محمد اظہر نذیر
محفلین
بھنورانگی
سب کچھ معمول کے مطابق تھا، کچھ بھی تو نہیں بدلہ تھا اور بقول شخصے راوی چین ہی چین لکھتا تھا، لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ اکثر ایسا سکون طوفان کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ بس وہی مثال مانو کہ آپنا آپ منوانے کے ارادے سے مجسم سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔
پر ٹہرئیے اگر میں نے آپ کو ابتدا سے ساری بات نہ بتائی تو شائد کچھ لوگ سمجھ نہ پائیں، یہ ایک باغ کی کہانی ہے جس میں وہ سارا حسن تھا جس کا آپ تصور کر سکتے ہیں۔ ہری بھری پتیوں سے لدے اشجار کہ جنہیں اوڑھ کر دلکش پرندے جیسے ہر شکاری نگہ سے محفوظ ہو جاتے ہوں، وہاں بیٹھ کر اٹھکیلیاں کرتے تھے، خوش گپیاں ہوتی تھیں، بوڑھے پرندے جوان پرندوں کو بیتی باتیں اور بیتے قصے سُنایا کرتے، غرض یہ کہ بیٹھک سجتی تھی اور ایک درخت سے دوسرے درخت پھر تیسرے کہیں بھی چلے جاؤ، کوئی روک کوئی ٹوک نہیں تھی۔
باغ کو بیچ سے کاٹ کر گزرتی ندیا جو اپنا ٹھنڈا میٹھا پانی ہر کس و ناکس کیلئے ہمیشہ وقف کیئے رکھتی، کسی کو ممانعت نہیں تھی، یوں سمجھئے کہ شیر اور بکری سبھی وہاں سے پانی پیتے سیر ہو کر اور پھر گیت گاتے رُخصت ہو جاتے تاکہ کوئی اور اپنی پیاس بُجھا سکے۔
ہری بھری گھاس کا دبیز قالین کہ جس پر پریاں بغیر جوتوں کے قدم رکھنا پسند کریں اور خراش تو دور کی بات اُنہیں ناگواری کا احساس تک نہ ہو۔ ایک خوشگوار احساس روح کو تازہ کر جاتا۔ ہلکی ہلکی خنکی جسم کو گُدگُداتی اور من کرتا کہ وہیں لیٹو اور سو جاؤ۔
پھلوں کی افراط جو شکم سیری ہی نہ کرتے بلکہ جسم و جاں کو ہر وہ طاقت مہیا کرتے جس کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ باغ باسی صرف اپنی ضرورت کا کھا لیتے اور اُس کے بعد اُن کی جانب دیکھتے بھی نہ تھے کہ اُنہیں اپنے رب کی قدرت پر مکمل اعتماد تھا کہ آنے والے دن کی فکر اُسے ان سے زیادہ ہو گی۔
قدرت کے حُسن صناعی کا شاہکار پھول جو نہ صرف پیاسی نگاہوں کی نیت بھر دیتے بلکہ آتی جاتی سانسوں میں خوشبو گھولتے، دل و دماغ معطر ہو جاتا اور یوں لگتا کہ جسم کی ساری تھکن نچوڑ لی گئی ہو۔ ہر ذی روح مانو اگلے دن کی مشقت کیلئے تیار ہو گیا۔ ان میں موتیا تھا، چنبیلی تھی، رات کی رانی تھی، گُلاب تھا۔ آپ نام لیجئے وہاں سبھی تھے۔ اور کانٹے بھی تھے جو حفاظت پر مامور تھے ان میں سے اکثر پھولوں کی۔
اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جہاں پھول ہوں وہاں بھنورا نہ ہو؟ باغ میں بھنورے بھی تھے اور پھولوں سے باہمی معاہدے کے تحت اپنے اپنے پھول سے راز و نیاز کی باتیں بھی کرتے اور رس نوشی سے لطف اندوز ہوتے۔
یہ سب کچھ تو وہ تھا جو کہ طوفان سے پہلے تھا، پھر یوں ہوا کہ طوفان آ گیا کسی جنگل سے بھنوروں کا ایک گروہ باغ میں آن دھمکا، یہ اُن مہربان بھنوروں جیسے ہر گز نہ تھے جو پھولوں کے دوست تھے، اُن سے محبت کرتے تھے، اُن کی قدر کیا کرتے تھے، اُن کا خیال رکھتے تھے، وقت بے وقت تنگ نہیں کرتے تھے۔
