فاخر
محفلین
پنجاب میں 7 ماہ کے دوران 156 بچوں سے زیادتی کے واقعات
ویب ڈیسک 18 ستمبر 2019
لاہور
صوبہ پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، 7 ماہ کے دوران 156 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، سزا صرف چند ملزمان کو دی جاسکی۔تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 7 ماہ کے دوران 156 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔رپورٹ کے مطابق مختلف تھانوں میں 126 مقدمات درج کیے گئے، درج مقدمات میں 129 ملزمان کو نامزد کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ملزمان نے زیادتی کے بعد 3 بچوں کو قتل بھی کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ناقص تفتیش کے باعث بیشتر گرفتار ملزمان نے ضمانتیں کروالیں۔پنجاب میں زیادتی کے یہ اعداد و شمار اس وقت سامنے آئے ہیں جب ایک روز قبل ہی ضلع قصور کی تحصیل پتوکی میں چونیاں بائی پاس کے قریب سے 3 لاپتہ بچوں کی مسخ لاشیں اور انسانی اعضا برآمد ہوئے۔پولیس کے مطابق ایک بچے کی لاش مکمل حالت میں، جبکہ 2 بچوں کے سر اور ہڈیاں برآمد ہوئیں۔ قتل ہونے والا 8 سال کا فیضان پیر کو لاپتہ ہوا تھا، سلیمان دس اگست اور علی حسنین ایک ماہ سے لاپتہ تھے۔علاقہ مکینوں کے مطابق بچوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ 2 ماہ سے جاری ہے، مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔رواں برس کے شروع میں وفاقی محتسب کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ صرف قصور میں 10 برسوں میں 272 بچوں سے زیادتی کے کیسز ہوئے لیکن سزا صرف چند ملزمان کو ہوئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ زیادتی کا نشانہ بننے والے بیشتر بچے غریب، ان پڑھ اور پسماندہ خاندانوں کے ہیں جو پیسے اور دھونس دھمکی پر دباؤ میں آگئے جبکہ بچوں سے زیادتی کے شرمناک واقعات میں زیادہ تر بااثر سیاستدان، دولت مند اور پڑھے لکھے افراد ملوث نکلے۔رپورٹ میں زیادتی کے واقعات کی بڑی وجہ منشیات کا استعمال، جسم فروشی اور فحش فلموں کی دستیابی قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ قصور میں زیادتی کے بڑھتے واقعات کا جائزہ لینے کے لیے سینٹر بھی قائم کردیا گیا۔وفاقی محتسب کا کہنا تھا کہ عام طور پر بچوں سے زیادتی کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے، سنہ 2018 میں بچوں سے زیادتی کے 250 سے زائد کیس درج ہوئے جبکہ سنہ 2017 میں زیادتی کے 4 ہزار 139 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں دیکھے گئے تھے جہاں 1 ہزار 89 کیس رپورٹ ہوئے۔
نوٹ :اس خبر کے متعلق کسی طرح کے تبصرہ پر قادر نہیں ہوں ۔ سوچتا ہوں تو دل دہل جاتا ہے کہاں مثالی ’’مدینہ ریاست ‘‘ اور کہاں اس طرح کے وحشیانہ سلوک؟؟ دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔قوم بتائے وہ کہاں جارہے ہیں ؟ کس ہلاکت کے منتظر ہیں ۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ مجرموں کو سزا دی جائے گی ؛بلکہ یہ کہا جائے کہ مجرموں کو نشانِ عبرت بھی بنائیں گے۔
ویب ڈیسک 18 ستمبر 2019
لاہور
صوبہ پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، 7 ماہ کے دوران 156 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، سزا صرف چند ملزمان کو دی جاسکی۔تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 7 ماہ کے دوران 156 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔رپورٹ کے مطابق مختلف تھانوں میں 126 مقدمات درج کیے گئے، درج مقدمات میں 129 ملزمان کو نامزد کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ملزمان نے زیادتی کے بعد 3 بچوں کو قتل بھی کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ناقص تفتیش کے باعث بیشتر گرفتار ملزمان نے ضمانتیں کروالیں۔پنجاب میں زیادتی کے یہ اعداد و شمار اس وقت سامنے آئے ہیں جب ایک روز قبل ہی ضلع قصور کی تحصیل پتوکی میں چونیاں بائی پاس کے قریب سے 3 لاپتہ بچوں کی مسخ لاشیں اور انسانی اعضا برآمد ہوئے۔پولیس کے مطابق ایک بچے کی لاش مکمل حالت میں، جبکہ 2 بچوں کے سر اور ہڈیاں برآمد ہوئیں۔ قتل ہونے والا 8 سال کا فیضان پیر کو لاپتہ ہوا تھا، سلیمان دس اگست اور علی حسنین ایک ماہ سے لاپتہ تھے۔علاقہ مکینوں کے مطابق بچوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ 2 ماہ سے جاری ہے، مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔رواں برس کے شروع میں وفاقی محتسب کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ صرف قصور میں 10 برسوں میں 272 بچوں سے زیادتی کے کیسز ہوئے لیکن سزا صرف چند ملزمان کو ہوئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ زیادتی کا نشانہ بننے والے بیشتر بچے غریب، ان پڑھ اور پسماندہ خاندانوں کے ہیں جو پیسے اور دھونس دھمکی پر دباؤ میں آگئے جبکہ بچوں سے زیادتی کے شرمناک واقعات میں زیادہ تر بااثر سیاستدان، دولت مند اور پڑھے لکھے افراد ملوث نکلے۔رپورٹ میں زیادتی کے واقعات کی بڑی وجہ منشیات کا استعمال، جسم فروشی اور فحش فلموں کی دستیابی قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ قصور میں زیادتی کے بڑھتے واقعات کا جائزہ لینے کے لیے سینٹر بھی قائم کردیا گیا۔وفاقی محتسب کا کہنا تھا کہ عام طور پر بچوں سے زیادتی کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے، سنہ 2018 میں بچوں سے زیادتی کے 250 سے زائد کیس درج ہوئے جبکہ سنہ 2017 میں زیادتی کے 4 ہزار 139 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں دیکھے گئے تھے جہاں 1 ہزار 89 کیس رپورٹ ہوئے۔
نوٹ :اس خبر کے متعلق کسی طرح کے تبصرہ پر قادر نہیں ہوں ۔ سوچتا ہوں تو دل دہل جاتا ہے کہاں مثالی ’’مدینہ ریاست ‘‘ اور کہاں اس طرح کے وحشیانہ سلوک؟؟ دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔قوم بتائے وہ کہاں جارہے ہیں ؟ کس ہلاکت کے منتظر ہیں ۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ مجرموں کو سزا دی جائے گی ؛بلکہ یہ کہا جائے کہ مجرموں کو نشانِ عبرت بھی بنائیں گے۔