محمود احمد غزنوی
محفلین
بکھرا ہُوا ہوں ، ضبط کا یارا نہیں رہا
کُچھ چِھن گیا ہےاب وہ ہمارا نہیں رہا
کچھ ایسے پائمال ہوئی سرزمینِ دل
کوئی شبِ خیال میں تارا نہیں رہا
اک ایسا دشت ہے یہ جس میں مرےلئے
کوئی سراب، کوئی سہارا نہیں رہا
مدّت سے اک جمود سا طاری ہےقلب پر
آنکھوں میں کوئی اشک ستارا نہیں رہا
نکلے تری گلی سے تو کعبہ تھا سامنے
دل پر کچھ اختیار ہمارا نہیں رہا
یارب دلِ حزیں کو نئی زندگی ملے
مانا کبھی یہ عرش تمہارا نہیں رہا
کُچھ چِھن گیا ہےاب وہ ہمارا نہیں رہا
کچھ ایسے پائمال ہوئی سرزمینِ دل
کوئی شبِ خیال میں تارا نہیں رہا
اک ایسا دشت ہے یہ جس میں مرےلئے
کوئی سراب، کوئی سہارا نہیں رہا
مدّت سے اک جمود سا طاری ہےقلب پر
آنکھوں میں کوئی اشک ستارا نہیں رہا
نکلے تری گلی سے تو کعبہ تھا سامنے
دل پر کچھ اختیار ہمارا نہیں رہا
یارب دلِ حزیں کو نئی زندگی ملے
مانا کبھی یہ عرش تمہارا نہیں رہا