16 دسمبر ، 2019
نصرت امین
کیا ہندوستانی مسلمانوں کو سمجھنا اتنا مشکل ہے؟
خیا ل رہے کہ یہ مضمون کسی طور مسلمانوں کی تعریف یا اِن کے یکطرفہ مفاد میں نہیں لکھا گیا ہے۔ اِس تحریرکا مقصد صرف مودی حکومت اور اس کے انتہا پسند حامیوں کو تاریخی تناظر میں دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والی مسلم آبادیوں کے عمومی سیاسی و سماجی روّیئے، رجحانات اور ان کی اجتماعی نفسیات یاد دلانا ہے جن میں اِ ن کمیونی ٹیز کا جبر کے خلاف عمومی رد عمل اور طاقتوردشمن سے نمٹنے کا طریقہ کار سر فہرست ہے۔
اگرچہ بھارتی حکومت کے تازہ اقدامات سے لگتا ہے کہ و ہ اِن تاریخی حقائق سے اچھی طرح واقف ہے، لگتا ہے کہ اقتدار کی طاقت کے سُرور میں وہ اصل نتائج سے سبق سیکھنے کے بجائے انتہا درجے کی لا پرواہی کا مظاہرہ کررہی ہے۔
یہاں یہ سچائی بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ مودی حکومت کے مسلم دشمن اقدامات کے پس منظر میں کم و بیش ایک ہزار سال تک ہندوستان پر راج کرنے والے زیادہ تر مسلم حکمرانوں کے غیر منصفانہ روئیے سے لیکر، کارگل تک کے واقعات کارفرما ہوسکتے ہیں ۔۔۔ اور نہیں بھی ہوسکتے اور اگر بی جے پی کا یہ سارا ظلم و ستم مسلمانوں کے خلاف تاریخی انتقام نہیں بھی ہے، تب بھی یہ برسر اقتدار جماعت، نتائج سے بے خبر، تاریخی ردّ عمل کی یہ نفسیات اپنے اقتدارکو مضبوط تر بنانے کے لیے یقیناًکامیابی سے استعمال کررہی ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں نے تقسیم کے وقت بنیادی طور پر دو وجوہات کے تحت پاکستان ہجرت کی تھی؛ پہلی وجہ تھی خود کو، اپنے عقائد سمیت، غیر مسلم اکثریتی علاقوں میں انتہائی غیر محفوظ پاکر مسلم اکثریتی آبادیوں میں جابسنا اور دوسری وجہ تھے تعلیم، تجارت اور شہریت کے مساوی مواقعے۔
وسطی ایشیا، مشرق وسطی اور ہندوستان میں بسنے والی کم و بیش تمام مسلم کمیونی ٹیز کی تاریخ عمومی طور پر طاقتور دشمن کے خلاف کامیاب مسلح یا نظریاتی مزاحمت، بڑے پیمانے پر ہجرت، یلغار و حملہ (صحیح یا غلط) اور بغاوت سے جڑے واقعات پر مبنی ہے۔ مسلح مزاحمت یا جنگوں سے قطعہ نظر، جس طرح ضرورت پڑنے پر 1947میں تقسیم کے بعد بھارتی صوبوں میں بسے مسلمانوں نے پاکستان کی جانب سب سے بڑی ہجرت کرنے کی تاریخ بھی رقم کرڈالی تھی، اِسی طرح مودی حکومت کے پے در پے عاقبت نا اندیش اقدامات کے تناظر میں یہ امکان بڑھتا جارہا ہے کہ یوپی، بیہار، سی پی، راجھستان، گجرات، بنگال اور دیگر بھارتی صوبوں کے بے بس مسلمان ملک کے بالائی شمال مغربی علاقوں کی جانب ایک اور بڑی ہجرت کرکے موجودہ ہندوستان کے اندرونی لسانی و مذہبی خدوخال بدل ڈالیں۔یہ مذاق نہیں بلکہ تاریخی تناظر میں، اِس صورتحال کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں۔
اِس حوالے سے ماہ اگست میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے تحت جموں وکشمیر کو حاصل خاص حیثیت کے خاتمے کے بعد تارکین وطن کی شہریت سے متعلق متنازع بل کا پیش کیا جانا ایک انتہائی متوقع پیش رفت ہے۔ کیوں کہ ماضی کے برعکس، اب بھارت بھر میں بسے مسلمانوں کے لیے ملک میں پہلی بارکشمیر کی صورت میں ایک مسلم اکثریتی صوبہ موجود ہے جہاں وہ بڑے پیمانے پر ہجرت کرکے مستقل سکونت اختیار کرسکتے ہیں۔
