بھارت کی ثقافتی یلغار اور فریب زدہ ” امن کی آشا

بھارتی فلموں نے ہمیں ایک نئی تاریخ بھی سیکھائی ہے اور آج انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا کوئی مسلمان ہیرو تو کسی کو شائد یاد نہ ہو لیکن منگل پانڈے کا بہت سوں کو پتہ ہے جبکہ بھگت سنگھ اور دیگر کے بارے میں بتا کر ہماری اصلاح کی جا رہی ہے۔کراچی یونیورسٹی کے طلبہ پر کی جانیوالی ایک تحقیق سے کے دوران طلبہ کو مختلف مذہبی مقامات کی تصاویر دیکھائی گئیں۔ حیران کن طور پر یہ طلبہ زیادہ تر ہندو دیوی دیوتاوں اور مندروں کو پہنچاننے میں کامیاب رہے جبکہ انہیں گنبد خضراء، مسجد اقصی سمیت کئی اسلامی مقامات مقدسہ کی پہچان تک نہ تھی۔ ہم اگر آج لکھتے اور بولتے ہوئے کسی نیک انسان کو دیوتا قرار دے دیتے ہیں تو غور کرنا چاہیے کہ کہیں اس کے پیچھے بھی ہمارے اوپر مسلط ہوتے ہندووانہ الفاظات اور ثقافتی اظہار تو نہیں۔ آپ پاکستان کے تقریبا ہر اخبار میں ستاروں کا حال پڑھ سکتے ہیں جبکہ دوست بنانے سے پہلے ستاروں کی پوچھ گچھ بھی انڈین فلموں اور ڈراموں میں کنڈیلیاں ملاتے ہندو پنڈتوں کے باعث ہی ممکن ہوا ہے۔ بھارت کے ثقافتی حملہ آوروں نے صرف معاشرت کے میدان میں ہی کاررنامے سرانجام نہیں دئیے بلکہ حالات حاضرہ اور دونوں ممالک کی سیاست میں بھی اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ بعض لوگوں کو شاید یقین نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے نام نہاد دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ پاک بھارت تعلقات میں مختلف خیالات کا حامی بن چکا ہے۔ چھاسٹھ فیصد افراد کا خیال ہے کہ کشمیر سمیت دونوں ممالک کے دیگر معاملات میں وہ پہلے جیسے جذباتی نہیں رہے اور اب وہ اپنی رائے کے میں بھارتی موقف کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ شاید ہندوستانی پالیسی سازوں کو بھی اس کا ادراک ہے اور اسی لیے انہوں نے پاکستان کے ساتھ معاملات کو ٹھیک کرنے کی کبھی بھی سنجیدہ کوشش ہی نہی کی۔ پاکستانی سینماوں میں انڈین فلموں کی نمائش کے ساتھ ہی فلم بینوں کی بڑی تعداد ان کا رخ کرنے لگی ہے حالانکہ انہی کی بے رخی کی بنا پر پاکستانی شوبز انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے۔ اخبارات کے سپیشل ایڈیشن اور مختلف رسائل ہندوستانی فنکاروں کی رنگ برنگی تصاویر سے سجے نظر آتے ہیں۔ فنکاروں کے اچھے برے
سکینڈلز اور نئی آنیوالی فلموں کی تشہیر پاکستانی میڈیا پر اتنے بھرپور انداز میں ہوتی ہے کہ شاید ایسا خود بھارت میں بھی نہ ہوتا ہو ۔ اندھرا گاندھی نے تو کئی سال پہلے ہی کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کے خلاف ثقافتی جنگ جیت لی ہے جبکہ ان کی بہو سونیا گاندھی نے انیس سو چھیانوے میں بیان دیا تھا کہ ” پاکستان کا بچہ بچہ ہندوستانی تہذیب کا دلدادہ ہے ، پاکستانی ٹی وی بھی ہمارے رقص بڑے فخر سے دیکھاتا ہے “۔ اور چلتے چلتے شیو سینا کے سربراہ اور گجرات و احمد آباد میں سینکڑوں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے بال ٹھاکرے کا تبصرہ بھی پڑھتے جائیں جو کہ انہوں نے دو ہزار ایک میں دئیے گئے ایک انٹرویو کے دوران کیا۔ بال ٹھاکرے کا کہنا تھا کہ ” پاکستان میں بسنت کا انتہائی جوش و خروش سے منایا جانا ہندو تہذیب کی بڑی کامیابی ہے۔ پاکستانی بسنت کے حادثات میں مرنیوالوں کو شہید قرار دیتے ہیں۔ اگر مسلمان قیام پاکستان سے پہلے ہی بھارتی ثقافت کو اپنا لیتے تو لاکھوں افراد کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔ بھارتی ثقافتی یلغار اور پروپیگنڈا مہم میں دن بدن تیزی ہی آئی ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات چاہے ٹھیک ہوں یا دشمنی کا سماں ، ہندوستانی ثقافتی حملہ آوروں نے اپنے ہتھیار کبھی نہیں روکے۔ چند دنوں سے ٹائمز آف انڈیا نے بعض پاکستانی دوستوں کو ساتھ ملا کر”امن کی آشا“ کا خوشنما تصور عام کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا نے اس مہم کے لیے جو ویڈیوز بنائی ہیں ان سے اس کے مقاصد صاف واضح ہوتے ہیں۔ صحرائی علاقے میں لمبی داڑھی والے ایک پاکستانی بوڑھے کو رقص کے ذریعے ایک ہندوستانی فلمی گانے کی بھیک مانگتے دیکھا یا گیا ہے۔ وہ اس کے لیے عجیب و غریب رقص بھی کرتا ہے۔ جیسے ہی آل انڈیا ریڈیو پر وہ گانا چلتا ہے تو پاکستانی شہریوں کا یہ گروہ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے ۔۔یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستانی تو بھارتی فلموں اور گانوں کے لیے جیسے تڑپ رہے ہیں۔ بھارتی پالیسی ساز اس مہم کے پیغام ریکارڈ کرانے کے لیے امیتابھ بچن کو لائے ہیں جبکہ وہاں ہونیوالے ایک میوزیکل پروگرام میں عابدہ پروین کو بلا کر محفل سجائی گئی ۔ گویا سارا قصہ ہی بھارتی ثقافتی روایات کے فروغ کا ہے جو کہ ہر حال میں بھارت کے لیے منافع کا سودا ہے۔ ایک طرف تو بھارتی حکام نے انتہائی ذلت آمیز طریقے سے پاکستانی کھلاڑیوں کو انڈین پریمئیر لیگ کھلانے سے انکار کر دیا ہے۔ مختلف فرنچائزز کی جانب سے ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کی ورلڈ چیمپئن اس ٹیم کے کسی کھلاڑی کو نیلامی کے قابل نہیں سمجھا گیا جبکہ دوسرے جانب بالی وڈ والے پاکستان میں فلموں کی نمائش سے دولت کمانے کے لیے بیتاب نظر آتے ہیں۔ ” امن کی آشا“ بھی بھارت کی ثقافتی یلغار سے محفوظ پاکستانیوں کو رام کرنے کی ایک کوشش ہی معلوم ہوتی ہے۔ میڈیا کے ذریعے ذہنوں پر تسلط ہی موجودہ دور میں غلامی کا سب سے بڑا اظہار ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم سب کو ضرور بال ٹھاکرے کی باتوں پر غور کرنے کرنا چاہیے ۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مذہب ، تہذیب اور ثقافت کی جنگ ہار کر بھی ہم اس دنیا میں منفرد اور آزاد رہیں گے ۔ ہم ایسے فریب زدہ اپنوں کے لیے ہدایت کی ہی دعا کر سکتے ہیں۔ ملک کو بچانے کی خواہش رکھنے والوں پر بھی فرض ہے کہ جہاں ہمیں ہندو ذہنیت کو راہ راست پر رکھنے کے لیے بھرپور دفاعی صلاحیت کی ضرورت ہے وہیں ثقافتی میدان میں نظریہ پاکستان اور اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ کہیں ”امن کی آشا “ کے نعروں میں کوئی ہمیں اپنی روایات سے ہی محروم نہ کر جائے۔



