سید شہزاد ناصر
محفلین
پھر رات ہوئی تو وہ نغمے تخلیق کرنے بیٹھ گئے جو صبح نئی فلم کے لیے ریکارڈ ہونا تھے لیکن یکم اپریل کی یہ رات راس نہیں آرہی تھی، رات کا ڈیڑھ بجا تو شوگر لیول انتہائی نچلے درجے تک گرگیا اور نبضیں چھوٹ گئیں، مسرور انور خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
مسرور انور شملہ (بھارت) میں 1941 پیدا ہوئے۔ والد امیر علی نے، انور علی نام دیا۔ تقسیم کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی۔ بڑے بھائی خلیل نے جیکب لائن ٹیکنیکل اسکول میں داخلہ دلوایا۔ بچپن سے نٹ کھٹ تھے، لطیفہ گھڑنے اور کہانیاں تراشنے کا فن جیسے گھٹی میں پڑا تھا، ’’قہقہہ انگیز‘‘ گفت گو کرنے کا شوق تھا، اسکول میں فی البدیہ تقریری مقابلوں میں حصہ لیا تو نہ صرف عنوان پر زبردست گفت گو کرتے بل کہ تقریر کو اپنی شاعری سے مرصع بھی کرتے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے اسکول کے اساتذہ اور خصوصاً ہیڈ ماسٹر کی آنکھ کا تارا بن گئے۔
ریڈیو پاکستان کے بچوں کے پروگرام میں شرکت کی تو وہاں بھی اپنی خوش گپیوں سے سب پر چھا گئے۔ اسکول میں تو ہردل عزیز تھے ہی ریڈیو کی بھی ضرورت بن گئے سو اسکول سے زیادہ ریڈیو اسٹیشن کراچی پر وقت گزرنے لگا۔ ریڈیو پاکستان کراچی، ایک علمی درس گاہ، ایک ادارہ، ایک ایسا مکتب تھا، جہاں سے منسلک ہونے والے لب و لہجے، الفاظ کے چنائو، ادب و آداب کی تربیت پاتے تھے۔ ذوالفقار علی بخاری صاحب المعروف زیڈ اے بخاری نے شاہد احمد دہلوی، قاری عباس صاحب اور ایسے ایسے کتنے اہلِ علم و فن کو ریڈیو میں سمو لیا تھا کہ بس۔
مسرور انور، قاضی واجد، مقبول علی، جمشید انصاری، صدر علی رحمت (صہبا اختر کے بھائی)، بِرجیس برنی، میمونہ، ٹپلو سسٹرز، صالحہ کلیم ؛ ہم سب آگے پیچھے ایک ہی عمروں کے ساتھی تھے جن کا اوڑھنا بچھونا، آنگن سب کچھ ریڈیو ہی تھا۔
حکومتِ پاکستان نے چائلڈ ویلفیئر کونسل کی طرف سے ایک پروگرام ’’بچوں کی آواز‘‘ شروع کیا جس کی نگران اعلیٰ، سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کی صاحب زادی بیگم اختر سلیمان تھیں، وہ خود عنوانات طے کرتیں، انور لکھتے اور ہم سب اس میں حصہ لیتے۔ بچوں کے پروگرام کے ڈرامے بھی رفتہ رفتہ انور نے لکھنا شروع کر دیے۔ پروڈیوسر فاروق جہاں تیموری بہت اچھی لکھاری اور سب کی دوست تھیں، ہر شغل میں ساتھ مگر کام کے دوران آنکھیں پھیر لیتیں اور جان توڑ محنت کرواتیں۔ یہ ہی وجہ تھی کہ سختی اور دوستی کے ذریعہ اعلیٰ درجے کے نکھرے نکھرے پروگرام ہوتے۔ انور علی کے ڈرامے ’’سنڈریلا‘‘ نے دھوم مچا دی۔ انھوں نے میٹرک کر لیا تو خلیل بھائی نے ان کو پی آئی اے میں بھرتی کروا دیا کہ شاید یہ بے گار و بے کارکے شوق ختم ہوں، ان کے دوستوں کے ہمہ وقت جمگھٹوں سے گھر والے بھی پریشان تھے۔
قسمت دیکھیے کہ نوکری سے نجات ملنے پر دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں کرتے چلے آ رہے تھے کہ اسی ہا و ہو کے درمیان ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہوئے تو اچانک شمس الدین بٹ صاحب سے سامنا ہوگیا۔ بٹ صاحب ایک کہنہ مشق سینئر پروڈیوسر تھے، بیرونِ ملک سے حال ہی میں تربیت لے کر آئے پلٹے تھے، حکومت نے ’’کمرشل سروس‘‘ شروع کرنے کی ذمے داری ان پر ڈال رکھی تھی، انھوں نے انور کو جو دیکھا تو اپنے مخصوص تکیۂ کلام کے ساتھ پکارے ’’ارے مولانا ! کیا کر رہے ہو آج کل؟۔ یہ جھٹ بولے ’’فارغ ہوں، کہیے، کیا کام ہے‘‘۔ ’’ارے بس صبح سے جوائن کر لو ! کمرشل سروس میں بہ حیثیت اسکرپٹ رائیٹر‘‘۔ انور تو ہوئے سو ہوئے ان کے دوست ایسے خوش ہوئے، جیسے یہ عہدہ محض انھیں نہیں، ہمیں ملا ہے۔
