سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 10 جنوری، 2017
بھارتی اداکار اوم پوری امن کی شمع جلاگئے
تحریر: سید انور محمود
بھارتی لیجنڈ اداکار اوم پوری 66 سال کی عمر میں انتقال کرگئے، اوم پوری 18 اکتوبر 1950 کو بھارتی صوبے ہریانہ کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں پاکستان اورپاکستانی اداکاروں کی حمایت کرنے پر اوم پوری کو بھارت میں کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ان کے انتقال کے بعد بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں میں ٹوئٹر پر انھیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے اور عام لوگوں کے علاوہ ان کے ساتھ کام کرنے والے اداکاروں نے بھی اپنے غم کا اظہار کیا ہے۔اداکار اوم پوری نے دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈرامہ سے تھیٹر کی باریکیاں سیکھیں، پونے کے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ سے اداکاری کی تعلیم حاصل کی اور پھر ہندی فلموں کی بھول بھلیوں میں اپنے لئے راستہ کھوجنے نکلے۔ اوم پوری نے 70سے زائد بالی ووڈ فلموں سمیت کئی ہالی ووڈ فلموں میں بھی کا م کیا اور ٹی وی سیریلز ڈراموں میں بھی اپنی اداکاری کے خوب جوہر دکھائے، اس کے علاوہ انھوں نےپاکستانی اور برطانوی فلموں میں بھی کام کیا۔ اوم پوری نے اداکاری کا آغاز 1970 کی دہائی میں ایک مراٹھی فلم سے شروع کیا لیکن ان کو اپنی پہچان کرانےمیں دس سال لگے، 1980 میں بننے والی ایک فلم ’آکروش‘ نے انہیں عوام میں صیح طور پرمتعارف کروایا۔ پھر 1999 میں بننے والی ایک فلم ’ایسٹ از ایسٹ‘جس میں انہوں نے ایک پاکستانی ’جارج خان‘ کا کردار ادا کیا تھا ان کو بین الاقوامی دنیا میں روشناس کرایا۔
وزیراعظم نوازشریف نے اوم پوری کے انتقال پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اوم پوری نے اپنی قدرتی قابلیت سے بھارتی سینما کی قدرکو بڑھایاجبکہ کئی پاکستانی فلموں میں بھی اپنی بھرپور پرفارمنس دی‘۔ وزیر اعظم نوازشریف کا مزید کہنا تھاکہ ’اوم پوری ایک ایسے فنکار تھے جو پاک بھارت ثقافتی تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار اداکرتے رہے ہیں، وہ امن دشمنوں کے دباو میں آنے سے انکار کردیتے تھے‘۔ میرئے خیال میں ایسا کہنا بلکل غلط ہے جیسا کہ اوم پوری کی موت کے بعد کہاجارہا ہے کہ وہ ہمیشہ سے پاکستان کی حمایت کرتے تھے۔ کیونکہ اوم پوری بھارت کی کچھ ایسی فلموں میں بھی کام کرچکے ہیں جو پاکستان مخالف تھیں۔ اوم پوری کچھ سال پہلے پاکستان آئے اور یہاں اپنی مہمان نوازی اور پاکستانیوں سے بات چیت کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی آئی۔وہ مارچ 2014 میں پاکستان آئےتو اپنےدورئے کے دوران اتوار 16 مارچ 2014 کو لاہور پریس کلب میں ’میٹ دی پریس‘ میں انہوں نے خود اعتراف کیا کہ ان کو پاکستان مخالف فلموں میں کام کرنے پر افسوس ہے اورآئندہ وہ کسی پاکستان مخالف فلم میں کام نہیں کرینگے بلکہ انہوں نے بھارتی حکومت سے اپیل بھی کی کہ وہ پاکستان مخالف فلموں پر پابندی لگا دئے۔