑکیں ٹوٹ جاتی ہیں یا اس طرح لاپتہ ہو جاتی ہیں جیسے پاکستان میں عام شہری حتیٰ کہ ریلوے لائنیں اِدھر اُدھر لڑھک جائیں، شاندار ایئر پورٹس کا حلیہ ایسے بگڑ جاتا ہے کہ طوفان کی واپسی کے کئی دن بعد تک یہ اپنی پہلی حالت پر نہیں آتے۔ ٹرانسپورٹ کے علاوہ مواصلات کے سارے نظام بھی درہم برہم ہو جاتے ہیں، بڑے بڑے اسٹوروں اور گوداموں میں ذخیرہ کی گئی لاکھوں کروڑوں ڈالر مالیت کی اشیائے خوردنی تباہ ہو جاتی ہیں حتیٰ کہ وہ بیش قیمت بارود بھی ضائع ہو جاتا ہے جس کی امریکا کو ’’چھوٹوں‘‘ کو سبق سکھانے کے لیے اکثر ضرورت پڑتی ہے ۔ لاکھوں (بلکہ اس بار شایدکروڑوں کے ساتھ ایسا ہو) امریکی شہریوں کی زندگی اور معیشت کو تباہ کن اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ طوفان نہیں سمجھتے کہ ایک امریکی شہری کی زندگی کی کیا قیمت ہے۔ اتنی زیادہ قیمت کہ اس کی خاطر امریکا کسی بھی ’’چھوٹے‘‘ پر چڑھائی کرسکتا ہے۔
امریکا کے قہر و غضب کا کوئی ٹھکانہ نہیں، حیرت ہے کہ اس نے طوفانوں کے بارے میں اتنی متحمل پالیسی کیوں اپنا رکھی ہے۔ وہ ہر سال تباہی مچاتے ہیں، اس کا بھاری نقصان کرتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ امریکا ان طوفانوں کو ویسا سبق نہیں سکھا سکتا جیسا اس نے افغانستان اور عراق اور اس سے پہلے نہ جانے کتنے ایشیائی اور افریقی اور لاطینی ملکوں کو چکھایا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کے ڈرون طیارے قدرتی آفات کا کچھ بگاڑنے کے لیے بنائے ہی نہیں گئے۔ اس کے بیلسٹک اور شارٹ رینج میزائلوں میں بھی صرف انسانی جانیں لینے کی طاقت ہے، طوفان کا رخ موڑنے کی نہیں اور اس کا پیشگی دفاع کا حیرت ناک اور عظیم الشان نظام بھی صرف ’’دشمن انسانوں‘‘ کے لیے ہی موت ہے اور طوفانوں پر پہلے حملہ کرنے کی طاقت سے محروم ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکا ایسے طوفانوں کو سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل ڈالتا یا اگر وہ سر اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں تو مزید آگے بڑھنے سے پہلے ہی ان کا تورا بورا بنا دیتا۔ وہ تاریخ کی سب سے بڑی سپر پاور ہے، وہ چاہے تو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی مدد سے چاند کو بھی تباہ کر دے، لیکن ان حقیر سمندری طوفانوں کے ساتھ لڑنے سے ڈرتا ہے۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ سائنس نے جتنی بھی ترقی کی ہے یا اس سے کرائی گئی ہے، اس کے زیادہ تر حصے کا ’’ہدف‘‘ انسان ہی ہے، قدرتی آفات نہیں۔ جتنی رقم ڈرون ٹیکنالوجی پر لگائی جاتی ہے، اتنی ہی رقم سے ساحل کے ساتھ کنکریٹ کے پلیٹ فارم بنائے جا سکتے ہیں جو طوفانوں کو پلٹ دیں یا کم از کم اس کا زور توڑ دیں لیکن شاید امریکا کے پاس جتنا سرمایہ ہے، وہ سارے کا سارا ڈرون،ا سٹیلتھ، میزائل، بحری جنگی بیڑوں، ہموی گاڑیوں، رات کے اندھیرے میں ’’دشمن انسانوں‘‘ کو دیکھنے والے آلات پر لگ جاتا ہے۔ طوفانوں سے نمٹنے کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں۔
سُنا ہے کہ امریکا اب ایسی ٹیکنالوجی بنا رہا ہے جس کو لاگو (APPLY) کرنے سے امریکی سپاہی دشمن کو دکھائی ہی نہیں دیں گے۔ یعنی امریکی سپاہی دشمن کو دیکھ سکے گا، وار بھی کر سکے گا اور دشمن کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ اس پر وار کہاں سے ہو رہا ہے۔ کیا امریکا ایسی ٹیکنالوجی نہیں بنا سکتا جو چڑھتے پانیوں کو بھاپ بنا کر ہوائوں میں اُڑا دے۔ شاید وہ بنا سکتا ہو لیکن شاید اس کے نزدیک پہلے انسانوں سے نمٹنا زیادہ ضروری ہے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ انسانی فتوحات کا سفر پورا ہونے کے بعد شاید وہ قدرت کو فتح کرنے کی بھی کوشش کرے۔ فی الحال تو افراتفری کے ان مناظر پر گزارہ کیجیے جو شمال مشرقی امریکا میں مچی ہوئی ہے اورجسے ساری دنیا کے ٹی وی چینل مسلسل دکھا رہے ہیں۔
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس