ناصر علی مرزا
معطل
بھارت کا اصل روپ مرحوم ظہیر الاسلام عباسی کی نظر میں
ربط
Major General Zahirul Islam Abbasi (12 January 1943 – 30 July 2009), was a former commander and officer of the Pakistani Army and the Inter-Services Intelligence agency of the Pakistani Armed Forces. Serving in the Siachen region of the disputed territory of Kashmir, Abbasi planned and executed assaults on posts occupied by the Indian Army. Abbasi was accused and convicted for a period of 7 years for being party to a coup d'état against the civilian government of Benazir Bhutto in 1995 while he was still a serving Major General in Pakistan Army. No political party was linked to this coup attempt as determined by the courts.
میں بھارت میں رہا ہوں اور اِنکی ذہنیت اور تاریخ سے بخوبی آگاہ ہوں۔ بھارت ماتا کی قیامِ پاکستان کی شکل میں تقسیم بظاہر سیکولر کہلانے والے درپردہ ہندو ریاست کو آج تک ہضم نہیں ہوئی۔ وہ پاکستان کو ختم کرکے اکھنڈ بھارت کا مذہبی فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔ کانگریس نرم ہندوتوا اور بی جے پی سمیت انتہاءپسند مسلم دشمن ہندو جماعتیں گرم ہندوتوا پر عمل پیرا ہیں۔ ”را“ کی بنیاد رکھنے کے 3 سال بعد ہی اندرا گاندھی نے ”آپریشن بنگلہ دیش“ مکمل کرلیا تھا اور نئی دلی کے گراﺅنڈ میں جلسہ عام میں کہا تھا کہ ”آج بھارت کی ایک ناری نے مسلمانوں سے ایک ہزار سال کی ہزیمتوں کا بدلہ لے لیا ہے۔ ”را“ کے پاکستان دشمن عزائم اور حکمت عملی جاننے کےلئے بھارت ہی کے اشوکا رائنا کی کتاب ”اِن سائیڈ را“ کا مطالعہ کافی ہے۔ بھارت دوستی کےلئے تڑپنے والے پاکستانی حکمرانوں کو اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ بھارت کی فوج، را اور حکومت ”قریبی پڑوسی کبھی دوست نہیں ہوتا“ کے چانکیائی فلسفہ پر کاربند ہے۔ چانکیائی سیاسی فلاسفی کے بانی اور موریہ کے اہم وزیر چانکیہ کوٹلیہ کی جارحیت پسند پالیسی کے سبب موریہ سلطنت کی سرحدیں جنوبی ایشیا میں دور دور تک پھیل گئیں۔ چانکیائی اقوال نے بلا شبہ ہندو شدت پسندی میں اضافہ کیا۔
اس کا کہنا تھا کہ طاقت کی ہوس اور ہمسایہ ممالک کی فتح کے جذبے کو قائم و دائم رکھو، ہمسایہ ریاستوں کو ہمیشہ دشمن ریاستیں تصور کرو اور ان ہمسایہ ریاستوں کے پار کی حکومتوں سے ہمیشہ دوستی اور اشتراک عمل کے سلسلے کو آگے بڑھاﺅ تاکہ ریاست کی ہیبت قائم رہے۔ ضرورت پڑنے پر ہمسایوں سے دوستی کے جذبات محض ہمسایہ ریاستوں کو دھوکے میں رکھنے کےلئے استعمال کرو اور موقع ملتے ہی وار کرو۔ چانکیہ کے وچار نے آریا ہندو سماج میں ڈپلومیسی، چالاکی، فریب اور دھوکے کی سیاست کو فروغ دیا۔ جواہر لال نہرو بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ ”دنیا میں کوئی چیز ایسی نہ تھی جو چانکیہ اپنا مقصد حاصل کرنے کےلئے نہ کرسکتا ہو۔ وہ بالکل بے اصول آدمی تھا اور اپنے مقصد کی پیروی اور اس کے حصول میں اخلاقی اصول سے بے نیاز اور اپنے ارادے میں پختہ تھا، چانکیہ کا خیال تھا کہ اگر دشمن کو شکست دینے کےلئے فریب و ریاکاری اور تباہی و بربادی کے طریقوں سے کام لینا ضروری ہے تو ان سے یقینا کام لینا چاہئے“۔
