ایم اسلم اوڈ
محفلین
پاکستان کے لئے مقام غور و فکر....
بھارت نے اپنے نئے مالی سال کے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے اپنے جنگی (دفاعی) بجٹ میں 18 فیصد اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔ بجٹ میں سنائے گئے فیصلے کے مطابق اس مد میں بھارت اگلے سال 40 ارب ڈالر اضافی خرچ کرے گا۔ بھاری رقوم سے دنیا بھر سے جنگی اسلحہ، آبدوزیں، ٹینک، جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر وغیرہ خریدے جائیں گے۔ سالانہ بجٹ میں بھارت نے جس مد میں سب سے زیادہ اضافہ کیا ہے وہ یہی مد ہے۔
بھارت کے اس اضافے پر نگاہ ڈالنے سے پہلے ہم بھارت کی اندرونی و بیرونی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ اس کے مذموم ارادوں کو سمجھنے میں آسانی ہو....
بھارت کی آبادی اس وقت سوا ارب کے قریب ہو چکی ہے لیکن 80 کروڑ عوام ایسے ہیں کہ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، 15 کروڑ شہری ایسے ہیں کہ جن کے پاس رہنے کے لئے سرے سے گھر، مکان یا خیمہ تو کجا معمولی جگہ بھی نہیں اور یہ 15 کروڑ انسان رات کو پارکوں، سڑکوں، فٹ پاتھوں پر وقت گزارتے ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑا جھونپڑیوں کا سلسلہ بھارت میں ہے۔ آپ اس وقت خلیج کی عرب ریاستوں سے لے کر دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں آپ کو بے شمار ایسے بھارتی لوگ ملیں گے کہ جو صرف اور صرف دو وقت کی روٹی، تن کے کپڑے اور چھت کے لئے وہاں مزدوری کر رہے ہیں، وہ کسی تنخواہ کے طلب گار نہیں۔ بھارت کی دوسری طرف اندرونی صورتحال یہ ہے کہ وہاں آزادی کی سو سے زائد تحریکیں چل رہی ہیں۔ ملک کے 200 سے زائد اضلاع، 10 ریاستیں مکمل طور پر ماﺅنواز آزادی پسندوں کے کنٹرول میں ہیں۔ وہاں بھارتی حکومتی ”پر“ تک نہیں مار سکتی۔ دوسری طرف بھارت کی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سلوک کی حالت یہ ہے کہ سوائے 6لاکھ آبادی رکھنے والے بھوٹان کے ہر کسی کے ساتھ اس کی چپقلش اور مخاصمت ہے۔ چین تک اس سے پریشان ہے حالانکہ چین دنیا کا وہ ملک ہے کہ جو طویل عرصہ سے کسی کے ساتھ معمولی لڑائی بھڑائی سے بھی باز رہا ہے اور اس نے اپنی صنعت کو نئے انداز سے ترقی دے کر جاپان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ساری دنیا کی صنعتیں اس وقت چین کا مقابلہ نہیں کر پا رہیں۔ چین کو بھارت کی سوا ارب آبادی کی مارکیٹ حاصل کرنے کے لئے تو اس کے پاﺅں اور گھٹنے پکڑ لینے چاہئیں لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور اصول و ضوابط پر ڈٹا ہوا ہے۔
چین نے بھارت کو کبھی جنگ کی دھمکی نہیں دی اور نہ کبھی بھارت پر حملہ کیا ہے۔ یوں اس خطے میں بھارت کے لئے کوئی ایسا ملک نہیں کہ جس سے بھارت کے وجود کو خطرہ ہو پھر کیا وجہ ہے کہ بھارت اپنی عوام کی حالت سدھارنے، غربت کے خاتمے اور ملک میں جاری آزادی کی تحریکوں کو اچھے طریقے سے ختم کرنے کی بجائے بے تحاشہ جدید سے جدید اسلحہ جمع کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ کشمیری مجاہدین یا ماﺅنوازوں اور دیگر آزادی پسندوں کے خلاف تو بھاری اسلحہ استعمال نہیں کرے گا۔ چین تو جنگ کرتا نہیں پھر یہ اسلحہ کس کے خلاف استعمال ہو گا....؟ اس کے بعد صرف پاکستان ہی رہ جاتا ہے کہ جس کے ساتھ بھارت کے سمندری حدود سرکریک سے لے کر کشمیر، سیاچن تک سرحدوں پر تنازعات ہیں جس کے وہ 2 ٹکڑے کر چکا ہے۔ جس کے کئی حصوں پر اس نے قبضہ جما رکھا ہے۔ جس کے اندر وہ دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ نام نہاد علیحدگی کی شورش بپا کر رہا ہے۔ پاکستان کو بھارت اپنے وجود کے خلاف سب سے بڑا اور واحد خطرہ سمجھتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمارے پاس بھی یہی آپشن رہ جاتا ہے کہ ہم بھی بھارت کے خلاف اپنی تیاری مکمل کریں۔ اگر بھارت ہمارے ساتھ پرامن رہنا چاہتا ہے تو وہ تمام مسائل حل کیوں نہیںکرتا۔ کشمیر کے مسئلہ پر تو وہ خود اقوام متحدہ گیا تھا لیکن پھر اس پر ایسا مکرا کہ اب ہر روز کشمیر پر قبضہ مستحکم کر رہا ہے۔ ہمارے صدر اور وزیراعظم بھارت کے ساتھ تجارت میں کشمیر اور پانی کے مسئلہ کا نام ضرور لیتے ہیں لیکن ان کے حل کے لئے کچھ کرنے کو تیار نہیں۔
بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں 10 لاکھ فورسز متعین ہیں۔ بھارت نئے راستے بنا بنا کر مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کو مستحکم کر رہا ہے۔ بھارت کشمیریوں کو طاقت سے تو دبانے میں مصروف ہے لیکن انہیں ان کا کوئی بنیادی حق بھی دینے کو تیار نہیں۔ بھارت میں سب سے زیادہ لوڈشیڈنگ مقبوضہ کشمیر میں ہوتی ہے۔ سب سے پسماندہ علاقہ مقبوضہ کشمیر ہے۔ دارالحکومت سرینگر میں آج بھی کہیں کوئی بڑی جدید عمارت نہیں، نہ کوئی بڑی شاہراہ ہے۔ بھارت ہمیں بجلی تو دینا چاہتا ہے لیکن کشمیریوں کو نہیں۔ اس کی پالیسی صرف اور صرف یہ ہے کہ کسی طرح پاکستان مضبوط و مستحکم نہ ہو۔ اس کے لئے وہ اتنے اسلحہ کے انبار جمع کر رہا ہے۔ ان سنگین حالات میں اب ہمیں ضرور سوچنا چاہئے کہ بھارت کے ان خوفناک اور خطرناک عزائم پر کیسے قابو پانا اور مقابلہ کرنا ہے۔ بھارت کی ساری تیاری کا مرکز و محور صرف اور صرف پاکستان ہے۔ ہم جنگ کے طالب ہیں نہ رسیا لیکن اپنی خودداری کسی صورت قربان نہیں کر سکتے۔
اگر بھارت اپنے سارے ملک کی پروا نہ کرتے ہوئے صرف اور صرف پاکستان کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف ہے تو ہمیں بھی سوچنا چاہئے کہ ہم نے کب تک یوں بھارت کے سامنے جھک کر اور بزدلانہ پالیسی اختیار کر کے جینا ہے۔
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام۔۔۔علی اوڈراجپوت
alioad rajput
بھارت نے اپنے نئے مالی سال کے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے اپنے جنگی (دفاعی) بجٹ میں 18 فیصد اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔ بجٹ میں سنائے گئے فیصلے کے مطابق اس مد میں بھارت اگلے سال 40 ارب ڈالر اضافی خرچ کرے گا۔ بھاری رقوم سے دنیا بھر سے جنگی اسلحہ، آبدوزیں، ٹینک، جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر وغیرہ خریدے جائیں گے۔ سالانہ بجٹ میں بھارت نے جس مد میں سب سے زیادہ اضافہ کیا ہے وہ یہی مد ہے۔
بھارت کے اس اضافے پر نگاہ ڈالنے سے پہلے ہم بھارت کی اندرونی و بیرونی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ اس کے مذموم ارادوں کو سمجھنے میں آسانی ہو....
بھارت کی آبادی اس وقت سوا ارب کے قریب ہو چکی ہے لیکن 80 کروڑ عوام ایسے ہیں کہ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، 15 کروڑ شہری ایسے ہیں کہ جن کے پاس رہنے کے لئے سرے سے گھر، مکان یا خیمہ تو کجا معمولی جگہ بھی نہیں اور یہ 15 کروڑ انسان رات کو پارکوں، سڑکوں، فٹ پاتھوں پر وقت گزارتے ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑا جھونپڑیوں کا سلسلہ بھارت میں ہے۔ آپ اس وقت خلیج کی عرب ریاستوں سے لے کر دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں آپ کو بے شمار ایسے بھارتی لوگ ملیں گے کہ جو صرف اور صرف دو وقت کی روٹی، تن کے کپڑے اور چھت کے لئے وہاں مزدوری کر رہے ہیں، وہ کسی تنخواہ کے طلب گار نہیں۔ بھارت کی دوسری طرف اندرونی صورتحال یہ ہے کہ وہاں آزادی کی سو سے زائد تحریکیں چل رہی ہیں۔ ملک کے 200 سے زائد اضلاع، 10 ریاستیں مکمل طور پر ماﺅنواز آزادی پسندوں کے کنٹرول میں ہیں۔ وہاں بھارتی حکومتی ”پر“ تک نہیں مار سکتی۔ دوسری طرف بھارت کی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سلوک کی حالت یہ ہے کہ سوائے 6لاکھ آبادی رکھنے والے بھوٹان کے ہر کسی کے ساتھ اس کی چپقلش اور مخاصمت ہے۔ چین تک اس سے پریشان ہے حالانکہ چین دنیا کا وہ ملک ہے کہ جو طویل عرصہ سے کسی کے ساتھ معمولی لڑائی بھڑائی سے بھی باز رہا ہے اور اس نے اپنی صنعت کو نئے انداز سے ترقی دے کر جاپان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ساری دنیا کی صنعتیں اس وقت چین کا مقابلہ نہیں کر پا رہیں۔ چین کو بھارت کی سوا ارب آبادی کی مارکیٹ حاصل کرنے کے لئے تو اس کے پاﺅں اور گھٹنے پکڑ لینے چاہئیں لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور اصول و ضوابط پر ڈٹا ہوا ہے۔
چین نے بھارت کو کبھی جنگ کی دھمکی نہیں دی اور نہ کبھی بھارت پر حملہ کیا ہے۔ یوں اس خطے میں بھارت کے لئے کوئی ایسا ملک نہیں کہ جس سے بھارت کے وجود کو خطرہ ہو پھر کیا وجہ ہے کہ بھارت اپنی عوام کی حالت سدھارنے، غربت کے خاتمے اور ملک میں جاری آزادی کی تحریکوں کو اچھے طریقے سے ختم کرنے کی بجائے بے تحاشہ جدید سے جدید اسلحہ جمع کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ کشمیری مجاہدین یا ماﺅنوازوں اور دیگر آزادی پسندوں کے خلاف تو بھاری اسلحہ استعمال نہیں کرے گا۔ چین تو جنگ کرتا نہیں پھر یہ اسلحہ کس کے خلاف استعمال ہو گا....؟ اس کے بعد صرف پاکستان ہی رہ جاتا ہے کہ جس کے ساتھ بھارت کے سمندری حدود سرکریک سے لے کر کشمیر، سیاچن تک سرحدوں پر تنازعات ہیں جس کے وہ 2 ٹکڑے کر چکا ہے۔ جس کے کئی حصوں پر اس نے قبضہ جما رکھا ہے۔ جس کے اندر وہ دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ نام نہاد علیحدگی کی شورش بپا کر رہا ہے۔ پاکستان کو بھارت اپنے وجود کے خلاف سب سے بڑا اور واحد خطرہ سمجھتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمارے پاس بھی یہی آپشن رہ جاتا ہے کہ ہم بھی بھارت کے خلاف اپنی تیاری مکمل کریں۔ اگر بھارت ہمارے ساتھ پرامن رہنا چاہتا ہے تو وہ تمام مسائل حل کیوں نہیںکرتا۔ کشمیر کے مسئلہ پر تو وہ خود اقوام متحدہ گیا تھا لیکن پھر اس پر ایسا مکرا کہ اب ہر روز کشمیر پر قبضہ مستحکم کر رہا ہے۔ ہمارے صدر اور وزیراعظم بھارت کے ساتھ تجارت میں کشمیر اور پانی کے مسئلہ کا نام ضرور لیتے ہیں لیکن ان کے حل کے لئے کچھ کرنے کو تیار نہیں۔
بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں 10 لاکھ فورسز متعین ہیں۔ بھارت نئے راستے بنا بنا کر مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کو مستحکم کر رہا ہے۔ بھارت کشمیریوں کو طاقت سے تو دبانے میں مصروف ہے لیکن انہیں ان کا کوئی بنیادی حق بھی دینے کو تیار نہیں۔ بھارت میں سب سے زیادہ لوڈشیڈنگ مقبوضہ کشمیر میں ہوتی ہے۔ سب سے پسماندہ علاقہ مقبوضہ کشمیر ہے۔ دارالحکومت سرینگر میں آج بھی کہیں کوئی بڑی جدید عمارت نہیں، نہ کوئی بڑی شاہراہ ہے۔ بھارت ہمیں بجلی تو دینا چاہتا ہے لیکن کشمیریوں کو نہیں۔ اس کی پالیسی صرف اور صرف یہ ہے کہ کسی طرح پاکستان مضبوط و مستحکم نہ ہو۔ اس کے لئے وہ اتنے اسلحہ کے انبار جمع کر رہا ہے۔ ان سنگین حالات میں اب ہمیں ضرور سوچنا چاہئے کہ بھارت کے ان خوفناک اور خطرناک عزائم پر کیسے قابو پانا اور مقابلہ کرنا ہے۔ بھارت کی ساری تیاری کا مرکز و محور صرف اور صرف پاکستان ہے۔ ہم جنگ کے طالب ہیں نہ رسیا لیکن اپنی خودداری کسی صورت قربان نہیں کر سکتے۔
اگر بھارت اپنے سارے ملک کی پروا نہ کرتے ہوئے صرف اور صرف پاکستان کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف ہے تو ہمیں بھی سوچنا چاہئے کہ ہم نے کب تک یوں بھارت کے سامنے جھک کر اور بزدلانہ پالیسی اختیار کر کے جینا ہے۔
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام۔۔۔علی اوڈراجپوت
alioad rajput