اس وضاحت سے قبل کہ شہریت سے متعلق یہ متنازع بل متوقع کیوں تھا، یہ بیان کردینا ضروری ہے کہ اس نئے بل کے تحت بنگلادیش، پاکستان اور افغانستان سے ہندوستان آنے والے ہندو، بودھ، جین، سکھ، مسیحی اور پارسی مذاہب سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کی تجویز پیش گئی ہے۔ یہ بل در اصل ملتی جلتی نوعیت کے ایک اور بھارتی قانون کی مجوزہ ترمیم ہے جو 1955میں نافذ کیا گیا تھا۔ موجودہ بل سال 2016 میں بھی پیش کیا جاچکا ہے لیکن چند ناگزیر وجوہات کے تحت معاملہ آگے نہیں بڑھ پایا تھا۔ اس بل پر اعتراض یہ ہے کہ تارکین وطن کی فہرست میں مسلم کمیونٹی شامل نہیں ہے۔ لہٰذا یہ بل بھارتی ایوان زیریں اور بالا سے منظوری کے باجود دنیا بھر کے مبصرین کے لیے متنازع بن گیا ہے۔
رہا سوال کہ بھارتی مسلمانوں کے ملک کے بالائی شمال مغربی حصوں میں ہجرت کے امکانات کیوں بڑھتے جارہے ہیں، اس کا جواب انتہائی سادہ ہے۔
یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ بالائی شمال مغربی ہند کے کم و بیش پورے خطے میں مسلم آبادی نہ صرف غیر مسلم آبادی کے برابر یا اس سے تجاوز کر سکتی ہے بلکہ ان علاقوں کے پاکستان سے جڑے ہونے کے سبب آزادی کی کسی نئی تحریک کے آغاز کا بھی سبب بن سکتی ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں نے تقسیم کے وقت بنیادی طور پر دو وجوہات کے تحت پاکستان ہجرت کی تھی؛ پہلی وجہ تھی خود کو، اپنے عقائد سمیت، غیر مسلم اکثریتی علاقوں میں انتہائی غیر محفوظ پاکر مسلم اکثریتی آبادیوں میں جابسنا اور دوسری وجہ تھے تعلیم، تجارت اور شہریت کے مساوی مواقعے۔
اب آرٹیکل 370 کی تنسیخ بعد، نئے بھارتی قانون کے تحت، جموں وکشمیر بھارت کی وہ واحد یونین ہے جہاں مقامی مسلم آج بھی بھاری اکثریت میں ہیں، سو اب خاص طور پر یوپی، بیہار، سی پی، گجرات اور دیگر بھارتی ریاستوں اور یونینز میں ہندو توا کے زیر عتاب مسلم آبادیوں کے بڑے پیمانے پر جموں و کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں ہجرت کرکے سکونت اختیار کرنے کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں۔
خیال ہے کہ ایسی صورتحال میں انتہا پسند بی جے پی کو یہ خدشہ لاحق رہا ہے کہ ایک جانب کشمیر میں مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں بدلنا نا ممکن ہوسکتا ہے اوردوسری جانب مسلمانوں کی اس ممکنہ اورغیر معمولی ہجرت سے جموں و کشمیر کے آس پاس واقع بھارتی علاقوں کی غیر مسلم اکثریت دیکھتے ہی دیکھتے اقلیت میں بدل سکتی ہے۔ مٹ جانے کے خوف میں مبتلا انتہا پسندوں کا یہ احمقانہ خدشہ بھی سامنے آیا کہ آزاد کشمیر، بنگلا دیش، پاکستان اور افغانستان سے بڑے پیمانے پر ہجرت متوقع ہے اورایسی صورت میں ہندوستان ہجرت کرنے والے مسلمان جموں وکشمیر یا ملحقہ علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کرکے بالائی شمال مغربی ہندوستان میں نئے سر ے سے لسانی و مذہبی خد وخال (Ethno-Religious Demography) مرتب کر سکتے ہیں۔