یہ وہ دن تھا جب وہ انور علی سے مسرور انور ہوگئے اور باضابطہ طور پر ریڈیو کے حلقے میں آ گئے۔ بٹ صاحب کیا، کمرشل سروس کا آغاز پوری حکومت کے لیے چیلنج بنا ہواتھا لیکن بٹ صاحب ان لوگوں میں سے تھے جو بڑے بڑے چیلنج خندہ پیشانی سے قبول کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ کمرشل سروس میں بھرتیاں کرنے کی ذمے داری بھی ان ہی کی تھی۔ محمد یوسف، طاہر علی وغیرہ سب کمرشل سروس سے باضابطہ منسلک ہو گئے۔
ریکارڈنگ کی تیاریاں شروع ہوئیں تو تین دن اور تین راتیں ہم سب لوگوں نے جاگ کر ریڈیو اسٹیشن پر ریکارڈنگ کی، بٹ صاحب کی شفقت اور خلوص کی وجہ سے سب ہی ان کے مداح تھے، اندازہ کیجے ان کا ٓھترام کرنے والوں میں نصراللہ خان صاحب کے صاحب زادے پروڈیوسر نجم الحسنین نجمی (جن کے برجستہ جملے دیر تک لوگوں کو جگائے رکھتے تھے)، ظفر صدیقی، ایس ایم وسیم، تیموری،اور حمیرا نعیم، عرش منیر، فاطمہ خانم، صفیہ معین، نجم آراء، رفعت قدیر ندوی، لالہ نصیر جیسے فن کار شامل تھے۔
وہ وقت کا احساس ہی نہ ہونے دیتے، 15یا 30 سیکنڈ میں اشتہارات ایسے بنانا جن میں الفاظ کی بندش، مکالمہ، سب کچھ ہو، کمرشل کی زبان میں اسے ’’اسپاٹ انائونسمنٹ‘‘ اور ’’جِنگل‘‘ کہا جاتا تھا۔ مسرور انور کے لیے یہ خاصا جان جوکھوں کا کام تھا لیکن اس کی ذہانت نے یہ سب کام اتنے سلیقے سے کردیے کہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے، ’’صابن ہو تو ایک سو ایک‘‘ ’’حبیب بینک میرا بینک‘‘ ( یہ میری آواز میں تھا)، ’’گھی بنائے سالنا، بڑی بہو کا نام‘‘۔۔۔غرض ہر اشتہار ایسا گیا کہ گھر گھر بچوں کی زبانوں پر چڑھا۔ ریڈیو کی اٹریا ٹاپتی مسرور انور کی شہرت فلمی دنیا تک پہنچ گئی۔
کراچی میں فلمیں ذرا کم کم ہی بنتی تھیں۔ اس زمانہ میں ایک فلم ’’بنجارن‘‘ کی موسیقی آںجہانی دیبوبھٹاچارجی نے بنائی تھی، مسرور انور سے گانے لکھنے کو کہا گیا۔ ’’ماسٹر جی مجھے سبق سکھا دو‘‘۔ یہ مسرور انور کا پہلا گانا تھا جو آئرین پروین کی آواز میں ہٹ گیا۔ اقبال شہزاد نے فلم ’’بدنام‘‘ بنانے کا اعلان کیا اس کے لیے انھوں نے مسرور سے نغمہ لکھوایا اور ثریا ملتانیکر کو ملتان سے بلوایا۔ ’’بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے‘‘۔ یہ ثریا خانم کا بھی پہلا فلمی گانا تھا، اس نغمے نے تو پورے برصغیر میں دھوم مچا دی تھی، یہ فلم تو بہت عرصہ بعد ریلیز ہوئی لیکن یہ نغمہ مسرور کو شہرت کے بامِ عروج پر لے گیا۔
