ام اویس
محفلین
کچھ بچے بڑے ہی انوکھے مزاج کے ہوتے ہیں ۔ ماں ایک بات سے روکتی ہے ڈانٹتی ہے ، ڈراتی ہے یہ سمجھتے ہیں اب ماں کی پوری توجہ مجھ پر ہے ۔ اوپر اوپر سے روتے ہیں ماں سے لاڈ کرتے ہیں پھر تھوڑے دن بعد جوں ہی دیکھتے ہیں ماں کی توجہ ہٹی وہی غلطی دوبارہ دہراتے ہیں ، پھر مار کھاتے ہیں، ڈانٹ کھاتے ہیں اور دل ہی دل میں ماں کی توجہ اور محبت پر نثار ہوتے رہتے ہیں
کچھ الله کے بندے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ جونہی ان سے کوئی غلطی ، لغزش یا گناہ ہوجاتا ہے
فورا الله کے حضور گناہوں کا ٹوکرا اٹھائے ندامت کے آنسو بہانے پہنچ جاتے ہیں اور یہ جو انفعال کے قطرے ہوتے ہیں نا یہی بتا دیتے ہیں کہ تیرے رب کی پوری توجہ ہے تجھ پر سو یہ بندے اس کا لطف اٹھاتے ہیں پھر اسی بگڑے بچے کی طرح اپنے مالک کی توجہ پانے کے لئے اپنی غلطی دھراتے ہیں ۔ ماں اپنے بچے سے کبھی تنگ نہیں پڑتی ۔ ہر بار سمجھاتی ہے ہر بار معاف کر کے گلے لگا لیتی ہے
تو وہ جو ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے وہ اپنے بندے سے کیسے بے خبر ہو سکتا ہے
وہ جانتا ہے کہ میرا بندہ میرے ساتھ کیا کر رہا ہے
پر وہ بھی اپنے بندے سے اسی وقت سب سے زیادہ راضی ہوتا ہے جب وہ ندامت کے آنسو لے کر
تڑپتا ، پھڑکتا دل لے کر ، شکوے کرتی زبان لے کر اس کے در پر حاضر ہوتا ہے
اور اس سے گلے کرتا ہے کہ تو نے میرے دل میں دنیا کی محبت کیوں ڈالی ، بچوں کی چاہت کیوں بھری
میرے دل کو غیر کی چاہت سے پاک کیوں نہ رکھا ۔ اس کو اپنی اور اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کی محبت سے سرشار کیوں نہ رکھا
بس وہی لمحے ہوتے ہیں جب الله کریم کی پوری کی پوری توجہ اپنے اس گناہگار بندے پر ہوتی ہے
اسی وقت تو وہ اس کے آنسو پونچھتا ہے اسی وقت تو اس پر اپنی ساری عنایتیں اور محبتیں نچھاور کرتا ہے ۔ اس سے راضی ہوتا اور اپنی چاہت کی تڑپ میں اسے بےقرار کرتا ہے
اور میرے نبی صلی الله علیہ وسلم نے میری جان ان پر قربان ہو پہلے ہی کچھ ایسا فرما دیا ۔۔۔ پل دو پل
تھوڑا وقت ؛ اگر ہر وقت یہ کیفیت رہے تو انسان بندہ نہ رہے فرشتہ بن جائے اور مالک الملک کو تو انسان ہی پسند ہے بندہ ہی درکار ہے
اور پھر سے اس کے دل میں غیر کا دھیان ۔۔۔۔ تبھی تو بندہ بےقرار ہو کر اس کے پاس آئے گا
کہ دلوں کو پھیرنے والا تو وہی ہے ۔
اے میرے رب میرے دل کو اپنی محبت کی طرف پھیر دے ۔ اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کی طرف پھیر دے
اگر میں تیرے حضور اس بگڑے بچے کی طرح روز روز فریاد لے کر آؤں تو ہر بار مجھے معاف کر دے، مجھ پر مہربانی اور عنایت کرتا رہ۔آمین یا رب العالمین آمین
۔۔۔۔۔۔
نزہت وسیم
کچھ الله کے بندے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ جونہی ان سے کوئی غلطی ، لغزش یا گناہ ہوجاتا ہے
فورا الله کے حضور گناہوں کا ٹوکرا اٹھائے ندامت کے آنسو بہانے پہنچ جاتے ہیں اور یہ جو انفعال کے قطرے ہوتے ہیں نا یہی بتا دیتے ہیں کہ تیرے رب کی پوری توجہ ہے تجھ پر سو یہ بندے اس کا لطف اٹھاتے ہیں پھر اسی بگڑے بچے کی طرح اپنے مالک کی توجہ پانے کے لئے اپنی غلطی دھراتے ہیں ۔ ماں اپنے بچے سے کبھی تنگ نہیں پڑتی ۔ ہر بار سمجھاتی ہے ہر بار معاف کر کے گلے لگا لیتی ہے
تو وہ جو ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے وہ اپنے بندے سے کیسے بے خبر ہو سکتا ہے
وہ جانتا ہے کہ میرا بندہ میرے ساتھ کیا کر رہا ہے
پر وہ بھی اپنے بندے سے اسی وقت سب سے زیادہ راضی ہوتا ہے جب وہ ندامت کے آنسو لے کر
تڑپتا ، پھڑکتا دل لے کر ، شکوے کرتی زبان لے کر اس کے در پر حاضر ہوتا ہے
اور اس سے گلے کرتا ہے کہ تو نے میرے دل میں دنیا کی محبت کیوں ڈالی ، بچوں کی چاہت کیوں بھری
میرے دل کو غیر کی چاہت سے پاک کیوں نہ رکھا ۔ اس کو اپنی اور اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کی محبت سے سرشار کیوں نہ رکھا
بس وہی لمحے ہوتے ہیں جب الله کریم کی پوری کی پوری توجہ اپنے اس گناہگار بندے پر ہوتی ہے
اسی وقت تو وہ اس کے آنسو پونچھتا ہے اسی وقت تو اس پر اپنی ساری عنایتیں اور محبتیں نچھاور کرتا ہے ۔ اس سے راضی ہوتا اور اپنی چاہت کی تڑپ میں اسے بےقرار کرتا ہے
اور میرے نبی صلی الله علیہ وسلم نے میری جان ان پر قربان ہو پہلے ہی کچھ ایسا فرما دیا ۔۔۔ پل دو پل
تھوڑا وقت ؛ اگر ہر وقت یہ کیفیت رہے تو انسان بندہ نہ رہے فرشتہ بن جائے اور مالک الملک کو تو انسان ہی پسند ہے بندہ ہی درکار ہے
اور پھر سے اس کے دل میں غیر کا دھیان ۔۔۔۔ تبھی تو بندہ بےقرار ہو کر اس کے پاس آئے گا
کہ دلوں کو پھیرنے والا تو وہی ہے ۔
اے میرے رب میرے دل کو اپنی محبت کی طرف پھیر دے ۔ اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کی طرف پھیر دے
اگر میں تیرے حضور اس بگڑے بچے کی طرح روز روز فریاد لے کر آؤں تو ہر بار مجھے معاف کر دے، مجھ پر مہربانی اور عنایت کرتا رہ۔آمین یا رب العالمین آمین
۔۔۔۔۔۔
نزہت وسیم