ربیع م
محفلین
بھارتی پنجاب میں بے چینی کیوں ہے؟
سنگھ جو کہ تین بچوں کے باپ ہیں، بھارت کی جنوبی ریاست پنجاب کے گاؤں بارگری میں سکھوں کی مذہبی کتاب ’سری گروگرنتھ صاحب‘ کی بے حرمتی کے خلاف مظاہرے میں شریک تھے کہ پولیس نے فائرنگ شروع کردی۔
سنگھ کے ضعیف والد غم سے نڈھال ہونے کے باوجود یہ کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں کہ ’ان کا بیٹا سکھ مذہب کی حفاطت کرتے ہوئے شہید ہوا ہے۔‘
سکھوں کے چھ دیگر گردواروں سے ان کی مقدس کتاب کے پھٹے ہوئے نسخوں کا ملنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب سکھوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے ایک سوچے سجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔
اس واقعے کے بعد پنجاب کے کئی مشتعل سکھ گروہوں نے وسیع پیمانے پر احتجاج شروع کردیا ہے، جس میں مظاہرے، سڑکیں بند کرنا اور دھرنے شامل ہیں۔
بھارت کے سکھ پہلے ہی مقامی جماعت کے مقبول رہنما گرمیت رام سنگھ کو معافی دینے پر ناراض ہیں جن پر سکھوں کے انتہائی قابل احترام گرو میں سے ایک کی تضحیک کرنے کا الزام ہے۔
بہت سے سکھوں کی خواہش تھی کہ گرمیت سنگھ ان سے معافی مانگیں، جو سکھوں کے دس اہم گرووں میں آخری گروگوبند سنگھ کی طرح کا لباس پہن کر اس کی کی تشہیر کرتے رہے ہیں۔
تب سے اس مسئلے کو عدالتوں میں گھسیٹا جارہا ہے لیکن گذشتہ ستمبر میں اچانک ہی سکھوں کی مذہبی جماعت اکال تخت نے سنگھ کو معاف کردیا۔
بھارتی پنجاب اور اس سے باہر رہنے والے سکھوں نے پانچ رکنی اکال تخت پر سکھوں کو دھوکہ دینے کا الزام لگایا ہے۔ اکال تخت نے گو کہ بعد میں معافی کا فیصلہ واپس لے لیا لیکن اس وقت تک سکھوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ چکی تھی۔
سکھوں کی ممتاز شخصیات کا خیال یہ بھی ہے کہ ان کی برادری کے بڑھتے ہوئے غصے کی وجہ کچھ اور ہی ہے۔
کرنجیت کور سکھوں کے گردواروں کے امور دیکھنے والی کمیٹی ایس پی جی سی کی رکن ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ حالیہ واقعات سکھوں کے جزبات بھڑکانے کی وجہ ہوں لیکن اس کے پیچھے دراصل ’ریاست کی موجودہ حکمران جماعتوں اکالی دل پارٹی اور بی جے پی سے پرانی مایوسی‘ کا اظہار ہے۔
کرنجیت کور نے دعویٰ کیا کہ ’موجودہ حکومت ریاست میں معاشی اور سماجی مسائل حل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے سکھ برادری میں بدنام ہوچکی ہے۔‘
پنجاب بنیادی طورپر ایک زرعی ریاست ہے لیکن اس کے کسان خراب معاشی حالات کا شکار ہیں۔
کھاد اور بیج کی قیمتیں بڑھ گئیں ہیں۔ کھیت چھوٹے ہوتے جارہے ہیں اور زرعی پیداوار کی قیمتیں نیچےگر چکی ہیں۔
ان حالات کی وجہ سے کپاس، گنا اور چاول کاشت کرنے والے کسان گذشتہ دو ماہ سے منظم مظاہرے بھی کر رہے ہیں اور مایوس کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔
گذشتہ ماہ امرتسر کے نزدیک رہنے والے کسان بلوندر سنگھ نے اپنے چاولوں کی صحیح قیمت نہ ملنے پر خودکشی کرلی۔ وہ اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے۔
بلوندر کے نوجوان بیٹے لوپریت سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ پڑھائی ختم کرنے کے بعد اپنے والد کا پیشہ اختیار نہیں کریں گے کیونکہ ’کھیتی باڑی اب ایک نفع بخش پیشہ نہیں رہا۔‘
ایک زمانے میں پنجاب کا شمار بھارت کی دوسری خوشحال ریاست میں ہوتا تھا لیکن اب اس کی معیشت سست روی کا شکار ہے اور فی کس آمدنی میں اس کا نمبر دیگر دس ریاستوں سے بھی نیچے ہے۔
بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے، اور ریاست کو اس کے نوجوانوں میں منشیات کی بڑھتی ہوئی وبا سے بھی مقابلہ کرنا ہے۔
سکھوں کی مذہبی جماعتوں ایس جی پی سی اور اکال تخت پر اکثر سیاست میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتاہے۔
سکھ موجودہ حکومت پر ان کی مذہبی جماعتوں کے کام میں دخل اندازی کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ بہت سے سکھوں کا خیال ہے کہ گرمیت رام سنگھ کو حکومت کے دباؤ پر معافی دی گئی لیکن حکومت اس الزام کی سختی سے تردید کرتی ہے۔
تاہم کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سکھوں کے اس موجودہ بحران کی اہم وجہ سکھوں کے مذہبی ادارے ہیں۔
سکھوں کے مقامی مذہبی رہنما کیول سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ایس جی پی سی حکومت کا موقف پیش کررہی ہے جبکہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اکال تخت ہے جو ریاست کی حکمران جماعت ا کالی دل کے آگے سر تسلیم خم کرچکی ہے۔‘
کچھ لوگ اس تنازعے کو سیاسی جماعت ا کالی دل اور دنیا بھر میں سکھوں کی بااثر شخصیات کے درمیان طاقت کی جنگ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ س ریاست کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سکھوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کے پیچھے کوئی باہر کا ہاتھ ملوث ہے۔ باہر کے ہاتھ سے حکومت کا اشارہ دراصل بھارت سے باہر رہنے والی سکھ کمیونٹی کی طرف ہے۔
الزام درالزام کی سیاست سے سکھوں کی ان نمائندہ جماعتوں کے درمیان محض بحران کو مزید بڑھنے میں مدد ملی ہے جبکہ اصلاحات کے لیے آوازیں بھی بلند ہورہی ہیں۔
واضح طور پر اس وقت پنجاب کو اپنا کھویا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنی سیاست، معاشیات اور مذہبی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