لہذا یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ بالائی شمال مغربی ہند کے کم و بیش پورے خطے میں مسلم آبادی نہ صرف غیر مسلم آبادی کے برابر یا اس سے تجاوز کر سکتی ہے بلکہ ان علاقوں کے پاکستان سے جڑے ہونے کے سبب آزادی کی کسی نئی تحریک کے آغاز کا بھی سبب بن سکتی ہے۔ یہ خدشہ بھی سروں پر منڈلا تا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر ہجرت کرکے آنے والے یہ مسلم شہری بھارتی شہریت حاصل کرنے کے بعد، نئے بھارتی قانون کے تحت، جموں وکشمیر میں جائیدادوں کے مالک بھی بن سکتے ہیں۔ اِن تمام خدشات کو ہمیشہ کے لیے دور کرنا مودی حکومت کے لیے ایک سیاسی ضرورت بن گیا تھا، لہٰذا شہریت سے متعلق اس بل کا پیش ہونا اب ناگزیر تھا۔
تاریخ اور تازہ حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو غیر بھارتی مسلمانوں کو شہریت اور ویزا نہ دینا، کوئی دو دہائیوں سے بھارتی حکومتوں کی روایت بنا ہوا ہے۔ پاکستانی نژاد کینیڈین حضرت طارق فتح آخری خبریں آنے تک بھارتی میڈیا پر پاکستان سے اپنی تمام تر نفرت کے مسلسل اظہار کے باجود، بھارتی شہریت حاصل نہیں کرسکے تھے۔ خیال ہے کہ تمام پاکستانیوں اور تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے والے طارق فتح کو بھارتی شہریت کے حصول میں دشواری اس لیے بھی اٹھانا پڑرہی ہے کہ وہ بنیادی طور پرایک ایسے پاکستانی مسلمان ہیں جن کے پاس کینیڈین پاسپورٹ بھی ہے۔
بھارت کی ایک غیر اعلانیہ پالیسی کے تحت، کسی بھی کینیڈین نیشنل پاکستانی مسلمان کے لیے بھارتی شہریت تو کُجا، بھارتی ویزے کا حصول بھی کم و بیش ناممکن ہے۔ ٹورنٹو میں مقیم پاکستانی نژاد بہت سے کینیڈین شہری اس پریشانی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی نژاد کینیڈین مسلم درخواست گزاروں کو انڈین ہائی کمیشن میں تلقین کی جاتی رہی ہے کہ اگر وہ پاکستانی شہریت سے دستبردار ہوجائیں تو انہیں بھارتی ویزا جاری کیا جاسکتا ہے۔
اِس سال اگست میں آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد وادی کی آسیب زدہ صورتحال پر مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے معروف اسلامی اسکالر محمد سخی خان راٹھور سے رابطہ رہا، انہوں نے بارہا گفتگو میں حالات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ شہریت سے متعلق بل پیش ہونے پر ان سے ایک بار پھر رابطہ ہوا، تو ا ن کا کہنا تھا کہ درحقیقت مودی راج میں اب تک جو کچھ بھی ہوا ہے وہ سب غیر آئینی ہے۔ انہوں کہا کہ اُنہیں ہندوستان سے پناہ محبت ہے کیوں کہ یہ غریب نواز کا ہندوستان ہے۔ ”حالات کتنے ہی کٹھن ہوں۔۔۔ ہم (کشمیری اور ہندوستانی مسلمان) اپنی جگہ مکمل وکامل ہیں۔ میں فی الحال خود کوئی مضمون لکھنے سے قاصر ہوں لیکن دعا ہے کہ حق کہنے اور لکھنے والے تا قیامت سلامت رہیں۔“
ہندوستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر مسلم تارکین وطن کی شہریت سے متعلق یہ مذکورہ بل کی بھارت کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا اور
ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا سے اس بل کی منظوری شمالی بھارت میں مودی راج کے زیر سایہ شدت اختیار کرتی ہوئی ’ہندو توائی فضا‘ کا نتیجہ ہے۔ بے جی پی بلاشبہ برسر اقتدار ہونے کے ساتھ ساتھ آج بھی ہندوستان کی سب سے طاقتور جماعت ہے، لہذا مذکورہ بل کا ایوان بالا میں بھی منظور ہوجانا، دنیا کے لیے کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ البتہ مہاراشٹرا کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی غیر متوقع شکست، ایک نئے سیاسی منظرنامے کی شروعات قرار دی جارہی ہے۔