بہت سارے پاکستانیوں کو یہ علم نہیں ہوگا کہ چانکیہ کون تھا اور چانکیائی سیاست کیا ہے۔ کسی زمانے میں چندرگپت موریہ ہندوستان پر حکومت کرتا تھا۔ اس کا ایک درباری ایک ہندو پنڈت چانکیا بھی تھا جس سے موریا کبھی کبھی صلاح مشورہ کیا کرتا تھا۔ ایک روز بادشاہ چند درباریوں کے ہمراہ شکار پر نکلا۔ رات ہوگئی تو ایک جنگل میں پڑاﺅ کیا۔ سپاہی خیمے لگانے اور کھانے پینے کے بندوبست میں مصروف تھے۔ چانکیا بھی ادھر ادھر آجارہا تھا کہ اسے ایک جھاڑی سے کانٹا چبھ گیا۔ کانٹے کا لگنا تھا کہ چانکیا غصے میں آپے سے باہر ہوگیا۔ ملازم سے کہا کہ ایک گلاس شربت لے آﺅ۔ نوکر سمجھا کہ پنڈت چانکیا کو کانٹے سے بہت تکلیف ہوئی ہوگی۔ وہ جلدی سے شربت کا گلاس لے آیا۔ چانکیا نے شربت کا ایک گھونٹ چکھا اور باقی شربت جھاڑی پر اور اس کی جڑوں میں انڈیل دیا۔ ملازم نے ہاتھ جوڑ کر پوچھا ”حضور کیا اس شربت میں کوئی خرابی تھی یا مجھ سے کوئی خطا ہوئی کہ آپ نے شراب گرا دیا“؟ چانکیا بولا ”اس کا جواب صبح دونگا“۔ دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کے کیڑے ہزاروں میں آئے اور صبح تک اس جھاڑی کو چٹ کرگئے۔
صبح، چندر گپت موریا نے حیرانی سے پوچھا، ”رات یہاں ایک اچھی خاصی جھاڑی تھی، اسے کیا ہوا“؟۔ چانکیا نے ہاتھ باندھ کر عرض کی ”حضور اس نے میرے ساتھ دشمنی کی تھی اور میں نے اس کا ایسا بندوبست کیا کہ اس کا نام و نشان ہی مٹا دیا اور پھر اسے بتایا کہ اس نے جھاڑی کو کیسے تباہ کیا“۔ چندر گپت اس کی سکیم سن کر بہت خوش ہوا اور اسے وزیر اعظم اور مشیر خاص کے عہدے پر ترقی دیدی۔ چونکہ ہندو دھرم میں کوئی صحیفہ یا آسمانی کتاب نہیں اسلئے وہ چانکیا کے بتائے ہوئے اصولوں پر آج بھی عمل کرتے ہیں۔ چانکیا نے اپنی مشہور تصنیف ارتھ شاستر میں ہندوﺅں کےلئے سیاسی فلسفہ کے بنیادی اصول انتہائی تفصیل سے بیان کئے ہیں اور آج بھی بھارت کے پورے سیاسی نظام کا ڈھانچہ جنگ اور امن دونوں صورتوں میں انہی اصولوں پر استوار ہے۔ چانکیا کا نظریہ حکومت میکاولی سے چنداں مختلف نہیں، وہ بھی اپنے پیروکاروں کو چالاک ، سازشی، کمینگی کی حد تک بدلہ لینے کے خواہش مند، ہر لمحہ اوچھے ہتھ کنڈوں اور بددیانتی سے دشمن کو مات دینے پر تیار اور اس ہنر میںطاق دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے سیاسی فلسفے کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ نتیجہ، طریقہ کار اور ذرائع کو جائز قرار دیتا ہے۔ بھارت نے بھی چانکیا کی معاندانہ سوچ کی روشنی میں اپنا ریاستی نظام وضع کیا ہے۔ یہ چانکیا ہی کی تعلیمات کا حصہ ہے کہ اپنے ہمسائے کو ہمیشہ اپنا دشمن سمجھو۔ پاکستان بھارت کا ہمسایہ ہے، چنانچہ چانکیا کے اقوال کی روشنی میں ہم کبھی بھارت کے دوست نہیں ہوسکتے۔
