بھول جائیں تو ہمیں یاد کرانے لکھنا ----- ایک غزل برائے اصلاح

بھول جائیں تو ہمیں یاد کرانے لکھنا
ہجرتیں آتی رہیں بھی تو ٹھکانے لکھنا

ایک بھی تیر لگا، اور نہ محبت پائی
سب کے سب چوک گئے ہیں جو نشانے لکھنا

یوں سنا ہے کہ وہاں تم بھی رقیبوں سے ملے
جل کے مر جائیں گے شائد تو جلانے لکھنا

لکھ سکو حرف جو تھوڑے سے، چلو لکھ دینا
ملنا ممکن ہی نہیں ہے تو بہانے لکھنا

یہ بھی ممکن ہے کہ تم بھول کے بڑھتے جاو
بے خودی میں جو کیا یاد، فسانے لکھنا

بس تمنا ہے دعا کرنا کبھی یاد کرو
ہم تو بیتا ہوا پل ہوں گے زمانے لکھنا

آج مشہور ہوئے تم تو ہمیں کیا اظہر
خاک کر دینا ہمیں، آگ لگانے لکھنا
 

ایم اے راجا

محفلین
میں تو خود آپ کا ہم جماعت ہوں، بس کہیں کہیں مفہوم درست نہیں لگا، جیسے آخری شعر (مقطع) میں جلانے ی بات آئی ہے تو اس کے شروع میں خاک کے بجائے شاید راکھ درست ہوگا، جلنے سے راکھ بنتی ہے، شاید، باقی اساتذہ کرام آتے ہی ہونگے۔
 

الف عین

لائبریرین
اس پوری غزل میں قافیہ ردیف میں گڑبڑ ہے۔ ’یاد کرانے لکھنا‘ سے کیا مطلب ’یاد کرانے کے لئے لکھنا ‘ہے؟ یہ دکنی اخباروں کا محاورہ ہے، بول چال میں دکن میں بھی استعمال نہیں ہوتا۔ باقی جگہ یہ شک ہوتا ہے کہ جیسے خط میں کچھ لکھنے کے لئے کہا جا رہا ہے۔ لیکن پوری غزل محاورے کے خلاف ہے، یہ فصیح نہیں۔
بھول جائیں تو ہمیں یاد کرانے لکھنا
ہجرتیں آتی رہیں بھی تو ٹھکانے لکھنا

ایک بھی تیر لگا، اور نہ محبت پائی
سب کے سب چوک گئے ہیں جو نشانے لکھنا
یوں سنا ہے کہ وہاں تم بھی رقیبوں سے ملے
جل کے مر جائیں گے شائد تو جلانے لکھنا

لکھ سکو حرف جو تھوڑے سے، چلو لکھ دینا
ملنا ممکن ہی نہیں ہے تو بہانے لکھنا

یہ بھی ممکن ہے کہ تم بھول کے بڑھتے جاو
بے خودی میں جو کیا یاد، فسانے لکھنا

بس تمنا ہے دعا کرنا کبھی یاد کرو
ہم تو بیتا ہوا پل ہوں گے زمانے لکھنا

آج مشہور ہوئے تم تو ہمیں کیا اظہر
خاک کر دینا ہمیں، آگ لگانے لکھنا
 
Top