http://www.lahoreupdates.com/index....9-55-20&catid=67:2010-01-11-18-17-45&Itemid=4
 

arifkarim

معطل
لاجواب۔ واقعی یہ لاہور اپڈیٹس کی سائٹ مین اسٹریم پراپیگنڈا کی بجائے حقیقی دلائل کیساتھ معاشرے میں موجود مسائل کی وضاحت کرتی ہے!
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۹۰ء کے اوائل میں جب پہلی بار ڈش انٹینا کے ذریعے ZeeTv اور Sony TV جیسے ’’چمتکار‘‘ بھارت سے پاکستان پہنچے۔ میں طفل ہونے کے باوجود اسی وقت بھانپ گیا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ بچی کھچی پاکستانی ثقافت کا ہی جنازہ نکل جائے۔ اور وہی ہوا۔ کچھ ہی عرصہ میں ہمارے محلہ کے ارد گرد انڈین چینلز کی بھرمار ہوگئی اور پھر شاید ہی کوئی گھر ہوگا جو کہ تفریح یا خبروں کیلئے واحد پاکستانی چینل ’’پی ٹی وی‘‘ کو دیکھتے ہو۔ جو کام بھارت نے ۹۰ کے اوائل میں شروع کیا ۔ وہی کام پاکستان سنہ ۲۰۰۰ کے بعد شروع کر سکا۔ پر تب تک بھارت اپنے ثقافتی خنجروں سے ہماری نوجوان نسل اور انکی پرورش کرنے والی ماؤں پر یلغار کر چکا تھا۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت! :grin:
بہرحال سنہ ۲۰۰۰ کے بعد ARY Digital اور جیو ٹی وی وغیرہ کے قیام سے اس بات کو ڈھارس محسوس ہوئی کہ اللہ اللہ کرکے ہماری اپنی ثقافت کو پوری دنیا میں متعارف کروانے اور نوجوان نسل کو واپس اپنی تہذیب بتلانے والے پہنچ گئے ہیں۔۔۔۔پر۔۔۔۔ جلد ہی ان نام نہاد پرائیویٹ چینلز نے اپنی بیہودہ پالیسی کو اپناتے ہوئے مغربی و بھارتی ثقافت کا امتزاج یہاں متعارف کروانا شروع کر دیا۔Living on The Edge اور اس جیسے روشن خیالی پر مبنی پروگرامز کی بھرمار ہوگئی جنمیں مغربی معاشرے کی نقالی کرنے والوں کو قومی ہیروز بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ اور اب حالت الحمدللہ اس نہج پر ہے کہ ہمارے ایک دوست جو چند دن قبل ہی پاکستان سے ہوکر آئے ہیں، بتاتے ہیں کہ موجودہ پاکستانی چینلز، بھارتی چینلز، اور مغربی چینلز میں فرق کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ خاص کر وہ چینلز جو نوجوان نسل کو ٹارگٹ کئے جاتے ہیں!
روشن خیال پاکستان، زندہ باد!
 
Top