یہ تو مانو کسی قانون کسی قاعدے، کسی اخلاقی قدر کے تابع تھے ہی نہیں، پہلے دن آتے ہی اُنہوں نے موتیا کو گھیر لیا کہ ایک تو اُس کی حفاظت پر کوئی کانٹا مامور نہیں تھا اور وہ ایک آسان ہدف تھا۔ سبھی بھنوروں نے اپنے زہر میں بُجھے ہوئے ڈنک اُس کی پتیوں میں گاڑ دیئے۔ باغ میں موجود ہر ذی روح سکتے میں آ گیا، اُنہیں ایسی کسی حالت سے نمٹنے کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا۔ موتیا کی دھجیاں بکھر گئیں اور باغ دم بخود دیکھتا رہ گیا۔
دوسرے دن باغ باسیوں کے پاس سوائے موتیا کی کتھا کے اور کوئی موضوع گُفتگو تھا ہی نہیں، سو اُسی پر بات چلتی رہی، کف افسوس ملا جاتا رہا اور بھنوروں کی ذلالت پر لعن طعن کی جاتی رہی۔
چار دن گُزرے بھنوروں کا گروہ پھر آن دھمکا، اس بار چنبیلی نشانہ بنی، وہ چیخی، چلائی، شور مچایا، مدد کیلئے بے شمار آوازیں دیں۔ ہر اُس ذی روح کو پُکارا جو کسی نہ کسی طرح سے اُس سے منسلک رہا تھا۔ مگر کوئی مدد کو نہ آیا، باغ باسیوں کی آنکھوں کے عین سامنے ایک ایک کر کے اُس کی ساری پتیوں میں زہریلے ڈنگ گھسیڑ کر رس چوسا گیا اور پھر اُسے بے دم چھوڑ کر بھنورے یہ جا وہ جا۔
باغ باسی جیسے پتھر کے بن گئے تھے، کاٹو تو لہو نہیں بدن میں، اس بار تو سبھی نے دوسرے دن بات چیت بھی نہیں کی تھی، ایسا لگا کہ کوئی واقعہ ہوا ہی نہ ہو۔ سب معمول کے مطابق ہو۔
اگر کچھ ہوا تو یہ تھا کہ باغ کے سارے پھول اس سوچ میں گُم تھے کہ آنے والا دن کس کی شامت لے کر آنے والا ہے۔
کچھ دن گُزر گئے ، بات آئی گئی ہو گئی، لگنے لگا کہ پُرانا وقت واپس آ جائے گا، پھر وہی خوشیاں ہوں گی، پھر وہی نغمے ہوں گے اور پھر راوی چین ہی چین لکھے گا مگر کہاں؟
بھنورے اس بار رات کو آئے تھے اور رات کی رانی اُنہیں دیکھ بھی نہ پائی کہ اپنے پورے جوبن پر تھی اور مست ۔ ایک بھنورے نے ہلکا سا ڈنک گاڑا تو رانی نے چونک کر دیکھا، یوں لگا کہ حقیقت کی گھمبھیرتا کا احساس نہ کر پائی، اپنے جوبن کے نشے میں بدمست جو تھی۔ پھر دوسرے نے جب اپنا زہریلہ ڈنگ رانی کی پتی میں چبھویا تو اُسے کچھ کچھ احساس ہوا کہ کچھ تو ہے جو غلط ہے، اُس نے اک چیخ ماری پر اب دیر ہو چکی تھی وہ خوف سے چیختی تو بدمست بھنورے ڈنگ گاڑ دیتے ، جتنا زیادہ خوف اُتنے زیادہ ڈنگ۔
جتنی چیخیں اُتنے زیادہ قہقہے بھنوروں کے۔ ایک ایک کر کے ساری پتیاں نوچ لی گئیں اور رانی برہنہ ہو گئی۔
گُلاب سے رہا نہ گیا اور اُس نے اپنے کانٹوں کو حکم دیا کہ کچھ علاج کریں ان بھنوروں کا۔ ایک کانٹا جھوم کر بڑھا اور ایک بھنورے میں چبھ گیا۔ بھنورے نے چیخ ماری تو سارے بھنورے گُلاب کی طرف متوجہ ہو گئے۔ کانٹوں نے کچھ کوشش کی مگر آخر اُنہیں ہتھیار ڈالنے ہی پڑے بھنوروں کے گروہ کے سامنے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گُلاب کی شامت آئی ہی آئی۔ پر نہ جانے کیا ہوا کہ گُلاب نے خود آگے بڑھ کر بھنوروں پر جیسے حملہ کر دیا ہو، ایک بھنورے کی ٹانگ پکڑی اور کہا کہ آؤ میرا رس پی لو، اُسے جھنجھوڑا اور ایک دوسرے بھنورے کی جانب لپکا اُس کا ڈنگ ہاتھ میں لیا اور کہا کہ آؤ میرا رس پیئو۔ بھنورے حیرانی سے اُسے دیکھ رہے تھے اور اُن کی ساری بھنورانگی کافور ہو چُکی تھی
