بھول کر بھی تجھے بھول پائیں گے کیا
جو نہیں کر سکے کر دِکھائیں گے کیا
ایک مدت ہوئی خود سے بچھڑے ہوئے
اپنی پہچان خود سے کرائیں گے کیا
آزمائے ہوئے ہیں خداؤں کے ہم
یہ زمانے ہمیں آزمائیں گے کیا
سوچتے ہیں دل و جان سے ماورا
ہم اب اس دلربا پر لٹائیں گے کیا
پوچھتے ہیں ہمارے ہی بارے میں آپ
اپنے بارے میں ہم ہی بتائیں گے کیا
حالِ دل پتھروں سے نہ کہیے عظیم
جانے دیجے بتوں کو رلائیں گے کیا
جون 17، 2014