ہم پاکستانی، چاہے وردی میں ہوں یا سادہ لباس میں، پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی حدود کی پاسبانی ہمارا اولین منصب ہے چونکہ ہم ہمیشہ بھارت کی نظر میں اس کے اول درجے کے دشمن رہیں گے۔ اسلئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے وطن کےخلاف بھارت کی مذموم سرگرمیوں، سازشوں اور منصوبہ بندیوں کا منہ توڑ جواب دیں۔ آج ایک طرف بھارت افغانستان سے بلوچستان اور سرحد میں اپنے گوریلے اور تخریب کار بھیج رہا ہے تو دوسری طرف بغیر کسی تحقیق کے پاکستان بحریہ اور پاکستان کی پہلی دفاعی لائن آئی ایس آئی پر الزامات عائد کررہا ہے تو اس کےلئے بھارتی انتہاءپسند ہندوﺅں کے عزائم کو جاننا ہو گا۔ بھارت کا حاضر نوکری لیفٹیننٹ کرنل سری کانت پروہت کی گرفتاری کے بعد بھارتی فوج، سنگھ پریوار، آر ایس ایس اور دیگر ہندو دہشت گرد تنظیموں کے رابطے اور مشترکہ حکمت عملی تو اب آشکار ہوئی ہے لیکن ماتا کے نام پر افغانستان سے جرائر انڈیمان تک کے علاقے میں انتہاءپسند ہندوﺅں کے عزائم اور حکمت عملی برائے اکھنڈ بھارت جاننے کےلئے ڈاکٹر ہردیال کے ”میرے وچار“ کا یہ جملہ ”وچار“ کافی ہے کہ ”جنوبی ایشیا میں آئندہ ہندو نسلوں کی بقاءکا انحصار ہندو سنگھٹن، ہندوراج، مسلمانوں کی زبردستی شدھی، افغانستان اور قبائلی علاقوں کی فتح اور وہاں کی آبادی کی شدھی پر ہے“۔ مراہٹیوں کے محافظ اور حقوق کے علمبردار بال ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے جن کے دہشت گرد بھارتی فوجی افسروں اور ملٹری انٹیلی جنس سے رابطوں کی تصدیق ہوچکی ہے اس کا بھی ایک پورا مسلمان دشمن تاریخی پس منظر ہے۔ مراہٹیوں کا ہیرو شواجی مرہٹے کون تھا؟۔ یہ جاننا ضروری ہے۔
---------------------------------------------------
ہندوتوا کیا ہے (بی بی سی اردو کے ایک مضمون سے)
ہندوتوا دراصل آر ایس ایس کا نظریہ ہے۔ اس سے مراد ایک ایسے سیاسی سماجی اور اقتصادی نظام سے ہے جس کا محور ہندو اکثریتی برادری ہے اور جس میں اسلام اور عیسائیت جیسے غیر ممالک سے آئے مذاہب کے پیروکار دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔
بھارت میں آر ایس وشو ہندو پریشد اور ہندو مہا سبھا جیسی تنظیمیں آزادی کے پہلے سے ہی بھارت کو ایک ہندو راشٹر بنانے کے لیے کوشاں رہی ہیں۔ بھارت کی تقریباً 83 فیصد آبادی ہندو ہے لیک...ن ہندوؤں کی اکثریت نے سنگھ پریوار کے ہندوتوا کے ایجنڈے کو ابھی تک قبول نہیں کیا ہے۔
نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی ہندوتوا کے نظریے پر یقین رکھتی ہے لیکن ابھی تک پارلیمنٹ میں اکثریت نہ ملنے کے سبب وہ اپنے نظریے کا اطلاق نہیں کر پائی۔
واجپائی کے دور حکومت میں ملک کے سیکیولر تعلیمی نصاب میں ہندوتوا پر مبنی تبدیلیاں کی گئی تھی۔ تاریخ کی کتابوں کے بہت سے باب تبدیل کیے گئے تھے اور ملک کی نئی تاریخ لکھی جا رہی تھی۔
ربط
Major General Zahirul Islam Abbasi (12 January 1943 – 30 July 2009), was a former commander and officer of the Pakistani Army and the Inter-Services Intelligence agency of the Pakistani Armed Forces. Serving in the Siachen region of the disputed territory of Kashmir, Abbasi planned and executed assaults on posts occupied by the Indian Army. Abbasi was accused and convicted for a period of 7 years for being party to a coup d'état against the civilian government of Benazir Bhutto in 1995 while he was still a serving Major General in Pakistan Army. No political party was linked to this coup attempt as determined by the courts.