پرویز ملک صاحب ڈائریکشن اور اسکرین پلے کی تربیت لے کر بیرون ملک سے آئے، اِدھر وحید مراد حال ہی میں کراچی یونی ورسٹی سے ایم اے انگریزی کرکے فارغ ہوئے تھے۔ ان کے دوست معروف شاعر رعنا اکبر آبادی کے صاحب زادے سہیل رعنا موسیقی کے شیدائی تھے، پرویز ملک، وحید مراد، سہیل رعنا اور مسرور انور نے مل کر ’’فلم آرٹس‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس کے بینر تلے مسرور کے اسکرپٹ پر پہلی فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ بنی، اس فلم نے گولڈن جوبلی کی، وحید راتوں رات ’’چاکلیٹی ہیرو‘‘ اور زیبا اپنے وقت کی سپر اسٹار بن گئیں، اس کا گانا ’’مجھے اک لڑکی سے پیار ہو گیا‘‘ مسرور نے لکھا، طلعت صدیقی اور سلیم شہزاد نے گایا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے اس ادارے نے یادگار فلموں دیں جن میں مسرور کے لکھے ہوئے ارمان، احسان، دوراہا اور متعدد دوسرے کھیلوں نے فلمی دنیا کو ہلکا پھلکا رونٹک رجحان دیا۔
فلم ارمان کو چھ نگار ایوارڈ ملے۔ بہ حیثیت نغمہ نگار مسرورانور، ہدایت کار پرویز ملک، اداکارہ زیبا، مزاحیہ اداکارہ نرالا، موسیقار سہیل رعنا، اداکار وحید مراد۔ ’’اکیلے نہ جانا‘‘۔ دو دفعہ ریکارڈ کیا گیا ایک دفعہ زیبا پر مالا کی آواز میں اور دوسری مرتبہ وحید مراد پر احمد رشدی کی آواز میں۔ مسرور کا ہر نغمہ اپنی انفرادیت میں پیش پیش تھا جس میں نغمگی کے ساتھ ادبی عنصر بھی برقرار رکھا گیا، جیسے ’’بھولی ہوئی ہوں داستاں/ گزرا ہوا خیال ہوں/ جس کو نہ تم سمجھ سکے/ میں ایسا اک سوال ہوں‘‘ اور ’’کوکو روینا، ہاں اسی موڑ پر، مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو، جب پیار میں دو دل ملتے ہیں، اے بہارو گواہ رہنا وغیرہ وغیرہ۔
پھر لاکھوں میں ایک ’’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘‘ نصیب اپنا اپنا میں ’’اے ابرِ کرم‘‘ فلم انجمن میں رونا لیلیٰ ’’آپ دل کی انجمن میں‘‘ ناہید اختر کا ’’اللہ ہی اللہ کیا کرو‘‘ محمد علی کی دونوں فلموں ’’جیسے جانتے نہیں‘‘ اور آگ کے گانے زوال سے تاحال آشنا نہیں ہوئے۔ انڈیا نے فلم بوبی کے گانے پر ’’اک بار ملو ہم سے تو سو بار ملیں گے‘‘ پر گولڈ ڈسک دی، ہمدرد فائونڈیشن نے اسے ’’شاعر امروز‘‘ کا خطاب دیا۔
1965 کی جنگ میں جب قوم جوش و جذبے سے سرشار تھی، تو مسرور انور نے ’’اپنی جاں نذر کروں‘‘ تخلیق کیا جس میں ولولے کے ساتھ ایک خاص طرح کا گداز بھی شامل ہے جس نے ملی اور قومی نغموں کو ایک نئی طرح دی، ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘‘ بھی ایک مختلف ذائقے کا نغمہ ہے، یہ نصاب میں بھی شامل ہے۔ ’’وطن کی مٹی گواہ رہنا۔۔جگ جگ جیے میرا پیارا وطن، ہم سب ہیں لہریں، کنارہ پاکستان ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
1965 میں مسرور کی شادی بڑے بھائی خلیل کی بیگم عفت بھابی کی چھوٹی بہن زاہدہ سے ہوئی، جو ہر دکھ سکھ میں مسرور کے شانہ بہ شانہ رہیں، اس خوب صورت جوڑی کو بالآخر نظر لگ ہی گئی۔ زاہدہ، مسرور کے بعد مقدوربھر کوشش کرتی رہی کہ میاں کا نام زندہ رکھ پائے لیکن اس کے بہ قول ’’مسرور کی کوئی لابی نہیں تھی، اس لیے اسے زندگی میں پرائڈ آف پرفارمنس نہیں ملا‘‘ ورنہ مسرور کے نغموں اور گیتوں کا گراف مقبولیت میں سب سے بلند تھا اور آج میرے دل کی بھی یہ ہی آواز ہے۔ بغیر ’’لابی‘‘کے کسی کو یاد نہیں رکھا جاتا۔ اکیلے نہ جانا، سیاست دان گا رہے ہیں۔ سارے نغمے زبان زدِعام ہیں۔ اداکاروں کے نام ہیں، موسیقاروں کے نام ہیں، فلموں کے نام ہیں لیکن مسرور انور کو لوگ بھولتے جا رہے ہیں، مسرور کا ہم پر کچھ قرض ہے، ادا کردیں تو بہتر ہے ورنہ ’’آج وہ کل ہماری باری‘‘ تو ہے ہی۔
ربط
http://www.express.pk/story/109231/