لیکن ابھی پرانا نشہ مکمل ختم نہیں ہوا تھا لہذا اسی پریس کانفرنس میں بھارتی لیجنڈ اداکار اوم پوری نے ایک بہت ہی منجھا ہوا سیاسی سوال کیا کہ ’’اگربرلن اپنی دیواریں گراسکتا ہے، یورپ ایک ہوسکتا ہےتو پاکستان اور بھارت ایک کیوں نہیں ہو سکتے؟‘‘۔اوم پوری کے سامنے پورا پاکستانی میڈیا بیٹھا ہوا تھا اورجو شاید اس سوال کے بعد یہ سوچ رہا تھا کہ ہم تو اس اداکار سے فلمی دنیا سےجڑے ہوئے سوال پوچھنے آئے تھےلیکن یہ ہم سے ایسا سوال کررہا ہے جو کسی اداکار کا تو ہرگز نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ ایک مخصوص ذہنیت کے حامل سیاستدان کا بیان ہی کہلائے گا۔
بھارتی اداکار اوم پوری مارچ 2014 میں پاکستان آنے سے کچھ عرصے قبل مشہور بھارتی اداکار شاہ رخ خان کے ساتھ برلن میں رہ کر آئے تھے اور شاید وہ دیوار برلن کے گرائے جانے پر خوش تھے، اس لیے بغیر سیاق و سباق جانے انہوں نے دیوار برلن اور ہندوپاک تعلقات کو ایک ہی مسلہ خیال کرکے یہ سوال کیا تھا، انکا سوال سفارتی آداب کے بھی خلاف تھا، لیکن حکومت پاکستان نے ان کے اس سوال کو درگزر کردیا۔ اس سوال کا جواب یہ تھا پاکستان اور ہندوستان کی سرحدوں کو دیوار برلن سے مشہابت نہیں دی جاسکتی، کیونکہ دیوار برلن ایک ہی قوم اور ایک ہی مذہب کے لوگوں کی تقسیم تھی اور یہ دیواربرلن کے رہنے والوں کی مرضی کے خلاف بنائی گی تھی۔ جبکہ پاکستان جو جمہوری طریقے سے عمل میں آیا اُس میں ہندوستان کے عام لوگوں کی مرضی شامل تھی اور خاصکر ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی مرضی شامل تھی، اس لیے اب پاکستان اور بھارت کا ایک ہونا ناممکن ہے بلکہ ایسا سوچنا بھی غلط ہے۔بھارتی اداکار نے اسی کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ، ’’کچھ لوگ نفرتیں پھیلارہے ہیں اور ان کی تعداد اقلیت میں ہے اس کو کنٹرول کرنا کسی ایک شخص کے بس کی بات نہیں بلکہ حکمرانوں کا کام ہے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ایسے عناصر کو کنٹرول کریں‘‘۔
اوم پوری نے کئی بار پاکستان کے دورے کیے اور انکی سوچ میں ایک بڑی تبدیلی نظر آئی۔ اپنی سوچ میں تبدیلی کے بعد انہوں نے پاکستانی فنکاروں کے حق میں کئی دفعہ بیانات بھی دیئے جو بھارتی انتہاپسندوں کو بہت برئے لگے لیکن انہوں نے پاکستان کی حمایت جاری رکھی۔ اوم پوری نے بھارت میں پاکستان سے محبت کا اظہارکرکےنفرت کے پجاریوں پر وار کیا تھا، گاو ماتا کے بہانے بھارتی انتہا پسندوں کے مسلمانوں پر ہونے والےظلم پر تنقید نےانہیں انتہا پسندوں کی آنکھوں کا کانٹا بنادیا تھا۔