سب کچھ معمول کے مطابق تھا، کچھ بھی تو نہیں بدلہ تھا اور بقول شخصے راوی چین ہی چین لکھتا تھا، لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ اکثر ایسا سکون طوفان کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ بس وہی مثال مانو کہ آپنا آپ منوانے کے ارادے سے مجسم سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔
پر ٹہرئیے اگر میں نے آپ کو ابتدا سے ساری بات نہ بتائی تو شائد کچھ لوگ سمجھ نہ پائیں، یہ ایک باغ کی کہانی ہے جس میں وہ سارا حسن تھا جس کا آپ تصور کر سکتے ہیں۔ ہری بھری پتیوں سے لدے اشجار کہ جنہیں اوڑھ کر دلکش پرندے جیسے ہر شکاری نگہ سے محفوظ ہو جاتے ہوں، وہاں بیٹھ کر اٹھکیلیاں کرتے تھے، خوش گپیاں ہوتی تھیں، بوڑھے پرندے جوان پرندوں کو بیتی باتیں اور بیتے قصے سُنایا کرتے، غرض یہ کہ بیٹھک سجتی تھی اور ایک درخت سے دوسرے درخت پھر تیسرے کہیں بھی چلے جاؤ، کوئی روک کوئی ٹوک نہیں تھی۔
باغ کو بیچ سے کاٹ کر گزرتی ندیا جو اپنا ٹھنڈا میٹھا پانی ہر کس و ناکس کیلئے ہمیشہ وقف کیئے رکھتی، کسی کو ممانعت نہیں تھی، یوں سمجھئے کہ شیر اور بکری سبھی وہاں سے پانی پیتے سیر ہو کر اور پھر گیت گاتے رُخصت ہو جاتے تاکہ کوئی اور اپنی پیاس بُجھا سکے۔
ہری بھری گھاس کا دبیز قالین کہ جس پر پریاں بغیر جوتوں کے قدم رکھنا پسند کریں اور خراش تو دور کی بات اُنہیں ناگواری کا احساس تک نہ ہو۔ ایک خوشگوار احساس روح کو تازہ کر جاتا۔ ہلکی ہلکی خنکی جسم کو گُدگُداتی اور من کرتا کہ وہیں لیٹو اور سو جاؤ۔
پھلوں کی افراط جو شکم سیری ہی نہ کرتے بلکہ جسم و جاں کو ہر وہ طاقت مہیا کرتے جس کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ باغ باسی صرف اپنی ضرورت کا کھا لیتے اور اُس کے بعد اُن کی جانب دیکھتے بھی نہ تھے کہ اُنہیں اپنے رب کی قدرت پر مکمل اعتماد تھا کہ آنے والے دن کی فکر اُسے ان سے زیادہ ہو گی۔
قدرت کے حُسن صناعی کا شاہکار پھول جو نہ صرف پیاسی نگاہوں کی نیت بھر دیتے بلکہ آتی جاتی سانسوں میں خوشبو گھولتے، دل و دماغ معطر ہو جاتا اور یوں لگتا کہ جسم کی ساری تھکن نچوڑ لی گئی ہو۔ ہر ذی روح مانو اگلے دن کی مشقت کیلئے تیار ہو گیا۔ ان میں موتیا تھا، چنبیلی تھی، رات کی رانی تھی، گُلاب تھا۔ آپ نام لیجئے وہاں سبھی تھے۔ اور کانٹے بھی تھے جو حفاظت پر مامور تھے ان میں سے اکثر پھولوں کی۔
اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جہاں پھول ہوں وہاں بھنورا نہ ہو؟ باغ میں بھنورے بھی تھے اور پھولوں سے باہمی معاہدے کے تحت اپنے اپنے پھول سے راز و نیاز کی باتیں بھی کرتے اور رس نوشی سے لطف اندوز ہوتے۔
یہ سب کچھ تو وہ تھا جو کہ طوفان سے پہلے تھا، پھر یوں ہوا کہ طوفان آ گیا کسی جنگل سے بھنوروں کا ایک گروہ باغ میں آن دھمکا، یہ اُن مہربان بھنوروں جیسے ہر گز نہ تھے جو پھولوں کے دوست تھے، اُن سے محبت کرتے تھے، اُن کی قدر کیا کرتے تھے، اُن کا خیال رکھتے تھے، وقت بے وقت تنگ نہیں کرتے تھے۔