میں بھارت میں رہا ہوں اور اِنکی ذہنیت اور تاریخ سے بخوبی آگاہ ہوں۔ بھارت ماتا کی قیامِ پاکستان کی شکل میں تقسیم بظاہر سیکولر کہلانے والے درپردہ ہندو ریاست کو آج تک ہضم نہیں ہوئی۔ وہ پاکستان کو ختم کرکے اکھنڈ بھارت کا مذہبی فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔ کانگریس نرم ہندوتوا اور بی جے پی سمیت انتہاءپسند مسلم دشمن ہندو جماعتیں گرم ہندوتوا پر عمل پیرا ہیں۔ ”را“ کی بنیاد رکھنے کے 3 سال بعد ہی اندرا گاندھی نے ”آپریشن بنگلہ دیش“ مکمل کرلیا تھا اور نئی دلی کے گراﺅنڈ میں جلسہ عام میں کہا تھا کہ ”آج بھارت کی ایک ناری نے مسلمانوں سے ایک ہزار سال کی ہزیمتوں کا بدلہ لے لیا ہے۔ ”را“ کے پاکستان دشمن عزائم اور حکمت عملی جاننے کےلئے بھارت ہی کے اشوکا رائنا کی کتاب ”اِن سائیڈ را“ کا مطالعہ کافی ہے۔ بھارت دوستی کےلئے تڑپنے والے پاکستانی حکمرانوں کو اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ بھارت کی فوج، را اور حکومت ”قریبی پڑوسی کبھی دوست نہیں ہوتا“ کے چانکیائی فلسفہ پر کاربند ہے۔ چانکیائی سیاسی فلاسفی کے بانی اور موریہ کے اہم وزیر چانکیہ کوٹلیہ کی جارحیت پسند پالیسی کے سبب موریہ سلطنت کی سرحدیں جنوبی ایشیا میں دور دور تک پھیل گئیں۔ چانکیائی اقوال نے بلا شبہ ہندو شدت پسندی میں اضافہ کیا۔
اس کا کہنا تھا کہ طاقت کی ہوس اور ہمسایہ ممالک کی فتح کے جذبے کو قائم و دائم رکھو، ہمسایہ ریاستوں کو ہمیشہ دشمن ریاستیں تصور کرو اور ان ہمسایہ ریاستوں کے پار کی حکومتوں سے ہمیشہ دوستی اور اشتراک عمل کے سلسلے کو آگے بڑھاﺅ تاکہ ریاست کی ہیبت قائم رہے۔ ضرورت پڑنے پر ہمسایوں سے دوستی کے جذبات محض ہمسایہ ریاستوں کو دھوکے میں رکھنے کےلئے استعمال کرو اور موقع ملتے ہی وار کرو۔ چانکیہ کے وچار نے آریا ہندو سماج میں ڈپلومیسی، چالاکی، فریب اور دھوکے کی سیاست کو فروغ دیا۔ جواہر لال نہرو بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ ”دنیا میں کوئی چیز ایسی نہ تھی جو چانکیہ اپنا مقصد حاصل کرنے کےلئے نہ کرسکتا ہو۔ وہ بالکل بے اصول آدمی تھا اور اپنے مقصد کی پیروی اور اس کے حصول میں اخلاقی اصول سے بے نیاز اور اپنے ارادے میں پختہ تھا، چانکیہ کا خیال تھا کہ اگر دشمن کو شکست دینے کےلئے فریب و ریاکاری اور تباہی و بربادی کے طریقوں سے کام لینا ضروری ہے تو ان سے یقینا کام لینا چاہئے“۔