بھارت کے جھوٹے سرجیکل اسٹرائیک کے بعد انہوں نے کھل کر پاکستان کے حق میں بیان دیا تھا تو اوم پوری کو بھارتی میڈیا اور عوام کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ بھارت کے وہ بڑئے مسلم اداکار جن کے ناموں کے ساتھ ’خان‘ کا تغرالگا ہوا ہے اور جن کی بیویاں مسلمان نہیں ہیں اور جن کے بچوں کے نام میں ایسی کوئی پہچان نہیں کہ کوئی انہیں مسلمان سمجھے ان میں سے کبھی بھی کسی کویہ توفیق نہیں ہوئی کہ کسی جائز بات پر بھی پاکستان کی حمایت کریں۔ اوم پوری نے اڑی کے واقعہ کے بعد ہونے والے پاک بھارت اختلاف پرمیڈیا پر آکر سچ بول دیا جو بھارتیوں کو بالکل برداشت نہیں ہوسکا۔ اوم پوری دنیا سے جاتے جاتے ایک نفرت زدہ معاشرئے میں جوبھارتی اور پاکستانی شدت پسندوں اورنفرت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہےاس میں اپنے حصہ کی شمع محبت جلا کر چلے گئے۔
انڈین اداکار انوپم کھیر جسکا لگاو بھارت کی حکمراں جنتا پارٹی اور بھارتی انتہا پسندوں کے ساتھ ہے اور جس کی بیوی بھارتی پارلیمنٹ میں بی جے پی کی ممبر ہے اس نے پاکستانی اداکاروں کی حمایت کرنے پر اوم پوری کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا، آج اپنی ٹوئٹ میں کہہ رہا ہے کہ اوم پوری ان کے لیے ہمیشہ ایک بہترین اداکاراورسخی انسان ہی رہیں گے۔ اوم پوری کو میں ایک اچھے اداکار کے طور پر جانتا تھا لیکن گذشتہ تین سال سے ان کو ایک اچھے پاکستانی دوست کی حیثیت سے جانتا ہوں۔ یقیناً پاکستان کے عوام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ لیجنڈ اداکار اوم پوری ایک عظیم اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کے ایک اچھے دوست تھے۔ وہ اپنے عمل سے پاکستانی اور بھارتی حکمرانوں کو یہ پیغام دئے گئے ہیں کہ بھارت اور پاکستان بغیر امن قائم کیے ہوئے اپنے عوام کی بھلا ئی میں کچھ نہیں کرسکتے، اور امن قائم کرنے کےلیے آپس کے مسائل کا حل ہونا بہت ضروری ہے،بھارت اور پاکستان کا سب سے بڑا مسلہ کشمیر پر بھارت کا ناجائز قبضہ ہے، بھارتی حکمراں جانتے ہیں کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ الحاق نہیں کرنا چاہتے تو پھر بہتر ہوگا کہ بھارت اس مسلہ کو ختم کرنے کےلیے کشمیر پر بھارت کا ناجائز قبضہ ختم کرئے، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اوم پوری کابھی امن کا خواب پورا ہوگا۔ پاکستان کے عوام اوم پوری کو ایک اچھے اداکار کے علاوہ ایک انصاف پسندانسان سمجھتے ہیں۔ اورانھیں ایسے ہی یاد رکھنا چاہیے۔
وزیراعظم نوازشریف نے اوم پوری کے انتقال پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اوم پوری نے اپنی قدرتی قابلیت سے بھارتی سینما کی قدرکو بڑھایاجبکہ کئی پاکستانی فلموں میں بھی اپنی بھرپور پرفارمنس دی‘۔ وزیر اعظم نوازشریف کا مزید کہنا تھاکہ ’اوم پوری ایک ایسے فنکار تھے جو پاک بھارت ثقافتی تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار اداکرتے رہے ہیں، وہ امن دشمنوں کے دباو میں آنے سے انکار کردیتے تھے‘۔ میرئے خیال میں ایسا کہنا بلکل غلط ہے جیسا کہ اوم پوری کی موت کے بعد کہاجارہا ہے کہ وہ ہمیشہ سے پاکستان کی حمایت کرتے تھے۔ کیونکہ اوم پوری بھارت کی کچھ ایسی فلموں میں بھی کام کرچکے ہیں جو پاکستان مخالف تھیں۔ اوم پوری کچھ سال پہلے پاکستان آئے اور یہاں اپنی مہمان نوازی اور پاکستانیوں سے بات چیت کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی آئی۔وہ مارچ 2014 میں پاکستان آئےتو اپنےدورئے کے دوران اتوار 16 مارچ 2014 کو لاہور پریس کلب میں ’میٹ دی پریس‘ میں انہوں نے خود اعتراف کیا کہ ان کو پاکستان مخالف فلموں میں کام کرنے پر افسوس ہے اورآئندہ وہ کسی پاکستان مخالف فلم میں کام نہیں کرینگے بلکہ انہوں نے بھارتی حکومت سے اپیل بھی کی کہ وہ پاکستان مخالف فلموں پر پابندی لگا دئے۔لیکن ابھی پرانا نشہ مکمل ختم نہیں ہوا تھا لہذا اسی پریس کانفرنس میں بھارتی لیجنڈ اداکار اوم پوری نے ایک بہت ہی منجھا ہوا سیاسی سوال کیا کہ ’’اگربرلن اپنی دیواریں گراسکتا ہے، یورپ ایک ہوسکتا ہےتو پاکستان اور بھارت ایک کیوں نہیں ہو سکتے؟‘‘۔اوم پوری کے سامنے پورا پاکستانی میڈیا بیٹھا ہوا تھا اورجو شاید اس سوال کے بعد یہ سوچ رہا تھا کہ ہم تو اس اداکار سے فلمی دنیا سےجڑے ہوئے سوال پوچھنے آئے تھےلیکن یہ ہم سے ایسا سوال کررہا ہے جو کسی اداکار کا تو ہرگز نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ ایک مخصوص ذہنیت کے حامل سیاستدان کا بیان ہی کہلائے گا۔
بھارتی اداکار اوم پوری مارچ 2014 میں پاکستان آنے سے کچھ عرصے قبل مشہور بھارتی اداکار شاہ رخ خان کے ساتھ برلن میں رہ کر آئے تھے اور شاید وہ دیوار برلن کے گرائے جانے پر خوش تھے، اس لیے بغیر سیاق و سباق جانے انہوں نے دیوار برلن اور ہندوپاک تعلقات کو ایک ہی مسلہ خیال کرکے یہ سوال کیا تھا، انکا سوال سفارتی آداب کے بھی خلاف تھا، لیکن حکومت پاکستان نے ان کے اس سوال کو درگزر کردیا۔ اس سوال کا جواب یہ تھا پاکستان اور ہندوستان کی سرحدوں کو دیوار برلن سے مشہابت نہیں دی جاسکتی، کیونکہ دیوار برلن ایک ہی قوم اور ایک ہی مذہب کے لوگوں کی تقسیم تھی اور یہ دیواربرلن کے رہنے والوں کی مرضی کے خلاف بنائی گی تھی۔ جبکہ پاکستان جو جمہوری طریقے سے عمل میں آیا اُس میں ہندوستان کے عام لوگوں کی مرضی شامل تھی اور خاصکر ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی مرضی شامل تھی، اس لیے اب پاکستان اور بھارت کا ایک ہونا ناممکن ہے بلکہ ایسا سوچنا بھی غلط ہے۔بھارتی اداکار نے اسی کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ، ’’کچھ لوگ نفرتیں پھیلارہے ہیں اور ان کی تعداد اقلیت میں ہے اس کو کنٹرول کرنا کسی ایک شخص کے بس کی بات نہیں بلکہ حکمرانوں کا کام ہے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ایسے عناصر کو کنٹرول کریں‘‘۔
