بھائیوں اور بیٹوں کے لئے لڑکی ”دیکھنے“ جانا

یوسف-2

محفلین
جن لڑکیوں یا خواتین کے بھائی یا بیٹے جوان ہوجائیں، اُن کا ایک ’پسندیدہ مشغلہ“ اپنے بھائی بیٹے کے لئے ”لڑکی دیکھنے“ جانا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے شادی شدہ خاتون یہ بھول جاتی ہیں کہ اس مرحلہ پر ان کے ساتھ کیا ”بیتا“ تھا۔ یا پھر وہ لاشعوری طور پر اپنے ساتھ ہونے والے ”مظالم“ کا ”بدلہ“ لینے گھر گھر لڑکیاں دیکھتی اور مسترد کرتی جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کا ”المیہ“ یہ ہے کہ ایسے موقع پر غیر شادی شدہ لڑکیاں بھی اپنی امیوں کے ساتھ پیش پیش رہتی ہیں اور انہیں یہ ذرا بھی خیال نہیں ہوتا کہ اُن کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا، جو وہ دوسری لڑکیوں کے ساتھ کر تی پھر رہی ہیں۔ یہ وہ واحد ”وقوعہ“ ہے جس میں ظالم بھی خواتین ہوتی ہیں اور مظلوم بھی خواتین۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ نہ تم خود دوسروں پر ظلم کرو اور نہ دوسروں کو اپنے اوپر ظلم کرنے دو۔ کیا ہماری خواتین اس حدیث پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر ہیں تو مندرجہ ذیل نکات کو بغور پڑھئے۔ شاید کہ آپ کے دل میں اتر جائے اس احقر کی بات

  1. ہمارے ہاں یہ "روایت" سی بن گئی ہے کہ رشتہ صرف لڑکے والے ہی بھیجیں گے۔ لڑکی والے صرف "رشتوں کا انتظار" کریں گے۔ اسلام میں ایسی کوئی "پابندی" نہیں ہے۔ رشتہ یا پروپوزل لڑکے والے بھی بھیج سکتے ہیں اور لڑکی والے بھی۔ بلکہ اگر لڑکا اور لڑکی دونوں کا ایک دوسرے سے (جائز) معاشرتی رابطہ یا کمیونی کیشن ہے تو دونوں میں سے کوئی بھی براہ راست یا کسی کی معرفت دوسرے کو "اپنی پسند سے آگاہ" سے آگاہ کرسکتا ہے۔ اور مثبت جواب کی صورت میں اپنے والدین کو ایک دوسرے کے گھر بھیج سکتا ہے۔
  2. رشتہ کے لئے لڑکی "دیکھنے" جارہے ہیں۔ دراصل یہ فقرہ ہی غلط اور "فتنہ کی جڑ " ہے۔ جب ہم کسی کو "دیکھنے" جاتے ہیں تو پھر وہی سب کچھ "لازماً" ہوگا، جو اس وقت ہو رہا ہے ۔ صرف پہلی لڑکی کو دیکھ کر تو اسے سیلیکٹ نہیں کیا جاسکتا۔ لازماً کئی لڑکیوں کو مسترد کیا جائے گا تب کسی ایک کو سیلیکٹ کیا جائے گا۔ اور لڑکی کو "دیکھنے" کا عمل بھی "چیزوں کو دیکھنے" سے ملتا جلتا ہوگا۔
  3. میں عرصہ دراز سے لکھتا چلا آرہا ہوں کے ہم رشتہ کے لئے لڑکیوں کو "دیکھنے" کا سلسلہ ہی ختم کردیں۔ تاکہ لڑکیوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو، اول دیکھے جانے کے وقت اور بعد ازاں "مسترد" کئے جانے پر۔
  4. اس کی بجائے ہم (رشتہ کی نیت سے) لڑکیوں سے اور اُن کے اہل خانہ سے "ملنے" جایا کریں، مہمان بن کر۔ جب ہم کسی کے گھر مہمان بن کر اُن سے ملنے جائیں گے تو ہمارا "رویہ" ازخود مہذبانہ ہوگا، جیسا کہ عام میل ملاقات کے دوران ہوتا ہے۔ جاننے والے گھروں میں تو ہم آتے جاتے ہی رہتے ہیں۔ اس معمول کے آنے جانے کے دوران ہی "رشتہ کی نیت سے" از سر نو لڑکی اور اس کے اہل خانہ سے "ملاقات کرلیا کریں، انہیں اپنی "نیت" بتلائے بغیر۔ اور جب رشتہ "پسند" آجائے تو براہ راست یا کسی کی معرفت لڑکی کے والدین تک اپنا ارادہ پہنچا دیں۔ "مثبت ردعمل" کی صورت میں رسمی طور پر بات چیت کی جاسکتی ہے۔
  5. نہ جاننے والے گھروں کا اتہ پتہ کوئی "تیسرا" بتلایا کرتا ہے، جو اس گھرانے سے عموماً واقف ہوتا ہے۔ لہٰذا اس "تیسرے فرد" کی معرفت کسی بھی دیگر مناسب "موقع" پر رشتہ کی نیت سے (مگر لڑکی والوں کو بتلائے بغیر) ان کے گھر جایا اور لڑکی اور اہل خانہ سے ملا جاسکتا ہے۔یا پھر کسی تیسری جگہ جیسے کسی شادی بیاہ یا دیگر تقریب میں، یا کسی سیر و تفریح کے موقع پر لڑکے اور لڑکی والوں کو "اچانک ملوایا" جاسکتا ہے۔جہاں "دونوں گھرانے" ایک دوسرے سے تفصیلاً مل لیں۔ پسندیدگی کی صورت میں رسمی ملاقاتیں جاری رہ سکتی ہیں۔
  6. کہنے کا مطلب یہ کہ جب تک رشتہ مکمل طور پر "سیلیکٹ" نہ کرلیا جائے، اُس وقت تک لڑکی اور لڑکی کے گھرانے کو یہ نہ بتلایا جائے کہ ہم اس نیت سے آپ سے "مل" رہے ہیں۔ "بغیر بتلائے ملنے" کی صورت میں لڑکے والوں کا "فائدہ" یہ ہوگا کہ وہ لڑکی اور لڑکی گھر والوں کو ان کی "اصل صورت" میں دیکھ سکیں گے۔ اور اس ملاقات میں وہ "مصنوعی پن" نہیں ملےگا، جیسا کہ عام طور پر رشتہ کے لئے لڑکی دیکھے جانے کے موقع پر لڑکی والے "اختیار" کرلیتے ہیں
 