یہ تو مانو کسی قانون کسی قاعدے، کسی اخلاقی قدر کے تابع تھے ہی نہیں، پہلے دن آتے ہی اُنہوں نے موتیا کو گھیر لیا کہ ایک تو اُس کی حفاظت پر کوئی کانٹا مامور نہیں تھا اور وہ ایک آسان ہدف تھا۔ سبھی بھنوروں نے اپنے زہر میں بُجھے ہوئے ڈنک اُس کی پتیوں میں گاڑ دیئے۔ باغ میں موجود ہر ذی روح سکتے میں آ گیا، اُنہیں ایسی کسی حالت سے نمٹنے کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا۔ موتیا کی دھجیاں بکھر گئیں اور باغ دم بخود دیکھتا رہ گیا۔
دوسرے دن باغ باسیوں کے پاس سوائے موتیا کی کتھا کے اور کوئی موضوع گُفتگو تھا ہی نہیں، سو اُسی پر بات چلتی رہی، کف افسوس ملا جاتا رہا اور بھنوروں کی ذلالت پر لعن طعن کی جاتی رہی۔
چار دن گُزرے بھنوروں کا گروہ پھر آن دھمکا، اس بار چنبیلی نشانہ بنی، وہ چیخی، چلائی، شور مچایا، مدد کیلئے بے شمار آوازیں دیں۔ ہر اُس ذی روح کو پُکارا جو کسی نہ کسی طرح سے اُس سے منسلک رہا تھا۔ مگر کوئی مدد کو نہ آیا، باغ باسیوں کی آنکھوں کے عین سامنے ایک ایک کر کے اُس کی ساری پتیوں میں زہریلے ڈنگ گھسیڑ کر رس چوسا گیا اور پھر اُسے بے دم چھوڑ کر بھنورے یہ جا وہ جا۔
باغ باسی جیسے پتھر کے بن گئے تھے، کاٹو تو لہو نہیں بدن میں، اس بار تو سبھی نے دوسرے دن بات چیت بھی نہیں کی تھی، ایسا لگا کہ کوئی واقعہ ہوا ہی نہ ہو۔ سب معمول کے مطابق ہو۔
اگر کچھ ہوا تو یہ تھا کہ باغ کے سارے پھول اس سوچ میں گُم تھے کہ آنے والا دن کس کی شامت لے کر آنے والا ہے۔
کچھ دن گُزر گئے ، بات آئی گئی ہو گئی، لگنے لگا کہ پُرانا وقت واپس آ جائے گا، پھر وہی خوشیاں ہوں گی، پھر وہی نغمے ہوں گے اور پھر راوی چین ہی چین لکھے گا مگر کہاں؟
بھنورے اس بار رات کو آئے تھے اور رات کی رانی اُنہیں دیکھ بھی نہ پائی کہ اپنے پورے جوبن پر تھی اور مست ۔ ایک بھنورے نے ہلکا سا ڈنک گاڑا تو رانی نے چونک کر دیکھا، یوں لگا کہ حقیقت کی گھمبھیرتا کا احساس نہ کر پائی، اپنے جوبن کے نشے میں بدمست جو تھی۔ پھر دوسرے نے جب اپنا زہریلہ ڈنگ رانی کی پتی میں چبھویا تو اُسے کچھ کچھ احساس ہوا کہ کچھ تو ہے جو غلط ہے، اُس نے اک چیخ ماری پر اب دیر ہو چکی تھی وہ خوف سے چیختی تو بدمست بھنورے ڈنگ گاڑ دیتے ، جتنا زیادہ خوف اُتنے زیادہ ڈنگ۔
جتنی چیخیں اُتنے زیادہ قہقہے بھنوروں کے۔ ایک ایک کر کے ساری پتیاں نوچ لی گئیں اور رانی برہنہ ہو گئی۔
گُلاب سے رہا نہ گیا اور اُس نے اپنے کانٹوں کو حکم دیا کہ کچھ علاج کریں ان بھنوروں کا۔ ایک کانٹا جھوم کر بڑھا اور ایک بھنورے میں چبھ گیا۔ بھنورے نے چیخ ماری تو سارے بھنورے گُلاب کی طرف متوجہ ہو گئے۔ کانٹوں نے کچھ کوشش کی مگر آخر اُنہیں ہتھیار ڈالنے ہی پڑے بھنوروں کے گروہ کے سامنے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گُلاب کی شامت آئی ہی آئی۔ پر نہ جانے کیا ہوا کہ گُلاب نے خود آگے بڑھ کر بھنوروں پر جیسے حملہ کر دیا ہو، ایک بھنورے کی ٹانگ پکڑی اور کہا کہ آؤ میرا رس پی لو، اُسے جھنجھوڑا اور ایک دوسرے بھنورے کی جانب لپکا اُس کا ڈنگ ہاتھ میں لیا اور کہا کہ آؤ میرا رس پیئو۔ بھنورے حیرانی سے اُسے دیکھ رہے تھے اور اُن کی ساری بھنورانگی کافور ہو چُکی تھی