عظیم اللہ قریشی
محفلین
مجھ کو آسان نہیں خود کو تمہارا کرنا
نہ میری جان کبھی مجھ سے کنارہ کرنا
میں تو رہتا ہوں تیرے ہاتھ کی لکیروں میں
میں کہیں دور نہیں ہوں مجھے دیکھا کرنا
کب یہاں غیر خیالوں کا گذر ہوتا ہے
میں تیری سوچ میں گم ہوں مجھے سوچا کرنا
یہ دعا بھول کے مانگی ہو تو مجرم ہوں
میرے مولا میرے اس درد کو اچھا کرنا
تو کبھی آ تو سہی میری جگہ بیٹھ کے دیکھ
بھول جائے گا میرے ساتھ تماشہ کرنا
اور آتا نہیں کچھ کام وغیرہ کرنا
میں نے سیکھا ہے تو بس تجھ پہ بھروسہ کرنا
تجھ کو اچھا جو لگا تھا وہ تماشہ کرنا
میں نے بابا کو بلایا ہے دوبارہ کرنا
نہ میری جان کبھی مجھ سے کنارہ کرنا
میں تو رہتا ہوں تیرے ہاتھ کی لکیروں میں
میں کہیں دور نہیں ہوں مجھے دیکھا کرنا
کب یہاں غیر خیالوں کا گذر ہوتا ہے
میں تیری سوچ میں گم ہوں مجھے سوچا کرنا
یہ دعا بھول کے مانگی ہو تو مجرم ہوں
میرے مولا میرے اس درد کو اچھا کرنا
تو کبھی آ تو سہی میری جگہ بیٹھ کے دیکھ
بھول جائے گا میرے ساتھ تماشہ کرنا
اور آتا نہیں کچھ کام وغیرہ کرنا
میں نے سیکھا ہے تو بس تجھ پہ بھروسہ کرنا
تجھ کو اچھا جو لگا تھا وہ تماشہ کرنا
میں نے بابا کو بلایا ہے دوبارہ کرنا