بہت سارے پاکستانیوں کو یہ علم نہیں ہوگا کہ چانکیہ کون تھا اور چانکیائی سیاست کیا ہے۔ کسی زمانے میں چندرگپت موریہ ہندوستان پر حکومت کرتا تھا۔ اس کا ایک درباری ایک ہندو پنڈت چانکیا بھی تھا جس سے موریا کبھی کبھی صلاح مشورہ کیا کرتا تھا۔ ایک روز بادشاہ چند درباریوں کے ہمراہ شکار پر نکلا۔ رات ہوگئی تو ایک جنگل میں پڑاﺅ کیا۔ سپاہی خیمے لگانے اور کھانے پینے کے بندوبست میں مصروف تھے۔ چانکیا بھی ادھر ادھر آجارہا تھا کہ اسے ایک جھاڑی سے کانٹا چبھ گیا۔ کانٹے کا لگنا تھا کہ چانکیا غصے میں آپے سے باہر ہوگیا۔ ملازم سے کہا کہ ایک گلاس شربت لے آﺅ۔ نوکر سمجھا کہ پنڈت چانکیا کو کانٹے سے بہت تکلیف ہوئی ہوگی۔ وہ جلدی سے شربت کا گلاس لے آیا۔ چانکیا نے شربت کا ایک گھونٹ چکھا اور باقی شربت جھاڑی پر اور اس کی جڑوں میں انڈیل دیا۔ ملازم نے ہاتھ جوڑ کر پوچھا ”حضور کیا اس شربت میں کوئی خرابی تھی یا مجھ سے کوئی خطا ہوئی کہ آپ نے شراب گرا دیا“؟ چانکیا بولا ”اس کا جواب صبح دونگا“۔ دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کے کیڑے ہزاروں میں آئے اور صبح تک اس جھاڑی کو چٹ کرگئے۔
صبح، چندر گپت موریا نے حیرانی سے پوچھا، ”رات یہاں ایک اچھی خاصی جھاڑی تھی، اسے کیا ہوا“؟۔ چانکیا نے ہاتھ باندھ کر عرض کی ”حضور اس نے میرے ساتھ دشمنی کی تھی اور میں نے اس کا ایسا بندوبست کیا کہ اس کا نام و نشان ہی مٹا دیا اور پھر اسے بتایا کہ اس نے جھاڑی کو کیسے تباہ کیا“۔ چندر گپت اس کی سکیم سن کر بہت خوش ہوا اور اسے وزیر اعظم اور مشیر خاص کے عہدے پر ترقی دیدی۔ چونکہ ہندو دھرم میں کوئی صحیفہ یا آسمانی کتاب نہیں اسلئے وہ چانکیا کے بتائے ہوئے اصولوں پر آج بھی عمل کرتے ہیں۔ چانکیا نے اپنی مشہور تصنیف ارتھ شاستر میں ہندوﺅں کےلئے سیاسی فلسفہ کے بنیادی اصول انتہائی تفصیل سے بیان کئے ہیں اور آج بھی بھارت کے پورے سیاسی نظام کا ڈھانچہ جنگ اور امن دونوں صورتوں میں انہی اصولوں پر استوار ہے۔ چانکیا کا نظریہ حکومت میکاولی سے چنداں مختلف نہیں، وہ بھی اپنے پیروکاروں کو چالاک ، سازشی، کمینگی کی حد تک بدلہ لینے کے خواہش مند، ہر لمحہ اوچھے ہتھ کنڈوں اور بددیانتی سے دشمن کو مات دینے پر تیار اور اس ہنر میںطاق دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے سیاسی فلسفے کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ نتیجہ، طریقہ کار اور ذرائع کو جائز قرار دیتا ہے۔ بھارت نے بھی چانکیا کی معاندانہ سوچ کی روشنی میں اپنا ریاستی نظام وضع کیا ہے۔ یہ چانکیا ہی کی تعلیمات کا حصہ ہے کہ اپنے ہمسائے کو ہمیشہ اپنا دشمن سمجھو۔ پاکستان بھارت کا ہمسایہ ہے، چنانچہ چانکیا کے اقوال کی روشنی میں ہم کبھی بھارت کے دوست نہیں ہوسکتے۔