زبیر مرزا

محفلین
شادی بیاہ کے معاملات کو مکمل طورپرخواتین کے حوالے کرنے سے یہ ساری صورتحال پیدا ہوئی ہے معاشرے میں
مردوں کی بنیادی غلطی اور کاہلی آج کے زمانے میں یہ ہے کہ وہ جو منتظم کا کردار تھا اُس کا وہ اس سے پیچھے ہٹا
پیسہ فراہم کرنا ہی اپنی ذمہ داری سمجھ بیٹھا تو عورت نے شادی بیاہ کی سادگی کو اس کی بنیادی ضرورت کو لوازمات سے بھردیا-
مرد خاندان دیکھتا تھا اولاد کی شادی کے لیے - عورت چاند سی بہو، اورچھڑا چھانٹ داماد کا ارمان سجا کے اسے
اعلان کی صورت میں لے کے چلی - جہاں شادی بیاہ کو مکمل طورپرعورتوں کے حوالے کیا جاتا وہاں لڑکی دیکھنے جانے
اورالابلا رسوم چلتی ہیں اور عام ہوتی جاتی ہیں -
یوسف بھائی جزاک اللہ بہت اچھی تحریر اور اہم نقطہ سامنے لانے کا بہت شکریہ - چونکہ یہ گرماگرم سیاسی گفتار کا دھاگہ نہیں
تو اس کے دھول میں دب جانے سے مایوس مت ہوجائیے گا :) آپ نے باخوبی اپنا فرض انجام دے دیا ہے -
 

عاطف بٹ

محفلین
یوسف بھائی، اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ کتنے اہم اور سنجیدہ مسئلے پر بات کی ہے آپ نے۔
ہم لوگ ہندوانہ معاشرت سے اس حد تک متاثر ہوچکے ہیں کہ اسلامی اقدار کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ شادی بیاہ کے حوالے سے لڑکی کے انتخاب سے لے کر مکلاوے کی رسم تک ہمارے ہاں جتنی قباحتیں اور خرابیاں پائی جاتی ہیں اتنی تو شاید ہندوؤں کے ہاں بھی نہیں پائی جاتی ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملکِ خداداد میں لاکھوں بچیاں سہاگ کا جوڑا پہننے اور ہاتھوں پر کسی کے نام کی مہندی سجانے کے خواب آنکھوں میں لیے رسوماتی عفریت کی نذر ہوجاتی ہیں اور اس سب کے باوجود بھی ہم خود کو اللہ کی رحمت کے قابل سمجھتے ہیں۔ یہ تو اس مولا کا کرم ہے کہ وہ ہم پر آسمان سے آگ کی بارش نہیں برسا رہا ورنہ جس طرح ہم لوگ حلال کو حرام اور حرام اور حلال بناتے جارہے ہیں ہم کسی بھی طور رحمتِ الہٰی کے مستحق نہیں رہے!
 
جزاک اللہ یوسف بھائی۔ ایک عمدہ تحریر۔

اب کیونکہ ہم فی الوقت چھڑے چھانٹ ہیں تو مزید کچھ کہنا مناسب نہیں لگتا۔ :ROFLMAO:
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
یوسف بھائی ۔۔۔۔ بہت ہی اعلی تحریر اور تجاویز ہیں ۔
ہم شروع سے ہی اس روایت کے خلاف ہیں اورکبھی بھی ہم نے یہ طریقہ نہیں اپنایا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک کوئی "پُرسانِ حال " نہیں ہے ۔ ;)
 

زبیر مرزا

محفلین
یوسف بھائی ۔۔۔ ۔ بہت ہی اعلی تحریر اور تجاویز ہیں ۔
ہم شروع سے ہی اس روایت کے خلاف ہیں اورکبھی بھی ہم نے یہ طریقہ نہیں اپنایا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک کوئی "پُرسانِ حال " نہیں ہے ۔ ;)
بکراعید پر ایک اجتماعی بردکھاوا رکھ لیتے ہیں کیفے اسٹوڈنٹ میں سارے کراچی کے لڑکے جمع ہوجائیں لوگ باگ بکرے لینے نکلتے ہیں شاید کہ
ہماری بھی سنوائی ہوجائے - دانت بریانی کھاتے ہوئے نظرآجائیں گے تو کوئی پوچھے گا نہیں کہ ------ لڑکا کتنے دانت کا ہے
 
آخری تدوین:
Top