پیاسا صحرا
محفلین
بکھرتا پھول جیسے شاخ پر اچھا نہیں لگتا
محبت میں کوئی بھی عمر بھر اچھا نہیں لگتا
بکھرنے اور بھٹکنے کیلیے تنہائی کافی ہے
کوئی منزل نہ ہو تو ہمسفر اچھا نہیں لگتا
میں اس کو سوچتا کیوں ہوں اگر ندرت نہیں اس میں
میں اس کو دیکھتا کیوں ہوں اگر اچھا نہیں لگتا
اسی باعث میں تیری یادوں میں مصروف رہتا ہوں
مجھے بے دھیان رہنے کا ہنر اچھا نہیں لگتا
وہ جس کی دلکشی میں غرق ہونا چاہتا ہوں میں
وہی منظر مجھے بار دگر اچھا نہیں لگتا
کسی صورت تعلق کی مسافت طے تو کرنی ہے
مجھے معلوم ہے تجھ کو سفر اچھا نہیں لگتا
مرا دکھ بانٹنے والے بہت احباب ہیں میرے
رکھوں میں ساتھ کوئی نوحہ گر اچھا نہیں لگتا
نکل کے جب میں ویرانے سے آبادی میں آیا ہوں
رہوں بے گانہء دیوار در اچھا نہیں لگتا
ہزار آوارگی ہو بے ٹھکانہ زندگی کیا ہے
وہ انساں ہی نہیں ہے جس کو گھر اچھا نہیں لگتا
نئ تخلیق سے باقی جہاں میں حسن ہے سارا
شجر چاہے کوئی ہو بے ثمر اچھا نہیں لگتا
وہ چاہے فصل پک جانے پہ سارے کھیت چگ جائیں
پرندوں کو کروں بے بال و پر اچھا نہیں لگتا
ستم جو ہو رہا ہے در حقیقت وہ خدا جانے
مگر کوئی سرے سے بے خبر اچھا نہیں لگتا
وہ اک اسم مبارک دل پہ لکھنا چاہیئے جس کو
وہ پیشانی پہ لکھ تو لوں مگر اچھا نہیں لگتا
وسیلہ راستے کا چھوڑ کر منزل نہیں ملتی
خدا اچھا لگے کیا ، جب بشر اچھا نہیں لگتا
صابر ظفر
محبت میں کوئی بھی عمر بھر اچھا نہیں لگتا
بکھرنے اور بھٹکنے کیلیے تنہائی کافی ہے
کوئی منزل نہ ہو تو ہمسفر اچھا نہیں لگتا
میں اس کو سوچتا کیوں ہوں اگر ندرت نہیں اس میں
میں اس کو دیکھتا کیوں ہوں اگر اچھا نہیں لگتا
اسی باعث میں تیری یادوں میں مصروف رہتا ہوں
مجھے بے دھیان رہنے کا ہنر اچھا نہیں لگتا
وہ جس کی دلکشی میں غرق ہونا چاہتا ہوں میں
وہی منظر مجھے بار دگر اچھا نہیں لگتا
کسی صورت تعلق کی مسافت طے تو کرنی ہے
مجھے معلوم ہے تجھ کو سفر اچھا نہیں لگتا
مرا دکھ بانٹنے والے بہت احباب ہیں میرے
رکھوں میں ساتھ کوئی نوحہ گر اچھا نہیں لگتا
نکل کے جب میں ویرانے سے آبادی میں آیا ہوں
رہوں بے گانہء دیوار در اچھا نہیں لگتا
ہزار آوارگی ہو بے ٹھکانہ زندگی کیا ہے
وہ انساں ہی نہیں ہے جس کو گھر اچھا نہیں لگتا
نئ تخلیق سے باقی جہاں میں حسن ہے سارا
شجر چاہے کوئی ہو بے ثمر اچھا نہیں لگتا
وہ چاہے فصل پک جانے پہ سارے کھیت چگ جائیں
پرندوں کو کروں بے بال و پر اچھا نہیں لگتا
ستم جو ہو رہا ہے در حقیقت وہ خدا جانے
مگر کوئی سرے سے بے خبر اچھا نہیں لگتا
وہ اک اسم مبارک دل پہ لکھنا چاہیئے جس کو
وہ پیشانی پہ لکھ تو لوں مگر اچھا نہیں لگتا
وسیلہ راستے کا چھوڑ کر منزل نہیں ملتی
خدا اچھا لگے کیا ، جب بشر اچھا نہیں لگتا
صابر ظفر