زیرک
محفلین
بگڑی جو سچ کہے سے، وہ بگڑی نہیں ہوتی
یہ دنیا کتنی عجیب ہے کہ یہاں جھوٹ سے نہیں سچ بولنے سے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ تھوڑی سی دنیاوی زندگی میں اپنوں غیروں سبھی کو پرکھ کر دیکھ لیا ہے، اپ ان کی خاطر جھوٹ بولو تو یہ خوشی سے ناچنے لگتے ہیں لیکن کبھی بھولے سے ان کے بارے میں تھوڑا ناموافق کڑوا سچ بول دیا تو آپ راندۂ درگاہ قرار پائے جائیں گے۔ میں نے جھوٹ اور سچ کے دو پیمانے دیکھے ہیں، موافق ہو تو اس کا ذائقہ میٹھا ہو جاتا ہے جبکہ اس کے الٹ ہو تو کڑوا نِرا زہر جسے سن کر ہر کوئی تھو تھو کرنے لگا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہمارا دل، ذہن اور معدہ کڑوے سچ کو برداشت نہیں کر سکتا اور میٹھے جھوٹ کو سننے کی ایسی عادت پڑی ہے کہ ملک کی آدھی آبادی کو اسی وجہ سے شوگر ہو گئی ہے۔
میں جھوٹ کے دربار میں سچ بول رہا ہوں
حیرت ہے کہ سر میرا قلم کیوں نہیں ہوتا
یہ شعر دو دہائیوں سے گویا میرا ترجمان ہے، سچ بولنے پر مجھے مطعون ضرور کیا جاتا ہے لیکن کوئی مجھے مصلوب نہیں کر سکا کیونکہ ایسا کرنے کے لیے ہمت ٹانک درکار ہے جو آج کل کے انسانی رشتوں میں ناپید ہو چکی ہے۔ کئی بار دل کو سمجھایا کہ؛حیرت ہے کہ سر میرا قلم کیوں نہیں ہوتا
پگلے! کڑوے سچ کا کون ساتھ دیتا ہے
رشتے سارے جھوٹے ہیں دوستی بکواس
لیکن پگلا دل ہے کہ مانتا ہی نہیں، اس کی خواہش ہے کہ مختصر سی دنیاوی زندگی میں کچھ ایسے لوگ شامل ہوں جن کا ضمیر آئینے کی طرح صاف و شفاف اور جن کا کردار دھوپ میں سائے کی طرح نرم ہو کیونکہ آئینہ جھوٹ نہیں بولتا اور سایہ ساتھ نہیں چھوڑتا جو چاہے اندھیرے نظر نہیں آتا ہو لیکن یہ روشنی گُل ہوتے ہی ضمیر میں ڈھل کر انسان کے اندر سما جاتا ہے اور اس کی اصلاح کرتا ہے۔ اپنے آس پاس کے لوگوں کے بعد اپنے معاشرے کےکاروباری، نمائندہ سیاسی لوگوں، حکومتی اور 'حکومت ساز' سبھی کا حال دیکھ لیا ہے، مجھے تو وہ سچ کے آئینے میں پہلے سے بھی زیادہ عریاں اور ننگے ہی دکھائی دیتے ہیں؛رشتے سارے جھوٹے ہیں دوستی بکواس
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
میں آج تک کسی بھی فیلڈ میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکا اور نہ ہو سکتا ہوں کیونکہ مجھ میں نہ تو کسی کے کاندھے پر قدم رکھ کر آگے بڑھنے کا ہنر ہے نہ کسی کو ڈھال بنانے میں ماہر ہوں، جھوٹی تعریف چاہے وہ اچھی معنوں میں ہو، اگر وہ بھی کر دوں تو لگتا ہے جیسے کچھ غلط ہو گیا ہے، سچ بکنے کا مرض لا علاج لاحق ہے، دوست، اقارب اور رشتے داروں میں کریلا، کوڑ تمہ کہلاتا ہوں لیکن شکر ہے چند مخلص دوست بھی ہیں، جن کے سرکل میں مجھے مِٹھے کریلے کے نام سے یاد کیا جاتا ہوں۔ میں زندگی میں اپنے تجربات سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ "جھوٹ بول کر بھروسہ توڑنے سے بہتر ہے سچ بول کر رشتہ توڑ دیا جائے کیونکہ رشتہ دوبارہ بھی جڑ سکتا ہے لیکن بھروسہ کبھی نہیں جڑتا"۔جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
سچ کی تکریم کیا کرتے ہیں شوریدہ سر
ہوش تو جھوٹ چھپانے کے لیے ہوتے ہیں
ہوش تو جھوٹ چھپانے کے لیے ہوتے ہیں