مدیحہ گیلانی
محفلین
فاتح الدین بشیر صاحب کی ایک بے حد متاثر کن نظم جس کے عنوان سے میں ہر گز متفق نہیں لیکن جن کی تخلیق ہے ان کا ہی دیا ہوا عنوان ہے سو مجبوراً یہی عنوان لکھنا پڑا:
بکواس
میں کہ مدت سے کوئی شعر نہیں لکھ پایا
تیرا ہی نام لکھا جب بھی کہیں لکھ پایا
نظم کوئی نہ غزل کوئی ہوئی ہے کب سے
جب تلک، جان! مرے ساتھ رہیں، لکھ پایا
تا ترے فخرِ جمالاں کو بڑھا پاؤں میں
نگۂ خوش میں تری کاش جگہ پاؤں میں
میں تو لکھتا تھا فقط تیری خوشی کی خاطر
لبِ خندہ کی ترے داد و صلہ پاؤں میں
میرا ہر حرف سبھی لفظ ترے قصے تھے
تا ترے چہرے پہ مسکان کھلا پاؤں میں
میرا سب مان مرا سارا تکبر توڑا
یاس و نومیدی میں لا کر مجھے یوں چھوڑا
اب مرے پاس نہ امّید نہ وہ کام و مرام
ایک بے زاری و وحشت ہے کہ دن رات مدام
تیری آنکھیں مری مشعل کی ضیا تھیں گویا
تو نے وہ چھین کے بے نور کیا ہے مجھ کو
کائناتوں کا مماثل ترا چہرہ تھا مجھے
لا مکانی کا شرف بخش دیا ہے مجھ کو
جن لبوں نے مجھے احساس دیا ہونے کا
ان کا الہام و تخیل بھی خطا ہے مجھ کو
جو طلب گارِ دعا بن کے مرے ساتھ اٹھا
آج وہ دستِ عطا بھی تو سزا ہے مجھ کو
میں سیہ بخت، بجا، لیک سیہ کار نہ تھا
ترش رو، تلخ تھا لیکن کبھی عیار نہ تھا
گر خطا کار سہی اتنا بھی بد کار نہ تھا
سوچ! میں ترکِ تعلق کا تو حقدار نہ تھا
کاٹ کر خود سے مجھے دور لے جا پھینکا ہے
کیسے ویرانے میں تو نے مجھے لا پھینکا ہے
کیسی تاریکی و وحشت کا گماں ہے ہر سُو
بے بسی، تیرگی، بے داد نہاں ہے ہر سُو
وہ اندھیرے کہ جہاں موت بھی گھبراتی ہے
مجھ سے ملنے کو وہ آتے ہوئے ڈر جاتی ہے
کیا یہی میری محبت کا صلہ تھا چندا؟
ہجرِ دائم ہی بھلا میری سزا تھا چندا؟
(فاتح الدین بشیرؔ)