ہم پاکستانی، چاہے وردی میں ہوں یا سادہ لباس میں، پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی حدود کی پاسبانی ہمارا اولین منصب ہے چونکہ ہم ہمیشہ بھارت کی نظر میں اس کے اول درجے کے دشمن رہیں گے۔ اسلئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے وطن کےخلاف بھارت کی مذموم سرگرمیوں، سازشوں اور منصوبہ بندیوں کا منہ توڑ جواب دیں۔ آج ایک طرف بھارت افغانستان سے بلوچستان اور سرحد میں اپنے گوریلے اور تخریب کار بھیج رہا ہے تو دوسری طرف بغیر کسی تحقیق کے پاکستان بحریہ اور پاکستان کی پہلی دفاعی لائن آئی ایس آئی پر الزامات عائد کررہا ہے تو اس کےلئے بھارتی انتہاءپسند ہندوﺅں کے عزائم کو جاننا ہو گا۔ بھارت کا حاضر نوکری لیفٹیننٹ کرنل سری کانت پروہت کی گرفتاری کے بعد بھارتی فوج، سنگھ پریوار، آر ایس ایس اور دیگر ہندو دہشت گرد تنظیموں کے رابطے اور مشترکہ حکمت عملی تو اب آشکار ہوئی ہے لیکن ماتا کے نام پر افغانستان سے جرائر انڈیمان تک کے علاقے میں انتہاءپسند ہندوﺅں کے عزائم اور حکمت عملی برائے اکھنڈ بھارت جاننے کےلئے ڈاکٹر ہردیال کے ”میرے وچار“ کا یہ جملہ ”وچار“ کافی ہے کہ ”جنوبی ایشیا میں آئندہ ہندو نسلوں کی بقاءکا انحصار ہندو سنگھٹن، ہندوراج، مسلمانوں کی زبردستی شدھی، افغانستان اور قبائلی علاقوں کی فتح اور وہاں کی آبادی کی شدھی پر ہے“۔ مراہٹیوں کے محافظ اور حقوق کے علمبردار بال ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے جن کے دہشت گرد بھارتی فوجی افسروں اور ملٹری انٹیلی جنس سے رابطوں کی تصدیق ہوچکی ہے اس کا بھی ایک پورا مسلمان دشمن تاریخی پس منظر ہے۔ مراہٹیوں کا ہیرو شواجی مرہٹے کون تھا؟۔ یہ جاننا ضروری ہے۔
---------------------------------------------------
ہندوتوا کیا ہے (بی بی سی اردو کے ایک مضمون سے)
ہندوتوا دراصل آر ایس ایس کا نظریہ ہے۔ اس سے مراد ایک ایسے سیاسی سماجی اور اقتصادی نظام سے ہے جس کا محور ہندو اکثریتی برادری ہے اور جس میں اسلام اور عیسائیت جیسے غیر ممالک سے آئے مذاہب کے پیروکار دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔
بھارت میں آر ایس وشو ہندو پریشد اور ہندو مہا سبھا جیسی تنظیمیں آزادی کے پہلے سے ہی بھارت کو ایک ہندو راشٹر بنانے کے لیے کوشاں رہی ہیں۔ بھارت کی تقریباً 83 فیصد آبادی ہندو ہے لیک...ن ہندوؤں کی اکثریت نے سنگھ پریوار کے ہندوتوا کے ایجنڈے کو ابھی تک قبول نہیں کیا ہے۔
نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی ہندوتوا کے نظریے پر یقین رکھتی ہے لیکن ابھی تک پارلیمنٹ میں اکثریت نہ ملنے کے سبب وہ اپنے نظریے کا اطلاق نہیں کر پائی۔
واجپائی کے دور حکومت میں ملک کے سیکیولر تعلیمی نصاب میں ہندوتوا پر مبنی تبدیلیاں کی گئی تھی۔ تاریخ کی کتابوں کے بہت سے باب تبدیل کیے گئے تھے اور ملک کی نئی تاریخ لکھی جا رہی تھی۔