اوم پوری نے کئی بار پاکستان کے دورے کیے اور انکی سوچ میں ایک بڑی تبدیلی نظر آئی۔ اپنی سوچ میں تبدیلی کے بعد انہوں نے پاکستانی فنکاروں کے حق میں کئی دفعہ بیانات بھی دیئے جو بھارتی انتہاپسندوں کو بہت برئے لگے لیکن انہوں نے پاکستان کی حمایت جاری رکھی۔ اوم پوری نے بھارت میں پاکستان سے محبت کا اظہارکرکےنفرت کے پجاریوں پر وار کیا تھا، گاو ماتا کے بہانے بھارتی انتہا پسندوں کے مسلمانوں پر ہونے والےظلم پر تنقید نےانہیں انتہا پسندوں کی آنکھوں کا کانٹا بنادیا تھا۔بھارت کے جھوٹے سرجیکل اسٹرائیک کے بعد انہوں نے کھل کر پاکستان کے حق میں بیان دیا تھا تو اوم پوری کو بھارتی میڈیا اور عوام کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ بھارت کے وہ بڑئے مسلم اداکار جن کے ناموں کے ساتھ ’خان‘ کا تغرالگا ہوا ہے اور جن کی بیویاں مسلمان نہیں ہیں اور جن کے بچوں کے نام میں ایسی کوئی پہچان نہیں کہ کوئی انہیں مسلمان سمجھے ان میں سے کبھی بھی کسی کویہ توفیق نہیں ہوئی کہ کسی جائز بات پر بھی پاکستان کی حمایت کریں۔ اوم پوری نے اڑی کے واقعہ کے بعد ہونے والے پاک بھارت اختلاف پرمیڈیا پر آکر سچ بول دیا جو بھارتیوں کو بالکل برداشت نہیں ہوسکا۔ اوم پوری دنیا سے جاتے جاتے ایک نفرت زدہ معاشرئے میں جوبھارتی اور پاکستانی شدت پسندوں اورنفرت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہےاس میں اپنے حصہ کی شمع محبت جلا کر چلے گئے۔
انڈین اداکار انوپم کھیر جسکا لگاو بھارت کی حکمراں جنتا پارٹی اور بھارتی انتہا پسندوں کے ساتھ ہے اور جس کی بیوی بھارتی پارلیمنٹ میں بی جے پی کی ممبر ہے اس نے پاکستانی اداکاروں کی حمایت کرنے پر اوم پوری کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا، آج اپنی ٹوئٹ میں کہہ رہا ہے کہ اوم پوری ان کے لیے ہمیشہ ایک بہترین اداکاراورسخی انسان ہی رہیں گے۔ اوم پوری کو میں ایک اچھے اداکار کے طور پر جانتا تھا لیکن گذشتہ تین سال سے ان کو ایک اچھے پاکستانی دوست کی حیثیت سے جانتا ہوں۔ یقیناً پاکستان کے عوام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ لیجنڈ اداکار اوم پوری ایک عظیم اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کے ایک اچھے دوست تھے۔ وہ اپنے عمل سے پاکستانی اور بھارتی حکمرانوں کو یہ پیغام دئے گئے ہیں کہ بھارت اور پاکستان بغیر امن قائم کیے ہوئے اپنے عوام کی بھلا ئی میں کچھ نہیں کرسکتے، اور امن قائم کرنے کےلیے آپس کے مسائل کا حل ہونا بہت ضروری ہے،بھارت اور پاکستان کا سب سے بڑا مسلہ کشمیر پر بھارت کا ناجائز قبضہ ہے، بھارتی حکمراں جانتے ہیں کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ الحاق نہیں کرنا چاہتے تو پھر بہتر ہوگا کہ بھارت اس مسلہ کو ختم کرنے کےلیے کشمیر پر بھارت کا ناجائز قبضہ ختم کرئے، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اوم پوری کابھی امن کا خواب پورا ہوگا۔ پاکستان کے عوام اوم پوری کو ایک اچھے اداکار کے علاوہ ایک انصاف پسندانسان سمجھتے ہیں۔ اورانھیں ایسے ہی یاد رکھنا چاہیے۔