بھارت کا چینی سردرد

121212134619_india_china_304x171_b_nocredit.jpg

بھارت نے جسے حقیقی کنٹرول لائن تسلیم کر رکھا ہے وہ اس کی یکطرفہ سمجھ ہے

اس مہینے کی 15 تاریخ کو بھارتی فوجیوں کو پتہ چلا کہ چین کے فوجی لداخ میں بھارت کے ذریعے تسلیم شدہ حقیقیی کنٹرول لائن پارکر کے بھارتی خطے میں 10 کلو میٹر اندر آ کر اپنی چوکیاں اور اڈے قائم کر چکے ہیں۔

کچھ عرصے پہلے بعض چینی فوجی اہلکاروں نے ایک بھارتی دفاعی تحقیقی ادارے میں کہا تھا کہ بھارت اور چین کے درمیان مغربی سیکٹر میں کوئی تنازع نہیں ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ جموں و کشمیر کے لداخ خطے کو بھارت کا خطہ ہی تسلیم نہیں کرتے۔
لداخ میں چینی فوج کی سرگومیوں پر بھارت کے دفاعی اور سرکاری حلقوں میں زبردست تشویش پھیلی ہوئی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق چینی فوجی 19 کلومیٹر تک بھارتی خطے میں داخل ہو چکے ہیں اور اب وہ وہاں اپنے اڈے اور چوکیاں قائم کر رہے ہیں۔
وزارت خارجہ اور وزارت دفاع چین کی اس پیش قدمی کو عوامی طور پر بہت کم اہمیت دے رہے ہیں اور اس طرح کے بیانات دیے جا رہے ہیں کہ بھارت چین سرحد پر کئی مقامات پر دونوں ملکوں کی الگ الگ سمجھ ہے اور یہ کہ ’اس عارضی اختلاف‘ کو فلیگ میٹنگ کے ذریعے حل کر لیا جائےگا۔
لیکن پس پردہ بھارت کی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ اس تنازع کی سنگینی اس کی نوعیت اور چین کی نئی قیادت کے رحجان کو سمجھنے کے لیے پوری طرح متحرک ہیں۔
چین سے بھارت کا سرحدی تنازع 50 برس پرانا ہے۔ بھارت نے جسے حقیقی کنٹرول لائن تسلیم کر رکھا ہے وہ اس کی یکطرفہ سمجھ ہے۔ اس لائن کو چین نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ یہی نہیں وہ بھارت کی ریاستوں اروناچل پردیش اور سکّم کے ایک بڑے خطے پر اپنا دعوی کرتا رہا ہے۔
دونوں ممالک نے اس تنازع کو حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنا رکھی ہے جو درجنوں مذاکرات کر چکی ہے مگر ابھی تک سرحد کی ایک انچ زمین کا تنازع حل نہیں کر سکی ہے۔ بھارت کا رویہ اس تنازع کومستقل طور پر حل کرنے کے بجائے ہمیشہ اس سے آنکھیں چرانے کا رہا ہے۔ نتیجے میں چین سے سرحدی تنازع اب خطرناک پیچیدگی اختیار کر رہا ہے۔
بھارت نے چین کے مقابلے اپنی فوج کی جدید کاری کا عمل نسبتاً دیر سے شروع کیا ہے۔ پچھلے سات آٹھ برس سے بھارت اپنی فوج کی جدید کاری کے لیے دنیا میں دفاعی سازو سامان خریدنے والا دنیا کا سب سے سے بڑا ملک رہا ہے۔

121019072750_1962war304.jpg

بھارت اور چین کے درمیان سرحد کے تنازعے پر ایک جنگ بھی ہو چکی ہے۔

حال میں اس نے صرف بھارت چین سرحد پر تعیناتی اور جنگی تیاری کے لیے ایک لاکھ فوجی بھرتی کرنے کا عمل شروع کیا ہے ۔ گزشتہ چند برسوں میں بھارت نے ہند، چین سرحد پر ہوائی پٹیاں بنانا ، فوجی رسد اور رسائی کے لیےسڑکیں تعیمر کرنا اور اپنی سرحدی چوکیوں کو مستحکم کرنا شروع کیا ہے۔
بھارت اپنی آبدوزیں، توپیں، مزائل، بحری بیڑے اور جنگی جہاز وغیرہ سبھی دفاعی تیاریاں بنیادی طور پر اب چین کے ساتھ محاذ کے نکتہ نظر سے کر رہا ہے جبکہ چین ان تیاریوں میں بہت پہلے آگے نکل چکا ہے۔
لیکن اب بھارت کی جنگی تیاریوں اور امریکہ سے اس کی بڑھتی ہوئی قربت سے چین میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ سرحدوں پر چین کا بڑھتا ہوا دباؤ اسی بڑھتی ہوئی بے چینی کا عکاس ہے۔
سرحدی تنازع کے سبب بھارت اور چین کے درمیان ماضی میں جنگ بھی ہو چکی ہے لیکن اب بھارت جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت حقیقت پسندی سے کام لے اور ایک قومی سیاسی اتفاق رائے سے چین سے ایک مقررہ مدت کے اندر اپنے سرحدی تنازعات مستقل طور پر حل کرے۔

شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
 

شمشاد

لائبریرین
لگے ہاتھوں اسی رگڑے میں کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو جائے تو دونوں ملکوں کے عوام کو خاصا فائدہ ہو سکتا ہے۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
دنیا اب مزید کسی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔۔ چین اور بھارت کی جنگ سے کشمیر کا مسلئہ مزید بگڑے گا کیوں کہ اس سے قبل 1962ء کی بھارت چین سرحدی جنگ میں پاکستان کی چین کی سفارتی حمایت نے بھارت کی ناراضگی میں اضافہ کیا تھا ۔۔ جنگ سے آس پاس کے ممالک کی اکانومی بھی خطرے میں پڑجاتی ہے اس لیے بہتر ہے کہ جنگ نہ ہی ہو ۔۔۔
 

دوست

محفلین
چین پورے بحر چین میں بھی یہی ڈراما کر رہا ہے۔ جاپان، فلپائن، اور پتا نہیں کس کس سے اس کا علاقائی تنازعہ چل رہا ہے۔
 

عسکری

معطل
چین پورے بحر چین میں بھی یہی ڈراما کر رہا ہے۔ جاپان، فلپائن، اور پتا نہیں کس کس سے اس کا علاقائی تنازعہ چل رہا ہے۔
جب حسن آتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے ۔ پیچھے ہزاروں جہازوں کی پاور نیچے لاکھوں بہتریں اسلحے سے لیس فوجی درمیاں میں ہزاروں ہیلی کاپٹر اور سمندر پر سینکڑون جہاز زیر سمندر درجنوں آبدوزیں ہوں تو کس کا پنگے لینے کا دل نہیں کرے گا :grin:
 

حسان خان

لائبریرین
"ونوں ممالک نے اس تنازع کو حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنا رکھی ہے جو درجنوں مذاکرات کر چکی ہے مگر ابھی تک سرحد کی ایک انچ زمین کا تنازع حل نہیں کر سکی ہے۔ بھارت کا رویہ اس تنازع کومستقل طور پر حل کرنے کے بجائے ہمیشہ اس سے آنکھیں چرانے کا رہا ہے۔ نتیجے میں چین سے سرحدی تنازع اب خطرناک پیچیدگی اختیار کر رہا ہے۔"

بالکل یہی صورتِ حال کشمیر تنازعے کی بھی ہے۔ اور کشمیر کا تنازع تو ایسا پیچیدہ ہے کہ مستقبلِ بعید میں بھی حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
 

حسان خان

لائبریرین
جب حسن آتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے ۔ پیچھے ہزاروں جہازوں کی پاور نیچے لاکھوں بہتریں اسلحے سے لیس فوجی درمیاں میں ہزاروں ہیلی کاپٹر اور سمندر پر سینکڑون جہاز زیر سمندر درجنوں آبدوزیں ہوں تو کس کا پنگے لینے کا دل نہیں کرے گا :grin:

پھر تو شکر ہے کہ پاکستان نے اب تک چین سے اچھے تعلقات بنا کر رکھے ہیں۔
 

دوست

محفلین
پاکستان نے اپنی سرحدوں کا تعین کر کے اچھا اقدام اٹھا لیا تھا۔ ورنہ چین سے کچھ بعید نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ بھی یہی حال کرتا۔
 

طالوت

محفلین
یہ ماجھے گامے کی یاری تو ہے نہیں ، پر چین اور روس سے یاری ہمارے مفاد میں ہے ، چین سے یاری والا معاملہ تو" کمانڈو" صدر اور عزت مات زرداری صاحب اپنی تئیں بگاڑ ہی چکے تھے اور روس سے یاری کا موقع تو زمانے پہلے کھوٹے سکوں نے کھو دیا تھا۔
 

دوست

محفلین
سب اپنے مطلب کے یار ہیں بھائی۔ سیاست ہے سب۔ اور ہمارے لوگ جذباتی ہو کر پتا نہیں کیا کیا امیدیں لگا لیتے ہیں۔ تین سو روپے ماہانہ میں بجلی۔۔۔۔۔ہاہ
 

عمراعظم

محفلین
جو رویہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ روا رکھا ہے ، ’اسے بھی چین کی جانب سے ایسے ہی رویہ کا سامنا ہے۔ دفاعی اعتبار سے طاقت کا توازن ہی امن کا ضامن ہوتا ہے۔
 
Top